متفرق مضامین

آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں تذکرۂ اعتکاف

(رحمت اللہ بندیشہ۔ استاد جامعہ احمدیہ جرمنی)

رمضان کی برکتوں سے فائدہ اٹھانے کا ایک طریق اعتکاف بھی ہے۔ جس کا قرآن شریف میں مجملاً اور احادیث میں تفصیلاً ذکر آتا ہے۔ مسنون اعتکاف یہ ہے کہ رمضان کے آخری عشرے میں جامع مسجد میں دن رات قیا م کیا جائے، اور سوائے ضروری حوائج انسانی کے مسجد سے باہر نہ نکلا جائے ،اور یہ دس دن رات خصوصیت کے ساتھ نماز ، قرآن خوانی ، ذکر الٰہی اور دعا وغیرہ میں گزارے جائیں۔ گویا انسان ان ایام میں دنیا سے کٹ کر خدا کے لیے کلیۃً وقف ہوجائے۔اعتکاف فرض نہیں بلکہ ہر انسان کے حالات اور توفیق پر موقوف ہے۔مگر اس میں شبہ نہیں کہ جس شخص کے حالات اجازت دیں اور اسے اعتکاف کی توفیق میسّر آئے اس کے لیے یہ طریق قلب کی صفائی اور روحانی ترقی کے واسطے بہت مفید ہے۔ لیکن جس شخص کو اعتکاف کی توفیق نہ ہو یا اس کے حالات اس کی اجازت نہ دیں تو اس کے لیے یہ طریق بھی کسی حد تک اعتکاف کا مقام ہوسکتا ہے کہ وہ رمضان کے مہینہ میں اپنے اوقات کا زیادہ سے زیادہ حصہ مسجد میں گزارے اور یہ وقت نماز اور قرآن خوانی اور ذکر اور دعا وغیرہ میں صرف کرے۔کیونکہ آنحضرت ﷺ نے ایسے شخص کی تعریف فرمائی ہے:

قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِي المَسَاجِدِ

جس کا دل مسجد میں لٹکا رہتا ہے۔

(بخاری کتاب الاذان،بابُ مَنْ جَلَسَ فِي المَسْجِدِ يَنْتَظِرُ الصَّلاَةَ وَفَضْلِ المَسَاجِدِ)

اس لیے یہ طریق بھی اگر حسن نیت سے کیا جائے تو خالی از فائدہ نہیں۔

اعتکاف کے لغوی معانی

حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ اعتکاف کے لغوی معانی بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

’’اعتکاف عُکوفسے مشتق ہے۔ جس کے معنی ٹھہرنا، روکنا، اپنے اوپر لازم کرنا اور عکوفکے معنی جھکنے، دھرنا مارکر بیٹھنے اور چمٹے رہنے کے بھی ہیں…

الاِعْتِکَاف:الإقَامَۃُ بِالْمَکَانِ وَلَزُوْمُھَا(لسان العرب:عکف)

یعنی دھرنا مار کر کسی جگہ بیٹھ گیا۔ اعتکاف کے معنی گوشہ نشین ہونے کے بھی ہیں۔ لفظ مجاورتبھی انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے(فتح الباری جزء4صفحہ346شرح باب2) اور یہ لفظ جِوَارسے مشتق ہے یعنی ہم نشین ہونا۔‘‘

(صحیح بخاری جلد سوم۔ترجمہ و تشریح حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ۔سن اشاعت 2008ء۔قادیان۔صفحہ 699۔کتاب الاعتکاف)

اعتکافِ رمضان کی بابت اسلامی اصطلاح

اعتکاف کے لغوی معنی کسی جگہ میں بند ہو جانے یا ٹھہرے رہنے کے ہیںجیسا کہ اوپر تذکرہ ہوا۔ انسان جب چاہے اورجس دن چاہے اعتکاف بیٹھ سکتا ہے۔ لیکن رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھنا مسنون ہے۔چنانچہ رمضان کے اعتکاف کی بابت جو اسلامی اصطلاح ہے ،اس کے متعلق فقہ کی مشہور کتاب ھدایہ باب الاعتکاف میں لکھا ہے کہ

’’اَللَّبْثُ فِی الْمَسْجِدِ مَعَ الصَّوْمِ وَنِیَّۃِ الْاِعْتِکَافِ‘‘

یعنی عبادت کی نیت سے روزہ رکھ کر مسجد میں ٹھہرنے کا نام اعتکاف ہے۔

( العناية شرح الهداية،كِتَابُ الصَّوْمِ،بَابُ الِاعْتِكَافِ۔جلد 2صفحہ 390)

ابنیاء،صلحاء اور سلف صالحین کا اعتکاف یعنی تنہائی میں عبادات

حضرت موسیٰ علیہ السلام طور پر چالیس دِنوں کے لیے معتکف ہوئے،اور خدا تعالیٰ کے قرب کی جستجو میں مستغرق رہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَ اِذۡ وٰعَدۡنَا مُوۡسٰۤی اَرۡبَعِیۡنَ لَیۡلَۃً(البقرة :52)

حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے لیے بھی چالیس دن کا عرصہ خصوصی دعاؤں اور روزوں میں گزارنے کا اناجیل میں مذکور ہے۔

(مرقس باب1آیت13) (لوقاباب4آیت1)

زمانہ جاہلیت میں عرب بھی بیت اللہ میں اعتکاف بیٹھا کرتے تھے۔چنانچہ بخاری شریف میں لکھا ہے کہ

أَنَّ عُمَرَ سَأَلَ النَّبِيَّ ﷺقَالَ: كُنْتُ نَذَرْتُ فِي الجَاهِلِيَّةِ أَنْ أَعْتَكِفَ لَيْلَةً فِي المَسْجِدِ الحَرَامِ قَالَﷺ:’’فَأَوْفِ بِنَذْرِكَ‘‘

حضرت عمرؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیاکہ میں نے جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ ایک رات بیت اللہ میں اعتکاف بیٹھوں گا۔ آپؐ نے فرمایا کہ نذر پوری کریں۔

(بخاری کتاب الاعتکاف،باب الاعتکاف لیلاً)

آنحضرت ﷺکے متعلق آتا ہے کہ

كَانَ يَخْلُو بِغَارِ حِرَاءٍ فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ

یعنی بعثت سے قبل غارِ حراء میں کئی کئی رات خلوت نشین رہا کرتے تھے۔

(بخاری،کتاب بدء الوحی)

اس روایت میں جو لفظ تَحَنُّث استعمال ہوا ہے۔ وہ اعتکاف یعنی گوشہ نشینی کے مفہوم میں ہے۔ اسے تَحَنُّفبھی کہتے ہیں۔ یعنی یکسوہوجانا۔ ثَاء اور فَاء متبادل حروف ہیں۔ اس سے لفظ حَنِیْفہے۔ یہ طریق عبادت قدیم سے عربوں میں رائج تھا مگر غیر معین صورت میں۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سنت ابراہیمی تھی جو مرورِ زمانہ کے ساتھ بدلی ہوئی صورتوں میں بطور یادگار باقی رہ گئی۔ حنیف حضرت ابراہیم ؑ کا لقب ہے۔ اسلام نے ابراہیمی سنت کو پھر تازہ کردیا اور اعتکاف کے لیے چند پابندیاں عائد کی ہیں۔

(صحیح بخاری جلد سوم صفحہ703ترجمہ و تشریح حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ۔سن اشاعت2008ء۔قادیانکتاب الاعتکاف،باب الاعتکاف لیلا)

اسی طرح سیرت ابن ہشام میں لکھا ہے کہ جوانی میں آنحضورﷺہر سال غار حرا میں ایک مہینہ کے لیے اعتکاف فرمایا کرتے اور تنہائی میں اللہ کو یاد کرتے تھے۔جب آپؐ کا یہ اعتکاف ختم ہو تا توواپس آکر پہلے خانہ کعبہ کا طواف کرتے پھر گھر تشریف لے جاتے۔ جب حضورؐ کو پہلی وحی ہوئی تویہ رمضان کاہی مہینہ تھا جس میں آپؐ غار حرا میں اعتکاف فرما رہے تھے۔چنانچہ اصل الفاظ یہ ہیں کہ

كَانَ رَسُولُ اللّٰهِﷺ يُجَاوِرُ فِي حِرَاءٍ مِنْ كُلِّ سَنَةٍ شَهْرًا…فَإِذَا قَضَى رَسُولُ اللّٰهِﷺ جِوَارَهُ مِنْ شَهْرِهِ ذَالِكَ،كَانَ أَوَّلُ مَا يَبْدَأُ بِهِ،إذَا انْصَرَفَ مِنْ جِوَارِهِ، الْكَعْبَةَ، قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بَيْتَهُ،فَيَطُوفُ بِهَا…حَتَّى إذَا كَانَ الشَّهْرُ الَّذِي أَرَادَ اللّٰهُ تَعَالَى بِهِ فِيْهِ مَا أَرَادَ مِنْ كَرَامَتِهِ، مِنَ السَّنَةِ الَّتِي بَعَثَهُ اللّٰهُ تَعَالَى فِيْهَا، وَذَالِكَ الشَّهْرُ رَمَضَانَ

(السیرہ النبوۃ لابن ہشام جلد 1صفحہ 235۔زیر عنوان ابْتِدَاءُ نُزُولِ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ۔ مكتبة ومطبعة مصطفى البابي بمصر۔الطبعة الثانية، 1375هـ 1955ء )

مسلمانوں میں چلہ کشی کا دستور جو پایا جاتا ہے۔ اُس کا پس منظر بھی انبیاء علیہم السلام کی یہی سنت ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی 1886ء میں چالیس دن کے لیے ہوشیار پور گوشہ نشین ہوئے تھے اور آپؐ پر انہی دِنوں میں عظیم الشان تجلی ہوئی جس میں آپ کو ایک نشانِ رحمت عطا کیا گیا۔ واقعات اس تجلی کے عظیم الشان ہونے کی تصدیق کررہے ہیں۔ ان وجوہ سے اعتکاف کی برکات ظاہر وباہر ہیں۔

فرضیت رمضان کے ابتداء میں رسول اللہ ﷺ کا اعتکاف کا طریق

آنحضورﷺ بسا اوقات رات کا اکثر حصہ اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہو کر گزار دیتے تھے۔ایک روایت میں حضرت عائشہ ؓکا بیان ہے کہ ایک رات حضور ﷺ کی باری میرے گھر میں تھی اور رات کو میں نے محسوس کیا کہ حضورؐ اپنے بستر پر نہیں ہیں لمبا انتظار کرنے کے بعد میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ حضورؐ کسی اَور بیوی کے پاس نہ چلے گئے ہوں۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ میں نے جب باہر نکل کر آپؐ کو تلاش کرنے کی کوشش کی تو میں نے دیکھا کہ آپؐ ایک ویرانے میں اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہیں اور آپؐ کے سینے سے اس طرح گریہ و زاری کی وجہ سے آواز آرہی ہے جیسے ہنڈیا اُبل رہی ہے۔

یہ عام دنوں کی بات ہے۔رمضان المبارک میں اور بالخصوص آخری عشرہ کی بابت ،حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ آخری عشرہ میں نبی کریم ؐ اپنی کمر ہمت کس لیتے تھے۔اپنی راتوں کو زندہ کرتے اور عبادت الٰہی میں گزارتے تھے۔ اور گھر والوں کو بھی جگا کر عبادت کے لیے تحریک فرماتے تھے۔ اور اتنی محنت اور مجاہدہ آخری عشرہ میں فرماتے تھے کہ اتنا اہتمام کسی اور زمانہ میں نہیں ہوتا تھا۔

(مسلم کتاب الاعتکاف باب الاجتہاد فی اللہ)

احادیث میں ملتا ہے کہ آنحضورﷺ نے ایک عشرے سے زیادہ بھی اعتکاف کیا اور بعض روایات میں آتا ہے کہ آنحضورﷺ نے پورا رمضان بھی اعتکاف کیا۔چنانچہ حضرت ابوسعید خدری ؓبیان کرتے ہیں کہ

إِنَّ رَسُولَ اللّٰهِ ﷺ اعْتَكَفَ الْعَشْرَ الْأَوَّلَ مِنْ رَمَضَانَ،ثُمَّ اعْتَكَفَ الْعَشْرَ الْأَوْسَطَ،فِي قُبَّةٍ تُرْكِيَّةٍ عَلَى سُدَّتِهَا حَصِيرٌ، قَالَ:فَأَخَذَ الْحَصِيْرَ بِيَدِهِ فَنَحَّاهَا فِي نَاحِيَةِ الْقُبَّةِ، ثُمَّ أَطْلَعَ رَأْسَهُ فَكَلَّمَ النَّاسَ، فَدَنَوْا مِنْهُ، فَقَالَ:‘‘إِنِّي اعْتَكَفْتُ الْعَشْرَ الْأَوَّلَ، أَلْتَمِسُ هَذِهِ اللَّيْلَةَ، ثُمَّ اعْتَكَفْتُ الْعَشْرَ الْأَوْسَطَ، ثُمَّ أُتِيْتُ، فَقِيْلَ لِي: إِنَّهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَعْتَكِفَ فَلْيَعْتَكِفْ’’ فَاعْتَكَفَ النَّاسُ مَعَهُ، قَالَ:‘‘وَإِنِّي أُرِيتُهَا لَيْلَةَ وِتْرٍ، وَإِنِّي أَسْجُدُ صَبِيْحَتَهَا فِيْ طِيْنٍ وَمَاءٍ’’ فَأَصْبَحَ مِنْ لَيْلَةِ إِحْدَى وَعِشْرِينَ، وَقَدْ قَامَ إِلَى الصُّبْحِ، فَمَطَرَتِ السَّمَاءُ، فَوَكَفَ الْمَسْجِدُ، فَأَبْصَرْتُ الطِّينَ وَالْمَاءَ، فَخَرَجَ حِينَ فَرَغَ مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ،وَجَبِينُهُ وَرَوْثَةُ أَنْفِهِ فِيْهِمَا الطِّيْنُ وَالْمَاءُ، وَإِذَا هِيَ لَيْلَةُ إِحْدَى وَعِشْرِينَ مِنَ الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ رمضان کا پہلا عشرہ اعتکاف کرتے تھے۔ پھر آپؐ نے درمیانی عشرہ میں ایک ترکی خیمہ میں جس کی چوکھٹ پر چٹائی تھی اعتکاف کیا۔ راوی کہتے ہیں آپؐ نے چٹائی اپنےہاتھ سے پکڑی اوروہ خیمہ کی طرف کردی۔پھر آپؐ نے اپنا سر مبارک باہر نکالااور لوگوں سے گفتگو فرمائی۔ وہ آپؐ کے قریب ہو گئے۔ آپؐ نے فرمایا میں نے پہلے عشرہ میں اعتکاف کیا کہ میں اس رات (لیلۃالقدر کو)تلاش کروں پھر درمیانی عشرہ میں اعتکاف کیا پھر میرے پاس کوئی آیا اور مجھے کہا گیاوہ (لیلۃالقدر)آخری عشرہ میں ہے۔ پس جو کوئی تم میں سے پسند کرتا ہے کہ وہ اعتکاف کرے تو وہ ضرور اعتکاف کرے لوگوں نے آپؐ کے ساتھ اعتکاف کیا۔ آپؐ نے فرمایا مجھے وہ ایک طاق رات میں دکھائی گئی ہے اور یہ کہ اس کی صبح کو میں مٹی اور پانی میں سجدہ کر رہا ہوں۔ پس آپؐ نے اکیسویں رات کی صبح کی اور صبح تک عبادت کی۔ تو بارش برسی اور مسجد ٹپک پڑی۔ میں نے مٹی اور پانی دیکھا پس آپؐ جب صبح کی نمازسے فارغ ہوئے تو باہر نکلے اور آپؐ کی پیشانی اور ناک دونوں پر پانی اور مٹی لگے ہوئے تھے اور یہ آخری عشرہ کی اکیسویں رات تھی۔

(مسلم ،كِتَاب الصِّيَامِ۔ بَابُ اسْتِحْبَابِ صَوْمِ سِتَّةِ أَيَّامٍ مِنْ شَوَّالٍ إِتْبَاعًا لِرَمَضَانَ)

مسنون اعتکاف کس دن اور کس وقت بیٹھا جائے؟

مسنون اعتکاف جس کی نبی اکرمﷺ نے اپنے آخری رمضان میں صحابہ کو تاکید اور نصیحت کی ہے وہ آخری عشرہ کا اعتکاف تھا۔ چنانچہ آنحضرتﷺ 20؍رمضان المبارک کی نماز فجر پڑھنے کے بعد اعتکاف شروع فرمایا کرتے تھے اور ماہ شوال کا چاند طلوع ہونے پر اعتکاف ختم فرمایا کرتے تھے۔ابن عمر ؓسے روایت ہے کہ

أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَعْتَکِفُ فِی الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ۔

نبی کریم ﷺ رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔

( صحیح بخاری کتاب الاعتکاف بَابُ الِاعْتِکَافِ فِی العَشْرِ الأَوَاخِرِ، وَالِاعْتِکَافِ فِی المَسَاجِدِ کُلِّہَا)

اسی طرح حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں:

کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَعْتَکِفُ فِی العَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ فَکُنْتُ أَضْرِبُ لَہُ خِبَاءً فَیُصَلِّی الصُّبْحَ ثُمَّ یَدْخُلُہُ

رسول اللہﷺ رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ میں آپﷺ کے لیے خیمہ تیار کرتی ، آپﷺ صبح کی نماز پڑھنے کے بعد اس میں تشریف لے جاتے۔

(صحیح بخاری کتاب الاعتکاف بَابُ اعتکاف النساء)

آپﷺ کی وفات کے بعد آپ کی ازواج مطہرات بھی اس سنت کی پیروی کرتی رہیں۔چنانچہ لکھا ہے کہ

كَانَ يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللّٰهُ عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ اعْتَكَفَ أَزْوَاجُهُ مِنْ بَعْدِهِ

آنحضرت ﷺ کا اپنی وفات تک یہ معمول رہا کہ آپؐ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھا کرتے تھے۔ آپؐ کی وفات کے بعد آپ کی ازواج مطہرات بھی اس سنت کی پیروی کرتی رہیں

(صحیح مسلم،کتاب الاعتکاف باب اعتکاف العشر الاواخر)

رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرنے کی ہدایت کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت ابو سعید خدریؓ رسول پاکﷺ کی حدیث بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

اعْتَکَفْنَا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْعَشْرَ الْاَوْسَطَ مِنْ رَمَضَانَ فَخَرَجَ صُبْحَۃَ عِشْرِیْنَ فَخَطَبَنَا فَقَالَ اِنِّیْ اُرِیْتُ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ۔ثُمَّ اُنْسِیْتُھَا اَوْ نَسِیْتُھَا فَلْتَمِسُوْھَا فِی الْعَشْرِ اْلاَوَاخِرِ فِی الْوِتْرِ ۔

ہم نے آنحضرتؐ کے ہمراہ رمضان کے درمیانی عشرہ میں اعتکاف کیا۔ پھر آپؐ بیسیویں تاریخ کی صبح کو باہر تشریف لائے اور ہم سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ مجھے لیلۃ القدر دکھائی گئی تھی مگر پھر مجھ سے بھلا دی گئی۔ یا یہ فرمایا کہ میں بھول گیا۔ پس اب تم اس کو (رمضان کے) آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔

(بخاری کتاب الصلاۃ و التراویح۔ باب التماس لیلۃ القدر فی السبع الاواخر)

پس آنحضور ؐ رمضان کے آخری عشرہ میں (یعنی بیسویں روزے کی صبح سے )اعتکاف بیٹھا کرتے تھے۔فجر کی نماز پڑھ کر آپ اپنے معتکف میں تشریف لے جاتے تھے۔

(مسلم کتاب الصیام با ب متی یدخل من اراد الاعتکاف)

نیز مسنون اعتکاف روزے کے بغیر نہیں ہوتا۔

(ابوداؤد کتاب الصیام باب المعتکف یعو د المریض)

اور عیدالفطر کا چاند نظر آنے پر آپؐ اعتکاف ختم فرمایا کرتے تھے۔یہ مسنون اعتکاف ہے۔اس کے علاوہ اگر کوئی چند دن مسجد یا گھر میں بیٹھ کر عبادت اور ذکر واذکار کرتا ہے تو اسے اس کا ثواب تو مل جائے گا مگر اسے ہم مسنون اعتکاف نہیں کہیں گے۔

حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں:

’’اعتکاف بیسویں کی صبح کو بیٹھتے ہیں۔کبھی دس دن ہو جاتے ہیں اور کبھی گیارہ‘‘(الفضل 3؍نومبر 1914ء)

اعتکاف بیٹھنے کی موزوں ترین جگہ جامع مسجد

اعتکاف کے لیے موزوں اور مناسب جگہ جامع مسجد ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ذکر ہے:

وَاَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِی الْمَسَاجِدِ

جبکہ تم مساجد مىں اعتکاف بىٹھے ہوئے ہو(البقرة:188)

اسی طرح تعمیر کعبہ جو کہ مساجد کے لیے بطور اساس کے حکم رکھتا ہے۔اس کی بابت حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کو ہدایت دی گئی تھی کہ

أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِيْنَ وَالْعَاكِفِيْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِ

تم دونوں مىرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف بىٹھنے والوں اور رکوع کرنے والوں (اور) سجدہ کرنے والوں کے لئے خوب پاک و صاف بنائے رکھو۔(البقرة :126)

آنحضرت ﷺ، ازواج مطہرات اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مسجد میں ہی اعتکاف بیٹھا کرتے تھے۔چنانچہ حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں:

لا اِ عْتِکَافَ إِلَّا فِیْ مَسْجِدٍ جَامِعٍ

کہ اعتکاف کی بابت سنت یہ ہے کہ وہ صرف جامع مسجد میں ہوتا ہے۔

(ابوداؤد کتاب الصیام باب المعتکف یعود المریض)

اس کے علاوہ اگر کوئی چند دن مسجد یا گھر میں بیٹھ کر عبادت اور ذکر واذکار کرتا ہے تو اسے اس کا ثواب تو مل جائے گا مگر اسے ہم مسنون اعتکاف نہیں کہیں گے۔چونکہ تندرست مرد کےلیے مسجد میں جا کر نماز باجماعت پڑھنا ضروری ہے،اس لیے بغیر حقیقی مجبوری کے وہ گھر میں مسنون اعتکاف نہیں بیٹھ سکتا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓسے سوال ہوا کہ کیا گھر میں اعتکاف ہو سکتا ہے ؟آپؓ نے فرمایا کہ

’’مسجد کے باہر اعتکاف ہو سکتا ہے مگر مسجد والا ثواب نہیں مل سکتا‘‘

(فرمودا ت مصلح موعود ؓ دربارہ فقہی مسائل۔زیر عنوان اعتکاف۔صفحہ 171)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکی خدمت میں خواتین کی طرف سے سوال ہوا کہ کیا اعتکاف دس دن سے کم بیٹھنے کی اجازت ہے؟ جواب میں حضورؒ نےفرمایا:

’’نہیں۔ جو عورت ایسی حالت میں ہو کہ اس کو پورے دس دن کی توفیق نہ ملے۔ تو اس کو بیٹھنا ہی نہیں چاہئے۔ گھر میں تبرکاً بیٹھ جائیں اصل اعتکاف تو مسجد میں ہوتا ہے۔‘‘

(لجنہ سے ملاقات۔ روزنامہ الفضل 8؍مئی 2000ء صفحہ3۔ ریکارڈنگ 9؍جنوری 2000ء)

لیکن جیسا کہ آج کل کے مخصوص حالات ہیں۔اس بابت حضرت خلیفہ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کاایک ارشاد ہماری رہنمائی کرتا ہے۔

الٰہ آباد سے ایک دوست نے آپؓ سے دریافت کیا کہ یہاں احمدیوں کی مسجد تو کوئی نہیں۔ میں نے ایک مکان اپنی رہائش کےواسطے کرایہ پر لیا ہوا ہے اسی کے ایک کمرے میں احمدی برادران نماز اور جمعہ پڑھ لیتے ہیں کیا ماہ رمضان میں وہاں میں اعتکاف کر سکتا ہوں؟ فرمایا :

’’ہاں آپ وہیں اعتکاف کر لیں۔‘‘

(بدر کلام امیر اکتوبر تا دسمبر1912ء صفحہ11)

17؍اپریل 2020ءبروز جمعۃ المبارک شعبہ تربیت جرمنی کی طرف سے مہیا کردہ خطبہ جمعہ کے آخر پر ایک ضروری نوٹ کے تحت لکھا ہے کہ

’’حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں موجودہ حالات کے پیش نظر رمضان المبارک کے متعلق بغرض راہنمائی چند امور پیش کیے گئے۔روزوں کے متعلق حضور انور نے فرمایا ہے: ’’اپنے حالات کے مطابق اور صحت کے مطابق خود فیصلہ کریں‘‘ نیز اعتکاف کے متعلق حضور انور نے فرمایا ہے: ’’مسجد میں تو نہیں ہوگا۔جس نے گھر میں علیحدہ ہو کر بیٹھنا ہے بیٹھ جائے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 17؍اپریل2020ءتیار کردہ شعبہ تربیت جماعت احمدیہ جرمنی)

مورخہ9؍مئی2020ء کو جماعت احمدیہ یوکے کی طرف سےایک سرکلرکے ذریعہ موجودہ حالات میں اعتکاف بیٹھنے کے حوالے سے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایت ان الفاظ میں درج کی گئی ہے۔ حضور انور نے فرمایا:

’’اس بارہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد بڑا واضح ہےکہ مسجد کے باہر اعتکاف ہو سکتا ہے۔مگر مسجدوالا ثواب نہیں مل سکتا۔ اور یہی میرا موقف ہے۔تاہم عورتوں کو گھر میں اعتکاف بیٹھنے کی اجازت ہے۔‘‘

نیز فرمایاکہ باقی اعتکاف بیٹھنا ہر ایک کیلئے ضروری بھی نہیں ہے لیکن چونکہ آجکل لوگوں کومسجدوں میں نماز جمعہ کیلئے آنے کی اجازت نہیں اس لئے اگر گھروں میں کسی نے نماز کیلئے کوئی جگہ معین کی ہوئی ہے جہاں لوگوں کا عام آنا جانا نہیںہے تو وہاںاعتکاف بیٹھا جا سکتا ہے۔اس صورت میں پھر گھر والے مِل کر با جماعت نمازوں کے ساتھ ساتھ اس جگہ جمعہ بھی ادا کریں۔ لیکن یہ اجازت صرف مجبوری کے حالات میں ہے۔ عام دنوں میں مسجدوں میں ہی اعتکاف بیٹھنا چاہئے۔‘‘

(سر کلر از طرف جماعت یوکے)

دیگر معتکفین کی موجودگی میں دوران اعتکاف بلند آواز سے تلاوت کرنا مناسب نہیں

احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ اعتکاف ایک انفرادی عبادت ہے اور اس کے دوران کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس سے دوسرے معتکفین کی عبادت میں حرج ہوتا ہو۔ حتی کہ قرآن مجید بھی دھیمی آواز سے پڑھنے کی ہدایت ہے۔چنانچہ حضرت ابو سعیدؓ روایت کرتے ہیں کہ

اعْتَكَفَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ، فَسَمِعَهُمْ يَجْهَرُونَ بِالْقِرَاءَةِ، فَكَشَفَ السِّتْرَ، وَقَالَ:’’أَلَا إِنَّ كُلَّكُمْ مُنَاجٍ رَبَّهُ، فَلَا يُؤْذِيَنَّ بَعْضُكُمْ بَعْضًا، وَلَا يَرْفَعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ فِي الْقِرَاءَةِ‘‘، أَوْ قَالَ:‘‘فِي الصَّلَاةِ‘‘

آنحضرت ؐنے مسجد میں اعتکاف کیا۔اعتکاف کے دوران آپؐ نے بعض افراد کو اونچی آواز سے تلاوت قرآن مجید کرتے سنا۔اس پر آپ ﷺنے اپنے خیمہ کا پردہ ہٹا کر فرمایا: اے لوگو! تم میں سے ہر ایک شخص اپنے خدا سے سرگوشی کر رہا ہے، اس لیے تم ایک دوسرے کو تکلیف مت دو اور نہ ہی نماز میں یا قرآن مجید پڑھتے ہوئے ایک دوسرے کے مقابل پر اونچی آواز سے قراء ت کرو۔

(سنن ابو داؤد ابواب قیام اللیل باب رفع الصوت بالقراء ۃ فی صلاۃ اللیل)

اسی مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ
’’آپﷺ نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ اعتکاف کس طرح بیٹھنا چاہئے، بیٹھنے والوں اور دوسروں کے لئے کیا کیا پابندیاں ہیں روایت میں آتا ہے کہ آپؐ نے رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا، آپؐ کے لئے کھجور کی خشک شاخوں کا حجرہ بنایا گیا، ایک دن آپؐ نے باہر جھانکتے ہوئے فرمایا، نمازی اپنے رب سے راز و نیاز میں مگن ہوتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کو سنانے کے لئے قراء ت بالجہر نہ کرو۔(مسند احمد بن حنبل جلد 2صفحہ 67۔مطبوعہ بیروت )یعنی مسجد میں اور بھی لوگ اعتکاف بیٹھے ہوں گے اس لئے فرمایا معتکف اپنے اللہ سے راز و نیاز کر رہا ہوتاہے، دعائیں کر رہا ہوتا ہے۔ قرآن شریف بھی اگر تم نماز میں پڑھ رہے ہو یا ویسے تلاوت کر رہے ہو تو اونچی آواز میں نہ کرو تاکہ دوسرے ڈسٹرب نہ ہوں۔ ہلکی آواز میں تلاوت کرنی چاہئے۔ سوائے اس کے کہ اب مثلاً جماعتی نظام کے تحت بعض مساجد میں خاص وقت کے لئے درسوں کا انتظام ہوتا ہے۔ وہ ایک جماعتی نظام کے تحت ہے اس کے علاوہ ہر ایک معتکف کو نہیں چاہئے کہ اونچی آواز میں تلاوت بھی کرے یا نماز ہی پڑھے۔ کیونکہ اس طرح دوسرے ڈسٹرب ہوتے ہیں۔ تو یہ ہیں احتیاطیں جو آنحضرت ؐنے فرمائیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 29؍اکتوبر 2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل12؍نومبر2004ءصفحہ6)

دوران اعتکاف معتکفین کودعا کی پرچیاں دینا؟

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ

’’معتکف کے لئے بڑی تکلیف دہ صورتحال ہوتی ہے۔ کہ وہ اپنی عبادت میں مصروف ہوتا ہے پردہ کے لئے ایک چادر ہی ٹانگی ہوتی ہے نا۔ پردے کے پیچھے سے ایک ہاتھ اندر داخل ہوتا ہے جس میں مٹھائی اور ساتھ پرچی ہوتی ہے کہ میرے لئے دعا کرو یا نمازی سجدے میں پڑا ہوا ہے اوپر سے پردہ خالی ہوتا ہے تو اوپر سے کاغذ آکر اس کے اوپر گر جاتا ہے (ساتھ نام ہوتا ہے) کہ میرے لئے دعا کرو۔ یا ایک پراسرار آواز پردے کے پیچھے سے آتی ہے آہستہ سے کہ مَیں فلاں ہوں میرے لئے دعا کرو۔ یہ سب غلط طریقے ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 29؍اکتوبر 2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 12؍نومبر2004ءصفحہ6)

معتکف کس قسم کی حوائج ضروریہ کے لیے مسجد سے باہر جاسکتا ہے؟

ام المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ

كَانَ رَسُولُ اللّٰهِﷺ مُعْتَكِفًا فَأَتَيْتُهُ أَزُورُهُ لَيْلًا فَحَدَّثْتُهُ، ثُمَّ قُمْتُ فَانْقَلَبْتُ فَقَامَ مَعِي لِيَقْلِبَنِي، وَكَانَ مَسْكَنُهَا فِي دَارِ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، فَمَرَّ رَجُلَانِ مِنَ الْأَنْصَارِ،فَلَمَّا رَأَيَا النَّبِيَّ ﷺ أَسْرَعَا، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺَ: ’’عَلَى رِسْلِكُمَا، إِنَّهَا صَفِيَّةُ بِنْتُ حُيَيٍّ‘‘ قَالَا:سُبْحَانَ اللّٰهِ يَارَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:’’إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنَ الْإِنْسَانِ مَجْرَى الدَّمِ، فَخَشِيتُ أَنْ يَقْذِفَ فِي قُلُوبِكُمَا شَيْئًا‘‘، أَوْ قَالَ:’’شَرًّا‘‘

رسول اللہ ؐ اعتکاف میں تھے۔ میں ان کی ملاقات کو رات کے وقت گئی۔ اور میں نے آپ ؐسے باتیں کیں جب میں اٹھی اور لوٹی تو آپؐ بھی میرے ساتھ اٹھے۔حضرت صفیہ ؓ کا گھر ان دنوں اسامہ بن زید ؓکے مکانوںمیں تھا۔ راستے میں دو انصاری راہ میں ملے۔ انہوں نے جب آپؐ کو دیکھا تو تیز تیز چلنے لگے۔ آپؐ نے (ان انصاریوں کو ) فرمایا کہ اپنی چال سے چلو۔ یہ صفیہ بنت حُییّ ہے۔ ان دونوں نے یہ سن کر کہا سبحان اللہ یا رسول اللہ! ہمارا ہرگز ایسا گمان آپ کے بارے میں نہیں ہو سکتا۔ آپؐ نے فرمایا: نہیں، شیطان خون کی طرح آدمی کی ہر رگ میں حرکت کرتا ہے۔ مجھے خوف ہوا کہیں شیطان تمہارے دل میں بری بات نہ ڈال دے۔

(ابو داؤد کتاب الصیام باب المعتکف یدخل البیت لحاجتہ)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’تو ایک تو آپؐ نے اس میں شیطانی وسوسے کو دور کرنے کی کوشش فرمائی۔ بتا دیا کہ یہ حضرت صفیہ ہیں،ازواج مطہرات میں سے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اعتکاف کی حالت میں مسجد سے باہر کچھ دور تک چلے جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بلکہ اگر مسجد میں حوائج ضروریہ کا انتظام نہیں ہے، غسل خانوں وغیرہ کی سہولت نہیں ہے تو اگر گھر قریب ہے تو وہاں بھی جایا جا سکتا ہے۔ آج کل تو ہر مسجد کے ساتھ انتظام موجود ہے اس لئے کوئی ایسی دقّت نہیں ہے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 29اکتوبر 2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل12؍نومبر2004ءصفحہ6تا7)

دوران اعتکاف اپنی حالت سنوار کے رکھنا اورمناسب خوبصورتی اختیار کرنا مناسب ہے

حضرت عائشہ ؓروایت کرتی ہیں کہ

كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ ’’إِذَا اعْتَكَفَ يُدْنِي إِلَيَّ رَأْسَهُ فَأُرَجِّلُهُ، وَكَانَ لَا يَدْخُلُ الْبَيْتَ إِلَّا لِحَاجَةِ الْإِنْسَانِ‘‘

ترجمہ: رسول اللہ ؐ جب اعتکاف فرماتے تو آپؐ سر میرے قریب کر دیتے تو میں آپ کو کنگھی کر دیتی اور آپؐ گھر صرف حوائج ضروریہ کے لئے آتے۔

(ابو داؤد کتاب الصیام۔باب المعتکف یدخل البیت لحاجتہ )

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’بعض لوگ اتنے سخت ہوتے ہیں کہ ان کا خیال ہے کہ اعتکاف میں اگر عورت کا، بیوی کا ہاتھ بھی لگ جائے تو پتہ نہیں کتنا بڑا گناہ ہو جائے گا۔ اور دوسرے یہ کہ حالت ایسی بنا لی جائے، ایسا بگڑا ہوا حلیہ ہو کہ چہرے پر جب تک سنجیدگی طار ی نہ ہو، حالت بھی بُری نہ ہو اس وقت تک لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ دوسروں کو پتہ نہیں لگ سکتا کہ یہ آدمی عبادت کر رہا ہے۔ تو یہ غلط طریق کار ہے۔تو یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ اعتکاف میں اپنی حالت بھی سنوار کے رکھنی چاہئے اور تیار ہو کے رہنا چاہئے۔ اور دوسرے یہ کہ بیوی یا کسی محرم رشتے دارسے اگر آپ سر پر تیل لگوا لیتے ہیں یا کنگھی کروا لیتے ہیں اس وقت جب وہ مسجد میں آیا ہو تو کوئی ایسی بات نہیں ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 29اکتوبر 2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 12؍نومبر2004ءصفحہ7)

کیا معتکف بیمار کی عیادت کے لیے جاسکتا ہے؟

حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ

كَانَ النَّبِيُّﷺ يَمُرُّ بِالْمَرِيْضِ، وَهُوَ مُعْتَكِفٌ، فَيَمُرُّ كَمَا هُوَ، وَلَا يُعَرِّجُ يَسْأَلُ عَنْهُ، وَقَالَ ابْنُ عِيْسَى: قَالَتْ: ’’إِنْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُ الْمَرِيضَ وَهُوَ مُعْتَكِفٌ‘‘

نبی ﷺاعتکاف میں ہوتے اورمریض کے پاس سے گزرتے تو اس سے حال پوچھ لیتے اورآپؐ رکتے نہیں تھے۔اور اسی طرح ابن عیسیٰ کہتے ہیں کہ آپؓ نے فرمایا نبیﷺمریض کی عیادت کرلیتے اور آپؐ اعتکاف میں ہوتے۔

(ابو دا ؤد۔کتاب الصیام باب المعتکف یعود المریض )

اسی طرح حضرت عائشہؓ حضورﷺکی اعتکاف کی بابت سنت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ

السُّنَّةُ عَلَى الْمُعْتَكِفِ أَنْ لَا يَعُودَ مَرِيضًا وَلَا يَشْهَدَ جَنَازَةً وَلَا يَمَسَّ امْرَأَةً وَلَا يُبَاشِرَهَا وَلَا يَخْرُجَ لِحَاجَةٍ إِلَّا لِمَا لَا بُدَّ مِنْهُ وَلَا اعْتِكَافَ إِلَّا بِصَوْمٍ وَلَا اعْتِكَافَ إِلَّا فِي مَسْجِدٍ

سنت یہ ہے کہ معتکف نہ کسی مریض کی عیادت کے لیے جائے اور نہ نماز جنازہ کے واسطے جائے اور نہ عورت کو چھوئے اور نہ اس کے ساتھ ازدواجی تعلق کرے اور نہ کسی ضرورت کے لیے باہر نکلے سوائے انسانی ضرورت کے لیے اور اعتکاف درست نہیں مگر روزہ کے ساتھ اور اعتکاف درست نہیں مگرجامع مسجد میں۔

(ابو دا ؤد۔کتاب الصیام باب المعتکف یعود المریض )

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس قسم کی احادیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’یہ جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ بیمار کی عیادت کے لئے جا سکتے ہیں۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نہیں نکلنا چاہئے۔ یہ بھی عین آنحضرت ؐ کی تعلیم کے مطابق ہے۔حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ’’ رسول اللہ ؐ بیمار پرسی کے لئے جاتے اور آپؐ اعتکاف میں ہوتے۔ پس آپؐ قیام کئے بغیر اس کا حال پوچھتے۔‘‘(ابو دا ؤد۔کتاب الصیام باب المعتکف یعود المریض )پھر اسی طرح ابن عیسیٰ کی ایک ایسی ہی روایت ہے۔ توتیمار داری جائز ہے لیکن کھڑے کھڑے گئے اور آ گئے۔ یہ نہیں کہ وہاں بیٹھ کر ادھر ادھر کی باتوں میں وقت ضائع کرنا شروع کر دیا یا باتیں بھی شروع ہو گئیں۔ اور یہ بھی اس صورت میں ہے (وہاں مدینے میں بڑے قریب قریب گھر بھی تھے) کہ قریب گھر ہوں اور کسی خاص بیمار کو آپ نے پوچھنا ہو، اگر ہر بیمار کے لئے اور ہر قریبی کے لئے، بہت سارے تعلق والے ہوتے ہیں آپ جانے لگ جائیں تو پھر مشکل ہو جائے گا اور یہاں فاصلے بھی دور ہیں، مثلاً جائیں تو آنے جانے میں ہمیں دو گھنٹے لگ جائیں۔ اور اگر ٹریفک میں پھنس جائیں تو اور زیادہ دیر لگ جائے گی۔ یہ قریب کے گھروں میں پیدل جہاں تک جا سکیں اس کی اجازت ہے،ویسے بھی جانے کے لئے جو جماعتی نظام ہے وہاں سے اجازت لینی ضروری ہے۔ یہ مَیں باتیں اس لئے کر رہا ہوں کہ بعض لوگ اس قسم کے سوال بھیجتے ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 29اکتوبر 2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 12؍نومبر2004ءصفحہ6)

اعتکاف کے دوران دنیوی امور کی بابت گفت و شنید؟

حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ جب آدمی اعتکاف میں ہو تو اپنے دنیوی کاروبار کے متعلق بات کرسکتا ہے یا نہیں؟اس کے جواب میں آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ

’’سخت ضرورت کے سبب کرسکتا ہے اوربیمار کی عیادت کے لئے اورحوائج ضروری کے واسطے باہر جاسکتا ہے۔‘‘

(بدر 21؍فروری 1907ء صفحہ5)

حضور ؑکے اس ارشاد کی تشریح کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ

’’بعض لوگ اعتکاف بیٹھ کر بھی کچھ وقت کے لئے دنیاداری کے کام کر لیتے ہیں۔ مثلاً بیٹے کو کہہ دیا، یا اپنے کام کرنے والے کارندے کو کہہ دیا کہ کام کی رپورٹ فلاں وقت مجھ کو دے جایا کرو۔ کاروباری مشورے لینے ہوں تو فلاں وقت آ جایا کرو کاروباری مشورے دیا کروں گا۔ یہ طریق بھی غلط ہے۔ سوائے اشد مجبوری کے یہ کام نہیں ہونا چاہئے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اس بارے میں سوال ہوا کہ آدمی جب اعتکاف میں ہو تو اپنے دنیوی کاروبار سے متعلق بات کر سکتا ہے یا نہیں؟ آپؑ نے فرمایا کہ سخت ضرورت کے سبب کر سکتا ہے اور بیمار کی عیادت کے لئے اور حوائج ضروریہ کے واسطے باہر جا سکتاہے۔ فرمایا کہ سخت ضرورت کے تحت۔ یہ نہیں ہے کہ جیسا میں نے پہلے کہا کہ روزانہ کوئی وقت مقرر کر لیا، فلاں وقت آ جایا کرو اور بیٹھ کر کاروباری باتیں ہو جایا کریں گی۔ اگر اتفاق سے کوئی ایسی صورت پیش آ گئی ہے کسی سرکاری کاغذ پر دستخط کرنے ہیں، تاریخ گزر رہی ہے یا کسی ضروری معاہدے پر دستخط کرنے ہیں، تاریخ گزر رہی ہے یا اور کوئی ضروری کاغذ ہے، ایسے کام تو ہو سکتے ہیں۔ لیکن ہر وقت،روزانہ نہیں۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 29اکتوبر 2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل12؍نومبر2004ءصفحہ6)

معتکف کا مسجد کے صحن میں ٹہلنا

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت مسیح موعود علیہ کے ایک اقتباس کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’کچھ وقت کے لئے مسجدکے صحن میں یا باہر ٹہلنے کی ضرورت محسوس ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مجلس میں بیٹھے تھے، خواجہ کمال دین صاحب اور ڈاکٹر عباد اللہ صاحب ان دنوںمیں اعتکاف بیٹھے تھے تو آپؑ نے ان کو فرمایاکہ ’’اعتکاف میں یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان اندر ہی بیٹھا رہے اور بالکل کہیں آئے جائے ہی نہ( مسجد کی) چھت پر دھوپ ہوتی ہے وہاں جا کر آپ بیٹھ سکتے ہیں۔ کیونکہ نیچے یہاں سردی زیادہ ہے۔‘‘ وہاں تو ہیٹنگ (Heating)کا سسٹم نہیں ہوتا تھا۔ سردیوں میں لوگ دھوپ میں بیٹھتے ہیں، پتہ ہے ہر ایک کو ’’اور ضروری بات کر سکتے ہیں۔ ضروری امور کا خیال رکھنا چاہئے۔اور یوں تو ہر ایک کام(مومن کا) عبادت ہی ہوتا ہے۔’’(ملفوظات جلد دوم صفحہ 588,587۔جدید ایڈیشن) تو مومن بن کے رہیں تو کوئی ایسا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 29؍اکتوبر 2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل12؍نومبر2004ءصفحہ7)

اگر قبل ازیں علم ہو کہ اعتکاف درمیان میں ہی ختم کرناپڑے گا۔تو پھر اعتکاف بیٹھنا مناسب نہیں

اعتکاف میں انسان ایک طرح سے ترک دنیا کر رہا ہوتا ہے اور وہ اپنی تمام مصروفیات اور دنیاوی جھمیلوں سے اپنے آپ کو آزاد کر کے محض ذکر الٰہی اور دعاؤں کےلیے دس دن وقف کرتا ہے۔اس لیے اگر کسی شخص کو اعتکاف کے دوران بھی اپنی دنیوی مصروفیات جاری رکھنی پڑیں گی۔اور اسی طرح اگر کسی شخص کو قبل از وقت یہ علم ہو کہ آخری عشرہ میں کسی کام کے سبب وہ اعتکاف جاری نہیں رکھ سکے گا تو اسے اعتکاف نہیں بیٹھنا چاہئے۔ چنانچہ حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ بیان فرماتے ہیں :
’’ایک دفعہ حضرت صاحب (حضر ت مسیح موعود علیہ السلام) کے زمانے میں حکیم فضل الدین صاحب بھیروی اعتکاف بیٹھے۔مگر اعتکاف کے دنوں میں ہی ان کو کسی مقدمہ میں پیشی کے واسطے باہر جانا پڑ گیا۔چنانچہ وہ اعتکاف توڑ کر عصر کے قریب یہاں سے جانے لگے تو حضرت صاحبؑ نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ اگر آپ کو مقدمہ میں جانا تھا تو اعتکاف بیٹھنے کی کیا ضرورت تھی۔‘‘

(سیرت المہدی حصہ اول صفحہ نمبر91,90 روایت نمبر114)

خلاصہ

آنحضورؐ اعتکاف کے دوران روزے کی حالت میں ہوتے تھے۔ اس سے یہ مسئلہ مستنبط ہوتا ہے کہ مسنون اعتکاف تو وہی ہے جو روزے کی حالت میں ہو لیکن اگر کوئی انسان روزہ نہیں رکھ سکتا لیکن وہ بیٹھ کر عبادت، ذکر الٰہی اور دعائیں کر رہا ہے تو اسے منع بھی نہیں کیا جا سکتا۔کیونکہ عبادات کی قبولیت کا معاملہ خدا تعالیٰ کےہاتھ میں ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اعتکاف کی بابت بعض خصوصیات

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ میں نے کبھی حضرت مسیح موعود ؑکو اعتکاف بیٹھتے نہیں دیکھا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بھی مجھ سے یہی بیان کیا ہے۔

(سیرت المہدی جلد1صفحہ62۔روایت نمبر 86۔ایڈیشن 2008ء)

اسی طرح حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ تحریر کرتے ہیں،ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حج نہیں کیا۔ اعتکاف نہیں کیا۔ زکوٰۃ نہیں دی۔ تسبیح نہیں رکھی۔ میرے سامنے ضَب یعنی گوہ کھانے سے انکار کیا۔ صدقہ نہیں کھایا۔ زکوٰۃ نہیں کھائی۔ صرف نذرانہ اور ہدیہ قبول فرماتے تھے۔ پِیروں کی طرح مصلّٰی اور خرقہ نہیں رکھا۔ رائج الوقت درود و وظائف (مثلاً پنج سُورہ۔ دعائے گنج العرش۔ درود تاج۔ حزب البحر۔ دعائے سریانی وغیرہ) نہیں پڑھتے تھے۔

خاکسار عرض کرتا ہے کہ حج نہ کرنے کی تو خاص وجوہات تھیں کہ شروع میں آپ کے لئے مالی لحاظ سے انتظام نہیں تھا۔ کیونکہ ساری جائیداد وغیرہ اوائل میں ہمارے دادا صاحب کے ہاتھ میں تھی اور بعد میں تایا صاحب کا انتظام رہا۔ اور اس کے بعد حالات ایسے پیدا ہو گئے کہ ایک تو آپ جہاد کے کام میں منہمک رہے۔ دوسرے آپ کے لئے حج کا راستہ بھی مخدوش تھا۔ تاہم آپ کی خواہش رہتی تھی کہ حج کریں۔ چنانچہ حضرت والدہ صاحبہ نے آپ کے بعد آپ کی طرف سے حج بدل کروا دیا۔

اعتکاف ماموریت کے زمانہ سے قبل غالباً بیٹھے ہوں گے، مگر ماموریت کے بعد بوجہ قلمی جہاد اور دیگر مصروفیت کے نہیں بیٹھ سکے۔ کیونکہ یہ نیکیاں اعتکاف سے مقدم ہیں۔ اور زکوٰۃ اس لئے نہیں دی کہ آپ کبھی صاحبِ نصاب نہیں ہوئے۔ البتہ حضرت والدہ صاحبہ زیور پر زکوٰۃ دیتی رہی ہیں۔ اور تسبیح اور رسمی وظائف وغیرہ کے آپ قائل ہی نہیں تھے۔

(سیرت المہدی حصہ سوئم۔جلد اوّل،صفحہ نمبر623.624۔ روایت نمبر672۔ایڈیشن 2008ء)

اللہ تعالیٰ رمضان المبارک کے بقیہ ایام میں ہمیں کماحقہ عبادات بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button