متفرق مضامین

رمضان المبارک کی رونقوں میں سے ایک رونق۔ اعتکاف

(وحید احمد رفیق۔ مربی سلسلہ ربوہ)

آج کل کورونا وائرس عالمی وباکی صورت اختیار کرچکا ہے۔اس بیماری کی وجہ سے وفات پاجانے والوں کی تعداد بھی اب لاکھوں میں ہے۔ اس وائرس کا شکار ہوکر بیمارہونے والے افراد کی تعداد ملینزمیں بیان کی جاتی ہےاور کئی ممالک مزید اموات کا اندیشہ ظاہر کررہے ہیں۔ہر انسان اس وائرس کی وجہ سے خوف زدہ نظر آتا ہے۔سائنس ابھی تک اس بیماری کا حتمی علاج تلاش کرنے میں بے بس نظر آتی ہے۔ایسی صورت حال میں علم الابدان کے ماہرین نے اس بیماری سے بچنے کا واحد حل فی الحال یہ تجویز کیا ہے کہ انتہائی احتیاط کی جائے، گھروں پر رہا جائے،میل ملاپ سے یہ وائرس تیزی سے پھیلتا ہے۔لہٰذا زیادہ تعداد میں کسی جگہ اکٹھے ہونے سے گریز کریں اور صفائی کا خاص خیال رکھیں خصوصاً ہاتھوں کو دن میں کئی مرتبہ تھوڑے تھوڑے وقفہ سے صابن سے دھونا لازم قرار دیا جارہا ہے۔اسی طرح ایسے لوگ جو اس بیماری میں مبتلا ہوجائیں ان کے لیے Quarantine ہونا اور Isolation اختیارکرنالازم قرار دیا جاتا ہے تاکہ ایسا مریض یہ وائرس دوسرے لوگوں میں پھیلانے کا باعث نہ بنے۔ علم الادیان کے ماہرین بھی اس امر پر متفق نظرآتے ہیں کہ جو احتیاطیں حکومتوں اورڈاکٹرز کی طرف سے تجویز کی جارہی ہیں،انہیں ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ،شریعت کی قائم کردہ وہ عبادات جو اپنے اندر اجتماع کا حکم رکھتی ہیں مثلاً نماز اور حج وغیرہ ،ان کی ادائیگی کا ایسا طریق اختیار کیا جائے جس سے قیمتی انسانی جانوں کا نقصان نہ ہو۔چنانچہ کئی مسلم ممالک سمیت بہت سے غیر مسلم ممالک نے بھی ہر قسم کی عبادت گاہوں میں ہر قسم کے اجتماعات پر پابندی عائد کررکھی ہے۔

ہمارا ایمان ہے کہ شریعت اسلام ہر زمانہ کے لیے کامل تعلیم اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔شریعت نے اپنے احکام میں ہر جگہ گنجائش رکھی ہے۔ ہمارے آقاو مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ ﷺنے ان رخصتوں پرنہ صرف خودعمل کرکے دکھایا ہے بلکہ ہمیں بھی ان سہولتوں سے فائدہ اٹھانے کی تلقین فرمائی ہے۔چنانچہ موجودہ صورت حال میں ہم شریعت کے ان احکام پر عمل کر رہے ہیں جو سہولت اور گنجائش رکھتے ہیں۔ چنانچہ اب ہماراہر گھر گویا ایک مسجد کا منظر پیش کررہا ہے،جہاں نہ صرف روزانہ پنجوقتہ نماز باجماعت کا اہتمام کیا جاتاہے بلکہ نماز جمعہ کی ادائیگی بھی ہورہی ہےاور دروس کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے ایک مرتبہ پھررمضان المبارک کا مہینہ اپنی تمام تر برکتوں کے ساتھ ہمیں سیراب کرنے کے لیے آن پہنچا ہے۔اس بابرکت مہینہ میں عموماً مساجد کی رونقیں بڑھ جایاکرتی ہیں اور لوگ انفرادی عبادت یعنی نماز تہجداور تلاوت قرآن کریم کے علاوہ بعض اجتماعی عبادات مثلاًتراویح اور اعتکاف وغیرہ کی برکتیں بھی سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن موجودہ صورت حال میں بیماری اور خوف کی وجہ سے لوگوں کا اجتماعی عبادات کے لیے مساجد میں بڑی تعداد میں جمع ہوناانتہائی خطرناک ہوسکتا ہےاور اس وجہ سے قیمتی انسانی جانیں بھی ضائع ہوسکتی ہیں۔اسی وجہ سےسعودی عرب سمیت کئی مسلم ممالک یہ اعلان کرچکے ہیں کہ تراویح وغیرہ کی ادائیگی اجتماعی صورت میں مساجد میں نہیں کی جائے گی،تمام مسلمان اپنے گھروں پر عام پنجوقتہ نماز کی طرح نمازتراویح بھی اداکرسکتے ہیں۔کیونکہ جس تیزی سے یہ وائرس لوگوں کو متاثر کررہا ہے مساجد میں اجتماعی عبادات کی اجازت دینے سے اندیشہ ہے کہ یہ کئی انسانوں کی جانوں کے ضیاع کا باعث بن سکتا ہے اور شریعت اسلام ہر صورت انسانی جان کی حفاظت کا حکم دیتی ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس عالمی وبا کا علاج ابھی تک دنیاوی حکومتوں اور سائنس کے پاس تو نظر نہیں آتا،کیا اس کا کوئی روحانی علاج کسی کے پاس موجود ہے؟

ہمارا علاج کوئی کان دھر کرسنتا نہیں

طاعون کے متعلق ذکر ہوا تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:

’’ہمارا علا ج کوئی کان دھر کر سنتا نہیں ہے۔ مگر بہرحال آخری علاج یہی ہے۔ لوگوں کی عادت ہوگئی ہے کہ ان کی نظر صرف اسباب پر رہتی ہے۔مگر سچی بات یہ ہے کہ آسمان سے سب کچھ ہوتا ہے۔جب تک وہاں نہ ہوئے زمین پر کچھ نہیں ہوسکتا۔ دہریت کا آج کل طبائع میں بہت زور ہے۔ اخباروں میں ہمارے بتلائے ہوئے علاج پر ٹھٹھا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ طاعون کو خدا سے کیا تعلق ؟ایک بیماری ہے جس کا علاج ڈاکٹروں سے کرانا چاہیے۔‘‘

(البدر 23؍تا30؍جنوری 1903ء صفحہ 2)

مذہب اسلام انسان کو خداتک پہنچنے کے کئی راستے بتاتا ہے۔حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی کئی راہوں کی طرف ہماری رہ نمائی فرماتا ہے جن کے ذریعہ انسان خداتک پہنچ سکتا ہے۔مذہب کی بتائی گئی راہوں میں سے ایک راہ اعتکاف بھی ہے، جس کا رمضان المبارک سے ایک خاص تعلق ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ بیان فرماتے ہیں:

’’پس کوئی شبہ نہیں کہ ظلمات جسمانیہ کے دور کرنے کے لئے روزہ سےبہتر اورافضل کوئی عبادت نہیں اور انوار و مکالمات الٰہیہ کی تحصیل کےلئےروزہ سے بڑھ کر اور کوئی چیز نہیں۔ اور حضرت موسیٰؑ نے جب کوہ طور پر تیس بلکہ چالیس روزےرکھے تب ہی ان کوتورات ملی اورخودآنحضرتﷺسے غار حرا کے اعتکاف میں روزوں کارکھناثابت ہےجس کےبرکات سے نزول قرآن کا شروع ہوااورخودقرآن مجیدبھی اسی طرف ناظرہےکہ

شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ۔

اورمسیح موعودنےبھی چھ ماہ یازیادہ مدت تک روزےرکھےہیں جس کی برکات سےہزاروں الہامات کےوہ موردہورہےہیں۔

(الحکم 10؍نومبر 1906ء صفحہ4)

اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ہمیں رمضان المبارک کابابرکت مہینہ عطافرمایاہے،جس میں مختلف عبادات بجا لا کر ہم اس ماہ سے وابستہ برکات کے حصول کی کوشش کرسکتے ہیں۔ اس ماہ میں کی جانے والی مختلف عبادات ہیں جن میں سے ایک عبادت اعتکاف کی بھی ہے۔اعتکاف اور رمضان کا ایک خاص تعلق بھی ہے۔ ذیل میں اس حوالے سے بعض امور درج کیے جارہے ہیں۔

اعتکاف کالفظی اور اصطلاحی مطلب

اعتکاف کا لفظی مطلب ٹھہرنایارکناہے۔اسی طرح کسی چیز کو اپنے لیے لازم کرلینااور اپنے نفس کو اس پر مقید کردینا بھی اعتکاف کہلاتا ہے۔

(لسان العرب جلد 9 زیر لفظ‘‘ عکف’’)

اس سوال کے جواب میں کہ اعتکاف کا لفظی مطلب کیا ہے؟حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نےبیان فرمایا:

’’کسی چیز پر سہارا کرنا، کسی چیز کو پکڑ کر بیٹھنا اس کو کہتے ہیں اعتکاف۔ تو معتکف وہ ہےجو اللہ کے دروازے کو پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔‘‘

( مجلس سوال و جواب منعقدہ9؍جنوری2000ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 30؍جون2000ءصفحہ12)

آنحضرت ﷺ کی مستقل سنت کو سامنے رکھتے ہوئے فقہاء نے اعتکاف کی جو اصطلاحی تعریف بیان کی ہے، وہ یہ ہے:

اللَّبْثُ فِی الْمَسْجِدِ مَعَ الصَّوْمِ وَنِیَّۃِ الْاِعْتِکَافِ۔

یعنی(1) مسجد میں(2) عبادت کی نیت سے(3) روزہ رکھ کر ٹھہرنا، اعتکاف کہلاتا ہے۔

(الھدایۃ شرح بدایۃ المبتدی از امام برہان الدین مرغینانی، کتاب الصوم،باب الاعتکاف)

اعتکاف کی تاریخ،اس کا آغاز کب سے ہوا؟

ویسے تو اعتکاف کی کوئی معین تاریخ بیان نہیں کی جاسکتی کہ اس کا آغاز کب سے ہوا،تاہم قرآن کریم کے طرز بیان سے اسے کچھ معین ضرور کیا جاسکتاہے۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے:

وَ عَہِدۡنَاۤ اِلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ وَ اِسۡمٰعِیۡلَ اَنۡ طَہِّرَا بَیۡتِیَ لِلطَّآئِفِیۡنَ وَ الۡعٰکِفِیۡنَ وَ الرُّکَّعِ السُّجُوۡدِ۔ (سورۃ البقرۃ:126)

یعنی اور ہم نے ابراہیم اور اسمٰعیل کو تاکیدکی کہ تم دونوں میرے گھرکو طواف کرنے والوں اور اعتکاف بیٹھنےوالوں اور رکوع کرنے والوں (اور)سجدہ کرنے والوں کے لیے خوب پاک و صاف بنائے رکھو۔

درج بالا آیت میں حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کے نام معین ہیں کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے معین اور تاکیدی حکم دیا تھا کہ اعتکاف بیٹھنے والوں کے لیے اس کے گھر کو خوب پاک و صاف بنائے رکھیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا زمانہ موٹے طورپر قریباً 22سو سال قبل مسیح بتایا جاتاہے۔گویا اعتکاف کاوجودآج سے کم از کم 4ہزار سال قبل موجود تھا۔ اس یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ روزہ کی طرح اعتکاف کا تصوربھی اسلام سے پہلے موجود تھا۔

اعتکاف بیٹھنے کی فضیلت واہمیت

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ آنحضورﷺ نے فرمایا:

… جس نے محض اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ایک دن کا اعتکاف کیا تو اللہ اس (اعتکاف کرنے والے)کے اور آگ کے درمیان تین خندقوں جیسا فاصلہ پیدا کردے گا۔ہر خندق (زمین وآسمان کے)دونوں کناروں سے لمبی ہے۔

(المعجم الاوسط للطبرانی ،روایت نمبر 7326)

اعتکاف کے دوران کیا کرنا چاہیے؟

معتکف اپنا زیادہ تر وقت ذکر الٰہی اور عبادت میں گزارے۔فضول باتوں میں وقت ضائع کرنا درست نہیں۔ذکر الٰہی اور عبادت میں نماز تہجد کے علاوہ دیگر نفل نمازیں بھی شامل ہیں ،اسی طرح تلاوت قرآن کریم اور دینی کتب کا مطالعہ بھی شامل ہے۔

اعتکاف کی اقسام

اعتکاف کی تین اقسام ہیں:فرض، سنت اور نفل

1۔ فرض

اگر کوئی شخص نذر مانے کہ وہ اعتکاف بیٹھے گا،تو نذر کے مطابق وہ اعتکاف پورا کرنا فرض ہوگا۔اسی طرح اگر نذر مانتے ہوئے کسی نے جگہ معین کی ہوکہ فلاں جگہ اعتکاف بیٹھے گا،یا کوئی وقت معین کیا ہوکہ اتنا وقت بیٹھے گا،تو نذرماننے والے کے لیے ضروری ہوگاکہ نذر کے ہر حصہ کو پورا کرے۔اس حوالے سےقرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

وَلْیُوْفُوْا نُذُوْرَھُمْ

یعنی انہیں چاہیے کہ اپنی نذریں پوری کیا کریں۔

(سورۃ الحج:30)

اس کی عملی مثال ہمیں احادیث میں بھی ملتی ہے۔ روایت میں ذکر ہے کہ ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آنحضورﷺ سے دریافت کیا کہ میں نے جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ مسجد حرام میں ایک رات کا اعتکاف کروں گا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی نذر پوری کرو۔پس انہوں نے(حضرت عمرؓ) نےایک رات کا اعتکاف کیا۔

(صحیح بخاری،کتاب الاعتکاف،باب مَنْ لَمْ یَرَ عَلَیْہِ اِذَااعْتَکَفَ صَوْمًا روایت نمبر 2042)

2۔ سنت

ماہ رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرنا آنحضورﷺ کی سنت سے ثابت ہے۔جیساکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 10دن کا اعتکاف کرتے تھے ، البتہ جس سال آپ کا انتقال ہوا اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا۔

(صحیح البخاری،ابواب الاعتکاف،باب الاعتکاف فی العشر الاوسط من رمضان روایت نمبر2044)

3۔ نفل

انسان جب چاہے،جہاں چاہے، جتنے وقت اور دورانیہ کے لیے چاہے ،اعتکاف بیٹھ سکتا ہے۔

مسنون اعتکاف

کہا جاتا ہے کہ مسنون اعتکاف سے مرادہے کہ انسان اعتکاف کی نیت کرےاور رمضان کا آخری مکمل عشرہ مسجد میں گزارے اور تمام روزے رکھے۔

آنحضورﷺکی مستقل سنت تھی کہ فرائض کی تکمیل کے علاوہ نوافل کے قیام کو بھی بہت اہمیت دیا کرتے تھے۔اعتکاف دراصل ایک نفلی عبادت ہے ، جس میں ایک مومن ایک معین وقت کے لیے اپنی ہرقسم کی مصروفیات کو ایک طرف رکھ کر محض اللہ تعالیٰ کی خاطر ایک قسم کا انقطاع اختیار کرلیتا ہے۔ اس طرح اسےخاص یکسوئی میسر آجاتی ہے،دعاؤں اور عبادات کاخاص موقع میسر آجاتاہے،جواسے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے میں ممدہوتاہے۔روایات سے ثابت ہے کہ آنحضورﷺ ہر سال رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں خصوصاً اس نفل عبادت کی ادائیگی کا خاص اہتمام کیا کرتے تھے۔

مسنون اعتکاف۔رمضا ن کا آخری عشرہ

آنحضورﷺ کے اعتکاف سے متعلق حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا اپنی وفات تک یہ معمول رہا کہ آپ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھا کرتے تھے۔ آپؐ کی وفات کے بعد آپؐ کی ازواج مطہرات بھی اس سنت کی پیروی کرتی رہیں۔

(صحیح البخاری،ابواب الاعتکاف، باب الاعتکاف فی العشر الاواخر روایت نمبر2026)

آنحضرت ﷺ نے لیلۃ القدر کی تلاش کرنے والوں کو رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھنے کی ہدایت فرمائی۔

(صحیح مسلم،کتاب الصیام،باب فضل لیلۃ القدر والحث علی طلبھا روایت نمبر 2766)

مسنون اعتکاف کا آغازکس تاریخ سے ہوگا؟

اعتکاف 20رمضان کی نماز فجر سے شروع کرنا چاہیے کیونکہ آنحضورﷺ کی اس بارہ میں واضح سنت موجود ہے کہ آپ 10دن کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے اور دس دن اسی صورت میں مکمل ہوتے ہیں جبکہ 20رمضان کی صبح کو اعتکاف بیٹھا جائے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

’’ساتھ ہی ایک اور حکم بھی دیا کہ رمضان میں اس سنت کوبھی پورا کروکہ رمضان کی بیسویں صبح سے لے کردس دن اعتکاف کیاکرو۔ ان دنوں میں زیادہ توجہ الی اللہ چاہئے۔‘‘

(الحکم 17؍نومبر1907ء صفحہ 5)

مسنون اعتکاف 20یا 21رمضان کو بیٹھنے کےحوالے سے ایک علمی بحث

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں:

’’شیخ محمدصاحب کوصحاح ستّہ خوب آتی تھیں۔سادہ سادہ پڑھاتے تھے۔مباحثات کی طرف سے ان کی طبیعت بالکل متنفر تھی۔ایک دفعہ میں ابوداؤد پڑھتا تھا۔اعتکاف کے مسئلہ میں حدیث سے معلوم ہوتا تھا کہ صبح کی نماز پڑھ کر انسان معتکف میں بیٹھے۔ مجھے اشارہ کیا کہ تم حاشیہ کو پڑھو یہ حدیث بہت مشکل ہے۔میں نے عرض کیا کہ حدیث تو بہت آسان ہے۔حکماًمیں دیکھ لیتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ بہت مشکل ہے۔میں نے سرسری طور پر اس کا حاشیہ دیکھا اس میں لکھا ہوا تھا کہ یہ حدیث بہت مشکل ہے۔کیونکہ اکیس تاریخ کی صبح کو بیٹھیں تو ممکن ہے اکیسویں رات لیلۃ القدر ہو۔اگر اس کے لحا ظ سے عصر کو بیٹھیں تورسول اللہ سے ثابت نہیں۔میں نے دیکھ کر کہا کہ ذرا بھی مشکل نہیں۔ یہ محاشی کی غلطی ہے۔میں ایسی راہ عرض کرتاہو ں جس میں ذرا بھی اشکال نہیں یعنی بیس کی صبح کو بیٹھے۔انہوں نے کہایہ تو اجماع کے خلاف ہے۔میں نے کہاامام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے اقوال آپ پڑھیں۔ یہ اجماع محض دعاوی ہیں۔ہر ایک شخص اپنے اپنے مذہب کی کثرت کو دیکھ کر لفظ اجماع بول لیا کرتاہے۔اس پر وہ بہت ہی تند ہو گئے۔میری عادت تھی کہ سبق کو پڑھ کر کسی بڑے کتب خانہ میں اس کتاب کی شرح دیکھا کرتا تھا اور کوئی لغت اٹک جاتا تھاتو لغت کی کتاب میں دیکھ لیتا تھا۔میں نے ان کی تیزی کی طرف دھیان نہ کرکے سبق کو بہت تیزی سے پڑھنا شروع کر دیا۔صبح سے لیکر دوپہر کے قریب تک پڑھتا ہی چلا گیا۔مگر وہ چپ ہی بیٹھے رہے۔جب ظہر کی اذان کی آواز آئی تو اتنا فرمایا کہ جماعت مشکل سے ملے گی۔سوائے اس کے انہوں نے اس وقت تک کوئی کلام نہیں کیا۔میں نے کتاب کو بند کردیا۔عبداللہ حلوائی ایک شخص کے مکان پر یہ سبق ہوا کرتا تھا اوردن کا کھانا میرا اور شیخ صاحب کا اسی کے یہاں ہوتا تھا۔میں وضو کرکے ظہر کی نماز کو چلا گیا۔ظہر کے بعد مولوی رحمت اللہ صاحب کے خلوت خانہ میں جا پہنچا۔انہوں نے فرمایا کہ آج تمھارااپنے شیخ سے مباحثہ ہوا۔میں نے عرض کیا کہ تلمیذ اور استاد کا کوئی مباحثہ نہیں ہو سکتا۔میں طالبعلم آدمی ہوں میرا مباحثہ ہی کیا۔ہمارے شیخ تو بڑے آدمی ہیں۔ہاں یوں طالبعلم اساتذہ سے کچھ پوچھا ہی کرتے ہیں۔فر مانے لگے نہیں کوئی بڑا مسئلہ ہے۔میں نے کہا مسئلہ تو کوئی نہیں ایک جزوی بات تھی۔ مولوی صاحب کی طرز سے مجھ کو معلوم ہو گیا کہ ان کو ساری خبر پہنچ گئی ہے۔مگر میں حیران تھا کہ سوائے میرے او ر شیخ کے وہاں اور کوئی نہ تھا۔خبر کیسے پہنچی۔اتنے میں مولوی صاحب نے خود ہی فرمایا کہ تمھارے شیخ آئے تھے۔اور فرماتے تھے کہ بعض طالبعلم بہت دلیر آ جاتے ہیں۔اور ان کے مشکلات کا خمیازہ ہمیں اٹھانا پڑتا ہے۔اور پھر انہوں نے سارا واقعہ ہمیں سنایا۔میں نے جب سمجھ لیا کہ اب اخفا کا کوئی موقع نہیں تو ان سے عرض کیاکہ یہ ایک جزوی مسئلہ ہے۔اکیس کی صبح کو نہ بیٹھے بیس کی صبح کو بیٹھ گئے۔اس طرح حدیثوں میں تطبیق ہو جاتی ہے۔مولوی رحمت اللہ صاحب نے فرمایا کہ بات اجماع کے خلاف ہو جاتی ہے۔میں نے کہا کہ اس چھوٹی سی بات پر بھلا اجماع کیا ہو گا۔ تب انہوں نے فرمایا کہ سبق کل پڑھائیں گے۔اب تم ہمارے ساتھ ہمارے مکان پر چلو۔یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔جب خلوت خانہ سے نکل کر مسجد کے صحن میں پہنچ گئے میں نے عرض کیا حضرت لوگ اس کوٹھے کی طرف سجدہ کیو ں کرتے ہیں۔ فرمایا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے۔میں نے کہا کہ انبیاء کا اجماعی قبلہ تو بیت المقدس ہے۔اور اللہ تعالیٰ نے تو آپ کو اہل کتاب کی کتابوں سے بہت آگاہ فرمایا ہے۔آپ ایک شخص کے فرمان پر اجماع انبیاء بنی اسرائیل کو کیوں چھوڑتے ہیں۔آپ نے تو اتنے بڑے اجماع کو چھوڑ دیا۔میں نے اگر جزوی مسئلہ میں ایک حدیث کے معنی میں اختلاف کیا تو حرج کیا ہوا۔فرمایا۔دل دھڑکتاہے۔میں نے کہا جس کا دل نہ دھڑکے وہ کیا کرے۔پھر فرمایا دل دھڑکتا ہے اور کھڑے ہو گئے۔تب میں نے بہت دلیری سے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ آ پ محقق اور عالم ہیں۔ہر مسئلہ میں شخص واحد کا اتباع۔اس کے متعلق آپ مجھے ارشاد کریں۔ فرمایا ہم تو امام ابوحنیفہ کے مقلد ہیں۔مگر ہر مسئلہ میں تو ہم فتویٰ نہیں دیتے۔میں نے عرض کیا کہ حضور کے فرمانے سے تقلید شخصی کا مسئلہ تو حل ہو گیا۔فرمایا تقلید کا مسئلہ بہت سہل اور بہت مشکل ہے۔میں نے عرض کیا کہ میں اس کلام کو سمجھا نہیں۔فرمایا ہر جزوی مسئلہ میں ایک ہی شخص کی تقلید نہ کسی نے کی نہ کوئی کر سکتا ہے۔ا س سے تو ثابت ہوتا ہے کہ تقلید شخصی کوئی بڑی بات نہیں اور مسئلہ صاف ہو جاتاہے۔ …

ہم علی العموم ان باتوں کے دشمن نہیں۔تمھاری شفاعت تمھارے شیخ سے کردی ہے۔تم سبق پڑھتے جائیو وہ روکیں گے نہیں اورآزادی سے پڑھو ہم نے شیخ کو مطمئن کر دیا ہے۔ہم تمھارا مذاق خوب جانتے ہیں۔میں نے عرض کیا ہمارے شیخ حدیث کا بڑا ادب کرتے ہیں۔ اگر میں ان کے حضور پڑھتا رہوں تو وہ کبھی مجھ کو بند نہ کریں گے۔فرمایا۔وہ ڈرے تھے۔ہم نے مطمئن کر دیا ہے۔چنانچہ میں دوسرے دن گیا۔گو شیخ صاحب اس دن تو نہ بولے۔مگر میں نے سبق پڑھ لیا۔میں نے نسائی،ابوداؤد، ابن ماجہ ان سے پڑھ لیں۔ان دنوں مولوی ابو الخیر صاحب دہلوی خلف الرشید حضرت محمد عمر نقش بندی مجددی مجھ سے درالمختار پڑھا کرتے تھے۔کچھ مدت کے بعد حضرت شاہ عبد الغنی مجددی مدینہ سے مکہ تشریف لائے۔شہر میں بڑی دھوم دھام مچی۔میں بھی ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔اس وقت وہ حرم میں بیٹھے ہوئے تھے اورہزاروں آدمی ان کے گرد موجود تھے۔سب سے پہلے میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ اعتکاف کب بیٹھا جائے۔طالب علمانہ زندگی بھی عجیب ہوتی ہے۔وہی ایک مسئلہ اتنے بڑے وجود کے سامنے میں نے پیش کیا۔آپ نے بے تکلف فرمایا کہ بیس کی صبح کو۔میں تو سن کر حیران رہ گیا۔ان کی عظمت اور رعب میرے دل میں بہت پیدا ہوا۔مگر پھر بھی جرأت کر کے پوچھا کہ حضرت میں نے سنا ہے کہ یہ اجماع کے خلاف ہے۔ان کے علم پر قربان ہو جاؤں۔بڑے عجیب لہجہ میں فرمایا کہ جہالت بڑی بری بلاہے۔ حنفیوں میں فلاں فلاں۔شافعیوں میں فلاں۔حنابلہ میں فلاں۔ مالکیوں میں فلاں۔کئی کئی آدمیوں کے نام لے کر کہا کہ ہر فرقہ میں اس بیس کے بھی قائل ہیں۔میں اس علم اور تجربہ کے قربان ہو گیا۔ ایک وجد کی کیفیت طاری ہو گئی کہ کیا علم ہے،تب وہاں سے ہٹ کر میں نے ایک عرضی لکھی کہ میں پڑھنے کے واسطے اس وقت آپ کے ساتھ مدینہ جا سکتا ہوں؟اس کاغذکو پڑھ کر یہ حدیث مجھے سنائی۔ المستشار مؤ تمن۔ پھر فرمایا کہ تمام کتابوں سے فارغ ہو کر مدینہ آنا چاہیے۔میں نے یہ قصہ جا کر حضرت مولانا رحمت اللہ کے حضور پیش کیا اور عرض کیا کہ علم تو اس کو کہتے ہیں۔یہ بھی عرض کیا کہ ہمارے شیخ تو ڈر گئے تھے مگر حضرت شاہ عبدالغنی صاحب نے توحرم میں بیٹھ کر ہزارہا مخلوق کے سامنے فتویٰ دیا۔مگر کسی نے چوں بھی نہ کی۔فرمایا شاہ صاحب بہت بڑے عالم ہیں۔‘‘

(مرقاۃ الیقین صفحہ 112تا115)

مسنون اعتکاف کا آغاز نماز فجر کے بعد سے ہوگا

اس حوالےسے تین روایات درج کی جارہی ہیں:

1۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول کریمﷺرمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے، میں آپ کے لیے ایک خیمہ نصب کردیتی۔آپﷺ صبح کی نماز(فجر) ادا کرتے پھراس میں تشریف لے جاتے۔

(صحیح البخاری،ابواب الاعتکاف،باب اعتکاف النساءروایت نمبر2033)

2۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ہر رمضان میں اعتکاف فرماتے،آپؐ نماز فجر اداکرنے کے بعد اپنے معتکف میں تشریف لے جایاکرتے۔

(صحیح البخاری،کتاب الاعتکاف، باب الاعتکاف فی شوالروایت نمبر2041)

3۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہﷺ اعتکاف کا ارادہ فرماتے تو نماز فجر اداکرنےکے بعد اپنے معتکف میں تشریف لے جایا کرتے تھے۔

(صحیح مسلم،کتاب الاعتکاف،باب اعتکاف العشر الأواخر من رمضان روایت نمبر2785)

20رمضان کی شام اعتکاف بیٹھنا

ایسے ممالک جہاں چاند کا حساب بہت پہلے ہو جاتا ہے اور پتہ چل جاتا ہے کہ رمضان کا مہینہ انتیس دن کا ہے یا تیس دن کا۔چنانچہ اس ضمن میں حضورِ انور کا ایک خط ہدیۂ قارئین کیا جاتا ہے:

حضرت امیر المومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک دوست کے نام اپنے ایک خط میں تحریر فرمایا:

’’آپ نے اعتکاف شروع کرنے کی تاریخ کے بارہ میں سوال اٹھایا ہے۔ مرکز میں تو ہمیشہ سے یہ طریق رہا ہے کہ لوگ 20؍ رمضان کی صبح سے لے کر عصر کے بعد تک بیٹھتے رہے ہیں۔ آجکل چونکہ رمضان کی تاریخوں کا پہلے ہی واضح طور پر پتہ لگ جاتا ہے اور اعتکاف میں دس دن پورے کرنے بھی ضروری ہوتے ہیں اس لئے انتظامیہ سہولت کے مطابق فیصلہ کر لیتی ہے۔ اور 20کی عصر کے بعد بھی بیٹھیں تو 10 دن تو پورے ہو ہی جاتے ہیں۔‘‘

(خط بنام مکرم ناز احمد ناصر صاحب محررہ 26 اگست 2011)

20دن کا اعتکاف

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر رمضان کے 10دن کا اعتکاف کرتے تھے، البتہ جس سال آپ کا انتقال ہوا اس سال آپ نے 20دن کا اعتکاف کیا۔

(صحیح البخاری، ابواب الاعتکاف،باب الاعتکاف فی العشر الاوسط من رمضان روایت نمبر2044)

کیامسنون اعتکاف کے لیے روزہ کی شرط ہے؟

مسنون اعتکاف وہی کہلائے گا جس میں روزہ بھی رکھا جائے۔ حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں:اعتکاف کرنے والے کے لیے سنت کا طریقہ یہ ہے کہ …..اعتکاف بغیر روزہ کے نہیں ہے۔

(سنن ابو داؤد،کتاب الصیام،باب المعتکف یعود المریض روایت نمبر2473)

مسجد میں اعتکاف کی صورت میں میاں بیوی کے مخصوص تعلقات کی مناہی

آیت کریمہ

وَلاَ تُبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِی الْمَسَاجِدِ۔(سورۃ البقرۃ:188)

یعنی اور ان سے (اپنی بیویوں سے) ازدواجی تعلقات قائم نہ کرو جبکہ تم مساجد میں اعتکاف بیٹھے ہوئے ہو،کی تشریح کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:

’’اس کے متعلق اختلاف ہوا ہے کہ آیا اعتکاف کی وجہ سے مباشرت ممنوع قرار دی گئی ہے یامسجد کی حرمت کی وجہ سے۔ میرے نزدیک اعتکاف کی وجہ سے مباشرت سے نہیں روکا گیا بلکہ مسجد کے احترام کی وجہ سے روکا گیا ہے جس کی طرف

وَاَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِی الْمَسَاجِدِ

کے الفاظ اشارہ کررہے ہیں کہ مباشرت کی نفی اعتکاف کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ مساجد کی وجہ سے ہے۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ مباشرت لمس کو بھی کہتے ہیں اور احادیث سے ثابت ہے کہ حضرت عائشہؓ ایسی حالت میں جبکہ رسول کریمﷺ اعتکاف میں بیٹھے ہوتے تھے آپؐ کا سر بھی پانی سے دھو دیتی تھیں اور بالوں کی کنگھی بھی کردیا کرتی تھیں(بخاری ابواب الاعتکاف)پس اس جگہ مباشرت کی نہی سے محض مخصوص تعلقات یا اس کے مبادی مراد ہیں،جسم کو چھونا مراد نہیں۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد 2صفحہ 413-414)

کیااعتکاف کرنے والے کے لیے مسجد میں چارپائی یابستربچھانا درست ہے؟

حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ آنحضورﷺ جب اعتکاف فرماتے تو ستون توبہ کے قریب آپؐ کے لیے آپؐ کابستر بچھادیاجاتاتھا یاآپؐ کی چارپائی بچھادی جاتی تھی۔

(سنن ابن ماجہ،ابواب ماجاء فی الصیام،باب فی المعتکف یلزم مکانا من المسجدروایت نمبر1774)

اعتکاف چھوڑ کر مقدمہ کی پیشی پر جانے کو ناپسند فرمایا

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ تحریر کرتے ہیں کہ مولوی شیر علی صاحبؓ بیان کرتے تھے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب کے زمانہ میں حکیم فضل الدین صاحب بھیروی اعتکاف بیٹھے مگر اعتکاف کے دِنوں میں ہی ان کو کسی مقدمہ میں پیشی کے واسطے باہر جانا پڑ گیا۔ چنانچہ وہ اعتکاف توڑ کر عصر کے قریب یہاں سے جانے لگے تو حضرت صاحبؑ نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ اگر آپ کو مقدمہ میں جانا تھا تو اعتکاف بیٹھنے کی کیا ضرورت تھی؟

(سیرت المہدی جلد1صفحہ97)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے اعتکاف کا ایک رنگ

حضرت منشی عبداللہ صاحب سنوریؓ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے سفر ہوشیار پور 1886ء کی چلی کشی کی روداد یوں بیان کرتے ہیں:

’’حضرت صاحب نے ہم کو بھی حکم دے دیا کہ ڈیوڑھی کے اندر کی زنجیر ہروقت لگی رہے اور گھر میں بھی کوئی شخص مجھے نہ بلائے۔میں اگر کسی کو بلاؤں تو وہ اسی حد تک میری بات کا جواب دے جس حد تک کہ ضروری ہے اور نہ اوپر بالاخانہ میں کوئی میرے پا س آوے۔میرا کھانا اوپر پہنچا دیا جاوے مگر اس کا انتظار نہ کیا جاوے کہ میں کھانا کھالوں۔خالی برتن پھر دوسرے وقت لے جایا کریں۔ نماز میں اوپر الگ پڑھا کروں گا تم نیچے پڑھ لیا کرو۔ جمعہ کے لیے حضرت صاحب نے فرمایاکوئی ویران سی مسجد تلاش کرو جو شہر کے ایک طرف ہو۔جہاں ہم علیحدگی میں نماز اداکر سکیں۔ چنانچہ شہر کے باہر ایک باغ تھا اس میں ایک چھوٹی سی ویران مسجد تھی۔وہاں جمعہ کے دن حضور تشریف لے جایا کرتے تھے اور ہم کو نماز پڑھا تے تھے اور خطبہ بھی خود پڑھتے تھے۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ 275)

رمضان کے علاوہ اعتکاف بیٹھنا

اس سوال پر کہ کیا رمضان کے مہینہ کے علاوہ کسی وقت اعتکاف بیٹھا جا سکتا ہے اس کے متعلق احادیث میں اس بات کاذکر ملتاہے کہ ایک مرتبہ آنحضور ﷺ شوال کے مہینےمیں اعتکاف بیٹھےتھے۔

چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ ایک سال آنحضورﷺ نے رمضان کی بجائے آخری عشرہ شوال میں اعتکاف کیا۔

(بخاری کتاب الاعتکاف۔باب اعتکاف فی شوال )

اعتکاف کس طرح بیٹھنا چاہیے؟

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’آپﷺ نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ اعتکاف کس طرح بیٹھنا چاہئے، بیٹھنے والوں اور دوسروں کے لئے کیا کیا پابندیاں ہیں روایت میں آتا ہے کہ ’’آپﷺ نے رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا، آپﷺ کے لئے کھجور کی خشک شاخوں کا حجرہ بنایا گیا، ایک دن آپﷺ نے باہر جھانکتے ہوئے فرمایا، نمازی اپنے رب سے راز و نیاز میں مگن ہوتا ہے اس لئے ضروری ہےکہ ایک دوسرےکوسنانےکےلئےقراءت بالجہرنہ کرو۔‘‘

(مسند احمد بن حنبل جلد 2صفحہ 67۔مطبوعہ بیروت )
(خطبہ جمعہ فرمودہ29؍اکتوبر2004ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل12؍نومبر2004ءصفحہ6)

لیلۃ القدر کی تلاش

اعتکاف کے دوران معتکف لیلۃ القدر کی تلاش میں بھی یقیناً خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں اور التجاکرتا ہے اور یہی سنت نبویﷺ سے ثابت ہے۔

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’آخری دس راتوں میں لیلۃالقدر تلاش کرنے کے بارہ میں ایک اور حدیث پیش کرتاہوں۔ بخاری اور مسلم نے ابوسعید خدریؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول کریم ؐنے بھی اور ہم نے بھی رمضان کی پہلی دس تاریخوں میں اعتکاف کیا۔اس کے خاتمہ پر حضرت جبرئیل آئے اور رسول کریمؐ کو خبر دی کہ جس چیز (لیلۃ القدر)کی آپ کو تلاش ہے وہ آگے ہے۔اس پر آپؐ نے اور ہم سب نے درمیانی دس دنوں کا اعتکاف کیا۔ اس کے خاتمہ پر پھر حضرت جبرئیل نے ظاہر ہو کر آنحضرت ؐسے کہا کہ جس چیز کی آپ کو تلاش ہے وہ آگے ہے۔ اس پر رسول کریمؐ نے بیسویں رمضان کی صبح کو تقریر فرمائی اور فرمایاکہ مجھے لیلۃ القدر کی خبردی گئی تھی مگر مَیں اُسے بھول گیا ہوں اس لیے اب تم آخری دس راتوں میں سے وتر راتوں میں اس کی تلاش کرو۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ لیلۃ القدر آئی ہے اور مَیں مٹی اور پانی میں سجدہ کررہاہوں۔اس وقت مسجد نبویؐ کی چھت کھجور کی شاخوںسے بنی ہوئی تھی اور جس دن آ پ نے یہ تقریر فرمائی بادل کانشان تک نہ تھا۔پھر یہ روایت کرنے والے کہتے ہیں کہ اچانک بادل کاایک ٹکڑا آسمان پر ظاہر ہوا اور بارش شروع ہو گئی۔پھر جب نبی کریم ؐنے ہمیں نماز پڑھائی تو مَیں نے دیکھا کہ آپ کی پیشانی پر مٹی اور پانی کے نشانات ہیں،ایسا خواب کی تصدیق کے لیے ہوا۔صحیح بخاری اور مسلم نے اس کو درج کیا ہے۔

حضرت مصلح موعودؓاس بارہ میں فرماتےہیں کہ:ابوسعیدکی ایک اَورروایت میں یہ واقعہ21رمضان کوہوا تھا۔پھر آپ لکھتے ہیں کہ امام شافعی کہتے ہیں کہ اس بارہ میں یہ سب سے پختہ روایت ہے۔ حضرت مرزا بشیر احمدصاحبؓ کی ایک روایت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اگر رمضان کی ستائیسویں رات جمعہ کی رات ہو تووہ خداکے فضل سے بالعموم لیلۃ القدر ہوتی ہے۔‘‘

(روزنامہ ا لفضل لاہور 8جولائی 1950ء)
(خطبہ جمعہ فرمودہ14؍نومبر2003ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل9؍جنوری2004ءصفحہ6)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button