یادِ رفتگاں

مکرم غلام مصطفیٰ اعوان (مرحوم) ڈھپئی سیالکوٹ

(ھبۃ الکلیم۔ رشیا)

ہمارے بہت ہی پیارے مہربان ابو جان 16؍مارچ 2019ء بروز ہفتہ مختصر علالت کے بعد طاہر ہارٹ ربوہ میں اپنے رحمان و رحیم مولا کے حضور حاضر ہو گے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔

دنیا بھی اک سراہے بچھڑے گا جو ملا ہے

گر سو برس رہا ہے آخر کو پھر جدا ہے

جب دنیا سے کوئی پیارا وجود اپنے مولا کے حضور حاضر ہو جاتا ہے۔ توپیچھے رہ جانے والوں کو اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرنا بہت ہی گراں گزرتا ہے۔ آپ کی وفات کا دن ہماری زندگی میں ایک نہ بیان کرنے والے امتحان کا دن تھا۔ اس دن وقف کی حقیقت بھی کھل کر عیاں ہوئی کہ وقف تو قربانی کا ہی نام ہے۔

راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تیری رضا ہو

ابو جان کے حالات زندگی تحریر کرنا بھی خداتعالیٰ کافضل ہی ہے ورنہ میں نے کبھی یہ سوچا بھی نہ تھا کہ خدا تعالیٰ مجھ ناچیز سے یہ کام لے گا۔

ابوجان 1942ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ پیدائشی احمدی تھے۔ خدا تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ ہمارے خاندان میں احمدیت قبول کرنے کی توفیق ہمارے پڑدادا جان دیوان بخش مرحوم صاحب کو ملی۔ الحمد للہ علی ذالک۔ ابو جان خدا تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ آپ تین بہنیں اور دو بھائی تھے۔ آپ کے چھوٹے بھائی کو 1971ء کی جنگ میں شہادت نصیب ہوئی۔ ابو جان نیکی و تقویٰ کے ساتھ صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔ نماز تہجد باقاعدگی کے ساتھ ادا کرتے تھے اور اپنی اولاد کو بھی اس کی نصیحت کرتے۔ قرآن کریم کی تلاوت پابندی سے کرتے تھے۔ آپ انتہائی سادہ مزاج تھے۔ بہت سادہ زندگی بسر کی۔ خدا تعالیٰ کی ذات پر کامل بھروسہ رکھتے ہوئے دعا ؤںپر کامل یقین تھا۔ بہت دعاگوانسان تھے۔ کبھی مایوسی کے الفاظ زبان پر نہ لاتے تھے۔ اپنے والدین کے اطاعت گزار بیٹے تھے۔ کفایت شعاری سے کام لیتے۔ نہایت صبر کرنے والے اور شکر گزار تھے۔آپ کے اعلیٰ اوصاف میں سے مہمان نوازی ایک خاص وصف تھا۔ آ پ کو بچپن میں بخار ہوا جس سے آپ کی کانوں کی شنوائی میں کمی ہو گئی ۔ اس معذوری کو کبھی بھی اپنے کسی کام میں حائل نہ ہونے دیا۔ آپ نےملازمت کے سلسلے میں تقریباً تیس سال کا عرصہ سعودی عرب میں گزارا۔ وہاں مسجد نبوی ؐاور خانہ کعبہ میں تعمیراتی کام کرنے کا موقع ملا۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے نو مرتبہ حج بیت اللہ اور متعدد بار عمرہ کرنے کی توفیق پائی۔ الحمدللہ

ہر کو ئی آپ پر اعتماد کرتا تھا۔ خدا تعالیٰ نے ہر آن اپنےاس نیک بندے کی مدد کی۔ آپ اپنے عزیزواقارب کا ہر طرح سے خیال رکھتے تھے۔ حلال کی کمائی پرایمان تھا۔ محنتی تھے۔ آپ کی کمائی میں خدا تعالیٰ نے بہت برکت دی۔ اپنوں و غیروں سب نے اس سے فیض پایا۔ ابو جان اکثر کہا کرتے تھےکہ خداتعالیٰ کے فضل سے مجھے جب بھی مسجد نبویؐ میں نماز پڑھنے کا موقع ملا میں نے بارگاہ ِایزدی میں یہی دعا کی کہ خدا تعالیٰ مجھے کسی کا محتاج نہ کرے اور ہمیں بھی اس کی ہمہ وقت تلقین کرتے رہتے تھے۔ خدا تعالیٰ نے بھی آپ کی اس دعا کو قبولیت بخشی اور کسی کا محتاج نہ کیا۔ سعودی عر ب سے جب واپس پاکستان آئےتو اپنی زمینوں پر کاشت کاری کا کام شروع کیا جب فصل تیار ہوتی تو سب سے پہلے جماعتی چندہ جات ادا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ غریبوں کی فہرست بنائی ہوتی۔ ان کا حصہ نکالتے۔ ہمدردی کا جذبہ بہت تھا۔ اپنے وسائل کے مطابق جس حد تک ہو سکتا نقد اور جنس کی صورت میں مدد کرتے تھے۔ اگر خدا تعالیٰ کی راہ میں دے کر گھر سے نکلتے تو خدا تعالیٰ کی رحمت کے نظارے دیکھنے کو ملتے۔

مَیں نے زندگی کے جو چند سال ان کے ساتھ گزارے۔ رات کو سونے سے قبل حضرت اقدس مسیح موعو دؑ کی کتب کا مطالعہ کرتے دیکھا۔ کانوں کی شنوائی کی کمی کی وجہ سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا خطبہ اونچی آواز سے لگا کر سنتے تھے۔ خلافت سے بے پناہ محبت و عقیدت کا جذبہ تھا۔ جماعتی عہدیداروں، مرکزی مہمانوں اور خصوصاً مربیان کرام کا بہت احترام کرتے تھے۔ سعودی عرب میں رہنے کی وجہ سے آپ کو عربی زبان کافی اچھی آتی تھی۔ وہ لوگ جو آپ کے ساتھ بیرون ملک رہتے تھے ان سے جب کبھی ملاقات ہوتی ان سے عربی زبان میں بات کر کے دلی تسکین محسوس کرتے تھے۔ ہمیں جماعتی کام کرتے دیکھ کر بہت خوش ہوتے تھے۔ آپ اپنے وفات یافتہ بزرگان کے نام صدقہ و خیرات کثرت سےکرتے تھے۔ ان کی فہرست بنا کر اپنی جیب میں رکھی ہوتی تھی اور جس بزرگ کے نام کا اد اکرلیتے ا ن کے نام کے سامنے نشان لگادیتے۔ بہت ہمت اور جواں مردی سے بیماری کا مقابلہ کیا۔ بیماری میں بھی خدا کے شکر کے کلمات کا ورد ہی زبان پر جاری رہا۔ دعاؤں پر ہی زور دیا کرتے تھے۔

والدین ہی وہ عظیم ہستیاں ہیںجن کو اپنی تمام تکلیفیں اولاد کی تکلیف کے مقابلہ میں کم لگتی ہیں۔ میرے والد صاحب بھی بہت تکلیف میں مبتلا تھے لیکن انہیں اپنی نواسی کی تکلیف کا زیادہ احساس تھا۔ وفات سے چند روز قبل مجھ سے بات ہوئی اوراپنی بیماری کو بھول کر بس یہی ایک سوال تھا۔ میں نے انہیں کہا کہ خدا تعالیٰ اپنا فضل کرے گا ہمیں بس آپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے۔

یہاں قارئین کو یہ بھی بتا دوں تاکہ کسی کے ذہن میں نواسی کی فکر والی بات سوالیہ نشان نہ بن جائے۔ میری بیٹی جس کا پیدائشی طورپر دایاں ہاتھ نہیں ہے اس کی میرے ابو جان کو بہت فکر تھی۔ الحمد للہ میری بیٹی ذہین ہے اوروقف نو کی بابرکت تحریک میں بھی شامل ہے۔

اب دوبارہ ذکر خیر کی طرف آتی ہوں۔ ہمارے والد صاحب کی سادگی کا اندازہ ہر کوئی بآسانی اس واقعہ سے لگاسکتا ہےکہ بیماری کے آخری ایام کی بات ہے۔ کینسر اپنے آخری مراحل پر تھا۔ ڈاکٹرز نے جواب دے دیا تھا۔ طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ ربوہ میں بیماری کی شدت کا صبر سے مقابلہ کر رہے تھے۔ اس وقت آپ کے پاس میری چھوٹی ہمشیرہ موجود تھی۔ تکلیف بہت زیادہ تھی۔ اس نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا خطبہ موبائل فون پر لگا کر دیاتو تو یہ سمجھ کر کہ خلیفۃ المسیح براہِ راست ان سے مخاطب ہیں ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ ہم چار بہنیں اور ایک بھائی ہیں۔ محض والدین کی دعاؤں سے خدمت دین کی توفیق پارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری خدمت دین کو قبول کرے اور حقیقی رنگ میں خلیفۃ المسیح کا سلطان نصیر بننے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین۔

یہ ابو جان کی زندگی کی چند یادیں ہیں۔

حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

کسی کے چلے جانے سے زندگی رک نہیں جاتی لیکن یہ کوئی نہیں جانتا کہ لاکھوں کے مل جانے سے بھی اس جانے والے کی کمی پوری نہیں ہوتی۔ ان کی دعائیں،باتیں اور یادیں ہر لمحہ میرے ساتھ ہیں اور تا حیات رہیں گی۔

ابو جان کی خوش قسمتی میں سے ایک خوش قسمتی یہ بھی تھی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 29؍ مارچ 2019ءمیں آپ کا ذکر خیر فرمایا اور نماز جنازہ غائب پڑھائی۔ خدا تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کریں وہ کم ہے۔ اللہ تعالیٰ ابوجان کے درجات بلند فرمائے مغفرت کا سلوک فرماتے ہوئے اپنی رحمت کی چادر میں لپیٹ لے اورہمیں ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے۔ آمین۔

دعا ہے کہ میرا انجام بھی بخیر ہو اور اس جہان سے اس وقت خداتعالیٰ مجھے بلائے جب اس کی رضا کی نظر مجھ پر ہو۔ اے خدا تو میری لاج رکھنا۔ مجھ پر،میری والدہ اور میری اولاد پر رحم کرنا۔ آمین

اے خدا، اے چارہ ساز ہر دل اندوہگیں

اے پناہِ عاجزاں، آمرزگاہِ مذنبیں

ازکرم آں بندہ خودار، بہ بخشش ہا نواز

وایں جدا افتادگاں را، ازترحم ہابہ بیں

(درثمین)

ترجمہ:اے خدا اے ہر غمگین دل کے چارہ گر،اے عاجزوں کی پناہ اور اے گناہ گاروں کو بخشنےوالے،اپنے کرم سے اپنے اس بندے کو بخشش سے نواز دے،اورہم پربھی نظر رحمت فرما۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button