متفرق مضامین

سورۃ القدر میں بیان فرمودہ مضامین

(حافظ محمد نصراللہ جان۔ استاد جامعہ احمدیہ ربوہ)

ماہ رمضان ایسا مہینہ ہے جس کی برکات کے متعلق قرآن کریم کی آیات اور آنحضرتﷺ کی متعدد روایات موجود ہیں۔ سورۃ القدر میں جن برکات کا ذکر ہے، تمام اکابرین، مفسرین، حضرت امام الزمان علیہ الصلوٰۃ والسلام اور خلفائے کرام رمضان المبارک سے بھی اس کا تعلق بیان فرماتے ہیں۔ اس مضمون میں سورۃ القدر میں بیان فرمودہ بے انتہا مضامین میں سے چند کا مختصر ذکر کیا جارہا ہے:

إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ(القدر :2)

یہ بات ذہن نشین رہے کہ لیلۃ القدر میں قرآن کریم اور آنحضرتﷺ کی ذات بابرکات کے نزول کا ذکرہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:

’’إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ کا مرجع جس طرح قرآن شریف سمجھا گیا ہے اسی طرح اس سے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارک بھی مراد ہے۔ اسی لئے اَنْزَلْنَاہُ فرمایا۔ کہ قرآن اور منزل علیہ القرآن دونوں ہی مرجع ٹھہریں۔ ورنہ اَنْزَلْنَاہُ ھٰذَ الْقُرْآن فرمانا کوئی بعید بات نہ تھی۔ ‘‘

(حقائق الفرقان جلد 4صفحہ427)

رسول کریمﷺ کی بعثت کا لیلۃ القدر یا رمضان المبارک سے تعلق تو واضح ہے کہ پہلی وحی الٰہی

اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ(العلق :2)

کے ساتھ ظہور اسلام ماہ رمضان میں ہوا۔ لیکن قرآن کریم کا نزول لیلۃ القدر میں ہونے سے کیا مراد ہے؟

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مختلف روایات کی روشنی میں ایک مبسوط بحث فرمائی اور فرمایا:

’’خلاصہ یہ کہ قرآن کریم کی آیت

إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ

کا یا دوسری آیات جو اوپر لکھی گئی ہیں ان کا ہرگز یہ منشاء نہیں کہ قرآن کسی ایک رات میں سب کا سب اتار دیا گیا تھا یا یہ کہ الٰہی کلام اکٹھا اترا کرتا ہے۔ کلام الٰہی کسی نبی پر یک دم نہیں اترا بلکہ آہستہ آہستہ نبوت کے زمانہ سے اس کی موت تک اترتا رہتا ہے تا نبی کے دل کو بھی زیادہ سے زیادہ روشنی ملتی جائے اور اس کے اتباع کا نور ایمان بھی بڑھتا رہے اور اس کے منکروں پر بھی نت نئی حجت تمام ہوتی رہے۔ ‘‘

(تفسیر کبیر جلد 9صفحہ303تا304)

پھر فرمایا:

’’اب میں اس سوال کو لیتا ہوں کہ کیا لیلۃالقدر کی کوئی معین رات ہے اور کیا یہ وہی رات ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا۔

یہ امر تو ثابت شدہ ہے کہ قرآن کریم رمضان میں نازل ہونا شروع ہوا لیکن یہ امر واقعی طور پر ثابت نہیں کہ رمضان کی کس رات میں قرآن کریم کے نزول کی ابتداء ہوئی۔ بعض سترہ رمضان کو بتاتے ہیں بعض انیس رمضان کی، بعض چوبیس رمضان کی قرار دیتے ہیں۔ غرض اس بارہ میں اس کے سوا کہ آخری پندرہ تاریخوں میں سے کسی تاریخ پر قرآن کریم اترا تھا کہ کوئی یقینی بات ثابت نہیں۔ لیکن ہر رمضان میں جو لیلۃالقدر آتی ہے اس کے بارہ میں احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ آخری عشرہ میں سے اسی رات میں آتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ لیلۃالقدر سے مراد معین طور پر وہ رات نہیں جس میں قرآن کریم اترا بلکہ صرف ایک ایسی رات مراد ہے جو نزول قرآن کی یاد میں خدا تعالیٰ نے بطور علامت مقرر فرمائی ہے۔
اب رہا یہ سوال کہ جو رات بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے نزول کی علامت کے طور پر مقدر کی ہے کیا وہ ایک معین رات ہے؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں وہ بھی کوئی معین رات نہیں بلکہ رمضان کے آخری عشرہ کی راتوں میں چکر لگاتی رہتی ہے۔ اس رات کی نسبت مختلف احادیث سے جو معلومات حاصل ہوتی ہیں وہ ذیل میں درج کی جاتی ہیں…‘‘

حضوررضی اللہ عنہ نے مختلف روایات درج کرنے کے بعد فرمایا:

’’ان روایتوں کو ملا کر دیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے اترنے کی خواہ کوئی رات ہو لیلۃالقدر اس رات کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ وہ بدلتی رہتی ہے اور رمضان کی آخری د س راتوں میں سے کسی رات کو اس کا ظہور ہوسکتا ہے کیونکہ اگر قرآن کریم کے اترنے والی رات ہی لازماً لیلۃالقدر قرار دی جاتی۔ تو اول رسول کریمﷺ یہ نہ فرماتے کہ مجھے لیلۃالقدر کا علم دیا گیا تھا مگر فلاں فلاں کی لڑائی کی وجہ سے میں بھول گیا ہوں آخر قرآن کریم آپؐ پر اترا تھا آپؐ کو وہ رات تو یاد ہوگی اور اگر یاد نہ بھی ہوگی توآپؐ کو اس آیت سے یہ تو علم ہوگیاتھا کہ لیلۃ القدر صرف قرآن کریم کے نازل ہونے کی رات ہے اور یہ راتیں کئی نہیں ہو سکتیں ایک ہی رات ایسی ہو سکتی ہے۔ اس صورت میں آپؐ یہ کیوں فرمایا کرتے کہ فلاں راتوں میں اس کی تلاش کرو۔

دوسرے یہ کہ ایک دفعہ آپؐ کو لیلۃ القدر بتائی گئی اور وہ اکیسویں رات کو ظاہر ہوئی باوجود اس کے آپؐ لوگوںسے یہی کہتے رہے کہ آخری عشرہ میں اس کی تلاش کرو۔ حالانکہ اگر وہ ایک معین رات ہوتی تو اس کے بعد اسے ہمیشہ رمضان کی اکیسویں رات بتاتے۔ پس معلوم ہوا کہ (۱) آپؐ قرآن کریم کے نزول کی رات کو لازماََ ہمیشہ کے لئے لیلۃ القدر قرار نہیں دیتے تھے (۲)آپؐ اس کے سوا دوسری راتوں میں سے بھی کسی کو ہمیشہ کے لئے معین لیلۃ القدر نہیں قرار دیتے تھے بلکہ آپ کے نزدیک تو یہ رات قرآن کریم کے نزول کی یاد میں مقرر کی گئی تھی اور گو اس یادگار کو رمضان کے آخری عشرہ سے مخصوص کر دیا گیا تھامگر نزول کی رات سے مخصوص نہیں کیا گیا تھا۔ …۔

عبداللہ بن مسعودؓ اور دوسرے بزرگان دین سے جویہ روایت ثابت ہے کہ لیلۃ القدر سال میں سے کسی رات کو ظاہر ہو سکتی ہے…اصل بات یہ ہے کہ ہر مومن پر روحانی بلوغت کا زمانہ آتا ہے آخر ہر شخص پیدائش کے وقت سے تو روحانیت میں کامل نہیں ہوتا۔ اکثر لوگوں میں جسمانی بلوغت کے بعد ہی کسی وقت روحانی بلوغت کا زمانہ آتا ہے۔ بعض کو جوانی میں بعض کو ادھیڑ عمر میں اور بعض کو بڑھاپے میں اور بعض کو بڑھاپے کے آخر میں۔ جس رات بھی کسی مومن کی نسبت اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہوجاتا ہے کہ اب سے یہ ہمارا قطعی جنتی بندہ ہے وہی اسکی لیلۃالقدر ہے اور اس کے لئے رمضان کی کوئی شرط نہیں سارے سال میں کسی وقت کسی کی لیلۃالقدر آسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ رحمان رحیم ہے اور اسکی یہ دونوں صفات ہر وقت ظاہر ہوتی رہتی ہیں پس ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ کے خاص فضلوں کے معین اوقات کے علاوہ کوئی اور سلسلہ بھی اس کے فضلوں کا ہوتا جو ہر وقت اور ہر لحظہ ظاہر ہوتا رہتااور یہ انفرادی فضلوں کا ہی سلسلہ ہے کسی مومن بندہ کی لیلۃالقدر کسی دن آجاتی ہے اور کسی کی کسی دن۔ اور اس طرح روزانہ سارے سال میں اللہ تعالی کے فضل اس کے نیک بندوں پر نازل ہوتے رہتے ہیں۔ پھر سال میں ایک دفعہ قرآن کریم کے نزول کی یاد میں ساری امت پر ایک ہی رات میں رمضان کے آخری عشرہ میں اجتماعی طور پر اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوتا ہے اور وہ لیلۃالقدر کبریٰ ہوتی ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد 9صفحہ324تا328)

لیلۃ القدر کےمعنی

اب ’’لیلۃ القدر‘‘ کے معانی کی طرف آتے ہیں کہ کیا صرف معروف معانی کے مطابق ماہ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات مراد ہے یا ’’لیلۃ القدر‘‘ میں اور بھی بیش بہا معارف پائے جاتے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام لیلۃ القدر کے عظیم الشان معانی بیان فرماتے ہیں:

’’إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ

یہ لیلۃ القدر اگرچہ اپنے مشہور معنوں کے رو سے ایک بزرگ رات ہے لیکن قرآنی اشارات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی ظلمانی حالت بھی اپنی پوشیدہ خوبیوں میں لیلۃ القدر کا ہی حکم رکھتی ہے۔ اور اس ظلمانی حالت کے دنوں میں صدق اور صبر اور زہد اور عبادت خدا کے نزدیک بڑا قدر رکھتا ہے۔ اور وہی ظلمانی حالت تھی کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت تک اپنے کمال کو پہنچ کر ایک عظیم الشان نور کے نزول کو چاہتی تھی اور اسی ظلمانی حالت کو دیکھ کر اور ظلمت زدہ بندوں پر رحم کرکے صفت رحمانیت نے جوش مارا اور آسمانی برکتیں زمین کی طرف متوجہ ہوئیں سو وہ ظلمانی حالت دنیا کے لئے مبارک ہوگئی اور دنیا نے اس سےایک عظیم الشان رحمت کا حصہ پایا کہ ایک کامل انسان اور سید الرسلؐ کہ جس سا کوئی پیدا نہ ہوا اور نہ ہوگا دنیا کی ہدایت کے لئے آیا۔ اور دنیا کے لئے اس روشن کتاب کو لایا۔ جس کی نظیر کسی آنکھ نے نہیں دیکھی۔ پس یہ خدا کی کمال رحمانیت کی ایک بزرگ تجلی تھی کہ جو اس نے ظلمت اور تاریکی کے وقت ایسا عظیم الشان نور نازل کیا جس کا نام فرقان ہے جو حق اور باطل میں فرق کرتا ہے جس نے حق کو موجود اور باطل کو نابود کرکے دکھلادیا۔ وہ اس وقت زمین پر نازل ہوا جب زمین ایک موت روحانی کے ساتھ مرچکی تھی اور بر اور بحر میں ایک بھاری فساد واقع ہوچکا تھا۔ پس اس نے نزول فرماکر وہ کام کردکھایا جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے آپ اشارہ فرماکر کہا ہے۔

اِعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ یُحۡیِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا (الحدید :18)

یعنی زمین مرگئی تھی اب خدا اس کو نئے سرے زندہ کرتا ہے۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد 1صفحہ418تا419حاشیہ نمبر11)

’’اس سورۃ کا حقیقی مطلب جوایک بھاری صداقت پر مشتمل ہے جیسا کہ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں اس قاعدہ ٔکلی کا بیان فرمانا ہے کہ دنیا میں کب اورکس وقت میں کوئی کتاب اور پیغمبر بھیجا جاتا ہے۔ سو وہ قاعدہ یہ ہے کہ جب دلوں پر ایک ایسی غلیظ ظلمت طاری ہوجاتی ہے کہ یکبارگی تمام دل رو بدنیا ہوجاتے ہیں اور پھر رو بدنیا ہونے کی شامت سے ان کے تمام عقائد و اعمال و افعال و اخلاق و آداب اور نیتوں اور ہمتوں میں اختلال کلی راہ پاجاتا ہے اور محبت الٰہیہ دلوں سے بکلی اٹھ جاتی ہے اور یہ عام وبا ایسا پھیلتا ہے کہ تمام زمانہ پر رات کی طرح اندھیرا چھا جاتا ہے تو ایسے وقت میں یعنی جب وہ اندھیرا اپنے کمال کو پہنچ جاتا ہے رحمت الٰہیہ اس طرف متوجہ ہوتی ہے کہ لوگوں کو اس اندھیری سے خلاصی بخشے اور جن طریقوں سے ان کی اصلاح قرین مصلحت ہے ان طریقوں کو اپنے کلام میں بیان فرماوے۔ سو اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے آیت ممدوحہ میں اشارہ فرمایا کہ ہم نے قرآن کو ایک ایسی رات میں نازل کیا ہے جس میں بندوں کی اصلاح اور بھلائی کے لئے صراط مستقیم کی کیفیت بیان کرنا اور شریعت اور دین کی حدود کو بتلانا از بس ضروری تھا‘‘۔

(براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد 1صفحہ637تا639)

ایک سوال یہ سامنے آسکتا ہے کہ رات تو اندھیروں، ضلالت اور گمراہی کی طرف اشارہ کرتی ہے، پھر جب اس رات میں ظاہری و باطنی اور روحانی اندھیرے اپنے کمال کو پہنچ گئے تو اسے لیلۃ القدر کیوں کہا گیا اور ہزار مہینوں سے بہتر کیوں کہاگیا؟ حضرت امام الزمان علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

’’سو چونکہ لیلۃ القدر کی حقیقت باطنی وہ کمال ضلالت کا وقت ہے جس میں عنایت الٰہیہ اصلاح عالم کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ سو خدائے تعالیٰ نے بغرض تحقق مناسبت اس زمانہ ضلالت کی آخری جز کو جس میں ضلالت اپنے نکتہ کمال تک پہنچ گئی تھی خارجی طور پر ایک رات میں مقرر کیا اور یہ رات وہ رات تھی جس میں خداوند تعالیٰ نے دنیا کو کمال ضلالت میں پاکر اپنے پاک کلام کو اپنے نبی پر اتارنا ارادہ فرمایا۔ سو اس جہت سے نہایت درجہ کی برکات اس رات میں پیدا ہوگئی یا یوں کہو کہ قدیم سے اسی ارادہ قدیم کے رو سے پیدا تھی اور پھر اس خاص رات میں وہ قبولیت اور برکت ہمیشہ کے لئے باقی رہی اور پھر بعد اس کے فرمایا کہ وہ ظلمت کا وقت کہ جو اندھیری رات سے مشابہ تھا جس کی تنویر کے لئے کلام الٰہی کا نور اترا…‘‘

(براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ640)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں:

’’یہ معنے بھی میں نے لئے ہیں کہ لیلہ سے مراد وہ رات نہیں جس میں قرآن کریم نازل ہوا بلکہ وہ تاریک زمانہ ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا۔ اور یہ بتایا گیا ہے کہ ایسے تاریک زمانوں میںہی خدا تعالیٰ کی غیرت جوش میں آکر آئندہ نیکی اور تقویٰ کی بنیا د رکھا کرتی ہے اور جب تاریکی بڑھتے بڑھتے خدا تعالیٰ کے فضل کو کھینچتی ہے تو اس وقت وہ تاریکی کا زمانہ بظاہر تاریک ہوتا ہے لیکن بالقوہ اس کے اندر قدرت خدا وندی پائی جاتی ہے گویا لیلۃ القدر ایک جہت سے رات ہے اور ایک جہت سے دن سے بھی زیادہ شاندار ہے۔ وہ اظہار قدرت کا وقت بھی ہے اور وہ تاریک وقت بھی ہے۔ دنیا کی نگاہوں میں وہ تاریکی کی انتہا کو ظاہر کرنے والا وقت ہے اور خدا تعالیٰ کی نظر میں وہ آئندہ آنے والی عظیم الشان روشنی کے لئے ایک بیج کا کام دے رہی ہے‘‘

(تفسیر کبیر جلد 9صفحہ314)

لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ (القدر :4)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

’’اُس میں بباعث نزول قرآن کی ایک رات ہزار مہینہ سے بہتر بنائی گئی۔ اور اگر معقولی طور پر نظر کریں تب بھی ظاہر ہے کہ ضلالت کا زمانہ عبادت اور طاعت الٰہی کے لئے دوسرے زمانہ سے زیادہ تر موجب قربت و ثواب ہے پس وہ دوسرے زمانوں سے زیادہ تر افضل ہے اور اس کی عبادتیں بباعث شدت و صعوبت اپنی قبولیت سے قریب ہیں اور اس زمانہ کے عابد رحمت الٰہی کے زیادہ تر مستحق ہیں کیونکہ سچے عابدوں اور ایمانداروں کا مرتبہ ایسے ہی وقت میں عنداللہ متحقق ہوتا ہے کہ جب تمام زمانہ پر دنیا پرستی کی ظلمت طاری ہو اور سچ کی طرف نظر ڈالنے سے جان جانے کا اندیشہ ہو…یہی زمانہ ہے جس میں جوانمردوں کی قدرومنزلت ظاہر ہوتی ہے اور نامردوں کی ذلت بہ پایہ ثبوت پہنچتی ہے یہی پرظلمت زمانہ ہے جو اندھیری رات کی طرح ایک خوفناک صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ سو اس طغیانی کی حالت میں کہ جو بڑے ابتلا کا وقت ہے وہی لوگ ہلاکت سے بچتے ہیں جن پر عنایات الٰہیہ کا ایک خاص سایہ ہوتا ہے پس انہی موجبات سے خدائے تعالیٰ نے اسی زمانہ کی ایک جز کو جس میں ضلالت کی تاریکی غایت درجہ تک پہنچ چکی تھی لیلتہ القدر مقرر کیا…‘‘

(براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد 1صفحہ640تا643)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ

لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ (القدر :4)

کے مختلف معانی بیان فرماتے ہیں:

’’لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ۔

ہزار عزتیں جو لوگوں کو آئندہ زمانہ میں حاصل ہوں گی اس لیلۃ پر قربان ہیں۔ ہم بے شک گمنامی کے لحاظ سے اس زمانہ کو لیلۃ قرار دے رہے ہیں مگر یہ لیلۃ وہ ہے کہ ہزار ظہور اس ایک گمنامی پر قربان ہو رہا ہوگا۔

(۲) شَھْرکے معنے عالم کے بھی ہیں ان معنوں کے روسے اس آیت کا یہ مطلب ہوگا کہ اس لیلۃ القدر میں جو معارف اور علوم کھلے ہیں وہ ہزار عالم سے بہتر ہیں۔ ا س میں کیا شک ہے کہ زمانہ نبوی میں جو تاریکی اور بے دینی میں سارے زمانوں سے بڑھا ہوا تھا قرآن کریم کے ذریعہ سے جو علوم ظاہرہوئے اور خداتعالیٰ نے عرفان کے جو دریا اس وقت بہادئے ان کے مقابل پر ہزار عالم بھی تو کچھ بیان نہیں کرسکتا۔

(۳) تیسرے معنے شَھْر کے مہینے کے بھی ہیں۔ ان کے رو سے

لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ

کہ یہ معنے بھی ہیں کہ وہ زمانہ جس میں قرآن کریم نازل ہوا یا جس میں محمد رسول کریمﷺ نازل ہوئے یا وہ زمانہ جس میں آپ کے بروزِ کامل نازل ہوں گے ہزار مہینوں سے اچھا ہے۔ یعنی تمام زمانوں سے اچھا ہے…کوئی دوسرا زمانہ ان کا مقابلہ نہیں کرسکے گا خواہ آئندہ کا زمانہ ہو یا گزشتہ زمانہ ہو۔

(۴) چوتھے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ ہزار سے مراد ہزار ہی کے لئے جائیں۔ یہ معنے رسول کریمﷺ کے ناقص اظلال کے متعلق صحیح اترتے ہیں۔ کیونکہ آپ نے اپنے ناقص اظلال یا مجددوں کی نسبت فرمایا ہے کہ وہ ہر صدی کے سر پر آئیں گے اور ہزار مہینے کا عرصہ تراسی سال اور چار مہینہ کا ہوتا ہے اور اتنی مدت صدی سے گزرجائے تو صدی کا سر آجاتا ہے۔ پس ہزار مہینے کے لفظاً ہزار کے لے کر اس آیت کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ ہم قرآن اور محمد رسول اللہﷺ کو مجددوں اور آپ کی تعلیمات کے وجود میں ہر صدی کے سر پر نازل کرتے رہیں گے اور ان مجددوں کا زمانہ باقی تراسی سال سے بہتر ہوگا۔ یعنی امت ان کی نگرانی میں جو برکات حاصل کرے گی ان کی عدم موجودگی میں وہ برکات حاصل نہ کرسکے گی۔

(۵) پانچویں معنے اس کے یہ ہیں کہ اسلام کی تعلیم جس زمانہ میں رائج ہو وہ دوسرے سب زمانوں سے مقدم ہے…پس اللہ فرماتا ہے رسول کریمﷺ کے زمانہ کے بعد مسلمانوں میں خرابی پید اہوجانے سے اس رات کی قدر کم نہیں ہوسکتی۔ یہ ایک رات ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے۔ ہزار مہینوں میں چونکہ تیس ہزار راتیں ہوتی ہیں اس لئے

لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ

کے یہ معنے ہوئے کہ تم اس زمانہ کا کیا ذکر کرتے ہو، یہ زمانہ تو تیس ہزار زمانوں سے بڑھ کر ہے۔ اگر بعد میں تاریکی کے تیس ہزار دور بھی آجائیں تب بھی محمد رسول اللہﷺ کا زمانہ بے قیمت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ تب بھی یہی کہا جائے گا کہ وہ زمانہ آئندہ آنے والے سب زمانوں سے بڑھ کر تھا۔ کیونکہ اس زمانہ میں اسلامی حکومت کا وہ ڈھانچہ قائم کردیا گیا تھا جو قیامت تک آنے والے لوگوں کی صحیح راہنمائی کرنے والا اور ان کی مشکلات کو پورے طور پر دور کرنے والا ہے۔

جو معنے اوپر کئے گئے ہیں ان کے رو سے لیلۃ القدر بمعنے زمانۂ نبوت کی تو تشریح ہوجاتی ہےمگر یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ اگر لیلۃ القدر سے اشارہ معروف لیلۃ القدر سے ہے تو پھر اس آیت کے کیا معنے ہوئے کہ لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے اچھی ہے کیونکہ ہزار مہینوں میں تو تراسی اور لیلۃ القدریں آجائیں گی؟ تواس کا جواب یہ ہے کہ لیلۃ القدر آتی تو ہر سال ہے مگر ہر شخص کو وہ رات میسر تو نہیں آجاتی۔ جو لوگ سچے تقویٰ اور سچی نیکی سے خداتعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں انہیں خاص توجہ اور خاص خشوع و خضوع کی حالت میں وہ میسر آتی ہے۔ یعنی گو اس کی عام برکات تو عام مسلمانوں کو ہر سال ہی مل جاتی ہیں لیکن اس کا کامل ظہور جبکہ انسان کو یہ معلوم بھی ہوجاتا ہے کہ آج لیلۃ القدر ہے، خاص خاص آدمیوں کو اور کبھی کبھی ہی نصیب ہوتا ہے۔ یہ تجربہ درمیانہ درجہ کے مومنوں کو اپنی عمر میں کبھی ایک دفعہ یا دو دفعہ نصیب ہوتا ہے۔ پس اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جس شخص کومحمد رسول اللہﷺ کی اتباع میں لیلۃ القدر مل جائے اسے سمجھنا چاہئے کہ اس کی ساری عمر کامیاب ہوگئی۔ اور عمر کا اندازہ تراسی سال لگا کر بتایا ہے کہ ایسے شخص کو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ رات اس کی باقی عمر سے افضل ہے اور اسی رات کی خاطر اس کی زندگی گزری ہے اور یہ رات اس کی زندگی کا نچوڑ ہے۔

(تفسیر کبیر جلد 9صفحہ332تا334)

تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوْحُ فِيْهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ (القدر :5)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

’’سو واضح ہو کہ عادت اللہ اس طرح پر جاری ہے کہ جب کوئی رسول یا نبی یا محدث اصلاح خلق اللہ کے لئے آسمان سے اُترتا ہے تو ضرور اس کے ساتھ اور اس کے ہمرکاب ایسے فرشتے اُترا کرتے ہیں کہ جو مستعد دلوںمیں ہدایت ڈالتے ہیں اور نیکی کی رغبت دلاتے ہیں اور برابر اُترتے رہتے ہیں جب تک کفرو ضلالت کی ظلمت دُور ہو کر ایمان اور راستبازی کی صبح صادق نمودار ہو جیسا کہ اللہ جلّشانہ فرماتاہے

تَنَزَّلُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْھَا بِاِذْنِ رِبِّھِمْ مِنْ کُّلِِّ اَمْرٍ۔ سَلٰمٌ ھِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْر،

سو ملائکہ اور روح القدس کی تنزّل یعنی آسمان سے اُترنا اُسی وقت ہوتا ہے جب ایک عظیم الشان آدمی خلعتِ خلافت پہن کراور کلام الٰہی سے شرف پاکر زمین پر نزول فرماتا ہے۔ روح القدس خاص طور اس خلیفہ کو ملتی ہے اور جو اس کے ساتھ ملائکہ ہیں وہ تما م دنیا کے مستعد دلوں پر نازل کئے جاتے ہیں۔ تب دنیا میں جہاں جہاں جوہر قابل پائے جاتے ہیںسب پر اُس نور کا پر تَو پڑتا ہے اور تمام عالم میں ایک نورانیت پھیل جاتی ہے اور فرشتوں کی پاک تاثیر سے خود بخوددلوں میں نیک خیال پیدا ہونے لگتے ہیں اور توحید پیاری معلوم ہونے لگتی ہے اور سیدھے دلوں میں راست پسندی اور حق جوئی کی ایک روح پھونک دی جاتی ہے اور کمزوروں کو طاقت عطا کی جاتی ہے اور ہر طرف ایسی ہوا چلنی شروع ہو جاتی ہے کہ جو اس مصلح کے مدعااور مقصد کو مدد دیتی ہے ایک پوشیدہ ہاتھ کی تحریک سے لوگ صلاحیت کی طرف کھسکتے چلے آتے ہیں اور قوموں میں ایک جُنبش سی شروع ہو جاتی ہے۔ تب ناسمجھ لوگ گمان کرتے ہیں کہ دنیا کے خیالات نے خود بخود راستی کی طرف پلٹا کھایا ہے لیکن درحقیقت یہ کام اُن فرشتوں کاہوتا ہے کہ جو خلیفۃ اللہ کے ساتھ آسمان سے اُترتے ہیں اور حق کے قبول کرنے اور سمجھنے کے لئے غیر معمولی طاقتیں بخشتے ہیں۔ سوئے ہوئے لوگوں کو جگا دیتے ہیں اور مستوں کو ہشیار کرتے ہیں اور بہروں کے کان کھولتے ہیں اور مُردوں میں زندگی کی رُوح پُھونکتے ہیں اور اُن کو جو قبروں میں ہیں باہر نکال لاتے ہیں۔ تب لوگ یکدفعہ آنکھیں کھولنے لگتے ہیں اور اُن کے دلوں پر وہ باتیں کھلنے لگتی ہیں جو پہلے مخفی تھیں۔ اور درحقیقت یہ فرشتے خلیفۃ اللہ سے الگ نہیں ہوتے…غرض اُس زمانہ میں جو کچھ نیکی کی طرف حرکتیں ہوتی ہیں اور راستی کے قبول کرنے کے لیے جوش پیدا ہوتے ہیں خوا ہ وہ جوش ایشیائی لوگوں میں پیدا ہوں یا یورپ کے باشندوں میں یا امریکہ کے رہنے والوں میں درحقیقت انہیں فرشتوں کی تحریک سے جو اس خلیفۃ اللہ کے ساتھ اُترتے ہیں ظہورپذیر ہوتے ہیں۔ یہ الٰہی قانون ہے جس میں کبھی تبدیلی نہیں پاؤگے اور بہت صاف اور سریع الفہم ہے۔ اور تمہاری بدقسمتی ہے اگر تم اس پر غور نہ کرو۔‘‘

(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ12تا 13حاشیہ)

آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک اور جگہ یہ مضمون بیان فرماتے ہیں:

’’یہ نکتہ بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ جب آسمان سے مقرر ہو کر ایک نبی یا رسول آتا ہے تو اُس نبی کی برکت سے عام طور پر ایک نور حسب مراتب استعدادات آسمان سے نازل ہوتا ہے اور متشار روحانیت ظہور میں آتا ہے تب ہر ایک شخص خوابوں کے دیکھنے میں ترقی کرتا ہے اور الہام کی استعداد رکھنے والے الہام پاتے ہیں اور روحانی امور میں عقلیں بھی تیز ہو جاتی ہیں کیونکہ جیسا کہ جب بارش ہوتی ہے ہر ایک زمین کچھ نہ کچھ اس سے حصّہ لیتی ہے ایسا اُسوقت ہوتا ہے جب رسول کے بھیجنے سے بہار کا زمانہ آتا ہے تب اُن ساری برکتوں کا موجب دراصل وہ رسول ہوتا ہے اور جس روز لوگوں کو خوابیں یا الہام ہوتے ہیں دراصل اُن کے کُھلنے کادروازہ وہ رسول ہی ہوتا ہے کیونکہ اس کے ساتھ دنیا میں ایک تبدیلی واقع ہوتی ہے اور آسمان سے عام طور پر ایک روشنی اُترتی ہے جس سے ہر ایک شخص حسب استعداد حصّہ لیتا ہے وہی روشنی خواب اور الہام کا موجب ہو جاتی ہے اور نادان خیال کرتا ہے کہ میرے ہنر سے ایسا ہوا ہےمگر وہ چشمہ الہام اور خواب کا صرف اس نبی کی برکت سے دُنیا پر کھولا جاتا ہے اور اُس کا زمانہ ایک لیلۃ القدر کا زمانہ ہوتا ہے جس میں فرشتے اُترتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

تَنَزَّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ الرُّوۡحُ فِیۡہَا بِاِذۡنِ رَبِّہِمۡ ۚ مِنۡ کُلِّ اَمۡرٍٍ سَلٰمٌ

جب سے خدا نے دُنیا پیدا کی ہے یہی قانون قدرت ہے۔ منہ‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ69حاشیہ)

نزول ملائکہ سے مراد علوم کی ترقی، اشاعت اور ترویج بھی ہے۔ مذہبی علوم بھی مراد ہیں،دنیاوی ترقیات بھی اس میں شامل ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

’’یعنی اس لیلۃ القدر کے زمانہ میں جو قیامت تک ممتد ہے ہر ایک حکمت اور معرفت کی باتیں دنیا میں شائع کردی جائیں گی اور انواع اقسام کے علوم غریبہ و فنون نادرہ و صناعات عجیبہ صفحۂ عالم میں پھیلا دئے جائیں گے اور انسانی قویٰ میں موافق اُن کی مختلف استعدادوں اور مختلف قسم کے امکان بسطت علم اور عقل کے جو کچھ لیاقتیں مخفی ہیں یا جہاں تک وہ ترقی کر سکتے ہیں سب کچھ بمنصہ ظہور لایا جائے گا لیکن یہ سب کچھ ان دنوں میں پر زور تحریکوں سے ہوتا رہے گا کہ جب کوئی نائب رسول اللہﷺ دنیا میں پیداہو گا‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ159تا160)

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:

’’مِنۡ کُلِّ اَمۡرٍٍکے معنے لِکُلِّ اَمْرٍہیں۔ ہر کام میں سلامتی سے مراد ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ہی سے زمانہ نے اپنی دینی اور دنیوی دونوں قسم کی ترقیات کا رنگ پکڑ لیا۔ سائنس کی نت نئی تحقیقات اور ان کی ایجادیں دنیوی اعتبار سے مِنۡ کُلِّ اَمۡرٍٍ سَلٰمٌ کی طرف مصداق ہورہی ہیں۔ تو دین اسلام کی اشاعت اور اس کی ترقی دوسرے پہلو پر مِنۡ کُلِّ اَمۡرٍٍ سَلٰمٌکو دکھلارہی ہے۔ ہر کارے و ہر مردے۔

رمضان شریف کی لیلۃ القدر میں جو نزول ملائکہ ہوتا ہے۔ وہ بھی بجائے خود سلّم و متیقن ہے او رصدی کے رأس پر جو نزول ملائکہ ہوتا ہے وہ بھی اپنی تاثیرات اور شواہد کی رو سے مشہود و مرئی ہے۔‘‘

(حقائق الفرقان جلد چہارم صفحہ430)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:

’’فرماتا ہے ہماری سنت یہ ہے کہ جب کسی مامور پر ہم اپنا کلام نازل کرتے ہیں تو اس کے ساتھ ہی اپنے ملائکہ کو بھی زمین پر نازل کردیتے ہیں۔ یہاں ملائکہ سے وہی فرشتے مراد ہیں جن کو آدم کے وقت سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ ہم نے صرف اپنا کلام محمد رسول اللہﷺ پر نازل نہیں کیا بلکہ ملائکہ کی فوج بھی اس کی تائید کے لیے زمین پر نازل کردی ہے یا آئندہ زمانہ میں قرآن کریم کی خدمت اور اسلام کے احیاء کے لیے جو مامورین آئیں گے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد 9صفحہ335)

سَلَامٌ هِيَ حَتّٰى مَطْلَعِ الْفَجْرِ (القدر :6)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:

’’سو یاد رکھنا چاہیئے کہ مَطْلَعِ الْفَجْرِسے مراد وہ وقت ہے جب اسلام کو غلبہ حاصل ہو جائے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ نبی کی وفات کے وقت ہوتا ہے۔ اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ’’الو صیت‘‘ میں تحریر فرمایا ہے کہ اے عزیزو! خداتعالیٰ کی ہمیشہ سے یہ سنت چلی آئی ہے کہ وہ اپنی دو قدرتیں دکھلاتا ہے تاکہ دشمنوںکی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کرے۔ ایک قدرت تو وہ ہوتی ہے جس کا نبی کے ذریعہ اظہار ہوتا ہے جب وہ اس راست بازی کا بیج بو دیتا ہے جس کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتا ہے۔ اور دوسری قدرت وہ ہوتی ہے جس کا اس کے خلفاء کے ذریعہ تکمیل کے رنگ میں اظہار ہوتا ہے۔ پس یہاں مَطْلَعِ الْفَجْرِسے نبی کی وفات کا زمانہ مراد ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ تمہاری تمام سلامتی اس بات میں ہے کہ تم اس رات کی عظمت کو پہچانو اور وہ قربانیاں کرو جن کا اس وقت تم سے مطالبہ کیا جارہا ہے جب فجر کا طلوع ہو گیا اور نبوت کا زمانہ ختم ہو گیا اس وقت آسمان کی نعمتیں آسمان پر رہ جائیں گی اور زمین ان برکات سے حصہ نہیں لے سکے گی جن سے اس وقت حصہ لے رہی ہے۔
اس جگہ یہ نکتہ خاص طور پر یاد رکھنے کے قابل ہے کہ نبی کے زمانہ کو بار بار دن بھی کہا گیا ہے اور نبی کو سورج۔ پھر اس کے زمانہ کو لیلۃالقدر یعنی رات بھی کہا گیا ہے وہی دن اور وہی رات کس طرح ہوا۔سو یاد رہے کہ دو الگ الگ نسبتوں کی بناء پر ایک ہی زمانہ کو دن بھی کہا گیا ہے اور رات بھی۔ نبی کا زمانہ رات ہوتا ہے بوجہ اس سے پہلی ظلمت کے۔ اور نبی کا زمانہ رات ہوتا ہے بوجہ اس کے کہ جب وہ اس ظلمت کو دور کردیتا ہے تو اس کا کام ختم ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُسے کہا جاتا ہے کہ اب تمہارے جانے کا وقت آگیا۔ جیسے رسول کریمﷺ نے جب گمراہی اور ضلالت کی تاریکیوں کودور کر دیا تو

اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰہِ وَ الۡفَتۡحُ وَ رَاَیۡتَ النَّاسَ یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا فَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ وَ اسۡتَغۡفِرۡہُ ؕؔ اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا

کے ذریعہ آپ کو وفات کی خبر دی گئی اور بتایا گیا کہ اب ہم تمہیں اپنے پاس بلانے والے ہیں پس چونکہ نبی اس زمانہ میں آتا ہے جب چاروں طرف ظلمت چھائی ہوئی ہوتی ہے اور جب وہ اس ظلمت کو دور کر دیتا اور امن اور ترقی اور کامیابی کا زمانہ آجا تا ہے تو وہ فوت ہو جاتا ہے۔ اس لئے اس کے زمانہ کو رات قرار دیا جاتا ہے کیونکہ اس کا سارا کام رات ہی میں ختم ہو جاتا ہے۔ وہ مشکلات کے زمانہ میں آتا اور مشکلات کا دور ختم ہوتے ہی اللہ تعالیٰ کے پاس چلا جاتا ہے۔ پس چونکہ ظاہری بڑی ترقی نبی کی وفات کے بعد آتی ہے اور کامیابیوں کا سورج ہمیشہ مطلع الفجر کے بعد نکلتا ہے اس لئے نبی کے زمانہ کو رات کہا جاتا ہے اگلا زمانہ جو مطلع الفجر سے شروع ہوتا ہے اور جس میں الٰہی سلسلہ کو دنیا میں غیر معمولی عروج حاصل ہوتا ہے وہ اسی وقت آتا ہے جب فجر کا طلوع ہوجاتاہے یعنی نبی اپنے رب کے پاس جا چکا ہوتا ہے۔ لیکن دوسری طرف اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جہاں تک روحانی ترقیات کا سوال ہے نبی کا زمانہ روشنی کا زمانہ ہوتا ہے اور نبی کی وفات کے بعد کا زمانہ تاریکی کا زمانہ ہوتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نبی مبعوث ہوتا ہے اس زمانہ میں آسمان سے نزول وحی کا ایک عجیب سلسلہ شروع ہو تا ہے، برکات وانوار کی بارش ہوتی ہے، معجزات ونشانات کا ظہور ہوتا ہے، روحانیت کی منازل سالوں اور مہینوں کی بجائے دنوں میں طے ہونے لگتی ہیں اور ایمان واخلاص اور محبت باللہ میں غیر معمولی اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر اس زمانہ کو دن کہا جاتا ہے اسے روشنی اور نور کا زمانہ قرار دیا جاتا ہے جس میں نبی موجود نہیں ہوتا۔

غرض زمانہ تو ایک ہی ہوتا ہے مگر نسبتوں کے فرق کی وجہ سے اسے رات بھی کہا جاتا ہے اور دن بھی …پس روحانی برکات کے لحاظ سے نبی کا زمانہ دن ہوتا ہے اور بعد کا زمانہ رات اور اس وجہ سے اسکی تعلیم کی دنیوی شوکت ابھی پورے طور پر ظاہر نہیں ہوئی ہوتی۔ کہ نبی اٹھا لیا جاتا ہے اس کا زمانہ رات کا ہوتا ہے کیونکہ سنت اللہ یہی ہے کہ مطلع الفجر تک نبی اپنی قوم میں رہتا ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد 9صفحہ338تا339)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز لیلۃ القدر کی اہمیت، اس کی برکات اور ہماری ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’لیلۃ القدر کے بارے میں مختلف راویوں نے مختلف تاریخیں بتائی ہیں۔ کسی نے اکیس رمضان بتائی۔ کسی نے تئیس سے انتیس تک کی تاریخیں بتائیں۔ بعض اسی بات پر پکے ہیں کہ ستائیس یا انتیس لیلۃ القدر ہے۔ لیکن بہر حال عموماً اس بارے میں یہی روایت ہے کہ لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو۔ آخری دس دنوں میں، دس راتوں میں تلاش کرو۔

بہرحال لیلۃ القدر ایک ایسی رات ہے جس کی ایک حقیقت ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس خاص رات کی معین تاریخ کا بھی علم دیا گیا جس میں ایک حقیقی مومن کو قبولیت دعا کا خاص نظارہ دکھایا جاتا ہے اور دعائیں بالعموم سنی جاتی ہیں۔ لیکن روایات سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ دو مسلمانوں کی ایک غلطی کی وجہ سے یہ معین تاریخ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھول گئی۔ اس ساعت کا علم ہونا، اس گھڑی کا علم ہونا کوئی معمولی چیز نہیں اور اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں قدرتی طور پر ایک خواہش پیدا ہوئی کہ اس کا جو علم خداتعالیٰ نے مجھے دیا ہے تو میں مومنین کی جماعت کو بھی بتاؤں۔ حدیث میں آتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ علم دیا گیا تو آپ خوشی خوشی گھر سے باہر آئے تا کہ لوگوں کو بھی اس کی اطلاع دیں اور وہ بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں مگر جب باہر تشریف لائے تو دیکھا دو مسلمان لڑ رہے ہیں۔ آپ ان کی لڑائی اور اختلاف مٹانے میں مصروف ہوئے تو اس کی تاریخ کی طرف سے آپ کی توجہ ہٹ گئی۔ لگتا ہے کافی وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دونوں اشخاص کی صلح کرانے میں لگا یا معاملے کو سلجھانے میں لگا۔ بہر حال جب آپ دوبارہ اس طرف متوجہ ہوئے کہ میں تو لیلۃ القدر کی تاریخ بتانے آیا تھا تو آپ اس وقت تک وہ معین تاریخ بھول چکے تھے بلکہ حدیث میں ‘بھلا دیا گیا’ کے الفاظ بھی ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لکھا ہے کہ حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ بھولے ہی نہیں تھے بلکہ الٰہی تصرف سے اس گھڑی کی یاد اٹھا لی گئی تھی۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس جھگڑے کی وجہ سے یا اختلاف کی وجہ سے اس گھڑی کا علم اٹھا لیا گیا ہے اس لئے اب معین تو نہیں لیکن اسے رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔

اس سے ایک بڑا اہم نکتہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمایا ہے کہ وہ گھڑی جس کی مناسبت کی وجہ سے اسے لیلۃ القدر کہا گیا ہے وہ قومی اتحاد و اتفاق سے تعلق رکھتی ہے۔ پس یہ بڑا اہم نکتہ ہے۔ ہم حدیث سنتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ اگر وہ دونوں مسلمان نہ لڑتے تو یہ معین تاریخیں ہمیں پتا چل جاتیں۔ لیکن اس اہم بات کی طرف بہت کم توجہ ہوتی ہے کہ وہ گھڑی جس کی مناسبت سے اسے لیلۃ القدر کہا جاتا ہے وہ قومی اتفاق و اتحاد سے تعلق رکھتی ہے اور جس قوم میں سے اتحاد و اتفاق مٹ جائے اس سے لیلۃ القدر بھی اٹھا لی جاتی ہے۔‘‘

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اسی خطبہ جمعہ میں مزید فرماتے ہیں:

’’پس یہ بہت اہم نکتہ ہے جسے ہم میں سے ہر ایک کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے کہ جب اس لیلۃ القدر میں سے کامیاب گزریں گے تو ترقی کرنے اور اس میں بڑھتے چلے جانے کے فیصلے بھی غیر معمولی ہوں گے۔ فیصلے تو اللہ تعالیٰ نے کرنے ہیں، دعائیں تو اللہ تعالیٰ نے سننی ہیں، لیلۃ القدر تو اللہ تعالیٰ نے دکھانی ہے۔ پس ان باتوں کی پابندی بھی ضروری ہے جو لیلۃ القدر کے حاصل کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ پھر مطلع الفجر بھی غیر معمولی ہوتا ہے اور پھر جو دن طلوع ہو گا یہ غیر معمولی کامیابیوں کے ساتھ نظر آئے گا۔ پس لیلۃ القدر سے فیض یاب ہونے کے لئے ہمیں ان باتوں کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے۔

لیلۃ القدر اس قربانی کی ساعت کا نام ہے جو خدا تعالیٰ کے ہاں مقبول ہو اور جو خدا تعالیٰ کے ہاں مقبول ہو جائے اس سے بڑھ کر اور کوئی نفع کا سودا نہیں ہے۔ پس مقبول قربانیوں کی کوشش کرنی چاہئے۔ اسلامی جنگوں میں مثلاً جنگ بدر میں کفّار بھی مارے گئے اور مسلمان بھی لیکن کفّار کا مارے جانا لیلۃ القدر نہیں تھا ان کی قربانیاں لیلۃ القدر نہیں تھیں لیکن مسلمانوں کا شہید ہونا لیلۃ القدر تھا کیونکہ خدا تعالیٰ نے ان قربانیوں کو مقبول قرار دیا۔ یہ اصول یاد رکھنا چاہئے کہ جس تکلیف کی خدا تعالیٰ کوئی قیمت مقرر نہیں کرتا وہ لیلۃ القدر نہیں ہے وہ سزا ہے عذاب ہے۔ مگر وہ تکلیف جس کے لئے خدا قیمت مقرر کرتا ہے وہ لیلۃ القدر ہے یعنی ظلمت بلا اور دکھ جس کا بدلہ دینے کا اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا ہے وہ لیلۃ القدر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے ایسی ساعتیں مقرر کی ہیں جن میں وہ جو قربانیاں کرے وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں مقبول ہوتی ہیں۔ یقینا ًجماعت احمدیہ اس کے نظارے دیکھتی ہے اور دیکھ رہی ہے۔ بعض ملکوں میں احمدیوں کے خلاف شدید حالات ہیں۔ یہ شدید حالات جہاں ان کے لئے طلوع فجر کی خوشخبری دے رہے ہیں وہاں اس لیلۃ القدر کے نتیجہ میں دنیا کے ملک ملک اور شہر شہر میں احمدیت کے بچوں کی پیدائش ہوتی چلی جا رہی ہے۔ نئی نئی جماعتیں قائم ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ پس اس سے مزید فیضیاب ہونے کے لئے، لیلۃ القدر کی مزید برکات سمیٹنے کے لئے ہم میں سے ہر ایک کو یہ عہد کرنا چاہئے کہ ہمارا آپس کا اتفاق و اتحاد پہلے سے بڑھ کر ہو گا اور اگر اس میں کہیں رخنے پیدا ہو رہے ہیں، دراڑیں پیدا ہو رہی ہیں تو ہم فوری طور پر انہیں بھریں گے۔ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ کی مثال بن کر لیلۃ القدر کا حقیقی فیض پائیں گے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 25؍جولائی 2014ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل15؍اگست2014ءصفحہ7)

اللہ تعالیٰ ہمیں لیلۃ القدرکے ساتھ منسلک تمام برکات سے فیضیاب فرمائے۔ آمین ثم آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button