از افاضاتِ خلفائے احمدیت

اللہ کی حمد کرتے رہیں

تیسری شرط بیعت(حصہ ہفتم)

حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے رہیں(حصہ دوم۔آخر)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’اگر انسان غور اور فکر سے دیکھے تو اس کومعلوم ہوگا کہ واقعی طور پر تمام محامد اور صفات کامستحق اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اور کوئی انسان یا مخلوق واقعی اور حقیقی طور پر حمدوثنا کا مستحق نہیں ہے۔ اگر انسان بغیر کسی قسم کی غرض کی ملونی کے دیکھے تو اس پر بدیہی طور پر کھل جاوے گا کہ کوئی شخص جو مستحق حمد قرار پاتا ہے وہ یا تو اس لئے مستحق ہو سکتا ہے کہ کسی ایسے زمانہ میں جبکہ کوئی وجود نہ تھا اور نہ کسی وجود کی خبر تھی وہ اس کا پیدا کرنے والا ہو۔ یا اس وجہ سے کہ ایسے زمانہ میں کہ کوئی وجود نہ تھا اور نہ معلوم تھا کہ وجود اور بقاء وجود اور حفظ ِصحت اور قیام زندگی کے لئے کیا کیا اسباب ضروری ہیںاس نے وہ سب سامان مہیا کئے ہوں۔ یا ایسے زمانہ میں کہ اس پر بہت سی مصیبتیں آسکتی تھیںاس نے رحم کیا ہو اور اس کو محفوظ رکھا ہو۔ اور یا اس وجہ سے مستحق تعریف ہو سکتا ہے کہ محنت کرنے والے کی محنت کو ضائع نہ کرے اور محنت کرنے والوں کے حقوق پورے طور پر ادا کرے۔ اگرچہ بظاہر اجرت کرنے والے کے حقوق کا دینا معاوضہ ہے لیکن ایسا شخص بھی محسن ہو سکتا ہے جو پورے طور پر حقوق ادا کرے۔ یہ صفات اعلیٰ درجہ کی ہیں جو کسی کو مستحق حمدوثنا بناسکتی ہیں۔ اب غور کر کے دیکھ لو کہ حقیقی طور پر ان سب محامد کا مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے جو کامل طور پر ان صفات سے متصف ہے اور کسی میں یہ صفات نہیں ہیں۔ …… غرض ا وَّلاً بالذات اکمل اور اعلیٰ طور سے خدا تعالیٰ ہی مستحق تعریف ہے۔ اس کے مقابلہ میں کسی دوسرے کا ذاتی طور پر کوئی بھی استحقاق نہیں۔ اگر کسی دوسرے کو استحقاق تعریف کا ہے تو صرف طفیلی طور پر ہے۔ یہ بھی خدا تعالیٰ کا رحم ہے کہ باوجودیکہ وہ وحدہ ٗلاشریک ہے۔ مگر اس نے طفیلی طور پر بعض کو اپنے محامد میں شریک کر لیا ہے‘‘۔

(روئیداد جلسہ دعا۔ روحانی خزائن۔ جلد15۔ صفحہ598تا602)

جماعت کو عمومی نصیحت کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:

’’اگر تم چاہتے ہو کہ آسمان پر فرشتے بھی تمہاری تعریف کریں تو تم ماریں کھائو اور خوش رہو اور گالیاں سنو اور شکر کرو۔ اور ناکامیاں دیکھو اور پیوند مت توڑو۔ تم خدا کی آخری جماعت ہو۔ سو وہ عمل نیک دکھلائو جو اپنے کمال میں انتہائی درجہ پر ہو۔ ہر ایک جو تم میں سست ہو جائیگا وہ ایک گندی چیز کی طرح جماعت سے باہر پھینک دیا جائے گا اور حسرت سے مریگا اور خدا کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا۔ دیکھو میں بہت خوشی سے خبر دیتا ہوں کہ تمہارا خدا درحقیقت موجود ہے۔ اگرچہ سب اسی کی مخلوق ہے لیکن وہ اس شخص کو چن لیتا ہے جو اس کو چنتا ہے۔ وہ اس کے پاس آجاتا ہے جو اس کے پاس جاتا ہے۔ جو اس کو عزت دیتا ہے وہ بھی اس کو عزت دیتا ہے۔ تم اپنے دلوں کو سیدھے کر کے اور زبانوں اور آنکھوں اور کانوں کو پاک کر کے اس کی طرف آجائو کہ وہ تمہیں قبول کرے گا۔‘‘

(کشتی نوح۔ روحانی خزائن۔ جلد19۔ صفحہ15)

حضرت اقد س مسیح موعود علیہ ا لسلام مزید فرماتے ہیں:

’’یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا۔ تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا۔ خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا۔ پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اوردرمیان میں آنے والے ابتلائوں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلائوں کا آنا بھی ضروری ہے تا خدا تمہاری آزمائش کرے کہ کون اپنے دعویٔ بیعت میں صادق اور کون کاذب ہے۔ وہ جو کسی ابتلاء سے لغزش کھائے گا وہ کچھ بھی خدا کا نقصان نہیں کرے گا اور بدبختی اس کو جہنم تک پہنچائے گی۔ اگر وہ پیدا نہ ہوتا تو اس کے لئے اچھا تھا۔ مگر وہ سب لوگ جو اخیر تک صبر کریں گے اور ان پر مصائب کے زلزلے آئیں گے اور حوادث کی آندھیاں چلیں گی اور قومیں ہنسی اور ٹھٹھا کریں گی اور دنیا ان سے سخت کراہت کے ساتھ پیش آئے گی۔ وہ آخر فتحیاب ہوں گے اور برکتوں کے دروازے ان پر کھولے جائیں گے۔

خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں اپنی جماعت کو اطلاع دوں کہ جو لوگ ایمان لائے ایسا ایمان جو اس کے ساتھ دنیا کی ملونی نہیں اور وہ ایمان نفاق یا بزدلی سے آلودہ نہیں اور وہ ایمان اطاعت کے کسی درجہ سے محروم نہیں ایسے لوگ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں اور خدا فرماتا ہے کہ وہی ہیں جن کا قدم صدق کا قدم ہے‘‘۔

(رسالہ الوصیت۔ روحانی خزائن۔ جلد 20۔ صفحہ 309)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی معنوں میں سچا احمدی مسلمان بنائے، ہمیں اپنے عہد بیعت پر قائم رہنے اور اس پر عمل کرنے والا بنائے۔ خدا اوراس کے رسول ﷺکی سچی اور کامل اطاعت کرنے والا بنائے۔ ہم سے کبھی کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہوجس سے حضرت اقدس مسیح موعو د علیہ السلام کی اس پیاری جماعت پر کوئی حرف آئے۔اے اللہ تو ہماری غلطیوں کو معاف فرما۔ ہماری پردہ پوشی فرما۔ ہمیں ہمیشہ اپنے فرمانبرداروں اور وفاداروں میں لکھ۔ ہمیں ہمارے عہد وفا اور بیعت پر قائم رکھ، ہمیں اپنے پیاروں میں شامل رکھ،ہماری نسلوں کو بھی اس عہد کو نبھانے کی توفیق دے۔ کبھی ہمیں اپنے سے جدا نہ کرنا۔ ہمیں اپنی سچی معرفت عطا کر۔ اے ارحم الراحمین خدا ہم پر رحم فرما اورہماری ساری دعائیں قبول فرما۔ ہمیں ان تمام دعائوں کا وارث بنا جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کے لیے، اپنی جماعت میں شمولیت اختیار کرنے والوں کے لئے کیں۔

(ازاختتامی خطاب برموقعہ جلسہ سالانہ انگلستان۔ مورخہ 27؍جولائی 2003ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button