کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

مصیبت سے پہلے جو خدا پر بھروسہ کرتا ہے مصیبت کے وقت خدا اس کی مدد کرتا ہے

بہشتی زندگی

یہ بہشتی زندگی کس کی ہو سکتی ہے۔ صرف اُس شخص کی جس پر خدا کا فضل ہو۔ اس لیے یہ بڑی غلطی ہے جو یونہی کسی کے سفید کپڑے دیکھ کر کہہ دیتے ہیں کہ وہ بہشتی زندگی رکھتے ہیں۔ اُن سے جا کر پوچھو تو معلوم ہو کہ کتنی بلائیں سناتے ہیں۔ صرف کپڑے دیکھ کر یا بگھیوں پر سوار ہوتے دیکھ کر شراب پیتے دیکھ کر ایسا خیال کر لینا غلط ہے۔ ماسوا اس کے اباحتی زندگی بجائے خود جہنم ہے۔ کوئی ادب اور تعلق خدا سے نہیں۔ اس سے بڑھ کر جہنمی زندگی کیا ہوگی۔ کتا خواہ مُردار کھالے خواہ بدکاری کرے کیا وہ بہشتی زندگی ہوگی؟ اسی طرح پر جو شخص مُردار کھاتا ہے اور بدکاریوں میں مبتلا ہے، حرام و حلال کے مال کو نہیں سمجھتا یہ لعنتی زندگی ہے، اس کو بہشتی زندگی سے کیا تعلق۔

یہ سچ ہے کہ بہشتی زندگی یہی ہوتی ہے مگر اُن کی جن کو خدا پر پورا بھروسہ ہوتا ہے۔ اس لیے وہ

هُوَ يَتَوَلَّى الصّٰلِحِيْنَ (الاعراف :۱۹۷)

کے وعدہ کے موافق خدا تعالیٰ کی حفاظت اور تولّی کے نیچے ہوتے ہیں اور جو خدا تعالیٰ سے دور ہے اس کا ہر دن ترساں و لرزاں ہی گزرتا ہے۔ وہ خوش نہیں ہو سکتا۔ سیالکوٹ میں ایک شخص رشوت لیا کرتا تھا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ میں ہر وقت زنجیر ہی دیکھتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ بُرے کام کا انجام بد ہی ہونا چاہیے۔ اس لیے بدی ایسی چیز ہے کہ روح اس پر راضی ہو ہی نہیں سکتی۔ پھر بدی میں لذت کہاں۔ ہر بُرے کام پر آخر دل پر ٹھوکر لگتی ہے اور ایک کثافت انسان محسوس کرتا ہے کہ یہ کیا حماقت کی اور اپنے اوپر لعنت کرتا ہے۔ ایک شخص نےتو بارہ آنے کے عوض میں ایک بچہ مار دیا تھا۔

غرض زندگی بجز اس کے کوئی نہیں کہ بدی سے بچے اور خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرے۔ کیونکہ مصیبت سے پہلے جو خدا پر بھروسہ کرتا ہے مصیبت کے وقت خدا اس کی مدد کرتا ہے۔ جو پہلے سویا ہوا ہے وہ مصیبت کے وقت ہلاک ہو جاتا ہے۔ حافظ نے کیا اچھا کہا ہے۔ شعر

خیال زلف تو جستن نہ کار خاماں است

کہ زیرِ سلسلہ رفتن طریق عیاری است

خدا تعالیٰ غنی ہے۔ بیکانیر و غیرہ میں جو قحط پڑے تو لوگ بچوں تک کو کھا گئے۔ یہ اسی لیے ہوا کہ وہ کسی کے ہو کر نہیں رہے۔ خدا کے ہو کر رہتے تو بچوں پر یہ بلا نہ آتی۔ حدیث شریف اور قرآن مجید سے ثابت ہے اور ایسا ہی پہلی کتابوں سے بھی پایا جاتا ہے کہ والدین کی بدکاریاں بچوں پر بھی بعض وقت آفت لاتی ہیں۔ اسی کی طرف اشارہ ہے

وَ لَا يَخَافُ عُقْبٰهَا(الشّمس: ۱۶)۔

جو لوگ لا اُبالی زندگی بسر کرتے ہیں اﷲ تعالیٰ ان کی طرف سے بے پروا ہ ہو جاتا ہے۔ دیکھو دنیا میں جو اپنے آقا کو چند روز سلام نہ کرے تو اس کی نظر بگڑ جاتی ہے تو جو خدا سے قطع کرے پھر خدا اس کی پروا ہ کیوں کرے گا۔ اسی پر وہ فرماتا ہے کہ وہ اُن کو ہلاک کر کے اُن کی اولاد کی بھی پروا نہیں کرتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو متقی صالح مر جاوے اس کی اولاد کی پروا کرتا ہے جیسا کہ ا س آیت سے بھی پتہ لگتا ہے۔

وَكَانَ اَبُوْهُمَا صَالِحًا (الکہف : 83)

اس باپ کی نیکی اور صلاحیت کے لیے خضر اور موسیٰ جیسے اولوالعزم پیغمبر کو مزدور بنا دیا کہ وہ ان کی دیوار درست کردیں۔ اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اس شخص کا کیا درجہ ہوگا۔ خدا تعالیٰ نے لڑکوں کا ذکر نہیں کیا چونکہ ستّار ہے۔ اس لیے پر دہ پوشی کے لحاظ سے اور باپ کے محل مدح میں ذکر ہونے کی وجہ سے کوئی ذکر نہیں کیا۔

پہلی کتابوں میں بھی اس قسم کامضمون آیا ہے کہ سات پُشت تک رعایت رکھتا ہوں۔ حضرت دائود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے کبھی متقی کی اولاد کو ٹکڑے مانگتے نہیں دیکھا۔ غرض نشاط خدا کا رزق ہے جو غیر کو نہیں ملتا۔

(ملفوظات جلد3صفحہ335تا337۔ایڈیشن 1984ء)

دلائل صداقت

متقی کامنہ تو ایسے بند ہوتا ہے جیسے منہ میں روڑے ڈالے ہوئے ہوں۔ متقی کبھی کفر کا دائرہ وسیع کرنا نہیں چاہتا بلکہ وہ ایمان کا دائرہ وسیع کرنا چاہتا ہے۔ ان مخالف مولویوں کی نسبت میرا یہ عقیدہ تھا کہ ان میں صفائی نہیں ہے اور ملونی سے ضرور بھرے ہوئے ہیں۔ مگر یہ میرے وہم و خیال میں بھی نہیں تھا کہ ان سے یہ کمینہ پن ظاہر ہوگا جو انہوں نے اب میری مخالفت میں ظاہر کیا ہے۔

چونکہ عمر گذرتی جاتی ہے جیسے برف ڈھلتی ہے اس لیے ہر روز یہ خیال آتا ہے کہ کوئی آدمی ایسا ہو جو اُن کے پاس جاوے اور اُن کو فیصلہ کی راہ پر لاوے اور بتائے کہ ایک وہ وقت تھا کہ اﷲ تعالیٰ میری دعا کی نقل فرماتا ہے۔

رَبِّ لَا تَذَرْنِيْ فَرْدًا(الانبیآء : ۹۰) اور رَبِّ اَرِنِيْ كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتٰى(البقرۃ : ۲۶۱)۔

وہ زمانہ کہاں کہ دو آدمی ثابت کرنے مشکل ہیں۔ اور یا اب یہ زمانہ ہے کہ فوجوں کی فوجیں آرہی ہیں۔ قبل ازوقت کہ جیسا کہا تھا وہ کر دیا اور کر رہا ہے اور لوگوں کی نظروں میں عجیب۔ اگر کوئی سمجھنے والا ہو تو اُسے معلوم ہو سکتا ہے کہ خدا نے اپنی سنّتِ قدیمہ کے موافق کیا اور جس طرح رُسُل آتے ہیں وہ اسی طرح پہچانے جاتے ہیں۔ مجھے انہیں آثار اور نشانات کے ساتھ شناخت کرو جو خدا کی طرف سے آتے ہیں۔ وہ خدا کی محکم ہدایات کے خلاف نہیں کرتے۔ ایسا نہیں کہ حرام کو حلال یا حلال کو حرام کر دیں۔ دوسرے وہ ایسے وقت میں آتے ہیں کہ وہ ضرورت کا وقت ہوتا ہے۔ تیسرے یہ کہ تائیدِ الٰہی کے بدوں نہیں ہوتے۔ صریح نظر آتا ہے کہ خدا تائید کرتا ہے۔

(ملفوظات جلد3صفحہ341تا342۔ایڈیشن 1984ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button