متفرق مضامین

امریکی شہری George Floyd (جارج فلوئیڈ) کی افسوسناک ہلاکت اور حضرت امام جماعت احمدیہ کا تاریخی انتباہ اور حرفِ ناصحانہ

(ڈاکٹر طارق احمد مرزا۔ آسٹریلیا)

امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مؤرخہ 12؍ اکتوبر 2016ء میں اپنے دورہ کینیڈا کے دوران CBC نیوز (کینیڈین براڈکاسٹنگ کارپوریشن) کےمشہورپروگرام ’’مینسبرج ون آن ون‘‘ (Mansbridge: One On One) کے میزبان پیٹرمینسبرج، جو کینیڈا کےایک معروف اور اہم سینئر صحافی ہیں، کوایک سوال کے جواب میں فرمایاتھا کہ اگر کوئی ایسا شخص امریکی صدر منتخب ہو جاتا ہے جو کسی قسم کی طبقاتی امتیاز کی بنیاد پراقدامات اٹھاتاہے تومجھے خدشہ ہے کہ اس کا یہ رویہ امریکہ میں ایک بڑی خانہ جنگی (Civil War) شروع کروا دے گا۔

آپ کا یہ بیان امریکہ میں مسلمانوں کے حوالے سے ایک صدارتی امیدوار کی طرف سے جاری کیے گئے متنازعہ بیانات سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں تھا۔

حضورانورکے اس جواب پر پیٹرمینسبرِج نے انتہائی حیرت کا اظہارکرتے ہوئے پوچھا کہ کیا واقعی خانہ جنگی شروع ہوسکتی ہے تو حضورانور نے فرمایاکہ ’’ہاں، بالکل‘‘۔

حضورانور نے انتباہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسی خانہ جنگی کاآغاز فردِ واحد بھی شروع کرسکتا ہے۔

آپ نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا :

’’اگر حکومت ظالمانہ قسم کے اقدامات اٹھا کر شہریوں کو ان کے حقوق سے محروم کردے گی تو سینکڑوں افرادہوں گے جو اس کے خلاف محاذآرائی شروع کردیں گے۔ حتیٰ کہ کوئی فرد واحد تن تنہا بھی ایسا کرسکتاہے، پس انہیں حکمت سے کام لینے کی ضرورت ہے۔‘‘

تاہم حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے امید ظاہر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’میرے خیال میں جوبھی امریکہ کا صدرہوگا وہ کوئی بھی ایسا فیصلہ نہیں کرے گا جو حکمت سے عاری ہوگا۔ امید تو یہی ہے۔‘‘

واضح رہے کہ یہ انٹرویوان ایام میں لیا گیا تھا جب امریکہ میں صدارتی انتخابی مہم زوروں پر تھی اورایک صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے ان متنازعہ بیانات اور انتخابی نعروں پر گرماگرم بحث چھڑی ہوئی تھی جو مبینہ طورپرمختلف نوعیت کے طبقاتی تعصبات کا رنگ لیے ہوتے تھے۔

حضورانور کے اس تاریخی انٹرویو کی ریکارڈنگ دیکھنے کے لیے لِنک مندرجہ ذیل ہے۔

حضرت امام جماعت احمدیہ کے اس نصیحت آموز، فکرانگیز تجزیہ اورمبنی برحقیقت انتباہ کے بعد سے آج تک امریکہ میں روپذیرہونے والے حالات وواقعات کو دیکھیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ حضور انور کی دوررس نگاہیں عالم انسانی کو لاحق خطرات کوبھانپ کرمستقبل کو کیسے دیکھ رہی تھیں۔

آج ایک سیاہ فام امریکی فرد ِواحد جارج فلوئیڈ کی پولیس کی زیرحراست ہلاکت ہی ہے جس کے رد عمل میں ہونے والے احتجاجی جلسے جلوس اورفسادات نہ صرف امریکہ کو ایک طرح کی خانہ جنگی کے دہانے تک لے آئی ہے بلکہ اس کی بازگشت نے دنیا کے دیگر ممالک بشمول آسٹریلیا، برطانیہ کوبھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے انہی حالات کے حوالے سے نصیحت کرتے ہوئے خطبہ جمعہ فرمودہ 5؍جون 2020ءمیںفرمایا:

’’مختصراً موجودہ حالات کے لیے بھی دعاکے لیےکہنا چاہتا ہوں دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ جہاں کورونا کی وبا اور آفات سے دنیا کو پاک کرے وہاں انسانوں کو یہ عقل اور سمجھ بھی دے کہ ان کی بقا اور بچت ایک خدا کی طرف جھکنے اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے میں ہے۔ حکومتوں کو اللہ تعالیٰ عقل دے کہ انصاف پر مبنی نظام چلا ئیں۔ امریکہ میں بھی آج کل جو بے چینی اور بدامنی پھیلی ہوئی ہے اس سے ہر احمدی کو خصوصاً اس کے بداثرات سے محفوظ رکھے۔

حکومتی نظام کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ انصاف سے تمام شہریوں کے حقوق ادا کرتے ہوئے حکومتیں چلا کرتی ہیں۔ جتنی مرضی کوئی طاقتورحکومت ہواگر عوام میں بے چینی ہے توکوئی حکومت ٹک نہیں سکتی اس کے سامنے۔

اللہ کرے کہ دنیا میں جہاں جہاں فسادہیں ہرجگہ فساد دُور ہوں اور حکومتیں عوام کے حق ادا کرنے والی ہوں اور عوام اپنے حقوق کے لیے جائز حد تک حکومتوں پر دباؤڈالنے والے ہوں۔‘‘

امریکہ کی تاریخی خانہ جنگی

امریکہ کی پہلی (اورواحد) خانہ جنگی اپریل 1861ء میں شروع ہوئی تھی اور یہ چارسال تک جاری رہی تھی۔ اس خانہ جنگی میں دولاکھ سے زائد افراد لڑائی کرتے ہوئے مارے گئے تھے جبکہ مزید چارلاکھ افراد اس دوران پھیلنے والی متعدد وبائی امراض سے جاں بحق ہوگئے۔ اسی طرح لگ بھگ پانچ لاکھ افراد زخمی ہوئے اور مجموعی طورپر ساڑھے چھ لاکھ افراد ’’جنگی قیدی‘‘بنائے گئے جن میں سے ساٹھ ہزارافراد کی دوران قید موت واقع ہوگئی۔

یہ خانہ جنگی اس وقت شروع ہوئی تھی جب ابراہام لنکن نے صدرمنتخب ہو جانے کے بعد امریکہ میں سیاہ فام غلاموں کے کاروبار کو ختم کرکے اسے غیر قانونی قراردینے کا اعلان کیا۔ اس پرامریکہ کی گیارہ جنوبی ریاستوں نے احتجاجاً بغاوت کا اعلان کرکے اپنی الگ مملکت بنالی جسے Confederate States of Americaکا نام دیاگیا۔ یہ ریاستیں سیاہ فام غلاموں کی تجارت جاری رکھنا چاہتی تھیں۔

چار سالہ خانہ جنگی میں خود ابراہام لنکن کو بھی دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد ایک شرپسند نے گولی ماردی، جس کے اگلے روز یعنی 15؍اپریل 1865ءکو وہ جان کی بازی ہار گئے۔

ابراہام لنکن اور دیگر 620000 امریکیوں کی جان لینے کے بعد بالآخریہ جنگ باغی ریاستوں کی شکست پہ منتج ہوئی اور کنفیڈریٹ کا خاتمہ کرکے یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ کاسابقہ تشخص بحال کردیا گیا۔

جھنڈے کا قضیہ

مذکورہ باغی ریاستوں نے اپنی کنفیڈریٹ کا ایک جھنڈا بھی بنایا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بیشتر ریاستوں نے اس جھنڈے کوتبدیل کرکے نئے ریاستی جھنڈےاپنا لیے تاہم ریاست Mississippiوہ واحد ریاست ہے جوا بھی تک اس جھنڈے کو جزوی طورپر اپنائے ہوئے ہے۔

چند ماہ قبل وہاں اس جھنڈے کو ختم کرنے کے حوالے سے نسلی فسادات بھی ہوئے تھے۔ کیونکہ یہ جھنڈانسلی امتیازاور غلامی کی علامت سمجھاجاتا ہے۔ جبکہ دائیں بازو کے امریکی اسے محض ایک تاریخی حیثیت دے کر اپنائے رکھنے پر مصرچلے آتے ہیں۔

جارج فلوئیڈ کی ہلاکت اور اس کے نتیجے میں ہونے والے احتجاجات کودیکھتے ہوئے ایک بار پھر اس ریاست میں اس جھنڈے کوتبدیل کردینے کا مطالبہ نہایت شدت اختیار کر چکاہے۔

جارج فلوئیڈ کی ہلاکت: مزید کیاکچھ ہوا؟

سیاہ فام امریکی شہری جارج فلوئیڈ (George Perry Floyd Jr) کی مؤرخہ 25؍مئی 2020ء کو دورانِ حراست ہلاکت کے بعد ریاست منی سوٹا کے شہر Minneapolisمیں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے اور پولیس کی مقامی لوگوں کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں۔ شہر میں جلاؤ گھیراؤ کے واقعات بھی پیش آئے تھے۔ صورت حال پر قابو پانے کے لیے شہر میں امریکی نیشنل گارڈز کو تعینات کیا گیا تھا۔

امریکہ کی تمام ریاستوں میں احتجاجی مہم نے زورپکڑلیا۔ لوگ کورونااور کرفیو کو نظرانداز کرکے سڑکوں پہ نکل آئے۔ ان میں ہر رنگ اور نسل کے لوگ شامل تھے۔ امریکہ میں سالہاسال سے جاری نسل پرستی کے خلاف ’’بلیک لائیوز میٹر‘‘تحریک کوایک نیا نکتہ آغازمل گیا۔

امریکہ کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک خصوصاًآسٹریلیا اور برطانیہ میں بھی نسلی امتیاز کے خلاف احتجاجی جلسے منعقد ہوئے اورجملہ پابندیوں کو نظراندازکرکے جلوس نکالے گئے۔

برطانیہ کے شہر برسٹل میں سیاہ فام غلاموں کے تاجر کولسٹن کا مجسمہ گراکر اسے گلیوں میں گھسیٹا گیا، بعد میں دریابرد کردیا گیا۔

امریکہ میں کرسٹوفر کولمبس کے ایک مجسمے کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا گیا۔ کولمبس کوسفید استعمار کانمائندہ قراردے دیا گیا۔

لندن کے میئر صادق خان نے اعلان کیا کہ ایک کمیٹی بنائی جائے گی جو لندن میں ایسی تاریخی شخصیات کے مجسموں کو ہٹانے کے لیے تجاویز دے گی جن کا تعلق ماضی میں کسی طور نسلی امتیاز یا غلاموں کے کاروبار سے وابستہ رہا ہے۔ کچھ حلقوں کی طرف سے ونسٹن چرچل کانام بھی اس فہرست میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جو وکٹورین عہد میں برطانیہ کے وزیراعظم رہے ہیں۔

واشنگٹن ڈی سی کی میئرنے وائٹ ہاؤس کی طرف جانے والی سڑک پر بہت بڑے سائز کے حروف میں ’’بلیک لائیوز میٹر‘‘ کا سلوگن پینٹ کروایا اور اسی طرح اس سڑک کانام بھی تبدیل کرکے یہی رکھ دیا۔

جارج فلوئیڈ کے ادا کردہ آخری جملہ ’’میں سانس نہیں لے سکتا‘‘ کو چرچ میں پڑھی جانے والی مناجات میں شامل کرکے خداکے حضورایک دعا کے طورپر اپنا لیاگیا۔

جس اندازسے جارج فلوئیڈ کی موت پولیس افسر کے گھٹنے تلے گردن دب کر واقع ہوئی تھی اس کا منظر علامت کے طورپر استعمال ہونے لگ گیاہے۔ امریکہ سمیت دنیا کے مختلف ممالک کے سربراہان اور سیاسی رہ نماؤں نے اسی طرح ایک گھٹنا زمین پر ٹیک کر نسلی امتیازاور ریاستی جبر کےخلاف اپنے جذبات اور جارج فلوئیڈ کے اہل خانہ کے ساتھ ہمدردی ویکجہتی کا اظہارکیا۔

امریکہ کی مشہور ٹی وی ڈرامہ سیریز ’’دی کاپس‘‘ (The Cops)کونشرکرنا بند کردیاگیاہے۔ اسی طرح مشہور انگریزی فلمGone with the windکو بھی ٹی وی یا سینما میں نہیں دکھایا جائےگا کیونکہ اس میں نسلی امتیاز کی جھلک پائی جاتی ہے۔

جارج فلوئیڈ کےبھائی کو امریکی کانگرس سے خطاب کی دعوت دی گئی۔ اپنے خطاب میں انہوں نے امریکی پولیس کے محکمہ میں اصلاحات کی ضرورت پر زوردیا۔

صدر ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا کہ جارج فلوئیڈ کی موت رائیگاں نہیں جائے گی۔ انہوں نے ایک اور پیغام میں دعویٰ کیا کہ انہوں نے سیاہ فام امریکیوں کی بہبودکے لیے شاید ابراہام لنکن کے بعد سب سے زیادہ خدمات سرانجام دی ہیں۔

امریکی فضائیہ کی تاریخ میں سب سے پہلا سیاہ فام چیف آف ایئر سٹاف مقررہوا۔

مشہورزمانہ انگریزی لغت میریم ویبسٹر (Merriam-Webster Dictionary) میں ایک امریکی طالبہ کینیڈی مِچّم کے مطالبے پر نسلی تعصب یعنیracismکے معنی میں تبدیلی کردی گئی ہے۔ ڈکشنری کے ایڈیٹر کے مطابق آئندہ ایڈیشن میں پہلے سے موجود تین معانی میں اب ’’نسلی امتیازپر مبنی نظام کا مسلسل جبر‘‘کے معانی کااضافہ بھی شامل ہوگا۔

خطبہ حجۃ الوداع

مساوات اور حقوق انسانی کا مکمل چارٹر

آج سے چودہ سوبرس قبل جبکہ امریکہ کے وجود سے بھی کوئی باخبرنہ تھا، محسنِ انسانیت اور رحمۃللعالمین حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہٖ وسلم نےہرطرح کے نسلی تعصبات اور طبقاتی امتیازات کا خاتمہ خطبہ حجۃ الوداع میں اس پرشوکت اعلان کے ذریعہ فرمادیا کہ

’’تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے، تم سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے۔ تم میں سے اللہ کے نزدیک معزز وہ ہے جو زیادہ تقویٰ شعار ہے۔

دیکھو، کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر اور کسی کالے کو کسی سرخ پر اور کسی سرخ کو کسی کالے، سیاہ پر کوئی فضیلت وامتیاز نہیں، ہاں مگر تقویٰ کے سبب۔

جان لو کہ جاہلیت کی ہرچیز میرے قدموں تلے روند دی گئی ہے۔‘‘

اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍوَّبَارِکْ وَسَلِّمْ

(نوٹ: مضمون کی تیاری میں متعدد اخبارات و رسائل اورتاریخ کی ویب سائٹس سے مدد لی گئی ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button