سیرت خلفائے کراممتفرق مضامین

خلافتِ حقہ اسلامیہ کی تاریخ کے فیصلہ کُن پہلو

(آصف محمود باسط)

1908ء میں وجود میں آنے والی خلافتِ احمدیہ 1924ء تک خلافتِ عثمانیہ کے بالمقابل جاری رہی اور آج تک جاری و ساری ہے

خلافتِ اسلامیہ کی تاریخ رقم کرنے والے مؤرخین کی تعداد ان گنت ہے۔ یہ تاریخ مختلف ادوار میں لکھی گئی۔ اورقریب چودہ سو سال پر محیط اس عرصہ میں اس موضوع پر قلم اٹھانے والے یہ مؤرخین اپنے عہد اور اپنے فرماں رواؤں کے زیر اثر حالات و واقعات کو قلمبند کرتے رہے۔

یوں خلافتِ اسلامیہ کی تاریخ نویسی کی تاریخ جانبداری اور تعصبات کے رنگوں سے رنگین رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ المیہ صرف مسلم مؤرخین تک محدود نہیں رہا بلکہ مغربی اور بظاہر غیر جانبداری کا لبادہ اوڑھے غیر مسلم مؤرخین کی کاوشوں میں بھی در آیا ہے۔ ثبوت یہ کہ 1908ء کے بعد سے خلافتِ اسلامیہ پر لکھی گئی تمام کتب خلافتِ احمدیہ کو یا تو یکسر نظر انداز کر کے گزر جاتی رہی ہیں یا مؤرخ یونہی ایک اچٹتی سی نظرڈال کر آگے بڑھ جاتا ہے۔

اگرچہ مسلم مؤرخین محض اختلافِ عقیدہ کی بنیاد پر خلافتِ احمدیہ کو نظر انداز کردینے پر بر ی الذمہ نہیں ٹھہرائے جاسکتے، مگر مغربی مؤرخین جو غیر جانبداری کا پرچم لہراتے نہیں تھکتے، اس جرم کے ارتکاب پر ضرور قابلِ مواخذہ ہیں۔

مغربی مؤرخین اور مستشرقین کی توجہ اوائلِ اسلام کی تاریخ کی طرف انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے آغاز کے قریب زیادہ بڑھی۔ ولیم میور اور پروفیسر مارگولیتھ اسی زمانے کے اہم نام ہیں۔ پھر بیسویں صدی کے دوران مغربی مؤرخین کا اس طرف خوب میلان رہا اور Montgomery Watt اور H. A. R. Gibb جیسے قدآور مؤرخین نے خلافتِ اسلامیہ پر بہت سا مواد تحریر کیا۔ Thomas Arnold کی کتاب Islamic Caliphate بیسویں صدی میں اس موضوع پر جامع کتاب خیال کی گئی اور اس صدی کے اواخر میں Hugh Kennedyکا نام سامنے آیا جس نے اوائلِ اسلام اور خلافتِ اسلامیہ پر گہری تحقیق کی۔

افسوس اس بات کا ہے کہ ان مغربی اور نام نہاد ‘‘غیر جانبدار’’ مؤرخین نے بھی تاریخِ خلافتِ اسلامیہ کو خلافتِ عثمانیہ کے زوال پر لا کر ختم کردیا ہے۔ ان میں سے اکثر کو یہ معلوم تھا کہ 1908ء میں وجود میں آنے والی خلافتِ احمدیہ 1924ء تک خلافتِ عثمانیہ کے بالمقابل جاری رہی، موخر الذکر کے زوال کے بعد بھی جاری رہی اور آج تک جاری و ساری ہے۔

مسلم مؤرخین کو تو تعصب کی گنجائش دے کر معاف کیا جاسکتا ہے، مگر مذکورہ مغربی مؤرخین میں سے اکثر نہ صرف خلافتِ احمدیہ سے خوب واقف تھے بلکہ اس سے رابطے میں بھی تھے۔ مثلاً Professor Margoliouthنےحضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے قادیان میں ملاقات بھی کی۔ Thomas Arnoldحضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے نیازمندوں میں سے تھا۔ حضرت سر ظفراللہ خان صاحب ؓ کا استاد اور قریبی احباب میں سے تھا اور اس حوالے سے بھی خلافتِ احمدیہ سے گہرا تعارف رکھتا تھا۔ Kennedy جس دور میں رہ رہا ہے اور لندن میں درس و تدریس کے حوالے سے جن موقر اداروں سے وابستہ ہے اور جس قدر باخبر آدمی ہے، اس کا خلافتِ احمدیہ سے متعارف نہ ہونا ایک انہونی بات ہے۔ ان دنوں تو انٹرنیٹ پر صرف خلافت ہی لکھ لو تو اولین نتائج میں خلافتِ احمدیہ ضرور شامل ہوگی۔ پھر خاکسار کو ذاتی طور پر اس سے متعدد مواقع پر گفتگو کرنے کا موقع ملتا رہا ہے اور خاکسار یہ کہہ سکتا ہے کہ اسے خلافتِ احمدیہ سے خوب تعارف ہے۔ (مگر یہ ملاقاتیں اس کی کتب کےشائع ہوجانے کے بعد کی ہیں)۔

ان سب مؤرخین نے خلافتِ اسلامیہ کی تاریخ کو 1924ء میں خلافتِ عثمانیہ کے زوال کے ساتھ ختم کرکے، اور اس زوال کےآخری 16سالوں میں خلافتِ احمدیہ کا ذکر نہ کرکے مجرمانہ تغافل کا مظاہرہ کیا ہے۔ اگر انہیں خلافتِ احمدیہ سے تعارف نہیں تھا تو تب بھی اور اگر تھا تو تب بھی۔

مضمون کو آگے بڑھائیں گے تو معلوم ہوگا کہ اگر ان مؤرخین کی تحقیق مکمل تھی تو خلافتِ احمدیہ کا نظر انداز ہوجانا ممکن نہیں۔ اور اگر تحقیق مکمل نہیں تھی تو ان کی محققانہ قابلیت کا بھرم تو ٹوٹا ہی مگر ساتھ ہی ان کی تواریخ تشکیک کی زد میں آگئیں۔

مؤرخین کے تعصب کو اجاگر کرنے کے بعد راقم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس تحریر کو کسی بھی تعصب سے پاک رکھا جائے۔ لہذا آپ کو اس مضمون میں جذباتی رنگ نظر نہ آئے تو اس کے لیے پیشگی معذرت۔ ہم یہاں صرف حقائق رکھیں گے اور فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیں گے۔ کیونکہ 112سال کا عرصہ گزرجانے کے بعد خلافتِ احمدیہ اور 1400سال کا عرصہ گزرجانے کے بعد خلافتِ اسلامیہ کے نام پر آنے اور جانے والی متعدد حکومتیں تاریخ کے ایسے سنگم پر کھڑی ہیں کہ بات نظریات اور ذوقی نکات کی ریشہ دوانیوں سے بہت آگے بڑھ کراب ثبوت، حقائق اور شواہد کے میدانِ جنگ میں آکھڑی ہوئی ہے۔

خلافتِ اسلامیہ کی تاریخ میں خلافتِ احمدیہ کے مقام پر بحث کا آغاز کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ بعض امور طے کر لیے جائیں۔

خلافتِ اسلامیہ اور ریاست کے لازم و ملزوم ہونے کی بحث

یہ بحث بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی خلافتِ اسلامیہ کی تاریخ۔ حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں لڑی جانے والی ردہ کی جنگوں پر سوال اٹھانے والوں سے لے کر حضرت عمرؓ کے لاگو کردہ چندہ جات پر نکتہ چینیاں کرنے والوں تک، اور حضرت عثمان ؓ کو جواب دہ ٹھہرانے والوں سے لے کر، حضرت علی ؓ کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنے والوں تک سبھی عناصر نے اس بحث کی بنیاد رکھ دی ہوئی تھی۔ یوں مسلم مؤرخین نے ایسی تواریخ تحریر کیں جن میں رفتہ رفتہ یہ تسلیم کرلیا گیا کہ خلیفہ دراصل ایک ریاست کا فرماں روا ہوتا ہے اور یوں ریاست کے بغیر خلافت کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔

اختلافات جو بھی رہے ہوں، مسلمان مفکرین اور فقہا اس بات پرمتفق رہے کہ خلافت حضرت پیغمبرِ اسلامﷺ کی جانشینی کا دوسرا نام ہے۔ ابن خلدون نے مقدمہ میں لکھا ہے کہ ‘‘خلافت شارع ِاسلامﷺ کی جانشین ہونے کے حوالہ سے دین کی حفاظت اور امتِ مسلمہ کی عالمی قیادت کی ذمہ دار ہے۔’’

سو یہ سوال اٹھتا ہے کہ حضرت پیغمبرِ اسلامﷺ کی شریعت صرف ریاستی امور تک محدود تھی؟ یا ریاستی امور اصلاحِ فرد کے عمل کا ایک شاخسانہ تھے؟

نبوت کی جانشینی میں خلافت کے کام

آنحضورﷺ کی ذمہ داریاں تو قرآن کریم میں یوں جامع ترین رنگ میں بیان ہوئیں:

آیات الٰہیہ کی تلاوت ، قرآن کا علم دینا اور حکمت سکھانااور تزکیۂ نفس۔ اسلام کا اولین مقصد دیگر تمام مذاہب کی طرح اصلاحِ نفس تھا، انسان کو جانور سے ممیز کرنے کا عمل گذشتہ مذاہب جہاں تک لے آئےوہاں سے انسان کو مزید بہتر وجود بنانے کا عمل۔

اس کے لیے جس معاشرے کو بطور نمونہ چنا گیا وہ ایک ایسا معاشرہ تھا جو ہر لحاظ سے تہذیب سے بہت دور تھا۔ اس خطہ کے ارد گرد قوی ہیکل سلطنتیں تھیں۔ جزیرہ نمائے عرب ان سلطنتوں کے عین بیچ میں تھا اور ان سلطنتوں کی تجارتی اور اقتصادی سرگرمیوں کے باعث ایک صحرائی گزرگاہ، پڑاؤ کرنے کے لیے متفرق قبائلی آبادیوں سے زیادہ کوئی حیثیت نہ رکھتا تھا۔ اس خطے کے جو حصے کسی بھی طرح مفید ہوسکتے تھے وہ ساسانی یا رومی سلطنتیں پہلے ہی سے اپنے زیر نگیں کر چکی تھیں۔ باقی جو پیچھے بچا تھا، اس کا نام ہی ربع الخالی رکھ دیا گیا تھا۔

قرآن کریم نے بھی اس خطہ کو وادیٔ غیر ذی زرع کے نام ہی سے موسوم کیا ہے۔

عرب کی اصل آبادی قبائل میں تقسیم تھی جو آبائی اور رحمی نسبتوں پر قائم ہوتے، بڑھتے پھولتے اورپھر مفادات کی بنیاد پر مزید تقسیم ہوتے چلے جاتے تھے۔ جنگ و جدل، قتل و غارت گری، لوٹ کھسوٹ اس صحرا کے لوگوں کی پہچان تھی۔

ان کے گرد قائم سلطنتوں کو بھی یہ معاشرتی بد امنی اور قبائلی تقسیم فائدہ دیتی تھی۔ ان قبائلی بدوؤں میں اتحاد قائم ہوجانے کا مطلب ان کے تجارتی قافلوں کے خلاف مزاحمت بھی ہوسکتا تھا۔

ساسانی اور رومی سلطنتوں کی بنیاد مذہب پر تھی۔ایک زرتشتی مذہب کے پیرو تھے اور دوسرے عیسائیت کے۔ عرب کے مشرکین ان گنت خداؤں کے پیرو تھے، ہر ‘خدا’ الگ احکامات دیتا تھا جو صرف اس کے ماننے والوں کے مفاد میں ہوتے تھے اور یوں ان قبائل کے درمیان تقسیم اور تفریق کے خطوط نہایت گہرے اور انمٹ ہوچکے تھے۔

انہیں متحد صرف مذہب کرسکتا تھا۔ اگر کوئی مذہب انہیں متحد کرنے میں کامیاب ہوجاتا تو وہ مذہب تمام مذاہب کو بھی یقیناً متحد کرنے کے قابل ہوتا۔ یوں اس معاشرہ کے لیے خدا تعالیٰ نے دین اسلام کو پسند فرمایا۔ اور یوں تمام دنیا کی مذہبی تفریق کو مٹانے کے لیے بھی اللہ تعالیٰ نے دینِ اسلام نازل فرمایا۔

حضرت پیغمبرِ اسلامﷺ پر اللہ تعالیٰ نے جو پیغام نازل فرمایا وہ انسان کی نہایت باریکی میں اصلاح کرنے والا پیغام تھا۔ وہ مذہب جس کا پیشوا یہ تک بتاتا ہو کہ کھانا کس ہاتھ سے کھانا ہے۔ کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے ہیں۔ کھا کر کلی کرنی ہے۔ سو کر اٹھ کر ہاتھ دھونے ہیں۔ معاشرت کے آداب کیا ہیں۔ جسم کی صفائی کس باریکی سے کی جائے۔

پھر گفتگو کے آداب۔ کسی کے گھر جانے کے آداب۔ عورتوں کو پردے کے آداب۔

جھوٹ سے اجتناب۔ زنا سے اجتناب۔ چوری، ڈاکہ، فساد، لڑائی اور ہر اس چیز سے اجتناب جس سے معاشرے میں بد امنی پھیلتی ہو۔ پس حضرت پیغمبرِ اسلامﷺ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے فرد کی اصلاح کا عظیم الشان کام کروایا۔

حضورﷺ کی بعثت سے قبل عرب میں معاشرتی شناخت صرف قبائل کی بنیاد پر ہوتی۔ کنیت کا سلسلہ بھی اسی شناخت کا شاخسانہ تھا۔ قبائل نسب کی بنیاد پر قائم ہوتے۔ ایک قبیلے کےافراد ایک شیخ یا امیر کے تابع ہوتے۔ اس امیر سے وفا اور اس کی اطاعت رکنیت کی بنیادی شرط ہوتی۔

جب دینِ اسلام کی تبلیغ شروع ہوئی اور اسی عرب معاشرہ میں وابستگی اور شناخت کی ایک نئی صورت ابھری جو حسب نسب سے بالاتر تھی تو اس جمعیت کو ایک نئے قبیلے کے طور پر دیکھا گیا۔ چونکہ آغاز میں اکثریت مکہ کے رہنے والوں کی ہی تھی، لہٰذا مکہ کے قبائل کی طرف سے اس نئی جماعت کو زیادہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اپنی قبائلی شناخت کو ترک کر کے دینِ اسلام کو گویا ‘‘ارتداد’’ اور بغاوت کے طور پر دیکھا گیا اور یوں ہر ایسے فرد کو سزا کا مستحق سمجھا گیا۔ ( ارتداد پر سزائے موت دینے کا تصور بھی اسی قبائلی غیرت سے مستعار لیا گیا ہے نہ کہ اسلام سے)۔

ایسے میں بانئ اسلامﷺ نے خدا سے خبر پا کراپنی جماعت کو قبائلی حملوں کی صورت میں حسنِ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے مدافعت کے اطوار سکھائے۔

پھر حضرت پیغمبرِ اسلامﷺ کو مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آنا پڑا۔ یہاں اسلام تیزی سے پھیلا اور مدینہ میں اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آیا۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے آنحضورﷺ کو ریاستی امور سے آگاہ فرمایا اور آپﷺ نے اپنی جماعت کو اس کی روشنی میں آگاہی بخشی۔ پھر جہاں اسلامی ریاست ان الہامی احکامات پر قائم ہو رہی تھی جو آنحضورﷺ کے سینہ پر نازل ہوتے تھے، وہاں حکم اور عدل بھی آپﷺ ہی تھے۔ اس صورتِ حال کے لیے رحم اور احسان کے ساتھ ساتھ عدلیہ سے متعلق امور بھی آنحضورﷺ کو سکھائے گئے اور ان پر عمل کرنے سے آپﷺ نے اسلامی ریاست اور اسلامی حکمرانوں کے لیے اسوۂ حسنہ قائم فرمایا۔

آنحضورﷺ کے وصال کے بعد خلافت کا قیام عمل میں آیا اورآپﷺ کے مفوضہ امور آپﷺ کے جانشین اور خلیفہ کو ادا کرنا پڑے، جن میں امورِ ریاست بھی شامل رہے۔

پس اسلامی احکامات داراصل فرد کی اصلاح سے شروع ہو کر افراد ِخانہ، اور پھر اقوام اور پھر بین الاقوامی امور تک پھیل جاتے ہیں مگر بنیادی مقصد توحید کا قیام اور تقویٰ کی زندگی کا حصول رہتا ہے۔

پس اگر خلیفہ کا کام نبی کی جانشینی ہے تو اس کی اولین ذمہ داری بھی توحید کا قیام اور آنحضورﷺ کی سنت کی روشنی میں مومنین کی رہ نمائی اور قیادت کرنا ہوگا تاکہ مومنین بہترین انسان اور بہترین انسان سے خدا نما انسان بن سکیں۔

اس سے یہ مراد بھی نہیں کہ خلیفہ کے پاس ریاست ہو ہی نہیں سکتی۔ جب ایسی صورت ہوگی تو جس طرح خلفا ئےراشدین نے ریاستی امور کی نگرانی کی، خلیفۂ وقت اسی طرح ریاست کی نگرانی کر لےگا۔ اور جب تک ایسی صورت نہیں، تب تک شریعتِ محمدیہ کی روشنی میں ان لوگوں کی رہ نمائی کرتا رہے گا جن کے پاس ریاست ہے، خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔

پس خلیفہ کا کام یہ طے پایا کہ خواہ وہ کسی ریاست کا والی ہو یا نہ ہو، اس کا اولین کام اشاعتِ دینِ اسلام ہے۔ یعنی قرآن کریم کی ترویج، سنتِ رسولﷺ کی ترویج اور ان دونوں کے کاموں کے ذریعہ دنیا میں اسلام کے پیغام کو عام کرنا۔

خلافتِ راشدہ اور خلافتِ احمدیہ کا درمیانی زمانہ

خلافتِ راشدہ کا اختتام جن حالات میں ہوا اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ خلافت کے قیام کا کام اللہ تعالیٰ نے سورۃ النور میں خود اپنے ذمہ لیا اور اسے ایمان اوراعمال صالحہ کے ساتھ مشروط فرمایا۔ حضرت علیؓ کے وصال کے بعدجب انسانوں نے حصولِ خلافت کے لیے تنازعات کھڑے کیے اور اسے اپنے ہاتھ میں لینا چاہا تو اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو منقطع فرمادیا۔

اس کے بعد خلافت کے نام پر جو حکومتیں قائم ہوئیں، وہ آنحضورﷺ کی اُس پیشگوئی کے عین مطابق نکلیں جس میں آنحضورﷺ نے مختلف امور کی طرف نشان دہی فرمائی تھی۔ یہ دَور خلافت کے نام پر کاٹ کھانے والی حکومتوں اور جابر بادشاہتوں کا دَور تھا۔ خلافتِ راشدہ کے بعد سے خلافتِ احمدیہ کے قیام تک جو حکمران خلافت کا لبادہ اوڑھے ہوئے آئے، وہ ان نشانیوں میں سے کسی ایک پر ضرور پورا اترتے تھے اور ان میں سے کسی ایک پر بھی پورا اترنا انہیں خلافت کے منصب سے محروم کردیتا تھا

1۔ سب سے پہلے تو یہ سب موروثی بادشاہتیں تھیں جن کاکوئی بھی فرد صرف اس لیے اس منصب پر بٹھایا جاتا تھا کہ وہ بادشاہ کی اولاد ہوتا۔ جس نبی نے اپنے متبعین کو یہ تعلیم دی ہو کہ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ، وہ خود یقیناً تقویٰ میں ان سب سے بڑھا ہوا ہوگا۔ جو تمام بنی نوع انسان کے تقویٰ کو ملا کر اس سے بھی بڑھا ہوا ہو، اس کی جانشینی کے لیے یہ کس طرح کافی ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص فلاں بادشاہ کی اولاد ہو۔ بلکہ اگر اس بادشاہ کو خلیفہ بھی مان لیا جائے، تب بھی یہ معیار غیردرست ٹھہرتاہے۔

2۔ جس آدمی نے آنحضورﷺ کی جانشینی کا فرض ادا کرنا ہے، اسے دینِ اسلام کی اشاعت کا کام کرنا ہوگا۔ اور یہ کام وہی کر سکتا ہے جو نہ صرف دین کی سمجھ رکھتا ہو بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے حالات میں اسلامی شریعت کے احکامات پر عمل کرنے کی طرف رہ نمائی بھی کر سکتا ہو۔

یہ علم اور یہ سمجھ بوجھ بھی موروثی طور پر نہیں آتی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ اپنے ہاتھ میں لیا۔ پس اس لحاظ سے بھی اگر کسی بادشاہ کو خلیفہ تسلیم کر بھی لیا جائے تو اس کی اولاد میں ان صفات کا ہونا لازم نہیں۔

3۔ حضرت پیغمبرِ اسلامﷺ نے ہر دور میں اپنی امت کی رہ نمائی کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے اس کی کامیابی و کامرانی اور راہِ راست پر قائم رہنے کے لیے دعائیں بھی کیں۔ اس کے لیے امت کا درد دل میں ہونا ضروری ہے۔ لہذا یہ بھی ضروری نہیں کہ اگر باپ کے دل میں امت کا درد تھا بھی تو اولاد کے دل میں بھی لازماً ویسا ہی ہو۔ یہ درد صرف اس آدمی کے دل میں ہوگا جسے خدا تعالیٰ خود اس منصب کےلیے منتخب کرے گا۔

4۔ اموی سلاطین ہوں یا عباسی، فاطمی ہوں یا علوی یا عثمانی، سبھی ادوار میں باپ کی جانشینی کے لیے ولیٔ عہد مقرر ہوتے رہے۔ ان کے ساتھ اسی بادشاہ کی دوسری اولاد نے مختلف مواقع پر جنگیں بھی لڑیں اور بادشاہت (جسے وہ خلافت سے موسوم کرتے) اپنے قبضہ میں بھی لی جاتی رہی۔ ایسا جبر دنیوی حکومتوں کے لیے تو روا رکھا جاسکتا ہے، کسی روحانی منصب کے لیے ایسا کرنا اس مقام کی شان کے شایان نہیں۔
یوں ان جابر بادشاہوں کو بادشاہ یا سلاطین تو کہہ سکتے ہیں، مگر تعجب ہے کہ مسلمان انہیں حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کا جانشین تسلیم کرتے وقت اپنے دل کو کس طرح قائل کرلیتے ہیں۔

5۔ آنحضورﷺ کے حق اور صداقت پرہونے کی دلیل اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو یہ بتائی کہ

فَقَدۡ لَبِثۡتُ فِیۡکُمۡ عُمُرًا مِّنۡ قَبۡلِہٖ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ۔

یعنی میری پیدائش سے لے کرمنصبِ نبوت پر قائم ہونے کا سارا عرصۂ حیات تمہارے سامنے ہے۔ کیا تم اب بھی سمجھتے ہو کہ میں اپنے دعویٰ میں جھوٹ پر ہوسکتا ہوں؟ جس شخص کوبھی امت مسلمہ کی رہ نمائی اور قیادت کے لیے اللہ تعالیٰ منتخب فرماتا ہے، اس کی صداقت بھی اس معیار پر پوری اترتی ہے۔

اس کے برعکس خود کوخلیفہ کہلوانے والوں کا شرم ناک احوال یہاں بیان کرنا مناسب نہیں۔ بلکہ کسی بھی شریفانہ مجلس میں مناسب نہیں۔ اس کی تفصیل علامہ شہاب الدین النویری نے اپنی کتاب‘‘نہایۃ الأرب فی فنون الادب’’ میں خوب کھول کر بیان کی ہے۔ اسی طرح ابو عثمان عمرو بن بحر الجاحظ نے اپنی تصنیف ‘‘ کتاب التاج فی اخلاق الملوک للجاحظ’’میں عیش و عشرت میں صبح و شام غرق رہنے والے ان نام نہاد خلفاء کی کارستانیوں کی تفاصیل محفوظ کی ہیں۔ پھر سلطنتِ عثمانیہ کے آخری دَور کی داستانیں تو اس دور کے مؤرخین کو بلا واسطہ بھی میسر آجایا کرتیں۔

عرب اور مشرقِ وسطیٰ کے مشہور مؤرخ Philip K Hittiنے اپنی کتاب History of the Arabsمیں تحریر کیا ہے کہ عثمانی سلاطین سینکڑوں کے حساب سے نامحرم عورتیں اپنی عیش و عشرت کے لیے محلوں میں رکھا کرتے۔ جس خاتون سے بچہ پیدا ہو جاتا، اسے گویا ملکہ کا رتبہ حاصل ہو جاتا، بالخصوص اگر لڑکا پیدا ہوتا جو ولیٔ عہد بھی قرار دیا جاسکتا۔ لکھتے ہیں کہ سلطنتِ عثمانیہ کا‘‘خلیفہ’’ سلطان عبدالحمید ثانی (جس کے زوال کے ساتھ سلطنتِ عثمانیہ کا بھی زوال شروع ہوا) اپنے باپ سلطان عبدالمجید کی ایک روسی داشتہ سے پیدا ہوا۔ اس وقت سلطان عبدالمجید اپنے حمام میں غسل لے رہا تھا جب اسے اس بچے کی ولادت کی خبر دی گئی۔ اس نے تعجب سے پوچھا کہ ‘‘کس عورت سے؟’’ بتایا گیا کہ فلاں۔ اس پر بادشاہ سلامت اپنے ولی عہد اور اس کی ماں کو دیکھنے گئے۔

بے نکاحی عورتوں کے بطن سے جنم لینے والے، عیش و عشرت میں غرق رہنے والے بادشاہوں کو خلیفہ تسلیم کر لینا کس قدر ظلم کی بات ہے۔

خلافت اور خدمتِ دینِ اسلام

اوپر اٹھائی گئی بحث سے یہ مراد نہ لی جائے کہ ایک خلیفہ کے بعد اس کا بیٹا خلیفہ نہیں بن سکتا۔ اصل مقصد اس بحث سے یہ ثابت کرنا ہے کہ محض ولدیت اس بات کی ضامن نہیں کہ وہ آنحضورﷺ کی جانشینی کا حقدار ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان اطوار میں سے ایک طور پر خلیفہ منتخب ہوا ہو جن اطوار پر خلفائے راشدین خلیفہ منتخب ہوتے رہے۔

خلفائے راشدین کے انتخاب کے متعلق تمام مؤرخین، مسلم و غیر مسلم، متفق ہیں کہ ان کا انتخاب جماعتِ مسلمہ کے اکابرین کے مشورے سے عمل میں آتا رہا۔ اکثریت کا ایک نام پر اتفاق ہوتا اور پھر سب مومنین خلیفہ کی بیعت کرتے۔

خلفائے راشدین کے بعد اموی اور عباسی حکمرانوں کے دور کا آغاز ہوا۔ دونوں ہی میں خلافت وراثت کا حصہ بن کر رہ گئی۔ بنو امیہ کے دَور کا آغاز امیر معاویہؓ کی خلافت سے ہوتا ہے۔ ان کا انتخاب اس طرز پر نہیں ہوا اور یہی وجہ ہے کہ انہیں امتِ مسلمہ کا کوئی بھی فرقہ خلفائے راشدین کی صف میں شمار نہیں کرتا۔ امیر معاویہؓ نے اسلامی ریاست کے تمام علاقوں کے گورنروں کو کہلا بھیجا کہ اپنے علاقہ کے مسلمانوں سے ان کے بیٹے یزید کی بیعت ابھی سے کروالیں کیونکہ وہی مستقبل کا ‘‘خلیفہ’’ ہوگا۔ حجاز کے لوگوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا تو انہیں جبراً اس فرمان کی اطاعت کے لیے افواج روانہ کر کے قائل کرنے کی کوشش کی گئی۔

اسی طرح عباسی خلیفہ ہارون الرشید نے اپنی زندگی ہی میں اپنی رعایا سے اپنے تینوں بیٹوں امین، مامون اور قاسم (جو بالترتیب بارہ، گیارہ اور پانچ سال کے تھے) کی بیعت کروالی۔

(تفصیلات کے لیے ملاحظہ فرمائیں: The Caliphate: Its rise, decline and all- William Muir. Islamic History of the Middle East by Wilson Bishai)

عباسی خلیفہ المنصور نے خود کو خلیفۃ اللہ کہلوایا۔ یاد رہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓکو جب خلیفۃ اللہ کہا گیا تو انہوں نے انکار کیا اور خود کو خلیفۃ الرسول کہلوایا۔

(الاسلام و الخلافہ از حسنی الخربوطلی)

اگرچہ یہ سب ان نام نہاد خلافتوں کا پول کھولنے کو بہت کافی ہے، مگر ایک بہت اہم معیار جو خلافت کے برحق ہونے یا نہ ہونے میں فیصلہ کُن ہونا چاہیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ اگر خلافت کی اولین ذمہ داری خدمتِ دین اور اشاعتِ دینِ اسلام ہے، تو اُس کے درست اور راست اور حق بجانب ہونے کا فیصلہ اسی معیار پر کیا جائے گا۔

خلافتِ اسلامیہ اور خدمتِ دینِ اسلام

جہاں خلافتِ راشدہ کا اختتام ہوا، وہیں آئندہ آنے والی نام نہاد خلافتوں کے عزائم طے ہوگئے۔ اشاعتِ اسلام کی جگہ توسیعِ سلطنت نے لے لی۔ کجا یہ کہ اسلام کا پیغام مختلف خطوں میں پہنچتا، لوگ ان صحابۂ رسولﷺ کا نیک نمونہ دیکھتے اور اسلام کو اپنے دین کے طور پر قبول کرتے، کجا یہ موروثی بادشاہ جو تلوار کے زور پر ملکوں ملکوں حملہ آور ہونے لگے اور تلوار کے زور پر ان علاقوں کو زیر نگین کرتے اپنی سلطنت اور اپنے اقتدار کی توسیع کا لطف لیتے رہے۔

ان سیاہ ادوار میں اسلام تلوار کے زور پر پھیلایا گیا اور آئندہ آنے والے تمام زمانوں میں غیروں کو یہ الزام لگانے کا موقع دیا گیا کہ اسلام ظلم اور تشدد کامذہب ہے۔ یہ الزام اپنے عروج پر تھا جب حضرت خاتم الخلفا ءمرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا اور آپ کی اساسی تعلیمات(جو کہ اسلام ہی کی خالص تعلیمات ہیں) میں سے ایک یہ ٹھہری کہ اسلام کو تلوار کے زور پر پھیلانا حرام ہے۔ آپؑ نے آنحضورﷺ اور آپؐ کے راشد خلفائے کرام کی تعلیمات اور سنت سے ثابت فرمایا کہ اس سنہری دور میں اسلام کو جبر سے نہیں پھیلایا گیا لہذا یہی مسلمانوں کا طریق ہونا چاہیے۔

اشاعتِ اسلام کی یہ مسنون طرز بیان کرتے ہی حضرت مسیح موعود ؑ پر مسلمانوں ہی نے مخالفت کی بوچھاڑ کردی اور طرح طرح کے ناموں سے پکارا۔ تاہم آپؑ تادمِ آخر اسی تعلیم پر قائم اور عمل پیرا رہے اور آپؑ کے وصال کے بعد خلافتِ احمدیہ نے اس کام کو اپنے اولین مقاصد میں سے ایک ٹھہرا لیا اور آج تک اسی پُر امن تعلیم کی نہ صرف تبلیغ کرتے ہیں، بلکہ اس پر بخوبی عمل پیرا بھی ہیں۔

خلافتِ راشدہ کے بعد خلافت کے نام پر سلطنتیں چودہ سو سال تک حکمرانی کرتی رہیں۔ خلیفہ اور ‘ظل الٰہی’ جیسے القاب خود سے منسوب کرتی رہیں۔ امت مسلمہ کی خیرخواہ اور غم خوار اور نگران ہونے کا ڈھونگ صدیوں چلتارہا۔ ایک خانوادے سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے میں یہ اقتدار منتقل ہوتا رہا۔ ان کے دیکھتے دیکھتے انگریزی زبان دنیا میں کثرت سے بولی جانے لگی۔ کسی کو یہ خیال نہ گزرا کہ اس زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ کروایا جائے۔ گزرتا بھی کیسے۔ جب دھونس اور دہشت واحد ذریعہ اشاعت اسلام کا بن گیا ہو، وہاں اللہ تعالیٰ کے کلام سے کسی کادل پھیرنے کا خیال کیونکر آتا۔

اس دوران انگریزی میں قرآن کریم کے جو بھی تراجم ہوئے، وہ مغربی مستشرقین نے کیے۔ کوئی ایک ترجمہ ایسا نہ تھا جو مسلمانوں نے کیا ہو۔ یہ عظیم کام خلافتِ احمدیہ کے آغاز کے ساتھ ہی شروع ہوا اور اس کے آغاز کے سالوں ہی میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔ حضرت حکیم مولوی نورالدین خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے یہ کام شروع کروایا اور ان کی خلافت کے چھ سالوں کے دوران ہی مکمل بھی ہو چکا تھا۔ آپ اس پر نظرِ ثانی بھی فرماچکے تھے۔ حاشیوں پر کام ہورہا تھا کہ آپؓ کا وصال ہوگیا۔ اس کی اشاعت آپؓ کے وصال کے بعد ہوئی۔

اس کام کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓنےجماعت کے بہت ہی محدود وسائل میں قریب پانچ سو روپے ٹائپ رائٹر خریدنے اور ضروری کتب منگوانے کے لیے خرچ فرمائے۔ ترجمہ کا یہ کام جب چار سال میں تکمیل کو پہنچا(اشاعت کے علاوہ)تو صدر انجمن احمدیہ قادیان کی 1912ء کی رپورٹ کے مطابق اس پر بیس ہزار روپے خرچ ہوئے۔

یاد رہے کہ یہ بیس ہزار روپے کسی سلطنت کے خزانے سے نہیں آئے تھے۔ بلکہ یہ ایک چھوٹی سی جماعت کے چندوں سے جمع شدہ رقم تھی۔ ان غریب احمدیوں کا چندہ جو تھوڑا تھوڑا کر کے جمع ہوتا تھا، آج بھی ہوتا ہے اور پھر اس سے اشاعتِ دینِ متینِ اسلام کا عظیم کام اللہ کے خاص فضل سے سرانجام دیا جاتا ہے۔

پس اس عظیم خدمت کے لیےاسلامی ریاست کے نام پر وسیع و عریض سلطنت موجود تھی۔ اس سلطنت کا سربراہ خود کو خلیفہ بھی کہلواتا تھا۔ خزانے بھرے پڑے تھے۔ مگر یہ خدمتِ اسلام جماعتِ احمدیہ کے حصہ میں آئی۔ بلکہ یہ بات بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہے کہ انگریزی کیا، سلطنتِ عثمانیہ کے صدیوں پر محیط دور میں ایک بھی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ نہیں کیا گیا۔ یہاں تک کہ ترکی، جو ان کی مادری اور قومی زبان تھی، اس میں بھی نہیں۔ Bret Wilson کا مضمونThe First Translations of the Holy Quran in Modern Turkey (مطبوعہ International Journal of Middle East Studies, 2009) میں لکھا ہے کہ ترکی زبان میں قرآن کریم کی متفرق آیات کا ترجمہ 1908ء میں ترک نوجوانوں کی تحریکِ آزادی کے زمانہ میں شروع کیا گیا۔ چونکہ وہ صرف چنیدہ آیات ہوتیں، لہذا اسے کسی بھی طرح مربوط ترجمہ قرار دیا نہیں جاسکتا۔ نہ ہی مترجمین (احمد مدحت اور مصطفیٰ صابری) نے اسے کبھی ترجمہ قرار دیا۔ 1918ء میں ‘‘خیرالکلام’’ نامی ترک اخبار نے کالم کی صورت میں ترتیب وار ترجمہ بالاقساط شروع کیا جو 1924ء میں جاکر پایہ تکمیل کو پہنچا۔ مگر یہ کام بھی سلطنتِ عثمانیہ کی سرپرستی میں نہ ہوا بلکہ ترک انقلاب (جسے بالعموم لادینی رنگ دیا جاتا ہے) کے دور میں ہوا۔

جب سلطنتِ عثمانیہ کو اپنی بقا خطرے میں محسوس ہوئی اور جابجا باغیانہ روش جنم لینے لگی اور انقلاب کے نعروں میں زیادہ گونج پیدا ہوگئی، تو خلیفہ صاحب نے مشاورتی نظام کو خیر باد کہہ دیا اور اپنی طاقت اور ثروت کی سلامتی کی تن تنہا جنگ لڑنے لگے۔ تمام صلاحیتیں اور وسائل افواج کو طاقت ور کرنے پر صرف ہونے لگیں تا کہ سلطنت کی ڈوبتی ناؤ میں سے کم از کم ترکی ہی کو بچا لیا جائے۔

ایسے میں خلافتِ احمدیہ مسلمہ نے شوریٰ کی بنیاد رکھی، یعنی وہ ادارہ جو خلافت کا جزوِ لاینفک ہے۔ اگرچہ شوریٰ کا نظام جلسہ سالانہ کے آغاز کے ساتھ ہی عمل میں آچکا تھا اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓکے زمانہ میں بھی موجود رہا، مگر اسے ایک ادارہ کے طور پر 1922ء میں منظم کیا گیا۔ یہ جماعتِ احمدیہ مسلمہ کے دوسرے خلیفہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ؓ کے دور کی بات ہے۔ اس کے پہلے ہی اجلاس میں ‘‘انجمن ترقی اسلام ’’ کی بنیاد رکھی گئی۔

یہ انجمن ترقی اسلام ہی تھی کہ جس کے ذریعے سب سے پہلے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے قرآن کریم کے پہلے پارے کا ترجمہ اور تفسیر انگریزی زبان میں طبع کروائی اور یورپ و امریکہ کی دانشگاہوں اور کتب خانوں کو ارسال فرمائی۔ اسی انجمن ترقی اسلام کے ذریعہ ہندوستان میں بھی تبلیغی مہمات جاری ہوئیں اور ہندوستان کے باہر اول اول قائم ہونے والے مشن کے اخراجات بھی برداشت ہوتے رہے۔ قرآن کریم کے تراجم شائع ہوئے، مغربی دنیا میں تبلیغ اسلام کے ابتدائی منصوبوں کا سہرا اسی انجمن ترقی اسلام کے سر ہے جو خلافتِ احمدیہ مسلمہ کے زیر انتظام وجود میں آئی۔

جہاں خلافتِ عثمانیہ خواتین کو صرف اپنے محلات کی زینت کے طور پر جہاں تہاں سے اٹھا لاتے، وہاں قادیان جیسے چھوٹے سے قصبے میں خلافتِ احمدیہ مسلمہ اپنی شوریٰ کے پہلے اجلاس میں خواتین میں شعور، بیداری اور دینی سمجھ بوجھ پیدا کرنے کے لیے ان کے ترجمان رسالے کی تجویز پیش کرتی ہے۔ خلافتِ احمدیہ مسلمہ کے زیر سایہ مختلف ذیلی تنظیموں میں سب سے پہلے خواتین کی ذیلی تنظیم ‘‘لجنہ امااللہ’’ قائم ہوئی۔ ان کا مجلہ پہلے ‘تادیب النساء’ اور پھر ‘مصباح’ کے نام سے جاری ہوا۔

دوسری طرف خلافتِ عثمانیہ دنیا کے اس اعتراض کو پختہ تر کرتی رہی کہ اسلام میں عورت کا مقام ایک زر خرید لونڈی سے زیادہ نہیں۔ خلافتِ احمدیہ مسلمہ ہی تھی جو عورت کو وہ مقام دلانے میں مصروف تھی جو آنحضورﷺ نے اسے اس حالت میں پا کر دلایا تھا جو خلافتِ عثمانیہ بھی اسےدے رہی تھی۔

جس زمانہ میں مغربیت اور عیسائیت کی بالادستی تمام دنیا پر قائم ہو چکی ہو، وہاں اسلام اور بانیٔ اسلام کا اصل نمائندہ کون کہلانے کے لائق ہوگا؟ یقیناً وہ جو مغرب اور عیسائیت کی منہ زور طاقت کے آگے بند باندھے بلکہ ان کے گھر جا کر اسلام کا پیغام دے۔

جہاں خلافتِ عثمانیہ مغرب کے ساتھ صرف زمینی حدود کی بسط و کشاد پر عسکری جنگیں لڑ رہی تھی، وہاں خلافتِ احمدیہ مغرب میں دینِ اسلام کی سربلندی کےلیے کوشاں نظر آتی ہے۔ لندن میں پہلی مسجد کا خواب مسلمان مدتوں سے دیکھتے چلے آئے۔ یقیناً یہ بہت ہی بڑا اعزاز ہوتا کہ کسی مسلم جماعت کو لندن، یعنی مغربی دنیا کے قلب کے اندر مسجد قائم کرنے کی توفیق ملتی۔ لندن مسجد کے نام پر 1910ءسےسید امیر علی اور ان کے ہم خیال مسلمانوں نے ایک فنڈ قائم کررکھا تھا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے مسلم حکمرانوں کی طرف نگاہ کی تو چند ہزار پاؤنڈ جمع کر سکے۔ ایک عظیم الشان اور وسیع اور عریض مسلم سلطنت، جس کا سربراہ ‘خلیفۃ المسلمین’ ہونے کا دعویدار بھی تھا، اس عظیم کام کے لیے صرف ایک ہزار پاؤنڈ عطیہ کر سکی۔

(بحوالہ The Making of the East London Mosque، از ہمایوں انصاری)

دوسری طرف خلافتِ احمدیہ مسلمہ کے علم بردار حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے لندن میں مسجد کے قیام کے لیے چندہ کی تحریک فرمائی، تو اس چندے کو صرف احمدی خواتین کے عطیات کے لیے محدود فرمایا۔ یاد رہے کہ جماعتِ احمدیہ میں شامل ہندوستانیوں کی اکثریت متوسط طبقے یا زیریں متوسط طبقے سے تعلق رکھتی تھی۔ وہ اپنی بیویوں بیٹیوں کو کس قدر جیب خرچ دے سکتے ہوں گے۔ مگر انہی معمولی رقوم سے ان احمدی خواتین نے لندن مسجد کے لیے چندے پیش کرنے شروع کیے۔ اپنے زیور پیش کردیے اور کوئی بھی چیز جو کسی بھی قیمت کے عوض کچھ رقم پیدا کرسکتی ہو، اس عظیم مقصد کے لیے خلافتِ احمدیہ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے پیش کردی۔

لندن مسجد کے لیے سید امیر علی وغیرہ کی رقوم کرایوں میں خرچ ہوتی رہیں۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد یہ جمع پونجی گھٹتی چلی گئی۔ ان کے ساتھیوں میں سے نو مسلم لارڈ ہیڈلی نے ایک خط لارڈ چیمبرلین (انگلستان کے سیکرٹری آف سٹیٹ برائے ہندوستان) کو تحریر کیا جو واضح طور پر لندن مسجد کے لیے مالی امداد کی درخواست تھی۔ (بحوالہ انڈیا آفس ریکارڈ، لارڈ چیمبرلین پیپرز)

یہ کوششیں ابھی جاری تھیں کہ ہندوستان کی غریب خواتین کے چندوں سے، بغیر کسی بھی سلطنت یا حکومت کی امداد کے، خلافتِ احمدیہ مسلمہ نے فضل مسجد کے نام سے لندن کے علاقہ ساؤتھ فیلڈز میں ایک مسجد تعمیر کر دی۔ یہ مسجد لندن کی پہلی اور کئی سال تک واحد مسجد بھی ٹھہری۔ خدمتِ اسلام کا زبردست کام یہیں سے ہوا۔ یہیں مسلمان نمازیں ادا کرنے آتے رہے۔ یہیں محمد علی جناح صاحب اور علامہ محمد اقبال صاحب جیسے مشاہیر نے نمازیں ادا کیں۔

خلافتِ عثمانیہ کے زوال اور خلافتِ حقہ اسلامیہ احمدیہ کے عروج کا سفر

اس مسجد کا سنگِ بنیاد رکھے جانے کا وقت بھی عجیب تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ اسی سال یعنی 1924ء میں خلافتِ عثمانیہ کی صف ترک انقلاب نے لپیٹ دی اور عثمانی خلیفہ صاحب کو اورئینٹ ایکسپریس پر سوار کر کے پیرس روانہ کر دیا۔ جہاں اس نام نہاد خلیفہ نے بقیہ زندگی خاموشی اور گمنامی میں گزارنی تھی۔

دوسری طرف اسی وقت ہندوستان سے خلیفۃ المسیح بھی پیرس کے لیے عازم سفر تھے۔ مگر مقاصد میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے پیرس میں مختصر قیام کے دوران پیرس میں تعمیر ہونے والی مسجد کا دورہ کرنا تھا۔ اس کے لیے چندہ بھی دینا تھا۔ اور وہاں جاکر وہ اذان آپ کی جماعت کے نصیب میں لکھی تھی جو اس مسجدیعنی Grand Mosque of Parisکی پہلی اذان قرار پانا تھی اور وہ نماز پڑھانی تھی جو اس مسجد میں ادا ہونے والی پہلی باجماعت نماز کے طور پر تاریخ میں درج ہونا تھی۔ جہاں کے اخبارات کے ذریعہ سرزمینِ فرانس کو اسلام کے پیغام سے آشنا کرنا تھا اور یہاں سے آگے بڑھ کر لندن پہنچنا تھا جہاں اس تاریخی اور تاریخ ساز مسجد کا سنگ بنیاد رکھنا تھا جو آج بھی اپنی تمام تر عاجزی کے ساتھ مگر فخر کا تاج پہنے لندن کی سرزمین پر ایستادہ ہے۔ جہاں سے آج بھی دن میں پانچ مرتبہ خدائے واحد کا نام بلند ہوتا ہے۔ اسی دورہ کے دوران مذاہب عالم کانفرنس میں اسلام کی نمائندگی کا شرف بھی خلافتِ احمدیہ کو حاصل ہونا تھا۔

پس کیسی عجیب بات ہے کہ دو خلافتوں کے سربراہ دو خلفاء بیک وقت مغرب کا رخ تو کرتے ہیں، مگر ایک اپنے زوال کو گمنامی کی ریت میں چھپانے اور دوسرا اور حقیقی خلیفہ اسلام کی سربلندی کی مہمات کی داغ بیل ڈالنے کے لیے۔

خلافتِ عثمانیہ کے زوال اور خلافتِ احمدیہ مسلمہ کے عروج کی کہانی دلچسپ تو ہے ہی مگر طویل بھی ہے۔ ایک مضمون اس کا ہرگز متحمل نہیں ہو سکتا۔ لیکن تاریخ کے اس باب کا اختتام ہم یہ بتا کر کرتے ہیں کہ وہ عاجزانہ سی مجلس شوریٰ جس نے انجمن ترقی اسلام کی بنیاد رکھی، خلافتِ احمدیہ کی رہ نمائی میں پنپتی رہی۔ یہ انجمن ترقی اسلام خود بھی ترقی کرتی ہوئی تحریک جدید کی شکل میں زیادہ مستحکم اور مضبوط ہوئی جس کے ذریعہ خلافتِ احمدیہ کےزیر سایہ دنیا بھر میں تبلیغِ اسلام کا کام جاری ہوا اور آج تک اس کا قدم ہر گزرتے دن کے ساتھ ترقی کی شاہراہ پر ہے۔

خلافتِ خامسہ کا دورِ فرقان

خلافتِ عثمانیہ کو صفحہ ہستی سے غائب ہوئے ایک صدی ہونے کو ہے۔ اس دوران خلافتِ احمدیہ چار شاندار ادوار سے گزری اور اسلام کی نیک نامی اور اشاعت کے لیے کوشاں رہی۔ 2003ء میں خلافتِ احمدیہ کا پانچواں دور شروع ہوا اور تب سے اب تک اس دورمیں ہر روزاسلام کی سربلندی کا ایک نیا ورق تحریر ہورہا ہے۔

خلافتِ خامسہ کاآغاز جس وقت میں ہوا، وہ اسلام پر شدید ترین حملوں کے دور کا بھی نقطہ آغاز تھا۔ تمام دنیا کی اجتماعی نفسیات میں 11/9 کا واقعہ ابھی تازہ تھا۔ لفظ ‘اسلام’ کو ‘دہشت’ کے مترادف کے طور پر متعارف کروانے کی مہم زور پکڑ رہی تھی۔ ایسے میں دنیا کے مذہبی، سیاسی اور معاشرتی منظر نامے پر خلافتِ خامسہ کا دور طلوع ہوا۔ سیدنا حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خلیفۃ المسیح کی حیثیت سے اسلام کے دفاع کے لیے خدا تعالیٰ کی طرف سے مسندخلافت پر فائز فرمائے گئے۔ اور پھر یہ ہوا کہ

لگتا تھا دیکھنے میں انسان کم سخن

جب بولنے پر آیا، زمانے پہ چھا گیا

کیا امریکہ، کیا افریقہ، کیا یورپ، ایشیا اور مشرق بعید۔ آپ ملکوں ملکوں اسلام کا پر امن پیغام لے کر پہنچے۔ جہاں اسلام کے خلاف مہم کو بڑی بڑی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل تھی، وہاں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ صرف خدا تعالیٰ کے فضل اورتائید اور نصرت پر بھروسہ کرتے ہوئے اس مہم کے سامنے ڈٹ کر اسلام کے دفاع کا کام کرنے لگے۔ ایم ٹی اے کے ریکارڈ میں محفوظ سینکڑوں انٹرویوز بتاتے ہیں کہ حضور کی ان مجالس میں آنے والے نامی گرامی با اثر لوگ اس بات کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکے کہ اسلام کا یہ چہرہ تو بہت ہی دلفریب ہے۔ لوگوں کے یہ اعتراف بھی ریکارڈ پر موجود ہیں کہ اگر کبھی ہم نے کوئی مذہب اپنایا تو وہ بلاشبہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام ہی ہوگا۔

دس سال کا عرصہ یوں گزرا کہ خلافتِ احمدیہ کے مظہرِ خامس نے دنیا کو اسلام کی تعلیم سے خوب متعارف کروایا۔ دنیا بھر میں مساجد کا قیام ہوا، مشن ہاؤس قائم ہوئے، مغربی ممالک میں جامعات کا قیام عمل میں آیا اور مبلغین تیار ہونے لگے۔ اسلام کی تعلیمات پر مبنی لٹریچر طبع ہو کر دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہونے لگا۔ یوں اسلام کا پر امن اور واحد قابلِ عمل پیغام دنیا کے کناروں تک یوں پھیلا کہ جس کی مثال پہلے کہیں موجود نہ تھی۔

خلافتِ خامسہ کے دس سال مکمل ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے دنیا کے لیے اس بات کا ثبوت پیدا فرمایا کہ خلافتِ حقہ اسلامیہ اور اس کے گرد تمام بحثیں اور الجھنیں دور ہو جائیں۔ پس مشکلات کے اس دور میں خلافت کے نام پر ایک اَورکھیل کھیلا گیا اور ایک اور دفعہ یہ ثابت ہوگیا کہ خلافتِ احمدیہ ہی خلافت حقہ اسلامیہ کہلانے کے لائق ہے۔

14؍ مئی 2014ء کو Terrorist Designations of Groups Operating in Syria کے نام سے ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں بتایا گیا کہ ISIS کے نام سے جو دہشت گرد تنظیم مشرقِ وسطیٰ میں پنپ رہی تھی اب ابوبکر بغدادی کو اپنے خلیفہ کے طور پر سامنے لانے والی ہے۔ یعنی دہشت گردی کی علامت یہ تنظیم اور یہ شخص خلافت کو دہشت گردی کی علامت بنانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ ایسے میں جب کہ مغرب پہلے ہی ایسے کسی موقع کے انتظار میں گھات لگائے بیٹھا تھا۔

اس رپورٹ کے صرف 13دن بعد جماعتِ احمدیہ نے ہر سال کی طرح یوم خلافت یعنی خلافتِ احمدیہ کا یومِ تاسیس منایا۔ اس روز حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے عرب دنیا سے خطاب فرمایا اور انہیں آنحضورﷺ کی تعلیمات کی یاددہانی کرواتے ہوئے پُر امن اسلام سے وابستہ ہونے کی دعوت دی۔

اس پیغام کے چند دن بعد جون 2014ء میں ابوبکر البغدادی نے قتل و غارت گری اور دہشت گردی کے نام پر اپنی خلافت کا اعلان کردیا۔ اس ابتدائی مرحلہ پر ہی مسلمانوں کے لیے فیصلہ بہت آسان ہوجا نا چاہیے تھا کہ کون پیغمبرِ اسلامﷺ کی جانشینی کا حق ادا کررہا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح یا خون کا پیاسا ابوبکرالبغدادی؟

یہی وہ سال تھا جب خلافتِ احمدیہ کے زیر انتظام مذاہب عالم کانفرنس لندن میں منعقد ہوئی۔ تمام بڑے مذاہب کے نمائندے اپنے مذہب کا موقف بیان کرنے کے لیے لندن کے گلڈ ہال میں مدعو تھے۔ یہاں ان تمام مذاہب کے سامنے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کا اصل چہرہ پیش کیا اور لوگوں کے دلوں میں اسلام کی محبت کا گہرا نقش ثبت فرما دیا۔

وسط 2014ء میں دہشت گرد ی کے نام پر قائم خلافت نے شام میں معدنی تیل کے سب سے بڑے ذخیرے کو اپنے قبضے میں لے لیا اور یہاں کام کرنے والےدرجنوں ملازمین کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ حضرت یونس ؑسے منسوب مزار کو بم سے اڑا کر لوگوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی۔

انہی ایام کے لگ بھگ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ جرمنی کےشہر کارلسروئے میں جرمنی کے دانشوروں، سیاستدانوں اور دیگر مکاتبِ فکر کے نمائندوں کو بتا رہے تھے کہ اسلام مذہبی آزادی، باہمی امن و آشتی کا علمبردار ہے اورخلافت تب تک خلافت نہیں ہوسکتی جب تک وہ ان اقدار کو مقدم نہ رکھے۔ اور یہ بھی کہ خلافتِ احمدیہ بغیر کسی بھی طرح کے سیاسی مقاصد کے یہ سب اقدار مقدم رکھے ہوئے ہے۔

ستمبر 2014ءمیں دہشت گرد خلافت نےامریکی اور برطانوی یرغمالوں کے سرقلم کیے اور ان اندوہناک واقعات کی ویڈیو دنیا بھر میں شائع کی۔

یہ وہ وقت تھا جب حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ آئرلینڈ میں مسجد مریم کا افتتاح فرما رہے تھے۔ وہاں موجود معززین کو اسلام میں حضرت مریم کے مقام سے روشناس کروارہے تھے اور بتا رہے تھے کہ مسجد کا نام انہی کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اور یہ بھی کہ یہ مذہبی ہم آہنگی کی طرف ایک قدم ہے جو یقیناً ہم سب کو ایک دوسرے کے مذاہب کا احترام کرتے ہوئے پر امن شہریوں کے طور پر رہنے کا موقع فراہم کرے گا۔

2015ء کے سال کا آغاز ہوا تو دہشت گرد خلافت نے ایک یرغمال جاپانی صحافی کا سر قلم کیا اور ایک آڈیو پیغام کے ذریعہ دنیا کو نہایت بے شرمی کا ثبوت دیتے ہوئےاپنے اس غیر انسانی فعل سے آگاہ کیا۔

اسی سال حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ جب جاپان تشریف لے گئےتوحضور نے جاپانی قوم کو دنیا میں امن کے قیام کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی دعوت دی۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے انہیں یاددہانی کروائی کہ جنگ و جدل کے بد نتائج سے اگر کوئی بہت قریب سے واقف ہے تو وہ جاپانی قوم ہی ہے۔ اور یہ آگاہی انہیں دنیا میں قیام امن اور جنگ و جدل سے اعراض کی طرف اور بھی راغب کرسکتی ہے اور یوں وہ قیام امن کے لیے صفِ اول میں کھڑی ہونے والی قوم کہلائے گی۔

یہ خونی اور نام نہاد خلافت 2017ء میں اپنی موت آپ مر گئی۔ اسلام کی تاریخ میں یہ دوسری مرتبہ ہوا کہ خلافت کے نام پر قائم نظام دم توڑ گئے اور خلافتِ احمدیہ سلامت رہی۔ فتح مند رہی۔ ہر نئے دن کے ساتھ فتح و ظفر کی شاہراہیں عبور کرتی نئی منزلوں کی طرف رواں دواں رہی۔ آج بھی ہے۔ اور ہمیشہ رہے گی۔ انشاء اللہ

اس طرح کے بہت سے واقعات ہیں جو ساتھ ساتھ رکھ کر دیکھے جائیں تو کسی کو بھی معلوم ہو جائے کہ خلافتِ راشدہ کے بعد اگر کوئی نظام خلافتِ حقہ اسلامیہ کہلانے کے لائق ہے تو خلافتِ احمدیہ مسلمہ کے علاوہ کوئی دوسرا نظام نہیں۔ کیسے ہو؟ اس خلافت کا سرچشمہ وہ وجود ہے جسے اللہ تعالیٰ نے خاتم الخلفا ءکے لقب سے نوازا۔

اللہ تعالیٰ ہمیں بھی خلافتِ احمدیہ سے وفا کرنے والا بنائے اور باقی دنیا کو بھی خلافتِ احمدیہ سے وابستہ فرمائے کہ اب اسلام کی موعود فتح اسی نظام کے ساتھ وابستہ ہے۔

افسوس ہے کہ یہ جابر حکمران اور کاٹ کھانے والے بادشاہ آنحضورﷺ کی پیشگوئی کے مطابق خلافت علیٰ منہاج نبوت کے قریب بھی نہیں، کجا یہ کہ انہیں خلیفۃ الرسولﷺ تسلیم کیا جاتا ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button