از افاضاتِ خلفائے احمدیتحضرت مصلح موعود ؓ

ہدایاتِ زرّیں (مبلغین کو ہدایات) (قسط سوم)

از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

مبلغ کے کام کی اہمیت

یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ مبلغ کا فرض بہت بڑا ہوتا ہے۔ لوگ کسی ایک بات کو بھی آسانی سے نہیں مانتے۔ لیکن مبلغ کا کام یہ ہوتا ہے کہ ہزاروں باتوں کو منوائے۔ پھر ایک آدمی سے منوانا بہت مشکل ہوتا ہے چہ جائیکہ ساری دنیا کو منوایا جائے۔ انتظام کے طور پر اور کام چلانے کے لیے خواہ مبلغوں کے لیے علاقے تقسیم کر دیے جائیں۔ مگر اصل بات یہی ہے کہ جو ضلع گورداسپور میں تبلیغ کرتا ہے وہ اسی ضلع کا مبلغ نہیں ہے بلکہ ساری دنیا کا مبلغ ہے۔ اسی طرح ضلع لاہور میں جو تبلیغ کرتا ہے وہ لاہور کا مبلغ نہیں ہے بلکہ ساری دنیا کا مبلغ ہے۔ کیونکہ مبلغ کے لیے کوئی خاص علاقہ مقرر نہیں کیا گیا بلکہ قرآن کریم میں یہی بتایا گیا ہے کہ مبلغ کا علاقہ سب دنیا ہے۔

غرض مبلغوں کا کام بہت بڑا ہے اور اتنا بڑا ہے کہ حکومتیں بھی اس کام کو نہیں کر سکتیں۔ حکومتیں زور سے یہ باتیں منواتی ہیں کہ چوری نہ کرو، قتل نہ کرو، ڈاکہ نہ ڈالو مگر ان باتوں کو لوگوں کے دلوں سے نہیں نکال سکتیں۔ حکومتیں یہ تو کر سکتی ہیں کہ مجرم کو پھانسی پر چڑھا کر مار دیں لیکن یہ نہیں کر سکتیں کہ جرم کا میلان دل سے نکال دیں۔ مگر مبلغ کا کام دل سے غلط باتوں کا نکالنا اور ان کی جگہ صحیح باتوں کو داخل کرنا ہوتا ہے۔ پس مبلغ کا کام ایسا مشکل ہے کہ حکومتیں بھی اس کے کرنے سے عاجز ہیں اور باوجود ہتھیاروں، قید خانوں، فوجوں، مجسٹریٹوں اور دوسرے ساز و سامان کے عاجز ہیں۔

مبلغ کے مددگار

جب مبلغ کا کام اس قدر وسیع اور اس قدر مشکل ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ اس کام کو کیونکر کرسکتا ہے؟ اس کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ وہ خدا جس نے یہ کام بندوں کے ذمہ لگایا ہے اس نے ان کو بے مددگار نہیں چھوڑا۔ اگر مبلغ بے ساتھی و مددگار کے ہوتا تو اتنے بڑے کام کے مقابلہ میں کچھ بھی نہ کرسکتا۔ مگر خدا تعالیٰ نے مبلغ کو دو مددگار دیے ہیں جن کی امداد سے وہ تبلیغ کر سکتا اور کامیاب ہوسکتا ہے۔ اس کے راستہ میں روکیں آتی ہیں مشکلات پیدا ہوتی ہیں مگر ان دو مددگاروں سے کام لے کر وہ سب روکوں کو دُور کر سکتا ہے۔

وہ مددگار کون سے ہیں؟ ان میں سے ایک کا نام تو عقل ہے اور دوسرے کا نام شعور۔ جب مبلغ ان دو مددگاروں کی مدد حاصل کرتا ہے تو پھر اس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔

آگے چل کر مَیں تشریح کروں گا کہ عقل سے میری کیا مراد ہے اور شعور سے کیا؟ اس جگہ اتنا ہی بتاتا ہوں کہ یہ مبلغ کے مددگار ہیں۔ جب کوئی تبلیغ کے لیے جائے تو ان کو بلا لے اور جب ان کی مدد اسے حاصل ہوجائے گی تو وہ کام بہت خوبی کے ساتھ کر لے گا جو حکومتیں بھی نہیں کرسکتیں۔

عقل کی مدد سے مراد

ہر ایک انسان میں خدا نے عقل بھی پیدا کی ہے اور شعور بھی۔ عقل سے میری مراد وہ مادہ اور انسان کے اندر کی وہ طاقت ہے جس کے ذریعہ انسان دلائل کے ساتھ معلوم کرتا ہے کہ فلاں بات درست ہے یا غلط۔ بے شک بعض دفعہ انسان ضدی بن جاتا ہے اور ایک بات کو صحیح اور درست جانتا ہوا اس کا انکار کردیتا ہے۔ لیکن یہ حالت بہت گند اور بہت دیر کی گمراہی کے بعد پیدا ہوتی ہے ورنہ کثیر حصہ لوگوں کا ایسا ہی ہے کہ عقل کے فیصلہ کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ جب اس کے سامنے ایسی باتیں پیش کی جائیں جو عقلی طور پر صحیح ثابت ہوں تو وہ ان کا انکار نہیں کرسکتا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جن باتوں کو عقلی لحاظ سے ایک مبلغ معقول اور مدلل سمجھتا ہے۔ ان کو دوسرے لوگ بھی معقول سمجھتے ہیں بشرطیکہ اندھے کی بصارت کی طرح ان کی عقل بالکل مردہ نہ ہوگئی ہو اور وہ اس کو بالکل مار نہ چکے ہوں۔ مگر جس طرح اندھے بہت کم ہوتے ہیں۔ اسی طرح عقل کے اندھے بھی کم ہی ہوتے ہیں اور عموماً لوگ عقل کو مارتے نہیں۔ کیونکہ انہیں اس سے دنیاوی کام بھی کرنے ہوتے ہیں۔ پس لوگ عقل سے ضرور کام لیتے ہیں۔ اور جب ان کے سامنے ایسی باتیں پیش کی جائیں جو عقلی طور پر معقول ہوں تو وہ عقل سے کام لے کر ان کو تسلیم کر لیتے ہیں اور چونکہ خدا تعالیٰ نے عقل کے بہت سے دروازے رکھے ہیں اس لیے کسی نہ کسی دروزاہ سے حق اندر داخل ہو ہی جاتا ہے۔ اس لیے ہر ایک مبلغ کو چاہیے کہ اس سے ضرور کام لے۔ یعنی لوگوں کے سامنے ایسے دلائل پیش کرے جن کو عقل تسلیم کرتی ہے۔ اس ذریعہ سے وہ بہت جلدی دوسروں سے اپنی باتیں منوا لے گا اور وہ کام کر لے گا جو حکومتیں بھی نہیں کر سکتیں ابھی دیکھ لو کچھ لوگوں نے غلط طور پر عام لوگوں کے دلوں میں یہ خیال بٹھا دیا ہے کہ گورنمنٹ سے اہلِ ہند کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا بلکہ نقصان پہنچ رہا ہے۔ گورنمنٹ کے پاس طاقت ہے سامان ہے مگر وہ روک نہیں سکتی کہ یہ خیال لوگوں کے دلوں میں نہ بیٹھے۔ وجہ یہ کہ اس خیال کو بٹھانے والے تو عقلی دلائل سے کام لے رہے ہیں لیکن گورنمنٹ ان سے کام نہیں لے رہی اس لیے اس کا کچھ اثر نہیں ہورہا۔ تو عقلی دلائل سے کام لینے پر بہت اعلیٰ درجہ کے نتائج نکل سکتے ہیں۔

شعور کی مدد سے مراد

اس سے بڑھ کر شعور ہے مگر جہاں عقل کی نسبت زیادہ نتیجہ خیز ہے وہاں خطرناک بھی ایسا ہے کہ جس طرح بعض اوقات ڈائنا میٹ چلانے والے کو بھی ساتھ ہی اُڑا کر لے جاتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی کام لینے والے کو اُڑا کر لے جاتا ہے۔ لوگوں نے شعور کی مختلف تعریفیں کی ہیں مگر میری اس سے مراد اس حِس سے ہے جو فکر اور عقل کے علاوہ انسان کے اندر رکھی گئی ہے اور جس کا تعلق دلائل عقلیہ کے ساتھ نہیں ہوتا بلکہ انسان کی اندرونی حِسّوں کے ساتھ ہوتا ہے اور جسے ہم جذبات کہہ سکتے ہیں جیسے محبت ہے، غضب ہے، شہوت ہے، خواہش بقا ہے۔

بہت دفعہ عقلی دلائل سے کسی مسئلہ کو ثابت کرنے سے اس قدر اس کی طرف میلان یا اس سے نفرت پیدا نہیں ہوتی۔ مگر ان جذبات کو اُبھار دینے سے انسان فوراً بات کو قبول کرلیتا ہے اور ان احساسات کو اُبھار کر بڑے بڑے کام لیے جا سکتے ہیں اور لیے جاتے ہیں اور اس کے ذریعہ ایک گھڑی میں کچھ کا کچھ ہوجاتا ہے۔ چنانچہ دیکھا ہوگا کہ کہیں بحث ہورہی ہے۔ جب مولوی دیکھے کہ میں ہارنے لگا ہوں تو وہ کہہ دے گا۔ مسلمانو! تمہیں شرم نہیں آتی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہورہی ہے تم خاموش بیٹھے سن رہے ہو۔ یہ سن کر سب کو جوش آجائے گا اور وہ شور ڈال دیں گے۔ چاہے ہتک ہورہی ہو یا نہ ہورہی ہو۔ جذبات جس وقت اُبھر جاویں تو غلط اور صحیح کی بھی تمیز نہیں رہتی اور ایک رَو چل پڑتی ہے جس میں لوگ بہنے لگ جاتے ہیں۔ غلط طور پر اس سے کام لینا جائز نہیں۔لیکن جب عقل اس کی تائید کرتی ہو اور حق اور صداقت کے لیے حق اور صداقت کے ساتھ کام لیا جائے تو اس کا استعمال جائز ہے بلکہ بسا اوقات ضروری ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس طریق سے بہت کام لیا گیا ہے اور پھر حضرت مسیح موعودؑ نے بھی اس سے خوب ہی کام لیا ہے۔ آپؑ وفات ِمسیحؑ کے متعلق دلائل لکھتے لکھتے یہ بھی لکھ جاتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو زمین میں دفن ہوں اور حضرت عیسیٰؑ آسمان پر بیٹھے ہوں۔ ایک مسلمان کی غیرت اس بات کو کس طرح گوارا کر سکتی ہے۔ یہ وفات مسیحؑ کی عقلی دلیل نہیں لیکن ایک روحانی دلیل ہے اور اس سے جذبات بھی ابھر آتے ہیں۔ اور اس کا جس قدر دلوں پر اثر ہوتا ہے ہزارہا دلیلوں کا نہیں ہوگا۔ کیونکہ اس کے ذریعہ سے وہ میلان طبعی جو نسلاً بعد نسلٍ اسلام سے تعلق رکھنے کے سبب سے ایک مسلمان کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ہے وہ خودبخود جوش میں آجاتا ہے اور کسی بات کو سامنے نہیں آنے دیتا۔

حضرت صاحب ؑکی تمام کتابوں میں یہی بات ملتی ہے۔ اگر عقلی دلائل اور شعور سے کام لینے کے دونوں پہلوؤں کو مدّنظر رکھ کر دیکھیں تو دونوں پائے جاتے ہیں۔ اور اگر صرف عقلی دلائل کو مدّنظر رکھیں تو ساری کتاب میں عقلی دلائل ہی نظر آتے ہیں۔ اور اگر جذبات کے پہلو کو مدّنظر رکھ کر دیکھیں تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ساری باتیں ایسی ہیں جن کے ذریعہ جذبات کو تحریک کی گئی ہے۔ ہر ایک شخص کی کتاب میں یہ بات نہیں پائی جاسکتی۔ اور یہ حضرت صاحبؑ کے قادر الکلام ہونے کا ثبوت ہے۔ آپؑ نے عقلی دلائل اور جذبات کو ایسے عجیب رنگ میں ملایا ہے کہ ایسا کرنا ہر ایک کا کام نہیں ہے۔ لیکن گو ہر ایک اس طرح نہیں کرسکتا مگر یہ کرسکتا ہے کہ ان سے الگ الگ طور پر کام لے۔ عقلی دلائل سے الگ کام لے اور جذبات سے الگ۔

حضرت صاحبؑ نے ہر موقع پر جذبات کو ابھارا ہے اور کبھی محبت کبھی غضب کبھی غیرت کبھی بقائے نسل کے کبھی حیا کے جذبات میں حرکت پیدا کی ہے۔

چنانچہ آپؑ نے عیسائیوں کو مخاطب کر کے لکھا ہے کہ کیا تم لوگ مسیح ؑکی نسبت صلیب پر مرنے کا عقیدہ رکھ کر اسے ملعون قرار دیتے ہو اس پر غور کرو اور سوچو۔ اس طرح ان کے دلوں میں حضرت مسیحؑ کی محبت کے جذبات کو پیدا کر دیا گیا اور اس جائز محبت کے جذبات کے ذریعہ اس ناجائز محبت کے جذبات کو کہ انہوں نے مسیح کو خدا سمجھ رکھا ہے کاٹ دیا گیا۔

دونوں مددگاروں سے اکٹھا کام لینا چاہیے

غرض خدا تعالیٰ نے مبلغ کو یہ مددگار اور ہتھیار دیے ہیں۔(1)دلائل عقلی پیش کرنا۔(2)جذبات کو صحیح اور درست باتوں کے متعلق ابھارنا۔ ان میں سے اگر کسی ایک کو چھوڑ دیا جائے اور اس سے کام نہ لیا جائے تو کامیابی نہیں ہوسکتی۔ اگر صرف جذبات کو ابھارنا شروع کر دیا جائے اور دلائل دینے چھوڑ دیے جائیں تو بہت نقصان ہوگا۔ کیونکہ جب لوگ عقلی دلائل کو چھوڑ دیں گے تو پھر ایسی حالت ہوجائے گی کہ وہ ہمارے کام کے بھی نہ رہیں گے اور اگر خالی دلائل سے کام لیا جائے تو ہمارے مبلغ صرف فلاسفر بن جائیں گے دین سے ان کا تعلق نہ رہے گا اور اس طرح بھی نقصان ہوگا۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button