سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلاممتفرق مضامین

وبائی ایام کے ماہِ صیام میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے شب و روز کا دلنشیں تذکرہ

(انیس احمد ندیم۔ مبلغ انچارج جاپان)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت دنیا پر آشکار کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں کو شرف قبولیت بخش کر ، لوگوں کے دلوں کو آپ کی طرف مائل کرکے، گمنامی کی زندگی سے دنیا کے کناروں تک شہرت بخشنے کے علاوہ آسمانی اور زمینی نشانات کے ظہور سے یہ ثابت کر دیا کہ آپؑ خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور و مؤید وجود تھے۔قدیم نوشتوں اور حدیث کی خبروں کے مطابق براہین احمدیہ میں ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے طاعون کے ظہور کی خبر دے دی گئی تھی۔ لیکن ابھی پنجاب میں طاعون کے آثار ظاہر نہ ہوئے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خبر عطا فرمائی جسے آپ نے بذریعہ اشتہار شائع فرمادیا کہ

’’آج جو6؍فروری 1898روز یک شنبہ ہے میں نے خواب میں دیکھا کہ خدا تعالیٰ کے ملائک پنجاب کے مختلف مقامات میں سیاہ رنگ کے پودے لگا رہے ہیں او ر وہ درخت نہایت بد شکل اور سیاہ رنگ اور خوفناک اور چھوٹے قد کے ہیں۔ میں نے بعض لگانے والوں سے پوچھا کہ یہ کیسے درخت ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ طاعون کے درخت ہیں جو عنقریب ملک میں پھیلنے والی ہے‘‘

(تبلیغ رسالت جلد ہفتم صفحہ6-5)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو دراصل اصلاحِ خلق اورزمانے کی مسیحائی کے لیے مبعوث ہوئے تھے اس طرف متوجہ ہوئے کہ لوگوں کو اس وبائی آفت سے مطلع کرنے کے ساتھ ساتھ رجوع الیٰ اللہ کی نصیحت کی جائے۔ چنانچہ آپؑ نے اشتہارات اور کتب کی اشاعت کے ذریعہ ہمدردیٔ خلق کا یہ فریضہ انجام دیا اور نصیحت فرمائی کہ حکومتی ہدایات پر حفاظتی تدابیر اختیار کی جائیں،حفاظتی ٹیکہ لگوایا جائے اور ان تمام احتیاطوں پر دل وجان سے عمل کیا جائے جو اس وبائی مرض سے محفوظ رہنے کے لیے ضروری قرار دی جارہی ہیں۔1902ء میں جب پنجاب میں طاعون کا حملہ شروع ہوا تو آپؑ نے 15؍اکتوبر1902ء کو کشتی نوح ’’تقویۃ الایمان‘‘ کے نام سے ایک نہایت لطیف کتاب شائع فرمائی جس میں حکومتی اقدامات کی تعریف اور وبائی مرض سے بچنے کی تدابیر کی نصیحت کے ساتھ ساتھ نازل ہونے والی اس وبا کو نشان آسمان قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی رحمت خاص سے آپ اور آپ کے سچے پیرو اس بلائے ناگہانی سے محفوظ رہیں گے۔

دسمبر 1902ء میں جب یہ وبا پنجاب میں اپنے پنجے گاڑ چکی تھی تو انہی دنوں ماہِ صیام آگیا۔ یہ مبارک ایام امام الزماں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خدا تعالیٰ پر ایمان اور توکل پر شاہد ناطق ہیں۔ نیز اس بات پر گواہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جس مشن کے لیے آپؑ کو مبعوث فرمایا تھا آپؑ نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اس کے لیے صرف کر دیا۔

آج وبائی مرض کے ایام میں امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پاکیزہ اسوہ ، آپؑ کی طمانیت قلب ا ور شعائر اسلام کی عزت وحرمت کے لیے آپؑ کا بے مثال نمونہ ہم سب کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ وبائی ایام میں رمضان کیسے گزارا جائے ؟ ذہنی و جسمانی تناؤ کے ان ایام میں روزے کیسے رکھے جائیں ؟ وبائی مرض میں بھی تبلیغ اسلام کا فریضہ کس طرح ادا کیا جائے ؟ آئیں آپ کو قادیان میں حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی صحبت میں لیے چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ 1902ء میں رمضان المبارک 1320ھ میں قادیان کے شب وروز کیسے تھے ؟امام الزماں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معمولاتِ زندگی کیا تھے؟ آپؑ نے ان دنوں کیا نصائح فرمائیں؟ ان کیفیات کی دلکشی اور حسن وخوبی کو کماحقہ بیان کرنا انسان کی طاقت سے باہر ہے لیکن ان کیفیات کو مشاہدہ کرنے والے عشاقِ مسیح موعود علیہ السلام کی زبان سے ان دلنشیں لمحات کی ایک جھلک پیش ہے۔

رمضان کی آمد کا ذکر اور سیر کے معمول میں تبدیلی

حسب معمول سیر کے لیے تشریف لائے تو آتے ہی فرمایا کہ

’’آج ہی کے دن سیر ہے کل سے انشاء اﷲ روزہ شروع ہوگا۔تو چار پانچ دن تک سیر بند رہے گی تا کہ طبیعت روزے کی عادی ہو جائے اور تکلیف محسوس نہ ہو۔‘‘

(یکم دسمبر1902ء بروز دوشنبہ۔ ملفوظات جلد چہارم صفحہ 249،ایڈیشن 1984ء)

چاند دیکھنے کے لیے مسجدکی چھت پر تشریف لے گئے

مغرب کی نماز سے چند منٹ پیشتر ماہ رمضان کا چاند دیکھا گیا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی مغرب کی نماز پڑھنے کے بعد مسجد کی چھت پر تشریف لے گئے اور چاند دیکھا۔ چاند دیکھنے کے بعد پھر مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا کہ

’’رمضان گذشتہ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کل گیا تھا‘‘

( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 256،ایڈیشن 1984ء)

رمضان کی عظمت اور تاثیرات کا ذکر

چانددیکھنے کے بعد آپؑ واپس مسجد تشریف لے آئے اور رمضان کے فضائل و برکات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰن

سے ماہ رمضان کی عظمت معلوم ہوتی ہے۔ صوفیا نے لکھا ہے کہ یہ ماہ تنویر قلب کے لئے عمدہ مہینہ ہے۔کثرت سے اس میں مکاشفات ہوتے ہیں۔صلوٰۃ تزکیہ نفس کرتی ہے اور صوم تجلی قلب کرتا ہے۔تزکیہ نفس سے مراد یہ ہے کہ نفس امارہ کی شہوات سے بُعد حاصل ہو جائے اور تجلی قلب سے مراد یہ ہے کہ کشف کا دروازہ اس پر کھلے کہ خد اکو دیکھ لے۔پس

اُنْزِلَ فِیْہِ القُرْانُ

میں یہی اشارہ ہے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ روزہ کا اجر عظیم ہے لیکن امراض اور اغراض اس نعمت سے انسان کو محروم رکھتے ہیں۔مجھے یاد ہے کہ جوانی کے ایام میں مَیں نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ روزہ رکھنا سنت اہل بیت ہے۔میرے حق میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

سَلْمَانُ مِنَّا اَھْل الْبَیْت۔

سلمان یعنی الصلحان کہ اس شخص کے ہاتھ سے دو صلح ہوں گی۔ایک اندرونی اور دوسری بیرونی۔اور یہ اپنا کام رفق سے کرے گا نہ کہ شمشیر سے اور میں جب مشرب حسین پر نہیں ہوں کہ جس نے جنگ کی بلکہ مشرب حسن پر ہوں کہ جس نے جنگ نہ کی تو میں نے سمجھا کہ روزہ کی طرف اشارہ ہے۔ چنانچہ میں نے چھ ماہ تک روزے رکھے۔اس اثنا میں میں نے دیکھا کہ انوار کے ستونوں کے ستون آسمان پر جارہے ہیں یہ امر مشتبہ ہے کہ انوار کے ستون زمین سے آسمان پر جاتے تھے یا میرے قلب سے لیکن یہ سب کچھ جوانی میں ہو سکتا تھا اور اگر اس وقت میں چاہتا تو چار سال تک روزہ رکھ سکتا تھا۔

نشاط نوجوانی تا بہ سی سال

چہل آمد فرو ریزد پر و بال

اب جب سے چالیس سال گزر گئے دیکھتا ہوں کہ وہ بات نہیں۔ورنہ اول میں بٹالہ تک کئی بار پیدل چلا جاتا تھا اور پیدل آتا اور کوئی کسل اور ضعف مجھے نہ ہوتا اور اب تو اگر پانچ چھ میل بھی جاؤں تو تکلیف ہوتی ہے۔چالیس سال کے بعد حرارت غریزی کم ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ خون کم پیدا ہوتا ہے اور انسان کے اوپرکئی صدما ت رنج و غم کے گزرتے ہیں۔اب کئی دفعہ دیکھا گیا ہے کہ اگر بھوک کے علاج میں زیادہ دیر ہو جائے تو طبیعت بے قرار ہو جاتی ہے۔

احکام الٰہی کے دو اقسام

خدا تعالیٰ کے احکام دو قسموں میں تقسیم ہیں۔ایک عبادات مالی،دوسرے عبادات بدنی۔عبادات مالی تو اسی کے لئے ہیں جس کے پاس مال ہو اور جن کے پاس نہیں وہ معذور ہیں اور عبادات بدنی کو بھی انسان عالم جوانی میں ہی ادا کر سکتا ہے ورنہ ساٹھ سال جب گذرے تو طرح طرح کے عوارضات لاحق ہوتے ہیں نزول الماء وغیرہ شروع ہو کر بینائی میں فرق آجاتا ہے۔(کسی نے) یہ ٹھیک کہا ہے کہ پیری وصد عیب۔اور جو کچھ انسان جوانی میں کر لیتا ہے اس کی برکت بڑھاپے میں بھی ہوتی ہے اور جس نے جوانی میں کچھ نہیں کیا اسے بڑھاپے میں بھی صدہا رنج برداشت کرنے پڑتے ہیں ؎

موئے سفید از اجل آرد پیام

انسان کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ حسب استطاعت خدا کے فرائض بجا لاوے۔روزہ کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔

وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ (البقرہ:185)

یعنی اگر تم روزہ رکھ بھی لیا کرو تو تمہارے واسطے بڑی خیر ہے۔

فدیہ اور توفیق روزہ

ایک دفعہ میرے دل میں آیا کہ فدیہ کس لئے مقرر کیا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ توفیق کے واسطے ہے تاکہ روزہ کی توفیق اس سے حاصل ہو۔خدا تعالیٰ ہی کی ذات ہے جو توفیق عطا کرتی ہے اور ہر شئے خدا تعالیٰ ہی سے طلب کرنی چاہئے۔خد اتعالیٰ تو قادر مطلق ہے وہ اگر چاہے تو ایک مدقوق کو بھی روزہ کی طاقت عطا کر سکتا ہے تو فدیہ سے یہی مقصود ہے کہ وہ طاقت حاصل ہو جائے اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوتا ہے۔پس میرے نزدیک خوب ہے کہ (انسان ) دعا کرے کہ الٰہی یہ تیرا ایک مبارک مہینہ ہے اور میں اس سے محروم رہاجاتا ہوں اور کیا معلوم کہ آئندہ سال زندہ رہوں یا نہ۔یا ان فوت شدہ روزوں کو ادا کر سکوں یا نہ۔اور اس سے توفیق طلب کرے تو مجھے یقین ہے کہ ایسے دل کو خد اتعالیٰ طاقت بخش دے گا۔

اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو دوسری امتوں کی طرح اس امت میں کوئی قید نہ رکھتا۔مگر اس نے قیدیں بھلائی کے واسطے رکھی ہیں۔ میرے نزدیک اصل یہی ہے کہ جب انسان صدق اور کمال اخلاص سے باری تعالیٰ میں عرض کرتا ہے کہ اس مہینہ میں مجھے محروم نہ رکھ تو خد اتعالیٰ اسے محروم نہیں رکھتا اور ایسی حالت میں اگر انسان ماہ رمضان میں بیمار ہو جائے تو یہ بیمار ی اس کے حق میں رحمت ہوتی ہے۔کیونکہ ہر ایک عمل کا مدار نیت پر ہے۔مومن کو چاہئے کہ وہ اپنے وجود سے اپنے آپ کو خد اتعالیٰ کی راہ میں دلاور ثابت کردے۔جو شخص کہ روزے سے محروم رہتا ہے مگر اس کے دل میں یہ نیت دردِدل سے تھی کہ کاش میں تندرست ہوتااور روزہ رکھتا اور اس کا دل اس بات کے لئے گریاں ہے تو فرشتے اس کے لئے روزے رکھیں گے بشرطیکہ وہ بہانہ جونہ ہو تو خد اتعالیٰ اسے ہرگز ثواب سے محروم نہ رکھے گا۔

یہ ایک باریک امر ہے کہ اگر کسی شخص پر (اپنے نفس کے کسل کی وجہ سے) روزہ گراں ہے اور وہ اپنے خیال میں گمان کرتا ہے کہ میں بیمار ہوں اور میری صحت ایسی ہے کہ اگر ایک وقت نہ کھاؤں تو فلاں فلاں عوارض لاحق ہوں گے اور یہ ہوگا اور وہ ہوگا تو ایسا شخص جو خد اتعالیٰ کی نعمت کو خود اپنے اوپر گراں گمان کرتا ہے۔کب اس ثواب کا مستحق ہوگا۔ہاں وہ شخص جس کا دل اس بات سے خوش ہے کہ رمضان آگیا اور میں اس کا منتظر تھا کہ آوے اور روزہ رکھوں اور پھر وہ بوجہ بیماری کے روزہ نہیں رکھ سکا تو وہ آسمان پر روزے سے محروم نہیں ہے۔اس دنیا میں بہت لوگ بہانہ جُو ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ ہم جس طرح اہل دنیا کو دھوکا دے لیتے ہیں ویسے ہی خدا کو فریب دیتے ہیں۔بہانہ جُو اپنے وجود سے آپ مسئلہ تراش کرتے ہیں اور تکلفات شامل کر کے ان مسائل کو صحیح گردانتے ہیں۔لیکن خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ صحیح نہیں۔تکلفات کا باب بہت وسیع ہے۔ اگر انسان چاہے تو اس (تکلف) کی رو سے ساری عمر بیٹھ کر نماز پڑھتا رہے اور رمضان کے روزے بالکل نہ رکھے مگر خدا اس کی نیت اور ارادہ کو جانتا ہے جو صدق اور اخلاص رکھتا ہے۔خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ اس کے دل میں درد ہے اور خدا تعالیٰ اسے ثواب سے زیادہ بھی دیتا ہے کیونکہ درد دل ایک قابل قدر شئے ہے۔حیلہ جو انسان تاویلوں پر تکیہ کرتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے نزدیک یہ تکیہ کوئی شئے نہیں۔جب میں نے چھ ماہ روزے رکھے تھے تو ایک دفعہ ایک طائفہ انبیاء کا مجھے (کشف میں )ملا۔اور انہوں نے کہا کہ تونے کیوں اپنے نفس کو اس قدر مشقت میں ڈالا ہوا ہے، اس سے باہر نکل۔اسی طرح جب انسان اپنے آپ کو خدا کے واسطے مشقت میں ڈالتا ہے تو وہ خود ماں باپ کی طرح رحم کرکے اسے کہتا ہے کہ تو کیوں مشقت میں پڑا ہوا ہے۔

یہ لوگ ہیں کہ تکلف سے اپنے آپ کو مشقت سے محروم رکھتے ہیں۔اس لئے خدا ن کو دوسری مشقتوں میں ڈالتا ہے اور نکالتا نہیں اور دوسرے جو خود مشقت میں پڑتے ہیں ان کو وہ آپ نکالتا ہے۔انسان کو واجب ہے کہ اپنے نفس پر آپ شفقت نہ کرے بلکہ ایسا بنے کہ خدا تعالیٰ اس کے نفس پر شفقت کرے کیونکہ انسان کی شفقت اس کے نفس پر اس کے واسطے جہنم ہے اور خدا تعالیٰ کی شفقت جنت ہے۔ابراہیم ؑکے قصہ پر غور کرو کہ جو آگ میں گرنا چاہتے ہیں تو ان کو خد اتعالیٰ آگ سے بچاتا ہے۔اور جو خود آگ سے بچنا چاہتے ہیں وہ آگ میں ڈالے جاتے ہیں۔یہ سلم ہے اور یہ اسلام ہے کہ جو کچھ خدا تعالیٰ کی راہ میں پیش آئے۔اس سے انکار نہ کرے اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عصمت کی فکر میں خود لگتے تو

وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ (المائدۃ:68)

کی آیت نازل نہ ہوتی۔حفاظت الٰہی کا یہی سر ہے۔‘‘

( ملفوظات جلد چہارم صفحہ260-256،ایڈیشن 1984ء)

رمضان کے مبارک ایام میں اسم اعظم کا تحفہ

7؍دسمبر 1902ء بمطابق 5؍رمضان المبارک 1320ھ ظہر کے وقت تشریف لا کر حضرت اقدس نے بیان فرمایا کہ

’’رات کو میری ایسی حالت تھی کہ اگر خد اتعالیٰ کی وحی نہ ہوتی تو میرے اس خیال میں کوئی شک نہ تھا کہ میرا آخری وقت ہے۔ایسی حالت میں میری آنکھ لگ گئی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک جگہ پر میں ہوں اور وہ کوچہ سر بستہ سا معلوم ہوتا ہے کہ تین بھینسے آئے ہیں۔ایک ان میں سے میری طرف آیا تو میں نے اسے مار کر ہٹا دیا۔پھر دوسرا آیا تو اسے بھی ہٹا دیا۔پھر تیسرا آیا اور وہ ایسا پُرزور معلوم ہوتا تھا کہ میں نے خیال کیا کہ اب اس سے مفر نہیں ہے خدا تعالیٰ کی قدرت کہ مجھے اندیشہ ہوا تو اس نے اپنا منہ ایک طرف پھیر لیا میں نے اس وقت غنیمت سمجھا کہ اس کے ساتھ رگڑ کر نکل جاؤں میں وہاں سے بھاگا اور بھاگتے ہوئے خیال آیا کہ وہ بھی میرے پیچھے بھاگے گا۔مگر میں نے پھر کر نہ دیکھا اس وقت خواب میں خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے دل پر مندرجہ ذیل دعا القا کی گئی:

رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ

اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ اسمِ اعظم ہے اور یہ وہ کلمات ہیں کہ جو اسے پڑھے گا ہر ایک آفت سے اسے نجات ہو گی۔

ایک آریہ میرے پاس دوا لینے آیا کرتا ہے۔میں نے اسے یہ خواب سنائی تو اس نے کہا کہ مجھے بھی لکھ دو۔میں نے لکھ دیا اور اس نے یاد کر لیا۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ264،ایڈیشن 1984ء)

سر درد اور متلی کا علاج

نماز مغرب ادا فرما کر حضرت اقدس تشریف لے جانے لگے تو مفتی محمد صادق صاحب نے سر درد اور متلی وغیرہ کی شکایت کی۔حضرت اقدس نے فرمایا کہ

’’آج شب کو کھانا نہ کھانا اور کل روزہ نہ رکھنا۔ سکنجبین پی کر اس سے قے کر دو۔‘‘

صفائی رکھنے کی تاکید

پھر مفتی صادق صاحب کے مکان کی نسبت دریافت کر کے فرمایا کہ

’’اس کے مالکوں کو کہو کہ روشندان نکال دیں اور آج کل گھروں میں خوب صفائی رکھنی چاہئے۔ کپڑوں کو بھی ستھرا رکھنا چاہئے۔آج کل دن بہت سخت ہیں اور ہوا زہریلی ہے اور صفائی رکھنا تو سنت ہے۔قرآن شریف میں بھی لکھا ہے۔

وَثِیَا بَکَ فَطَھِّرْ۔ وَالرُّجْزَفَاھْجُرْ ‘‘ (المدثر:5-6)

( ملفوظات جلد چہارم صفحہ274-273،ایڈیشن 1984ء)

جماعت کو نیک اور پاک تبدیلی پیدا کرنے کی نصیحت

17؍دسمبر 1902ءبمطابق 15رمضان 1320ھ کو ظہر کے وقت حضرت اقدسؑ تشریف لائے تو نواب صاحب نے طاعون پر کچھ ذکر کیا جس پر حضور نے ذیل کی تقریر فرمائی:

’’ہماری جماعت کو واجب ہے کہ اب تقویٰ سے کام لے اور اولیاء بننے کی کوشش کرے۔اس وقت زمینی اسباب کچھ کام نہ آوے گا نہ منصوبہ اور حجت بازی کام آئے گی۔دنیا سے کیا دل لگانا ہے اور اس پر کیا بھروسہ کرنا ہے یہ ہی امر غنیمت ہے کہ خدا تعالیٰ سے صلح کی جائے اور اس کا یہی وقت ہے۔ان کو یہی فائدہ اٹھانا چاہئے کہ خداسے اسی کے ذریعہ سے صلح کر لیں۔بہت مرضیں ایسی ہوتی ہیں کہ دلّالہ کا کام کرتی ہیں اور انسان کو خد اسے ملا دیتی ہیں۔خاص ہماری جماعت کو اس وقت وہ تبدیلی یک مرتبہ ہی کرنی چاہئے جو کہ اس نے دس برس میں کرنی تھی اور کوئی جگہ نہیں ہے جہاں ان کو پناہ مل سکتی ہے اگر وہ خدا تعالیٰ پر بھروسہ کر کے دعائیں کریں تو ان کو بشارتیں بھی ہو جائیں گی۔صحابہؓ پر جیسے سکینت اتری تھی ویسے ان پر اترے گی صحابہؓ کو انجام تو معلوم نہ ہوتا تھا کہ کیا ہوگا مگر دل میں یہ تسلی ہو جاتی تھی کہ خد اتعالیٰ ہمیں ضائع نہ کرے گا۔‘‘

(ملفوظات جلد چہار م صفحہ 280-279، ایڈیشن 1984)

ایک عیسائی کمیٹی کے نزدیک علامات ظہور مسیح

مفتی محمد صادق صاحب ولایت کی ایک عیسائی کمیٹی کا ایک مضمون سناتے رہے جس میں مسیح کی دوبارہ آمد پر بہت کچھ لکھا تھا کہ وقت تو یہی ہے سب نشان پورے ہو چکے ہیں۔اگر اب بھی نہ آیا تو پھر قیامت تک نہ آوے گا۔

اس مضمون کو سن کر حضرت اقدس نے فرمایا کہ

’’اس نے بعض باتیں بالکل صاف اور سچی لکھی ہیں اور اس نے ضرورت زمانہ کو اچھی طرح محسوس کیا ہے۔بے شک اب ایک تختہ الٹنے لگا ہے اور دوسرا تختہ شروع ہو گا جس طرح یہ لوگ اس زمانہ میں مسیح کی آمد ثانی کے منتظر ہیں بلکہ اکثر ان کے انتظار کے بعد اب بے امید بھی ہو گئے ہیں اور اکثروں نے تاویلوں سے آمد ثانی کے معنے ہی اور کر لئے ہیں۔کیونکہ اس کے متعلق تمام پیشگوئیاں پوری ہو چکی ہیں اور زمانہ کی نازک حالت ایک ہادی کو چاہتی ہے۔اسی طرح اسلامی پیشگوئیوں کے مطابق بھی یہی وقت ہے۔نواب صدیق حسن خاں نے لکھا ہے کہ کل اہل مکاشفات اور ملہمین کے کشوف اور الہام اور رؤیاء مسیح کے بارے میں چودھویں صدی سے آگے نہیں بڑھتے۔‘‘

(ملفوظات جلد چہار م صفحہ 286، ایڈیشن 1984)

مولوی اب تو کہیں گے کہ مسیح  ومہدی کا ذکر ہی چھوڑو

ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضور اب تو مولوی لوگوں نے وہ خطبے وغیرہ پڑھنے چھوڑ دیئے ہیں جن سے مسیح کی وفات ثابت ہوتی تھی۔حضرت اقدس نے فرمایا کہ

’’اب تو وہ نام بھی نہ لیں گے اور اگر کوئی ذکر کرے تو کہیں گے کہ مسیح اور مہدی کا ذکر ہی چھوڑو۔‘‘

(ملفوظات جلد چہار م صفحہ 286، ایڈیشن 1984)

رمضان کا آخری عشرہ اور اعتکاف کرنے والوں کو ہدایت

مغرب اور عشاء کے درمیان مجلس فرمائی۔ ڈاکٹر عباداللہ صاحب امرتسری اور خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈر (جو دونوں معتکف تھے) ان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ

’’اعتکاف میں یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان اندر ہی بیٹھا رہے اور بالکل کہیں آئے جائے ہی نہ۔(مسجد کی) چھت پر دھوپ ہوتی ہے وہاں جا کر آپ بیٹھ سکتے ہیں کیونکہ نیچے یہاں سردی زیادہ ہے اور ضروری بات کر سکتے ہیں۔ضروری امور کا خیال رکھنا چاہئے۔اور یوں تو ہر ایک کام (مومن کا) عبادت ہی ہوتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد چہار م صفحہ 287تا288، ایڈیشن 1984)

نماز میں لذت و ذوق حاصل کرنے کی دعا

28؍دسمبر 1902ء بمطابق 26رمضان 1320ھ کو ابو سعید عرب صاحب نے نماز میں حضور قلب کے بارہ میں استفسار کیا۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے معرفت الٰہی اور نماز کے بارہ میں نہایت پر معارف خطاب فرمایا اور حضور قلب پیدا کرنے کے لیے یہ دعا بتلائی

’’کہ اے اﷲ تو مجھے دیکھتا ہے کہ میں کیسا اندھا اور نابینا ہوں اور میں اس وقت بالکل مردہ حالت میں ہوں میں جانتا ہوں کہ تھوڑی دیر کے بعد مجھے آواز آئے گی تو میں تیری طرف آجاؤں گا اس وقت مجھے کوئی روک نہ سکے گا لیکن میرا دل اندھا اور ناشنا سا ہے تُو ایسا شعلہ نور اس پر نازل کر کہ تیرا انس اور شوق اس میں پیدا ہو جائے تُو ایسا فضل کر کہ میں نابینا نہ اٹھوں اور اندھوں میں نہ جا ملوں۔

جب اس قسم کی دعا مانگے گا اور اس پر دوام اختیار کرے گا تو وہ دیکھے گا کہ ایک وقت اس پر ایسا آئے گا کہ اس بےذوقی کی نماز میں ایک چیز آسمان سے اس پر گرے گی جو رقت پیدا کردے گی۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 322،ایڈیشن 1984)

رمضان سے وداع ہوتے وقت کی کیفیات

29؍دسمبر1902ء بروز دو شنبہ بمطابق 28؍رمضان المبارک1320ھ آپ مغرب اور عشاء کے درمیان تشریف لائے توبڑی محبت سے ماہِ صیام کا ذکر فرمایا اور الوداعی کیفیات کی جھلک آپ کے اظہار سے خوب ہوتی ہے۔

’’روزے ایک یادو اب رہ گئے ہیں بڑی آسانی سے گذر گئے۔‘‘

(ملفوظات جلد چہار م صفحہ 323۔ ایڈیشن 1984)

عید کی مبارک صبح ہدیہء عید

حضرت حجۃ اللہ علی الارض مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے عید کی مبارک صبح کو جو الہام بطور ہدیہ عید سنایا اس کے متعلق جو اشتہار شائع کیا گیا ہے اسے ہم ذیل میں درج کرتے ہیں وہو ہذا:

بسم اللّٰہ  الرحمن الرحیم      

نحمدہ و نصلی

وحی الٰہی کی ایک پیشگوئی ہے جو پیش از وقت شائع کی جاتی ہے چاہئے کہ ہر ایک شخص اس کو خوب یاد رکھے۔

اول ایک خفیف خواب جو کشف کے رنگ میں تھا مجھے دکھایا گیا کہ میں نے ایک لباس فاخرہ پہنا ہوا ہے اور چہرہ چمک رہا ہے۔ پھر و ہ کشفی حالت وحی الہی کی طرف منتقل ہو گئی چنانچہ وہ تمام فقرات وحی الٰہی کے جو بعض اس کشف سے پہلے اور بعض بعد میں تھے ذیل میں لکھے جاتے ہیں اور وہ یہ ہیں

یُبْدِیْ لَکَ الرَّحْمٰنُ شَیْئًا۔ اَتَی اَمْرُ اللّٰہِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْ ہٗ بَشَارَۃٌ تَلَقَّا ہَا النَّبِیُّوْنَ

ترجمہ۔ خدا جو رحمان ہے تیری سچائی ظاہر کرنے کے لئے کچھ ظہور میں لائے گا خدا کا امر آرہا ہے تم جلدی نہ کرو یہ ایک خوشخبری ہے جو نبیوں کو دی جاتی ہے۔

صبح پانچ بجے کا وقت تھا یکم جنوری 1903ء و یکم شوال1320ھ روز عید جب میرے خدا نے مجھے یہ خوشخبری دی۔اس سے پہلے 25؍دسمبر1902ء کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک اور وحی ہوئی تھی جو میری طرف سے حکایت تھی اور وہ یہ ہے :

اِنِّیْ صَادِقٌ صَادِقٌ وَسَیَشْھَدُ اللّٰہُ لِیْ

ترجمہ۔میں صادق ہوں ۔ صادق ہوں ۔ عنقریب خدا تعالیٰ میری گواہی دے گا۔

یہ پیشگوئیاں بآواز بلند پکار رہی ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسا امر میری تائید میں ظاہر ہونے والا ہے جس سے میری سچائی ظاہر ہو گی اور ایک وجاہت اور قبولیت ظہور میں آئے گی۔اور وہ خدا تعالیٰ کا نشان ہوگا تا دشمنوں کو شرمندہ کرے اور میری وجاہت اور عزت اور سچائی کی نشانیاں دنیا میں پھیلا دے۔

نوٹ :- چونکہ ہمارے ملک میں یہ رسم ہے کہ عید کے دن صبح ہوتے ہی ایک دوسرے کو ہدیہ بھیجا کرتے ہیں سو میرے خدا وند نے سب سے پہلے یعنی قبل از صبح پانچ بجے مجھے اس عظیم الشان پیشگوئی کا ہدیہ بھیج دیا ہے۔اس ہدیہ پر ہم شکر کرتے ہیں اور ناظرین کو یہ بھی خوشخبری دیتے ہیں کہ ہم عنقریب ان نشانوں کے متعلق بھی ایک اشتہار شائع کریں گے جو اخیر دسمبر1902ء تک گذشتہ سالوں میں ظہور میں آچکے ہیں۔

المشتہر۔مرزا غلام احمد قادیانی۔یکم جنوری1903ء

(ملفوظات جلد چہار م صفحہ 334تا335، ایڈیشن 1984ء)

قادیان میں عید الفطراور میٹھے چاول

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نماز عید سے پیشتر احباب کے لئے میٹھے چاول تیار کروائے اور سب احباب نے مل کر تناول فرمائے۔گیارہ بجے کے قریب خدا کا برگزیدہ.جری اﷲ فی حلل الانبیاء سادے لباس میں ایک چوغہ زیب تن کئے مسجد اقصیٰ میں تشریف لایا جس قدر احباب تھے انہوں نے دوڑ کر حضرت اقدس کی دست بوسی کی اور عید کی مبارک باد دی۔

اتنے میں حکیم نورالدین صاحب تشریف لائے اور آپ نے عید کی نماز پڑھائی اور ہر دو رکعت میں سورۂ فاتحہ سے پیشتر سات اور پانچ تکبیریں کہیں اور ہر تکبیر کے ساتھ حضرت اقدس علیہ السلام نے گوش مبارک تک حسب دستور اپنے ہاتھ اٹھائے۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 336، ایڈیشن 1984)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button