سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عشقِ قرآن

(’اے ولیم‘)

قرآن کریم سے عشق ومحبت کااظہارتوہرکوئی مسلمان کرتاہی ہے۔ لیکن جس زمانے میں امام الزمان امام مہدی علیہ السلام کی بعثت ہوئی اس زمانے میں قرآن کریم سے عشق ومحبت ایک اورہی رنگ اختیارکرچکاتھا۔ اب قرآن سے محبت کااظہاراس کوقیمتی سے قیمتی ریشمی غلافوں میں بندکرکے کیاجارہاتھا۔ اس کواونچے طاقچوں میں سجایاجاتاتھا کہ اس کی طرف پیچھانہ ہو۔ امیرالمؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی روایت کردہ حدیث نبوی کاعملی اظہار اب ہورہاتھا جس میں وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ لوگوں پرعنقریب ایسازمانہ آنے والا ہے کہ اسلام کاصرف نام باقی رہ جائے گا اور قرآن کی صرف تحریرہی رہ جائے گی۔ مسجدیں تو لوگوں سے بھری ہوئی ہوں گی لیکن ہدایت سے خالی اورویران، ان کے علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے ان سے ہی فتنہ نکلے گااور انہیں میں واپس لوٹ جائے گا، یعنی وہ فتنوں کے ماسٹرمائنڈ ہوں گے۔

عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِﷺ ’’يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يَبْقَى مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُهُ، وَلَا يَبْقَى مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسْمُهُ، مَسَاجِدُهُمْ عَامِرَةٌ وَهِيَ خَرَابٌ مِنَ الْهُدَى، عُلَمَاؤُهُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ أَدِيْمِ السَّمَاءِ مِنْ عِنْدِهِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَةُ وَفِيْهِمْ تَعُوْدُ‘‘۔

(شعب الایمان للبیہقی1364)

یہ وہ زمانہ تھا کہ قرآن ختم شریف کے موقع پرپڑھے جاتے، مردوں کوثواب پہنچانے کے لئے پڑھے جاتے، اس پرغوروفکر، تدبروفہم اس کاسوال ہی پیدانہ ہوتاتھا۔ اکثریت توعربی سے ویسے ہی نابلدتھے۔ ان کومعلوم ہی کیاتھا کہ اس کے اندرلکھاکیاہے۔ اور جب ترجمہ کرنے کی باری آتی تو ترجمہ کرنے کوکفراورترجمہ کرنے والے کوکافرکہہ کرشورڈالاجاتا۔ ایسے میں آپ ؑنے عشق ومحبت ِقرآن میں احیاء وتجدید کا کارنامہ یہ سرانجام دیاکہ عشق کے اس برائے نام سے دستور و رواج کو بدل ڈالا اور فرمایاکہ قرآن کو ریشمی غلافوں سے باہرنکالواوراس کوپڑھو، اس میں غوروفکرکرو، تدبرکرو، اوراس سے اتنا پیار کروکہ کسی سے نہ کیا ہو۔ آپؑ نے فرمایاکہ تمہاری کوئی بھی دینی ضرورت نہیں ہے جواس میں نہ ہو۔

(ماخوذ از کشتیٔ نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ27)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’حدیثوں میں یہ بات بوضاحت لکھی گئی ہے۔ کہ مسیح موعود اس وقت دنیامیں آئے گا کہ جب علم قرآن زمین پر سے اٹھ جائےگااورجہل شیوع پاجائے گا۔ یہ وہی زمانہ ہے جس کی طرف ایک حدیث میں یہ اشارہ ہے

لَوْکَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقًا عِنْدَالثُّرَیَّا لَنَالَہٗ رَجُلٌ مِّنْ فَارِس…

آپ لوگ تھوڑے سے تامل کے ساتھ اس بات کوسمجھ سکتے ہیں کہ حدیثوں میں یہ واردہے کہ آخری زمانہ میں قرآن زمین سے اٹھا لیاجائے گا اور علم قرآن مفقودہوجائے گا۔ اورجہل پھیل جائے گا۔ اورایمانی ذوق اور حلاوت دلوں سے دورہوجائے گی۔ پھران حدیثوں میں یہ حدیث بھی ہے کہ اگرایمان ثریاکے پاس بھی جا ٹھہرے گا یعنی زمین پراس کانام ونشان نہیں رہے گا توایک آدمی فارسیوں میں سے اپنا ہاتھ پھیلائے گااوروہیں ثریاکے پاس سے اس کولے لے گا۔ اب تم خودسمجھ سکتے ہوکہ اس حدیث سے صاف معلوم ہوتاہے کہ جب جہل اور بے ایمانی اورضلالت جودوسری حدیثوں میں دخان کے ساتھ تعبیرکی گئی ہے دنیامیں پھیل جائے گی اورزمین میں حقیقی ایمان داری ایسی کم ہوجائیگی کہ گویاوہ آسمان پراٹھ گئی ہوگی اورقرآن کریم ایسا متروک ہوجائے گا کہ گویا وہ خدائے تعالیٰ کی طرف اٹھایاگیاہوگا۔ تب ضرور ہے کہ فارس کی اصل سے ایک شخص پیداہو اور ایمان کوثریا سے لے کر پھرزمین پرنازل ہو۔ سویقیناً سمجھو کہ نازل ہونے والا ابن مریم یہی ہے۔‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3صفحہ 455-456)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’یقیناً یہ سمجھو کہ جس طرح یہ ممکن نہیں کہ ہم بغیر آنکھوں کے دیکھ سکیں یا بغیر کانوں کے سن سکیں یا بغیر زبان کے بول سکیں اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ بغیر قرآن کے اس پیارے محبوب کا منہ دیکھ سکیں۔ مَیں جوان تھا اب بوڑھا ہوا مگر مَیں نے کوئی نہ پایا جس نے بغیر اس پاک چشمہ کے اس کھلی کھلی معرفت کا پیالہ پیا ہو۔‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 442-443)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’مَیں جوان تھا اب بوڑھا ہو گیا اور اگر لوگ چاہیں تو گواہی دے سکتے ہیں کہ مَیں دنیاداری کے کاموں میں نہیں پڑا اور دینی شغل میں ہمیشہ میری دلچسپی رہی۔ مَیں نے اس کلام کو جس کا نام قرآن ہے نہایت درجہ تک پاک اور روحانی حکمت سے بھرا ہوا پایا۔ نہ وہ کسی انسان کو خدا بناتا اور نہ روحوں اور جسموں کو اس کی پیدائش سے باہر رکھ کر اس کی مذمت اور نندیا کرتا۔ اور وہ برکت جس کے لئے مذہب قبول کیا جاتا ہے اس کو یہ کلام آخر انسان کے دل پر وارد کر دیتا ہے اور خدا کے فضل کا اس کو مالک بنا دیتا ہے۔ پس کیونکر ہم روشنی پاکر پھر تاریکی میں آویں۔ اور آنکھیں پا کر پھر اندھے بن جاویں۔‘‘

(سناتن دھرم، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 474)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے بیان فرماتے ہیں:

’’بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم۔ اے کہ والد صاحب تین کتابیں بہت کثرت کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ یعنی قرآن مجید، مثنوی رومی اور دلائل الخیرات اور کچھ نوٹ بھی لیاکرتے تھے اور قرآن شریف بہت کثرت سے پڑھا کرتے تھے۔‘‘

(سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر190)

حضرت صاحبزادہ مرز ا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے بیان فرماتے ہیں:

’’بیان کیا مجھ سے میری نانی اماّں نے کہ ایک دفعہ جب تمہارے نانا کی بدلی کاہنووان میں ہوئی تھی۔ میں بیمار ہو گئی تو تمہارے نانا مجھے ڈولی میں بٹھلا کر قادیان تمہارے دادا کے پاس علاج کے لئے لائے تھے۔ اور اسی دن میں واپس چلی گئی تھی۔ تمہارے دادا نے میری نبض دیکھ کر نسخہ لکھ دیا تھا۔ اور تمہارے نانا کو یہاں اور ٹھہرنے کے لئے کہا تھا۔ مگر ہم نہیں ٹھہر سکے۔ کیونکہ پیچھے تمہاری ا ماں کو اکیلا چھوڑ آئے تھے۔ نیز نانی امّاں نے بیان کیا کہ جس وقت میں گھر میں آئی تھی میں نے حضرت صاحب کو پیٹھ کی طرف سے دیکھا تھا کہ ایک کمرے میں الگ بیٹھے ہوئے رحل پر قرآن شریف رکھ کر پڑھ رہے تھے۔ میں نے گھر والیوں سے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ یہ مرزا صاحب کا چھوٹا لڑکا ہے اور بالکل ولی آدمی ہے۔ قرآن ہی پڑھتا رہتا ہے۔‘‘

(سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر 239)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے بیان فرماتے ہیں:

’’مکرمی مفتی محمد صادق صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے حضرت مسیح موعوؑد کو صرف ایک دفعہ روتے دیکھا ہے اور وہ اس طرح کہ ایک دفعہ آپ خدام کے ساتھ سیر کے لیے تشریف لے جارہے تھے اور ان دنو ں میں حاجی حبیب الرحمٰن صاحب حاجی پورہ والوں کے دامادقادیان آئے ہو ئے تھے۔ کسی شخص نے حضرت صاحب سے عرض کیا کہ حضور یہ قرآن شریف بہت اچھا پڑھتے ہیں۔ حضرت صاحب وہیں راستہ کے ایک طرف بیٹھ گئے اور فرمایا کہ کچھ قرآن شریف پڑھ کر سنائیں۔ چنانچہ انہوں نے قرآن شریف سنا یا تو اس وقت میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی وفات پر میں نے بہت غور سے دیکھا مگر میں نے آپ کو روتے نہیں پایا۔ حالانکہ آپ کو مولوی صاحب کی وفات کا نہایت سخت صدمہ تھا۔

خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ بالکل درست ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بہت کم روتے تھے اور آپ کو اپنے آپ پر بہت ضبط حاصل تھا اور جب کبھی آپ روتے بھی تھے تو صرف اس حد تک روتے تھے کہ آپ کی آنکھیں ڈبڈباآتی تھیں۔ اس سے زیادہ آپ کو روتے نہیں دیکھا گیا۔‘‘

(سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر 436)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓایم۔ اےبیان فرماتے ہیں:

’’میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایام مقدمات کرم دین میں حضور علیہ السلام کئی کئی روز تک گورداسپور میں ہی رہتے تھے کیونکہ روزانہ پیشی ہوتی تھی۔ تحصیل کے سامنے جو تالاب ہے اس کے جنوب میں مکان کرایہ پر لیا گیا تھا۔ ایک روز حضورؑ مکان کے اوپر کے حصہ میں تھے کہ نیچے والے حصہ میں ایک شخص(صوفی غلام محمد۔ شمائل احمد صفحہ 23) قرآن کریم تکلف کے لہجہ میں پڑھ رہا تھا۔ سن کر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ تو آواز کو ہی سنوارتا رہتا ہے گویا تکلف سے قرآن کریم پڑھنے کو ناپسند فرمایا۔‘‘

(سیرت المہدی جلد دوم روایت 1441)

٭شمائل احمد صفحہ 23 شائع کردہ مجلس خدام الاحمدیہ۔ طبع دوم، میں اس شخص کا نام ’’صوفی غلام محمد‘‘ آیا ہے۔

سیرت المہدی میں ایک روایت ہے کہ

جب 1907ء میں حضرت ام المؤمنین لاہور تشریف لے گئیں توان کی واپسی کی اطلاع آنے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کو لانے کے لیے بٹالہ تک تشریف لے گئے۔ بعض اور لوگ بھی حضرت صاحب کے ساتھ ہم رکاب ہوئے۔ حضرت صاحب پالکی میں بیٹھ کر روانہ ہوئے جسے آٹھ کہا ر باری باری اُٹھا تے تھے۔ قادیان سے نکلتے ہی حضرت صاحب نے قرآن شریف کھول کر اپنے سامنے رکھ لیا اور سورہ فاتحہ کی تلاوت شروع فرمائی اور میں غور کے ساتھ دیکھتا گیا کہ بٹالہ تک حضرت صاحب سورہ ٔفاتحہ ہی پڑھتے چلے گئے اور دوسرا ورق نہیں اُلٹا۔

(سیرت المہدی روایت نمبر 438)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے فرماتے ہیں:

’’حضرت مسیح موعود کی زندگی کا یہ زمانہ (شباب کا زمانہ۔ ناقل) بھی مطالعہ کے انہماک میں گزرا۔ آپ کے وقت کا اکثر حصہ کتب کے مطالعہ میں گزرتا تھا اور سب سے زیادہ انہماک آپ کو قرآن شریف کے مطالعہ میں تھا حتّٰی کہ بعض دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ اس زمانہ میں ہم نے آپ کو جب بھی دیکھا قرآن پڑھتے دیکھا۔ آپ کا مطالعہ سرسری اور سطحی رنگ کا نہیں ہوتا تھا بلکہ اپنے اندر ایسا انہماک رکھتا تھا کہ گویا آپ معانی کی گہرائیوں میں دھسے چلے جاتے ہیں۔ زمانۂ ماموریت کے متعلق جبکہ دوسرے کاموں کی کثرت کی وجہ سے مطالعہ کا شغل لازماً کم ہو گیا تھا ایک شخص کا بیان ہے کہ مَیں نے ایک دفعہ آپ کو قادیان سے بٹالہ تک بیل گاڑی میں سفر کرتے دیکھا۔ آپ نے قادیان سے نکلتے ہی قرآن شریف کھول کر سامنے رکھ لیا۔ اور بٹالہ پہنچنے تک جس میں بیل گاڑی کے ذریعہ کم و بیش پانچ گھنٹے لگے ہوں گے۔ آپ نے قرآن شریف کا ورق نہیں الٹا۔ اور انہی سات آیتوں (سورۂ فاتحہ) کے مطالعہ میں پانچ گھنٹے خرچ کر دئیے۔‘‘

(سلسلہ احمدیہ صفحہ 11۔ مطبوعہ نظارت اشاعت ربوہ)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے بیان فرماتے ہیں:

’’ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جس دن شب کو عشاء کے قریب حسین کامی سفیر روم قادیان آیا اس دن نماز مغرب کے بعد حضرت صاحب مسجد مبارک میں شاہ نشین پر احباب کے ساتھ بیٹھے تھے کہ آپ کو دوران سر کا دورہ شروع ہوا اور آپ شاہ نشین سے نیچے اتر کر فرش پر لیٹ گئے اور بعض لوگ آپ کو دبانے لگ گئے مگر حضور نے دیر میں سب کو ہٹا دیا۔ جب اکثر دوست وہاں سے رخصت ہوگئے تو آپ نے مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم سے فرمایا کہ کچھ قرآن شریف پڑھ کر سنائیں۔ مولوی صاحب مرحو م دیر تک نہایت خوش الحانی سے قرآن شریف سُناتے رہے یہاں تک کہ آپ کو اِفاقہ ہو گیا۔‘‘

(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر 462)

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ فرماتے ہیں:

’’مرزا صاحب کی مرغوب خاطر اگر کوئی چیز تھی تو وہ مسجد اور قرآن شریف۔ مسجد ہی میں عموماً ٹہلتے رہتے اور ٹہلنے کا اس قدر شوق تھا اور محو ہو کر اتنا ٹہلتے کہ جس زمین پر ٹہلتے وہ دب دب کر باقی زمین سے متمیز ہو جاتی۔‘‘

(حیات احمد جلد اول صفحہ 81)

حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ تحریر فرماتے ہیں:

’’آپؑ کے مشاغل بجز عبادت و ذکر الٰہی اور تلاوت قرآن مجید اور کچھ نہ تھے۔ آپؑ کو یہ عادت تھی کہ عموماً ٹہلتے رہتے اور پڑھتے رہے۔ دوسرے لوگ جو حقائق سے ناواقف تھے وہ اکثر آپؑ کے اس شغل پر ہنسی کرتے۔ قرآن مجید کی تلاوت اس پر تدبر اور تفکر کی بہت عادت تھی۔ خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ آپؑ کے پاس ایک قرآن مجید تھا۔ اس کو پڑھتے اور اس پر نشان کرتے رہتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ مَیں بلامبالغہ کہہ سکتا ہوں کہ شاید دس ہزار مرتبہ اس کو پڑھا ہو۔ اس قدر تلاوت قرآن مجید کا شوق اور جوش ظاہر کرتا ہے کہ آپؑ کو خدا تعالیٰ کی اس مجید کتاب سے کس قدر محبت اور تعلق تھا۔ اور آپؑ کو کلام الٰہی سے کیسی مناسبت اور دلچسپی تھی۔ اسی تلاوت اور پُرغور مطالعہ نے آپ کے اندر قرآن مجید کا ایک بحر ناپیدا کنار آپ کو بنا دیا تھا۔ جو علم کلام آپ کو دیا گیا اس کی نظیر پہلوں میں نہیں ملتی…غرض ایک تو قرآن مجید کے ساتھ غایت درجہ کی محبت تھی۔ اور اس کی عظمت اور صداقت کے اظہار کے لئے ایک رَو بجلی کی طرح آپ کے اندر دوڑ رہی تھی۔ جس کا ظہور بہت جلد ہو گیا۔ قرآن مجید کے ساتھ محبت اور عشق کے اظہار میں آپ کا فارسی، عربی، اردو کلام شاہد ناطق ہے۔ ایسے رنگ اور اسلوب سے قرآن کریم کی مدح کی ہے کہ دوسروں کو وہ بات نصیب نہیں ہوئی۔

(حیات احمد جلد اول صفحہ 172-173)

ڈاکٹر بشارت احمد صاحب لکھتے ہیں:

’’آپؑ کا ایک قرآن شریف مولانا محمد علی صاحب کے پاس بھی ہے جسے آپ نے سترہ سال پڑھا تھا۔ پڑھ پڑھ کر اس کے ورق تک گھسا دئیے ہیں۔ اس کے حاشیہ پر اپنی قلم سے اوامر و نواہی کے نمبر بھی دئیے ہیں۔‘‘

(مجدد اعظم جلد دوم صفحہ 1381، شائع کردہ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور)

قرآن مجید کے لئے غیرت

حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ تحریر فرماتے ہیں:

’’حضرت مسیح موعودؑ بحیثیت ایک باپ کے نہایت شفیق اور مہربان تھے۔ کبھی پسند نہیں کرتے تھے کہ لوگ بچوں کو ماریں۔ پھر اپنی اولاد کو جو خدا تعالیٰ کے نشانات میں سے تھی۔ ہر طرح دلداری فرماتے تھے …باوجود اس قدر نرمی اور شفقت علی الاولاد کے جب قرآن مجید کا کوئی معاملہ پیش آ جاتا تو بچوں کی کوئی حقیقت آپؑ کے سامنے نہ رہتی تھی۔ ایک مرتبہ حضرت صاحبزادہ میاں مبارک احمد اللّٰھُمَّ اجْعَلْہٗ لَنَا فَرَطًا سے جبکہ وہ بہت چھوٹے بچے تھے۔ قرآن مجید کی بے ادبی ہو گئی۔ اس وقت آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور ایسے زور سے طمانچہ مارا کہ انگلیوں کے نشان اس گلاب جیسے رخسار پر نمایاں ہو گئے۔ اور فرمایا اس کومیری آنکھوں کے آگے سے ہٹا لو۔ یہ اب ہی قرآن شریف کی بے ادبی کرنے لگا ہے تو پھر کیا ہو گا۔‘‘

(حیات احمد جلد اول حصہ دوم صفحہ 174)

(ایک روایت کے مطابق مونہہ پرنہیں کاندھے پرچپت لگاتے ہوئے پرے کیاتھا۔ )

حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ فرماتے ہیں:

’’حضرت مسیح موعودؑ کی ہمیشہ سے عادت تھی کہ جب وہ اپنے کمرے یا حجرے میں بیٹھتے تو دروازہ بند کر لیا کرتے تھے۔ یہی طرز عمل آپؑ کا سیالکوٹ میں تھا لوگوں سے ملتے نہیں تھے۔ جب کچہری سے فارغ ہو کر آتے تو دروازہ بند کر کے اپنے شغل اور ذکر الٰہی میں مصروف ہو جاتے۔ عام طور پر انسان کی عادت متجسس واقعہ ہوئی ہے۔ بعض لوگوں کو یہ ٹوہ لگی کہ یہ دروازہ بند کر کے کیا کرتے رہتے ہیں۔ ایک دن ان ٹوہ لگانے والوں کو حضرت مسیح موعودؑ کی اس مخفی کارروائی کا سراغ مل گیا۔ اور وہ یہ تھا کہ آپ مصلّٰی پر بیٹھے ہوئے قرآن مجید ہاتھ میں لئے دعا کر رہے ہیں کہ

’’یا اللہ تیرا کلام ہے۔ مجھے تو تُو ہی سمجھائے گا تو مَیں سمجھ سکتا ہوں۔‘‘

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؑ قرآن فہمی کے لئے دعاؤں اور توجہ الیٰ اللہ کو ہی اپنا راہ نما بناتے تھے۔‘‘

(حیات احمد جلد اول حصہ دوم صفحہ 175)

قرآن کریم سے عشق ومحبت کاایک پہلویہ بھی ہے کہ آپ نے نثر میں تو قرآن کی خوبیاں اور عظمتوں کاذکرکیاہی ہے۔ نظم میں بھی فرمایا۔ اوراس میں آپ ؑایک امتیازی اور منفرد شان کے حامل ہیں۔ شاذہی پہلے کبھی کسی نے قرآن کریم کے محاسن اور حسن وجمال کاتذکرہ نظم میں کیاہو۔ آپ نے عربی، فارسی اور اردو اشعار میں بھی قرآن کے حسن وجمال کا ذکر کیا ہے۔ صرف نمونہ کے طورپرچند اشعار پیش ہیں:

آپؑ اپنے ایک منظوم کلام میں فرماتے ہیں:

جمال و حسن قرآں نور جانِ ہر مسلماں ہے

قمر ہے چاند اَوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے

نظیر اس کی نہیں جمتی نظر میں فکر کر دیکھا

بھلا کیونکر نہ ہو یکتا کلام پاک رحماں ہے

بہار جاوداں پیدا ہے اس کی ہر عبارت میں

نہ وہ خوبی چمن میں ہے نہ اس سا کوئی بُستاں ہے‘‘

(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول صفحہ 198 تا 201)

آپؑ اپنے ایک اور منظوم پاکیزہ کلام میں قرآنِ کریم سے عشق کا اظہار یوں کرتے ہیں:

’’نورِ فرقاں ہے جو سب نوروں سے اجلیٰ نکلا

پاک وہ جس سے یہ انوار کا دریا نکلا

حق کی توحید کا مُرجھا ہی چلا تھا پودا

ناگہاں غیب سے یہ چشمۂ اصفیٰ نکلا

یا الٰہی! تیرا فرقاں ہے کہ اک عالم ہے

جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا

سب جہاں چھان چکے ساری دکانیں دیکھیں

مئے عرفاں کا یہی ایک ہی شیشا نکلا

کس سے اس نور کی ممکن ہو جہاں میں تشبیہ

وہ تو ہر بات میں ہر وصف میں یکتا نکلا

پہلے سمجھے تھے کہ موسیٰ کا عصا ہے فرقاں

پھر جو سوچا تو ہر اِک لفظ مسیحا نکلا‘‘

(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول صفحہ 305)

آپؑ اپنے ایک فارسی کلام میں فرماتے ہیں:

از نور پاک قرآن صبح صفا دمیدہ

بر غنچہ ہائے دلہا باد صبا وزیدہ

ایں روشنی و لمعاں شمس الضحیٰ ندارد

وایں دلبری و خوبی کس در قمر ندیدہ

یوسف بقعرِ چاہے محبوس ماند تنہا

وایں یوسفے کہ تن ہا از چاہ برکشیدہ

از مشرقِ معانی صدہا دقائق آورد

قدِّ ہلال نازک زاں نازکی خمیدہ

کیفیت علومش دانی چہ شان دارد

شہدیست آسمانی از وحیٔ حق چکیدہ

اے کانِ دلربائی دانم کہ از کجائی

تو نورِ آں خدائی کیں خلق آفریدہ

(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1 صفحہ 304-305 حاشیہ نمبر2)

ترجمہ: قرآن کے پاک نور سے روشن صبح نمودار ہو گئی اور دلوں کے غنچوں پر بادِ صبا چلنے لگی۔

ایسی روشنی اور چمک تو دوپہر کے سورج میں بھی نہیں اور ایسی کشش اور حُسن تو کسی چاندنی میں بھی نہیں۔

یوسفؑ تو ایک کنویں کی تہ میں اکیلا گِرا تھا، مگر اِس یوسف نے بہت سے لوگوں کو کنویں میں سے نکالا ہے۔ منبعِ حقایق سے یہ سینکڑوں حقایق اپنے ہمراہ لایا ہے۔ ہلالِ نازک کی کمر اِن حقایق سے جھک گئی ہے۔

تجھے کیا پتہ کہ اس کے علوم کی حقیقت کس شان کی ہے، وہ آسمانی شہد ہے جو خدا کی وحی سے ٹپکا ہے۔

اے کانِ حُسن میں جانتا ہوں کہ تو کس سے تعلق رکھتی ہے، تُو تو اُس خدا کا نور ہے جس نے یہ مخلوقات پیدا کی۔

(ترجمہ از درثمین فارسی مترجم حضرت میر محمد اسماعیل صاحبؓ صفحہ74-75)

پھر آپ اپنے ایک عربی منظوم کلام میں فرماتے ہیں:

لَمَّا أری الْفُرقَانُ مِیْسَمَہُ تَرَدَّی مَنْ طَغٰی

مَنْ کَانَ نَابِغَ وَقتِہِ جَاءَالْمَوَاطِنَ ألْثَغَا

جب قرآن نے اپنی شکل دکھلائی تو ہر یک طاغی نیچے گر گیاجو شخص اپنے وقت کا فصیح اور جلد گو تھا وہ کُند زبان ہو کر میدان میں آیا۔

وَإذَا اَرَی وَجْہًا بِاَنْوَارِ الْجَمَالِ مُصَبَّغَا

فَدَرَی الْمُعَارِضُ اَنَّہُ اَلْغَا الْفَصَاحَۃَ اَوْ لَغَا

اور جب قرآن نے اپنا ایسا چہرہ دکھایا جو انوار جمال سے رنگین تھاتو معارض سمجھ گیا کہ وہ قرآن کے معارضہ میں فصاحت بلاغت سے دور ہے اور لغو بک رہا ہے۔

مَنْ کَانَ ذَا عَیْنِ النُّہٰی فَإِلٰی مَحَاسِنِہِ صَغٰی

إلَّا الَّذِیْ مِنْ جَہْلِہِ اَبْغَی الضَّلَالَۃَ اَوْ بَغٰی

جو شخص عقلمند تھا وہ قرآن کے محاسن کی طرف مائل ہو گیاہاں وہ باقی رہا جو گمراہی کا مددگار بنا اور ظلم اختیار کیا۔

عَیْنُ الْمَعَارِفِ کُلِّہَا اٰتَاہُ حِبٌّ مُبْتَغٰی

لَا یُنْبَئَنَّ بِبَحْرِہِ الذَّخَّارِ کَلْبًا مُّوْلَغَا

تمام معارف کا چشمہ خداتعالیٰ نے قرآن کو دیااور اس کے بحر زخّار سے اس کتے کو خبر نہیں دی جاتی جس کو تھوڑا سا پانی پلایا جاتا ہے۔

اِقْبَلْ عُیُوْنَ عُلُوْمِہِ اَوْ أَعرِضَنْ مُسْتَوْلِغَا

وَاتْبَعْ ہُدَاہُ أَوِ اعْصِہِ إنْ کُنْتَ مُلْغًا مُّتِّغَا

اس کے علموں کے چشمے کو قبول کر یا بے حیا بے باک کی طرح کنارہ کراور اس کی ہدایت کا فرمانبردار ہو جا یا اگر تُو احمق فحش گو اور دین کو تباہ کرنے والا ہے تو نافرمان بن جا۔

مَا غَادَرَ الْقُرْآنُ فِی الْمَیْدَانِ شَابًّا بُزْرَغَا

قَتَلَ الْعِدَا رُعْبًا وَّ إنْ بَارَی الْعَدُوُّ مُسَبِّغَا

قرآن نے میدان میں کسی ایسے جوان کو نہ چھوڑا جو جوانی میں بھرا ہوا تھادشمنوں کو اپنے رعب سے قتل کیا اگرچہ دشمن زرہ پہن کر آیا۔

قَدْ اَنْکَرُوْا جَہْلًا وَّ مَا بَلَغُوْہُ عِلْمًا مَّبْلَغَا

حَتَّی انْثَنَوْا کَالْخَائِبِیْنَ وَ اَضْرَمُوْا نَارَ الْوَغَا

مخالفوں نے جہل سے انکار کیا اور اس کے مقام بلند تک ان کا علم نہ پہنچ سکا یہاں تک کہ مقابلہ سے نومید ہو گئے اور جنگ کی آگ کو بھڑکایا۔

نورٌ عَلٰی نُوْرٍ ھُدٰی یَوْمًا فَیَوْمًا فِی الثَّغَا

مَنْ کَانَ مُنْکِرَ نُوْرِہِ قَدْ جِئْتُہُ مُتَفَرِّغَا

اس کی ہدایتیں نورعلیٰ نورہیںاوردن بدن وہ نورزیادتی میں ہے۔ اورجوشخص ا س کے نورکامنکرہے میں اسی کے لئے فارغ ہوکرآیاہوں۔

فِیْھَا الْعُلُوْمُ جَمِیْعُہَا وَ حَلِیْبُہَا لِمَنِ ارْتَغَا

فِیْہَا الْمَعَارِفُ کُلُّہَا وَ قَلِیْبُہَا بَلْ اَبْلَغَا

اوراس میں تمام علم ہیں اور اس میں علوم کادودھ ہے اس کے لئے جو اوپرکاحصہ کھا رہاہے۔ اور اس میں تمام معارف اوران کاکنواں بلکہ اس سے زیادہ ہے۔

(نورالحق حصہ اول، روحانی خزائن جلد8صفحہ 164)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’ہمارا خداوند کریم کہ جو دلوں کے پوشیدہ بھیدوں کو خوب جانتا ہے اس بات پر گواہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایک ذرّہ کا ہزارم حصہ بھی قرآن شریف کی تعلیم میں کچھ نقص نکال سکے یا بمقابلہ اس کے اپنی کسی کتاب کی ایک ذرّہ بھر کوئی ایسی خوبی ثابت کر سکے کہ جو قرآنی تعلیم کے برخلاف ہو اور اس سے بہتر ہو تو ہم سزائے موت بھی قبول کرنے کو تیار ہیں۔‘‘

(براہین احمدیہ ہر چہار حصص، روحانی خزائن جلد اول صفحہ 298بقیہ حاشیہ در حاشیہ نمبر 2)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’تم ہوشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اٹھاؤ۔ مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظل تھے سو تم قرآن کو تدبر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ اَلْخَیْرُ کُلُّہُ فِی الْقُرْاٰن کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں یہی بات سچ ہے افسوس ان لوگوں پر جو کسی اور چیز کو اس پر مقدم رکھتے ہیں تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سرچشمہ قرآن میں ہے کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی تمہارے ایمان کا مصدق یا مکذب قیامت کے دن قرآن ہے اور بجز قرآن کے آسمان کے نیچے اور کوئی کتاب نہیں جو بلاواسطہ قرآن تمہیں ہدایت دے سکے۔ خدا نے تم پر بہت احسان کیا ہے جو قرآن جیسی کتاب تمہیں عنایت کی۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ کتاب جو تم پر پڑھی گئی اگر عیسائیوں پر پڑھی جاتی تو وہ ہلاک نہ ہوتے اور یہ نعمت اور ہدایت جو تمہیں دی گئی اگر بجائے توریت کے یہودیوں کو دی جاتی تو بعض فرقے ان کے قیامت سے منکر نہ ہوتے پس اس نعمت کی قدر کرو جو تمہیں دی گئی۔ یہ نہایت پیاری نعمت ہے، یہ بڑی دولت ہے، اگر قرآن نہ آتا تو تمام دنیا ایک گندے مضغہ کی طرح تھی قرآن وہ کتاب ہے جس کے مقابل پر تمام ہدایتیں ہیچ ہیں۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 26-27)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’قرآن شریف ایک ایسی پُر حکمت کتاب ہے جس نے طبِ روحانی کے قواعد کلیہ کو یعنی دین کے اصول کو جو دراصل طبِ روحانی ہے طبِ جسمانی کے قواعد کلیہ کے ساتھ تطبیق دی ہے اور یہ تطبیق ایک ایسی لطیف ہے جو صدہا معارف اور حقائق کے کھلنے کا دروازہ ہے اور سچی اور کامل تفسیر قرآن شریف کی وہی شخص کر سکتا ہے جو طبِ جسمانی کے قواعد کلیہ پیش نظر رکھ کر قرآن شریف کے بیان کردہ قواعد میں نظر ڈالتا ہے ایک دفعہ مجھے بعض محقق اور حاذق طبیبوں کی بعض کتابیں کشفی رنگ میں دکھلائی گئیں جو طبِ جسمانی کے قواعد کلیہ اور اصول علمیہ اور ستّہ ضروریہ وغیرہ کی بحث پر مشتمل اور متضمن تھیں جن میں طبیب حاذق قرشی کی کتاب بھی تھی اور اشارہ کیا گیا کہ یہی تفسیر قرآن ہے اس سے معلوم ہوا کہ علم الابدان اور علم الادیان میں نہایت گہرے اور عمیق تعلقات ہیں اور ایک دوسرے کے مصدق ہیں اور جب میں نے ان کتابوں کو پیش نظر رکھ کر جو طب جسمانی کی کتابیں تھیں قرآن شریف پر نظر ڈالی تو وہ عمیق در عمیق طبِ جسمانی کے قواعد کلیہ کی باتیں نہایت بلیغ پیرایہ میں قرآن شریف میں موجود پائیں اور اگر خدا نے چاہا اور زندگی نے وفا کی تو میرا ارادہ ہے کہ قرآن شریف کی ایک تفسیر لکھ کر اس جسمانی اور روحانی تطابق کو دکھلاؤں۔‘‘

(چشمۂ معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 102-103)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’مَیں قرآن شریف کا ایک خادم ہوں اور یہ وحی جو مجھ پر اترتی ہے یہ قرآن شریف کی سچائی کا ایک روشن ثبوت ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 74، ایڈیشن1988ء)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’تم سچ مچ اُس کے ہو جاؤ۔ تا وہ بھی تمہارا ہو جاوے۔ دنیا ہزاروں بلاؤں کی جگہ ہے جن میں سے ایک طاعون بھی ہے سو تم خدا سے صدق کے ساتھ پنجہ مارو تا وہ یہ بلائیں تم سے دور رکھے کوئی آفت زمین پر پیدا نہیں ہوتی جب تک آسمان سے حکم نہ ہو اور کوئی آفت دور نہیں ہوتی جب تک آسمان سے رحم نازل نہ ہو سو تمہاری عقلمندی اسی میں ہے کہ تم جڑ کو پکڑو نہ شاخ کو۔ تمہیں دوا اور تدبیر سے ممانعت نہیں ہے مگر اُن پر بھروسہ کرنے سے ممانعت ہے اور آخر وہی ہوگا جو خدا کا ارادہ ہوگا اگر کوئی طاقت رکھے تو توکّل کا مقام ہر ایک مقام سے بڑھ کر ہے اور تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے اُن کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا۔ نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن۔ اور تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ و جلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ اور یاد رکھو کہ نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہوگی بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے نجات یافتہ کون ہے؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم رتبہ کوئی اور کتاب ہے۔ اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لئے زندہ ہے۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 13-14)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’قرآن شریف کو بھی خوش الحانی سے پڑھنا چاہئے۔ بلکہ اس قدر تاکید ہے کہ جو شخص قرآن شریف کو خوش الحانی سے نہیں پڑھتا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اور خود اس میں ایک اثر ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 524، ایڈیشن1988ء)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’قرآن شریف کو پڑھو اور خدا سے کبھی ناامید نہ ہو۔ مومن خدا سے کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ یہ کافروں کی عادت میں داخل ہے کہ وہ خداتعالیٰ سے مایوس ہو جاتے ہیں۔ ہمارا خدا عَلٰی کُلِّ شَیْیٍٔ قَدِیْرخدا ہے۔ قرآن شریف کا ترجمہ بھی پڑھو اور نمازوں کو سنوار سنوار کر پڑھو اور اس کا مطلب بھی سمجھو۔ اپنی زبان میں بھی دعائیں کر لو۔ قرآن شریف کو ایک معمولی کتاب سمجھ کر نہ پڑھو بلکہ اس کو خداتعالیٰ کا کلام سمجھ کر پڑھو۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 257-258)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button