متفرق مضامین

قبولیت دعا کے خاص ایام بھی انعامِ الٰہی ہیں

دنیا کے اکثر ممالک کی طرح برطانیہ میں بھی آج کل کورونا وائرس کی وبا کے اثرات اپنے زوروں پر ہیں۔ ساری دنیا میں اس وبا سے ’’اگلی صفوں میں‘‘ نبرد آزما طبی عملے کا کردار قابلِ تحسین ہے جو اپنی ڈیوٹیوں پر معمول سے کئی گنا زیادہ کام کرتے اور مریضوں کے قریب رہ کر ان کی بیماری سے ہونے والی جنگ میں ہر ممکنہ تعاون مہیا کرتے ہیں۔ لیکن خود گھر آ کر اپنے بچوں اور اعزّہ و اقربا سے دوری اختیار کر لیتے ہیں مبادا انہیں بیماری کے جراثیم لگ جائیں۔ کئی ایک جانباز مجاہد اس جدو جہد میں اس بیماری کا شکار بھی ہوئے اور چند ایک اس جہاد کے دوران راہئ ملک عدم بھی۔ اگلی صفوں میں لڑنے والے ایک ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ان کے ساتھ کام کرنے والے طبی عملے کے متعدد ارکان کو اس وائرس کا حملہ ہو چکا ہے اور اللہ کے فضل سے سارے ہی مشکل مراحل سے گزرتے ہوئے کئی ہفتوں بعد صحت یاب ہو گئے۔ اکثر نے ان میں سے یہ بیان دیا کہ چاہے وہ مذہب کو مانتے ہیں یا نہیں، اس بیماری کے دوران انہیں ’خدا‘ خوب یاد آیا اور انہیں دعاؤں کا بھی موقع ملا۔

حضرت امیر المومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ 10؍ اپریل میں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ جماعت کو تحریک فرمائی کہ ’’پھر مَیں کہوں گا کہ آج کل دعاؤں، دعاؤں اور دعاؤں پر بہت زور دیں۔ اللہ تعالیٰ جماعت کو ہر لحاظ سے جماعت کے ہر فرد کو ہر لحاظ سے اور مجموعی طور پر جماعت کو بھی ہر لحاظ سے اپنی حفظ و امان میں رکھے۔‘‘

رمضان اور دعا کا خاص رشتہ ہے۔ تقریباً ایک صدی قبل حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں بھی اس لطیف مضمون کو بیان فرمایا تھا۔ اس خطبے کا متن قارئین الفضل انٹرنیشنل کے استفادے کے لیے پیش ہے:

حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 20؍ جون 1919ء میں فرمایا:

’’رمضان کا مہینہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے خاص برکات اور خاص رحمتیں لے کر آتا ہے۔ یوں تو اﷲ تعالیٰ کے انعام اور احسان کے دروازے ہر وقت ہی کھلے رہتے ہیں اور جب کوئی انسان چاہے اسی وقت عید اور رمضان اور جمعہ آجاتے ہیں۔ دیر صرف مانگنے میں ہوتی ہے ورنہ اس کی طرف سے دینے میں دیر نہیں لگتی کیونکہ خدا تعالیٰ اپنے بندے کو کبھی نہیں چھوڑتا۔ ہاں بندہ خدا تعالیٰ کو چھوڑ دیتا ہے اور اس کے دروازے کو چھوڑ کر دوسرے کے دروازہ پر چلا جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ محتاج نہیں لیکن وہ اپنے بندے کی ایسی جستجو کرتا ہے گویا کہ اس بندے پر ہی اس کی خدائی کا انحصار ہے اور بندہ محتاج ہے اور ایسا محتاج ہے کہ اس کا ایک لحظہ بھی ایسا نہیں کہ اگر خدا تعالیٰ اس کو چھوڑ دے تو آرام سے گزرے اور ہلاک نہ ہو جائے مگر بندہ خدا سے ایسا استغناء کرتا ہے کہ گویا اس کا محتاج ہی نہیں۔

رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جنگ بدر میں ایک عورت کو دیکھا کہ وہ دوڑی ہوئی پھر رہی تھی اور جو بچہ اُس کو نظر آتا اسے اُٹھا کر گلے سے لگا لیتی اور پیار کر کے چھوڑ دیتی تھی۔ جاتے جاتے اُس کو ایک بچہ مِل گیا وہ اس کو لے کر بیٹھ گئی۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا، اس عورت کا بچہ گم ہو گیا تھا اس کو اپنا بچہ ملنے سے اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی اﷲ تعالیٰ کو اپنے گم شدہ بندہ کے ملنے سے خوشی ہوتی ہے۔

(بخاری کتاب الادب باب رحمۃ الولد(الخ))

سو اس رحیم و کریم ہستی سے دُعا قبول کرانا مُشکل نہیں۔ ہر گھڑی رمضان کی ہی گھڑی ہو سکتی ہے اور ہر لمحہ کو قبولیت کے لئے ذریعہ بنایا جاسکتا ہے۔ اس کی طرف سے دیر نہیں۔ اگر دیر ہے تو بندے کی طرف سے ہے لیکن یہ بھی اس کے احسان ہی میں سے ہے کہ اس نے ایک خاص وقت رکھ دیا تاکہ وہ لوگ جو خود نہیں جاگ سکتے ان کو خود جگادے۔ ان کی غفلتیں چونکہ ان کے لئے موجب ہلاکت ہو سکتی ہیں اس لئے ان کے ہوشیار کرنے کے لئے رمضان کا ایسا وقت مقررکر دیا کہ جس میں وعدہ کیا کہ مَیں دعائیں زیادہ سُنوں گا۔ سنتا تو وہ روز ہے اور جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے کہ ہر گھڑی عید اور ہر گھڑی قبولیت کے لئے رمضان ہو سکتی ہے مگر غافل لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے ایک خاص مہینہ مقرر کر دیا گیا کہ وہ اس میں فائدہ اُٹھائیں۔

بہتوں کی عادت ہوتی ہے کہ اگر یوں کہا جائے کہ کوئی یہ کام کر دے تو ان میں سے کوئی بھی نہیں کرے گا اوراگر یہ کہا جاوے کہ کسی وقت کر دے تب بھی ان میں سے کوئی نہیں کرے گا کیونکہ ان کو یہ خیال ہو گا کہ اگلے وقت میں جو آتا ہے کر دیں گے لیکن اگر وقت مقرر کر دیا جاوے تو کر لیتے ہیں۔ اس لئے خدا نے اپنے فضل و احسانِ عمیم کے ماتحت تمام لوگوں کے لئے موقع رکھ دیا کہ رمضان میں آسانی سے دُعا کریں۔ اگر وہ یوں کہتا کہ جس نے قُرب حاصل کرنا ہے کر لو تو بہت نہ کرتے مگر اُس نے کہا کہ میرا قُرب حاصل کرو اور جو چاہے کرے اور پھر یہ فضل کیا اور موقع دیا کہ ہر ایک اس سے فائدہ اُٹھا سکے۔ ورنہ وہ ہر مہینہ میں دُعائیں قبول کرتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے

اُدْعُوْنِيْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن:61 )

اور

اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ(النمل: 63)

اور

وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَنِّيْ فَاِنِّيْ قَرِيْبٌ ؕ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ( البقرۃ: 187)

اس لئے کسی ساعت کی شرط نہیں لگائی۔ اگر کوئی شرط لگائی ہے تو صرف یہ کہ میرا بندہ ہو، یعنی خدا کی عبودیت کا اقرار کرے۔ ہمارا یہ اقرار اس کی رحمت اور رأفت کو جوش میں لائے گا اور جو کھٹکھٹائے گا اس کے لئے کھولا جائے گا۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ خداتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر میرا بندہ میری طرف ایک قدم اُٹھاتاہے تومیں دو قدم اُٹھاتا ہوں۔ اگر میرا بندہ میری طرف چل کر آتا ہے تو مَیں اُس کی طرف دَوڑ کر جاتا ہوں

(بخاری کتابُ التَّوْحِید باب مَا یُذْکُرُ فی الذَّاتِ وَ النُّعُوْتِ (الخ))۔

سو خدا کی رحمت کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔ اس میں رمضان کی اور رات دن کے کسی حصّہ کی خصوصیت نہیں۔ کیا بندہ ہر وقت محتاج نہیں۔ کیا بندہ کی محتاجی کسی خاص وقت پر منحصر ہے؟ کیا شعبان اور شوال میں بندہ محتاج نہیں؟ پھر کیا ہفتہ اور جمعہ کے روز بندہ محتاج نہیں؟ پھر کیا جمعہ کی صبح اور عصر تک محتاج نہیں؟ وہ تو اُسی طرح محتاج ہے جس طرح ان دنوں میں محتاج ہے۔ پھر کیوں اس نے خاص اوقات میں خاص افضال و انعام کو محدود کر دیا؟ مَیں نے بتایا ہے کہ یہ بھی بطور رحمت کے ہے اس لئے کہ انسان کو ہوشیار کرے۔ پھر اﷲ ان گھڑیوں میں زائد انعام دیتا ہے تاکہ انعام کے خواہاں لوگوں کو انعام کے لینے کے لئے اُکسائے۔ پس جب بندہ گداز ہو جاتا ہے اُس کا دن اُس کے لئے قبولیت کی گھڑیوں والی رات ہو جاتا ہے اور پھر اس کی ہر ایک رات لیلۃ القدر ہو جاتی ہے۔ اس کا ہر ایک دن جمعہ کا دن ہوتا ہے اور ہر ساعت خطبہ کی وہ درمیانی ساعت ہو جاتی ہے جس میں اﷲ تعالیٰ زیادہ دُعائیں قبول کرتا ہے۔

تو یہ جو کچھ کیا گیا ہے یہ انسان کو ہوشیار کرنے کے لئے ہے کیونکہ انسان کا قاعدہ ہے کہ خاص وقت میں فرض کی طرف زیادہ توجہ ہوتی ہے۔ پس دُعا کا خاص وقت میں زیادہ قبول کرنا رحم اور شفقت سے کیا گیا ہے۔ ورنہ اس کے رحم کے دروازے ہر وقت کھلے رہتے ہیں۔ مگر بہت ہوتے ہیں جو اس فضل کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں۔ باقی دنوں میں تو اس لئے فائدہ نہیں اُٹھاتے کہ وہ رمضان نہیں اور رمضان میں اس لئے کہ توفیق نہیں ملتی۔ اسی طرح اَور دنوں میں تو اس لئے دعا نہیں کرتے کہ جمعہ نہیں اور جمعہ کو اس لئے کھودیتے ہیں کہ ان کو دعا سے مَس نہیں۔ پھر دن کو اس لئے کھوتے ہیں کہ راتیں قبولیت دعا کے لئے زیادہ موزوں ہیں اور رات سے اس لئے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے کہ نیند کو نہیں چھوڑ سکتے۔ غرض ایک وقت کو دوسرے پر ٹالتے ہیں اور دوسرے میں اس لئے کچھ حاصل نہیں کر سکتے کہ محنت سے جی چُراتے ہیں۔

اس لئے ان پر کوئی وقت دعا کا نہیں آتا۔ ان کی مثال بعینہٖ اس بچہ کی سی ہوتی ہے جو ماں باپ سے ناراض ہو کر ایک اندھیرے مکان میں جاکر بیٹھ جائے اور وہاں اس کو کانٹے چُبھنے اور بِھڑیں کاٹنے لگیں۔ ایسا انسان خدا سے ناراضگی اختیار کرتا ہے اور اس سے بھاگتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کے مُلک سے نکل جائے مگر کہاں انسان اس کے مُلک سے نکل سکتا ہے۔ جس نے نادانی سے خدا کو چھوڑا اس کے لئے دُنیا و آخرت میں کوئی مقام آرام کا نہیں۔ ایسا شخص اپنا آپ قاتل ہے اور اپنے آپ کا خود خون کرتا ہے کیونکہ انسان کے لئے ایک ہی آرام کی جگہ ہے اور وہ خدا کی گود ہے اور یاد رکھو کہ خدا کی گود صرف محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے، صرف موسیٰ و عیسیٰ علیہم السلام کے لئے ہی نہیں بلکہ خدا ہر گنہگار کے لئے اپنی گود پھیلائے کھڑا ہے کہ آئے اور اس کی گود میں جگہ پائے۔ محمد صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں کہ خدا کو ایک بندہ کے تائب ہونے پر اتنی خوشی ہوتی ہے کہ ایک ماں کو اپنا گم شدہ بچہ پانے پر بھی اتنی خوشی نہیں ہو سکتی۔

پس اس کی رحمت سے فائدہ اُٹھاؤ جو تمہاری ترقی کے لئے تمہارے فائدہ کے لئے وہ نازل کر رہا ہے اور پھر ان خاص اوقات سے فائدہ اُٹھاؤ جو تمہارے ہی فائدہ کے لئے اُس نے رکھ دیئے ہیں اگر ان اوقات کو بھی سُستی سے ضائع کردو گے تو نہایت ہی افسوس کی بات ہوگی۔

حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں جاگتے تھے اور رشتہ داروں کو بھی جگاتے تھے۔ بھلائی کے کاموں میں اور بھی مستعدی سے کام لیتے تھے اور اپنی کمر کس لیتے تھے۔

(مسلم کتاب الْاِعْتِکَافِ باب الْاِجْتِھَادِ فِی الْعَشْرا لْاَوَاخِرِ (الخ))

گویا کہ وہ پہلے ڈھیلی تھی۔ غور کرو یہ کیا الفاظ ہیں؟ کس نے کمر کس لی؟ اُس نے جس کی تمام راتیں جاگتے اور دن عبادات میں گزرتا تھا اور ہر ایک گھڑی خدا کی یاد میں بسر ہوئی ہوتی تھی۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ جن کے تعلق اور وابستگی کی یہ کیفیت تھی ان کے متعلق عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رمضان کے آخری عشرہ میں کمر کس لیتے تھے۔ اس بات کو عائشہ صدیقہ ؓ ہی سمجھ سکتی تھیں اور کسی کے لئے اس کی حقیقت سمجھنا آسان نہیں۔ کیونکہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کمر کھولتے ہی نہ تھے اور آپ فرماتے کہ جب مَیں سوتا ہوں تو درحقیقت اس وقت بھی جاگ ہی رہا ہوتا ہوں۔ چنانچہ فرمایا۔ میری آنکھیں سوتی ہیں مگر دل جاگتا ہے۔

(بخاری کتاب المناقب باب کان النبی صلی ﷲ علیہ وسلم تنام عَیْنٰہٗ وَ لَا ینام قلبُہٗ)

پس جب آپ بستر پر جاتے ہیں اُس وقت بھی آپ کی کمر نہیں کھلتی تو اور کس وقت کھولتے تھے۔ درحقیقت یہ قول ایک بہت بڑے معنی رکھتا ہے جو قیاس میں بھی نہیں آسکتے اور ان کو وہی سمجھ سکتا ہے جس نے آپ کی صحبت اُٹھائی ہو۔ بعد میں آنے والے اس کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے۔ غرض آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم آخری عشرہ میں راتوں کو جاگتے اور رشتہ داروں کو جگاتے اور خود کمرکَس لیتے تھے۔ یعنی جن کی کمر ہر وقت کسی رہتی تھی وہ بھی کس لیتے تھے۔ اس سے سمجھ لو کہ جن کی کمر ہمیشہ ڈھیلی رہتی ہے ان کے لئے رمضان میں کس قدر توجہ کی ضرورت ہے۔

پس مَیں اپنے تمام دوستوں کو کہتا ہوں کہ اپنی اپنی کمریں کس لیں اور خداکی طرف جھک جائیں۔ مَیں نے بتایا ہے کہ خدا دینے کو تیار ہے صرف ہماری غلطیاں ہمیں اس کے فضلوں سے محروم رکھتی ہیں۔ اس کے فضل کے آنے کے لئے کوئی خاص وقت نہیں اور اس کے فضلوںکی کوئی حد بندی نہیں۔ وہ تو ہر وقت دیتاہے اور دینے کو تیار ہے۔ یہ جو خاص گھڑیاں اس نے مقرر فرمائی ہیں یہ اس لئے ہیں کہ سُست سے سُست انسان بھی اس کے فضل سے محروم نہ رہے اور یہ وقت مقرر کر کے اس نے ہم پر احسان کیا ہے۔ پس ان دنوں کو خالی نہ جانے دو۔ وہ فضل حاصل کرو جو تمہاری نسلوں کی نسلوں، نسلوں کی نسلوں، نسلوں کی نسلوں کے لئے بہتری اور فلاح کا موجب ہو اور وہ وعدے جو مسیح موعود علیہ السلام سے کئے گئے ہیں ہم اُن کے جاذب ہوں۔ ہماری کمزوریاں دُور ہوں اور ہمیں خدا تعالیٰ اپنے فضلوں کا وارث بنائے، غلطیوں کو معاف کرے اور اپنے فضل کی راہوں پر چلائے۔ اﷲ تعالیٰ اپنے اور اپنے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے کلام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی اور مسیح موعود علیہ السلام کی اتباع کی توفیق دے۔ عمر کے ہرلحظہ میں ہم آگے ہی آگے قدم بڑھائیں اور ہم پر کوئی وقت غفلت اور سُستی کا نہ آئے۔

اٰمِیْنَ یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ۔‘‘

      (الفضل 28جون 1919ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button