خلاصہ خطبہ جمعہ

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت بدری صحابہ حضرت صہیب بن سنان اور حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہما کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

کورونا وائرس، دنیا کے موجودہ حالات بالخصوص امریکہ میں پھیلی بدامنی اور بے چینی کے تناظر میں دعا کی تحریک

انصاف سے تمام شہریوں کے حقوق ادا کرتے ہوئے حکومتیں چلا کرتی ہیں

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 05؍جون 2020ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ  بنصرہ العزیزنےمورخہ 05؍ جون 2020ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم رانا عطا الرحیم صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد، تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

آج پھر مَیں بدری صحابہ کا ذکر کروں گا۔پہلے صحابی کا نام ہے حضرت صہیب بن سنانؓ۔آپؓ کا رنگ سُرخ،قددرمیانہ اور بال گھنے تھے۔ کسریٰ کی حکومت میں ان کے والد یا چچا شہر اُبُلَّہ کے عامل تھےدجلہ کنارے آباد یہ شہر بعد میں بصریٰ کہلایا۔ رومیوں نے اس علاقے پر حملہ کیا تو صہیب کم عمری میں ہی قیدی بنالیے گئے،یوں انہوں نے رومیوں میں پرورش پائی۔ ایک روایت کے مطابق جب صہیبؓ اپنی عقل و شعور کی عمر کو پہنچے تو روم سے بھاگ کر مکّہ آگئے۔

اس اعتراض کے جواب میں کہ آنحضورﷺ نے قرآن مجید دوسروں یا غلاموں کی مدد سے بنالیا ہے، حضرت مصلح موعودؓ نے صہیبؓ کی بھی مثال پیش فرمائی ہے۔صہیبؓ،عبداللہ بن جدعان کے غلام تھے یہ آپؐ پر ایمان لائے اور اللہ اور اُس کے رسول ﷺ پر ایمان نے ہی انہیں ثابت قدم رکھا۔حضورؓ نےفرمایا یہ انتہائی بودااعتراض ہے۔ کیا ان غلاموں نے مصائب سہیڑنے کے لیے آپؐ کی مدد کی تھی ؟

صہیبؓ نے تیس سے زائد افراد کے بعد اسلام قبول کیا۔ آنحضورؐ نے فرمایا کہ اسلام میں سبقت رکھنے والے چار ہیں۔ عرب میں مَیں (رسول اللہﷺ)، رومیوں میں صہیبؓ،اہلِ فارس میں سلمانؓ اور اہلِ حبش میں بلالؓ۔ حضرت صہیبؓ ان مومنین میں سے تھے جنہیں کم زور ہونے کے باعث بےپناہ اذیت دی جاتی۔ یہی حال حضرت عمار بن یاسرؓ،ابوفائد،عامر بن فہیرہ اور دیگر اصحاب کا تھا۔حضرت علیؓ اور حضرت صہیبؓ نے سب سے آخرمیں مدینے کی طرف ہجرت کی تھی۔حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ صہیبؓ ایک مال دار آدمی تھے اور مکّے کے باحیثیت لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ باوجود اس کے کہ آپؓ آزاد ہوچکے تھے قریش ان کو مار مار کر بےہوش کر دیتے۔ جب انہوں نے مدینے ہجرت کا ارادہ کیا تو کفار نے کہا جو دولت تم نے مکّے میں کمائی ہے ہم تمہیں وہ دولت مکّے سے باہر نہیں لےجانے دیں گے۔چنانچہ آپؓ نے ساری دولت مکّہ والوں کے سپرد کردی اور خالی ہاتھ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔آپؐ نے فرمایا صہیب! تمہارا یہ سودا پہلے سب سودوں سے زیادہ نفع مند رہا۔ آپؓ غزوۂ بدر سمیت تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ بڑھاپے کی عمر میں آپؓ لوگوں کو جمع کرکے نہایت لطف کے ساتھ اپنے جنگی کارنامے سنایا کرتے۔

ایک روایت کے مطابق حضرت سلمانؓ،صہیبؓ اور بلالؓ بیٹھے ہوئے تھے کہ اُن کے پاس سے ابوسفیان بن حرب کا گزرہوا۔ لوگوں نے کہا کہ اللہ کی تلواریں ابھی اللہ کے دشمن کی گردن پر نہیں چلیں۔حضرت ابو بکرؓ نے لوگوں کے اس تبصرے کو ناپسند کرتے ہوئے انہیں روکا۔ جب رسول اللہﷺ کواس بات کا عِلْم ہوا تو آپؐ نے ابوبکرؓ کو فرمایا کہ تم نے شاید انہیں غصّہ دلایا ہے،اور اگرتم نے انہیں غصّہ دلایا ہے تو تم نے اپنے رب کو غصّہ دلایا ہے۔

حضرت عمرؓ حضرت صہیبؓ سے بہت محبت رکھتے تھے یہاں تک کہ جب عمرؓ زخمی ہوئے تو آپؓ نے وصیت فرمائی کہ میری نمازِ جنازہ صہیبؓ پڑھائیں گے اور تین روز تک مسلمانوں کی امامت بھی کرائیں گےیہاں تک کہ اہلِ شوریٰ خلیفہ منتخب کرلیں۔ ایک موقعے پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ صہیب! مَیں تین باتوں کے علاوہ تم میں کوئی عیب نہیں دیکھتا،اگر وہ تم میں نہ ہوتے تو مَیں کسی کو تم پر فضیلت نہ دیتا۔ تم خود کو عرب کی طرف منسوب کرتے ہو جب کہ تمہاری زبان عجمی ہے۔ تم اپنی کنیت ابویحیٰ بتاتے ہو جو ایک نبی کا نام ہے۔ تم اپنا مال فضول خرچ کرتے ہو۔ حضرت صہیبؓ نے جواباً کہا کہ مَیں اپنا مال وہیں خرچ کرتا ہوں جہاں اسے خرچ کرنے کا حق ہوتا ہے۔ میری کنیت رسول اللہﷺ نے ابو یحیٰ رکھی تھی اور اس کو مَیں ہرگز ترک نہیں کرسکتا۔اسی طرح رومیوں نے مجھے کم سِنی میں قیدی بنا لیا تھاچنانچہ مَیں نے اُن کی زبان سیکھ لی۔ مَیں قبیلہ نمر بن قاسط سے تعلق رکھتا ہوں۔

حضرت صہیبؓ کی وفات ماہ شوال 38یا 39 ہجری میں ہوئی اور آپؓ مدینے میں مدفون ہوئے۔ بوقتِ وفات آپؓ کی عمر تہتر یا بعض روایات کے مطابق ستّر برس تھی۔

اگلے صحابی حضرت سعد بن ربیعؓ ہیں۔ آپؓ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کے خاندان بنو حارث سے تھااور یہ زمانۂ جاہلیت میں بھی لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔سعدؓ بیعتِ عقبہ اولیٰ اور ثانیہ میں شامل تھے۔ ہجرت کے وقت آپؐ نے حضرت سعدؓ اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی تو آپؓ نے عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے کہا کہ مَیں انصار میں زیادہ مال دار ہوں۔ مَیں تقسیم کرکے نصف مال آپ کو دے دیتا ہوں۔ اسی طرح میری دو بیویوں میں سے جو آپؓ پسند کریں مَیں اس سے دست بردار ہوجاؤں گا۔ عدت گزرنے کے بعد آپؓ اس سے نکاح کرلیں۔ حضرت عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے سعدؓ سے کہا مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ تم صرف یہ بتاؤ کہ کیا یہاں کوئی بازار ہے جس میں تجارت ہوتی ہو۔

حضرت سعد بن ربیع ؓ غزوۂ بدر اور احد میں شامل ہوئے اور احد کی لڑائی میں ہی آپؓ شہید ہوئے۔ حضورِ انورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےسعدؓ کی شہادت کے متعلق دیگر روایات کے ساتھ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرا حمدصاحبؓ اور حضرت مصلح موعودؓ کی بیان فرمودہ تفاصیل بھی پیش فرمائیں۔حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرا حمدصاحبؓ جنگِ احد کا دِل خراش نقشہ کھینچتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جنگ ختم ہوئی تو آنحضرتﷺ بھی زخمی تھے لیکن پھر بھی آپؐ میدان میں آگئے۔ شہدا ءکی نعشوں کی دیکھ بھال شروع ہوئی تو مسلمانوں کے سامنے خون کے آنسو رلانے والا نظارہ تھا۔ ستّر مسلمانوں کی خاک و خون میں لتھڑی نعشیں، عرب کی وحشیانہ رسم مثلہ کا مہیب نظارہ پیش کر رہی تھیں۔ اس موقعے پر آپؐ کے ارشاد کی تعمیل میں ایک انصاری صحابی حضرت ابی بن کعب حضرت سعد بن ربیعؓ کا حال معلوم کرنے میدانِ جنگ میں گئے۔ ہرطرف تلاش کرنے اور آوازیں دینے کے بعد ابی بن کعبؓ نے اونچی آواز سے کہا کہ سعد بن ربیعؓ کہاں ہیں؟ مجھے رسول اللہﷺ نےا ن کی طرف بھیجا ہے۔ اس آواز نے سعدؓ کے نیم مردہ جسم میں بجلی دوڑادی۔ آپؓ نعشوں کے ڈھیر تلے نیم مردہ حالت میں پڑے تھے۔ چونک کرمگر نہایت نحیف آواز میں جواب دیا کون ہےمَیں یہاں ہوں۔ ابی بن کعبؓ نے جب بتایا کہ انہیں رسول اللہﷺ نے سعدؓ کا حال معلوم کرنے بھیجا ہے تو سعدؓ نے حضورﷺ کو سلام بھجوایا اور اجر کے لیے دعا کی۔ پھر مسلمانوں کو سلام کہنے کے بعد فرمایا کہ میری قوم سے کہنا کہ اگر تم میں زندگی کا دَم ہوتے ہوئے رسول اللہﷺ کو کوئی تکلیف پہنچ گئی تو خدا کے سامنے تمہارا کوئی عذر نہیں ہوگا۔ یہ کہہ کر سعدؓ نے جان دےدی۔ حضرت مصلح موعودؓسعد بن ربیعؓ کے واقعے کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ دیکھو ایسے وقت میں انسان کے دل میں اپنے بیوی بچوں کے لیے کیا کیا خیال آتے ہیں لیکن اس صحابی نےایسا کوئی پیغام نہیں دیا صرف یہی کہا کہ ہم آنحضرتﷺ کی حفاظت کرتے ہوئے اس دنیا سے جاتے ہیں تم بھی اسی راستے سے ہمارے پیچھے آجاؤ۔

ایک مرتبہ حضرت سعدؓ کی صاحبزادی حضرت ابوبکرؓ کے پاس آئیں تو آپؓ نے ان کےلیے اپنا کپڑا بچھا دیا۔ حضرت عمرؓ آئے اور ان خاتون کے متعلق استفسار کیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ یہ اس شخص کی بیٹی ہیں جو مجھ سے اور تم سے بہتر تھا۔ جس کی وفات رسول اللہﷺ کے زمانے میں ہوئی اور اس نے جنت میں ٹھکانہ بنا لیا اور مَیں اور تم باقی رہ گئے۔

حضرت سعدؓ ایک متمول آدمی تھے۔ شہادت کے وقت آپؓ نے اہلیہ اور دو بیٹیاں سوگوار چھوڑیں۔ کیونکہ اس وقت تک ورثے کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے لہٰذا آپؓ کے بھائی نے قدیم دستور کے مطابق آپؓ کی جائیداد پر قبضہ کرلیا۔ اس پر سعدؓ کی بیوہ نے سارا معاملہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں پیش کیا۔ آپؐ نے انہیں صبر کی تلقین کی اورپھر جلد ہی ورثے کے احکام نازل ہوگئےجس پر آپؐ نے سعدؓ کے بھائی کو طلب کرکے نئے احکامِ شرعیہ کے مطابق ورثہ تقسیم فرمایا۔

حضورِانور نے حقوقِ نسواں سے متعلق اسلامی تعلیم اور رسول اللہﷺ کے اسوۂ حسنہ پر مبنی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کاایک نوٹ بھی پیش فرمایا۔

خطبے کے اختتام پر حضورِ انور نے ایک مرتبہ پھر کورونا وائرس،دنیا کے موجودہ حالات بالخصوص امریکہ میں پھیلی بدامنی اور بے چینی کے تناظر میں دعا کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا اللہ تعالیٰ عوام کو صحیح رنگ میں اپنے مطالبات پیش کرنے اور حکومتوں کو انصاف کے ساتھ تمام شہریوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق دے۔ اسی طرح پاکستان میں احمدیوں پر بڑھتے ہوئے ظلم و ستم کے متعلق فرمایا کہ پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ اپنی تاریخ سے سبق سیکھیں اور انصاف سے حکومت چلائیں۔ احمدیت کے معاملے کو لے کر اور ظلم کرکے نہ پہلے کوئی حکومت قائم رہ سکی ہے اور نہ آئندہ رہ سکے گی۔ ہاں! ان ظلموں کے نتیجے میں دنیا میں احمدیت کی ترقی پہلے سے بڑھ کر ہوئی ہے اور ان شاء اللہ آئندہ بھی ہوتی رہے گی۔ خدا تعالیٰ انسانوں کوعقل اور سمجھ دے کہ ان کی بقا اور بچت ایک خدا کی طرف جھکنے اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے میں ہے۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button