کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

خدا کے نزدیک قومیت کا لحاظ نہیں۔ وہاں جو مدارج ملتے ہیں وہ تقویٰ کے لحاظ سے ملتے ہیں

سچائی معلوم کرنے کی تین راہیں

جہاں تک میں خیال کرتا ہوں سچائی کے تین ہی راہ ہیں اوّل نصوصِ قرآنیہ و حدیثیہ، دوسرے عقل اورتیسرے خدا تعالیٰ کے تائیدات۔ ان تینوں ذریعوں سے جو چاہے ہم سے ثبوت لے،مگر انسان بن کر نہ سِفلہ پن کی طرح۔ ہم سب کو دعوت دیتے ہیں خواہ سو روپیہ روز خرچ ہو جاوے۔ آکر آدمیت سے پوچھ لیں۔ اب دور بیٹھے ہیں، نہ کتاب ہے، نہ غور ہے، نہ فکر ہے۔ سِفلہ لوگوں کی طرح بلکہ ان سے بھی بد تر کام کرتے ہیں۔ یہ طریق تو تقویٰ کے خلاف ہے۔ اگر کوئی انسان ایسا ہو جو اُن پر رُعب داب رکھتا ہو وہ انہیں جا کر سمجھائے۔ دنیا دار لوگ اگر اُن کو کہیں تو اُن سے ڈرتے ہیں۔ خدا کرے کہ کوئی ایسا دنیا دار ہو جس کو اس طرف توجہ ہو اور ان کو سمجھائے اور یہی خیال کرے کہ اسلام میں پھوٹ پڑ رہی ہے اس کو ہی دور کیا جاوے۔ غرض ہم تو چاہتے ہیں کہ کسی طرح یہ لوگ راہ پر آویں اور ہماری مخالفت کر کے تو کچھ بگاڑ نہیں سکتے، کیونکہ خدا تعالیٰ خود اپنی تائید کر رہا ہے۔ پَرنالہ کا پانی تو ایک اینٹ سے بند کر سکتے ہیں مگر آسمان کا کون بند کر سکتا ہے۔ یہ خدا کے کام ہیں۔ چراغ کو تو پھونک مار کر بجھادیتے ہیں۔ مگر چاند سورج کو تو کوئی پھونک مار کر بجھاوے۔ خدا کے کام اونچے ہیں۔ انسان کی پیش رفت نہیں جاتی۔ وہاں نہ غبارہ جاوے نہ ریل۔ یہ بھی عظمتِ الٰہی ہے۔ تعالیٰ شانُہٗ کامصداق ہے۔ آسمانی امور اونچے ہیں۔ وہ تو آگے ہی آگے جاتے ہیں۔

عذاب سے متعلق خدا تعالیٰ کی سنّت

ایک شخص نے عرض کی کہ حضور میرے گائوں سے آٹھ آدمیوں نے خط بھیجا ہے کہ اگر سچے ہو تو ہم پرعذاب نازل ہو جاوے۔

فرمایا:۔ خدا تعالیٰ کے کام میں جلدی نہیں ہوتی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے دکھ دئیے گئے اور بعض ایسے بیباک اور شریر تھے جو کہتے تھے کہ اگر تو سچا ہے تو ہم پر پتھر برسیں۔ مگر اسی وقت تو اُن پر پتھر نہ برسے۔ خدا تعالیٰ کی سنّت یہ نہیں کہ اسی وقت عذاب نازل کرے۔ اگر کوئی خدا تعالیٰ کو گالیاں دے توکیا اسی وقت اس پر عذاب آجاوے گا۔ عذاب اپنے وقت پر آتا ہے جبکہ جرم ثابت ہو جاتا ہے۔ لیکھرام ایک آریہ تھا جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت گالیاں دیا کرتا تھا۔ آخر خدا تعالیٰ نے اس کی شرارتوں اور شوخیوں کے بدلے اس کو سزادی۔ اور وہی زبان چُھری ہو کر اس کی ہلاکت کا باعث ہوئی جس سے وہ ٹکڑے کیا گیا۔ پس خدا تعالیٰ کی یہ سنّت نہیں ہے کہ وہ اُسی وقت عذاب دے یہ لوگ کیسے بیوقوف اور بدقسمت ہوتے ہیں۔ عذاب مانگتے ہیں۔ ہدایت نہیں مانگتے۔

خدا کے نزدیک قومیّت کا لحاظ نہیں

اسی شخص نے کہا کہ یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ سیّد ہو کر اُمتی کی بیعت کرتے ہو؟ فرمایا:۔خدا تعالیٰ نہ محض جسم سے راضی ہوتا ہے نہ قوم سے۔ اس کی نظر ہمیشہ تقویٰ پر ہے

اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ ( الحجرات : 14)

یعنی اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ بزرگی رکھنے والا وہی ہے جو تم میں سے زیادہ متقی ہے۔ یہ بالکل جھوٹی باتیں ہیں کہ میں سید ہوں یا مغل ہوں یا پٹھان اور شیخ ہوں۔ اگر بڑی قومیت پر فخر کرتا ہے تو یہ فخر فضول ہے۔ مرنے کے بعد سب قومیں جاتی رہتی ہیں۔ خدا تعالیٰ کے حضور قومیت پر کوئی نظر نہیں اور کوئی شخص محض اعلیٰ خاندان میں سے ہونے کی وجہ سے نجات نہیں پاسکتا۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہؓ کو کہا ہے کہ اے فاطمہ! تُو اس بات پر ناز نہ کر کہ تُو پیغمبر زادی ہے۔ خدا کے نزدیک قومیت کا لحاظ نہیں۔ وہاں جو مدارج ملتے ہیں وہ تقویٰ کے لحاظ سے ملتے ہیں۔ یہ قومیں اور قبائل دنیا کا عرف اور انتظام ہیں۔ خدا تعالیٰ سے اُن کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ خدا تعالیٰ کی محبت تقویٰ سے پیدا ہوتی ہے اور تقویٰ ہی مدارجِ عالیہ کا باعث ہوتا ہے۔ اگر کوئی سیّد ہو اور وہ عیسائی ہو کر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے اور خدا کے احکام کی بے حرمتی کرے۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس کو آلِ رسول ہونے کی وجہ سے نجات دے گا اور وہ بہشت میں داخل ہو جاوے گا

اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ ( اٰلِ عمران : 20)

ﷲ تعالیٰ کے نزدیک تو سچا دین جو نجات کا باعث ہوتا ہے اسلام ہے۔ اگر کوئی عیسائی ہو جاوے یا یہودی ہو یا آریہ ہو وہ خدا کے نزدیک عزّت پانے کے لائق نہیں۔ خدا تعالیٰ نے ذاتوں اور قوموں کو اڑادیا ہے۔ یہ دنیا کے انتظام اور عُرف کے لئے قبائل ہیں۔ مگر ہم نے خوب غور کر لیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے حضور جو مدارج ملتے ہیں ان کا اصل باعث تقویٰ ہی ہے جو متقی ہے وہ جنّت میں جائےگا۔ خدا تعالیٰ اس کے لیے فیصلہ کر چکا ہے۔ خدا تعالیٰ کے نزدیک معزّز متقی ہی ہے۔ پھر یہ جو فرمایا ہے

اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ( المائدۃ : 28)

کہ اعمال اور دعائیں متقیوں کی قبول ہوتی ہیں۔ یہ نہیں کہا کہ مِنَ السَّیِّدِیْنَ۔ پھر متقی کے لیے تو فرمایا

مَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا وَّ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ (الطّلاق : 3، 4)

یعنی متقی کو ہر تنگی سے نجات ملتی ہے۔ اس کو ایسی جگہ سے رزق دیا جاتا ہے کہ اس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔ اب بتائو کہ یہ وعدہ سیدوں سے ہوا ہے یا متقیوں سے۔ اور پھر یہ فرمایا ہے کہ متقی ہی اﷲ تعالیٰ کے ولی ہوتے ہیں۔ یہ وعدہ بھی سیدوں سے نہیں ہوا۔ ولایت سے بڑھ کر اور کیا رُتبہ ہوگا۔ یہ بھی متقی ہی کو ملا ہے۔ بعض نے ولایت کو نبوت سے فضیلت دی ہے اور کہا ہے کہ نبی کی ولایت اس کی نبوت سے بڑھ کر ہے۔ نبی کا وجود دراصل دو چیزوں سے مرکّب ہوتا ہے۔ نبوت اور ولایت۔ نبوت کے ذریعہ وہ احکام اور شرائع مخلوق کو دیتا ہے اور ولایت اس کے تعلقات کو خدا سے قائم کرتی ہے۔

پھر فرمایا ہے

ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ(البقرۃ : 3)، ھُدًی لِّلسَّیِّدِیْنَ

نہیں کہا۔ غرض خدا تعالیٰ تقویٰ چاہتا ہے۔ ہاں سید زیادہ محتاج ہیں کہ وہ اس طرف آئیں کیونکہ وہ متقی کی اولاد ہیں۔ اس لیے ان کا فرض ہے کہ وہ سب سے پہلے آئیں نہ یہ کہ خدا تعالیٰ سے لڑیں کہ یہ سادات کا حق تھا۔ وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے

ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ(الجمعۃ:5)۔

یہ ایسی بات ہے کہ جیسے یہودی کہتے ہیں کہ بنی اسمٰعیل کو نبوت کیوں ملی۔ وہ نہیں جانتے

تِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ ( اٰل عمران : 141)

خدا تعالیٰ سے اگر کوئی مقابلہ کرتا ہے تو وہ مردود ہے۔ وہ ہر ایک سے پوچھ سکتا ہے۔ اُس سے کوئی نہیں پوچھ سکتا۔

(ملفوظات جلد3صفحہ342تا345۔ایڈیشن 1984ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button