متفرق مضامین

کورونا کی وبا سے جڑے طبی، معاشرتی اورمعاشی مسائل کے بارے میں ڈاکٹرفہیم یونس اور پروفیسرعاطف میاں کے ساتھ ایک نشست

ہیومینیٹی فرسٹ (امریکہ) کی طرف سے مؤرخہ 25 ؍اپریل 2020ء کومعروف ماہرمتعدی امراض ڈاکٹرفہیم یونس صاحب اور عالمی شہرت یافتہ ماہرمعاشیات پروفیسر ڈاکٹرمیاں عاطف صاحب کے ساتھ ایک معلوماتی نشست کا اہتمام کیا گیا۔یہ نشست انٹرنیٹ کے ذریعہ منعقد کردہ ایک سیمینارکی شکل میں تھی جسے”ویب” یعنی کہ انٹرنیٹ کی مناسبت سے اصطلاحاً "ویبینار” (Webinar) کہاجاتا ہے۔

اس پروگرام کا مقصدعوام الناس میں کورونا کی وبا کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے طبی ،معاشرتی اورمعاشی مسائل اور ان کے حل سے متعلق معلومات بہم پہنچانے کے علاوہ نادار متاثرین کے لیے عطیات جمع کرنابھی تھا۔

اس نشست کی میزبانی کے فرائض کینیڈا سے تعلق رکھنے والے سپورٹس نیوزکاسٹر۔اینکر اور مبصّر مکرم عدنان ورک صاحب نے سرانجام دیے۔ آپ معروف احمدی صحافی اور مصنف زکریا ورک صاحب کے صاحبزادے اور کینیڈا کے مختلف ٹی وی چینلز سے وابستہ ہیں۔

ڈاکٹرفہیم یونس

ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹرفہیم یونس امریکہ میں یونیورسٹی آف میری لینڈ ہیلتھ سسٹم کے لیے بطورسربراہ شعبہ متعدی امراض کام کررہے ہیں۔آپ ہسپتال کےچیف کوالٹی کنڑول آفیسربھی ہیں۔ سماجی اور فلاحی بہبود کے لیے نمایاں خدمات بجالانے کے اعتراف میں آپ کوصدر اوباما انتظامیہ نے 2008ء میں صدارتی ایوارڈ (Presidential Service Award) سے نوازا۔ آپ کے ساتھی ڈاکٹروں نے آپ کو دومرتبہ بالٹی مورمیگزین کے سالانہ” ٹاپ ڈاکٹر” (Top Doc) ایوارڈ کے لیے منتخب کیا۔

پروگرام کے پہلے سوال ،جو کہ دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کی نسبت امریکہ میں کورونا کے مریضوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجوہات کے بارہ میں تھا،کاجواب دیتے ہوئے ڈاکٹرفہیم نے کہا کہ کورونا کی خبر تو ابتدا میں ہی مل گئی تھی لیکن فروری تک لوگوں کی توجہ سُپربال (Super Ball)،سیاسی اور سماجی ریلیوں اورسرگرمیوں کی طرف مبذول رہی۔اس دوران کورونا خاموشی سے ملک کے اندر داخل ہو چکا تھا۔یہ انتہائی اہم وقت تھا جو بدقسمتی سے گنوادیاگیا۔

دوسری وجہ ٹریول ہے۔ ہرسال امریکہ میں تقریباً 80 ملین لوگ سیاحت کی غرض سے آتے ہیں۔اور ووہان (Wuhan) سے شروع ہونے والے کوروناوائرس کو امریکہ میں لانے والے زیادہ تر لوگ یورپ سے آئے تھے۔

تیسری اور بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نےامید گھڑ کرلی تھی کہ سب ٹھیک رہے گا۔ جب مقابلہ اس  وائرس سے ہوتو امیدیں گھڑ کے بیٹھ رہنا نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔

لیکن میں لوگوں کو ان باتوں پرمورد الزام نہیں ٹھہراتا۔وائرس یونہی درآیاکرتا ہے اور اسے معمولی سمجھ لیاجاتا ہے، بجائے اس کے کہ اس کے خلاف بھرپور تیاری کی جائے۔

جن ملکوں میں سارس(SARS) پھیلا تھا انہوں نے یونہی سبق حاصل کیا تھا اور اب ہمیں بھی سبق مل گیا ہے!

ویکسین کی تیاری اور دستیابی کے حوالے سے لوگوں میں پائی جانے والی بیتابی کا ذکر ہونے پرڈاکٹر فہیم صاحب نے بتایا کہ ہر کام کا ایک طریقہ کارہوتا ہے۔ مثلاً انڈر گریجوایٹ کورس عموماًچار سال کاہوتا ہے۔کوئی طالب علم بہت ہی زیادہ قابل ہو تب بھی کم از کم دو سال تولگ ہی جائیں گے۔لیکن اگر آپ اس سے یہ توقع رکھیں کہ وہ چھ ماہ کے اندر گریجوایٹ بن جائے،تو ایسا نہیں ہوتا۔

کسی دوا کے تیار ہونے میں عموماً پانچ تا دس سال لگ جاتے ہیں۔ویکسین کی تیاری بھی اس سے کم وقت نہیں لیتی۔

سارس(SARS) کی ویکسین کے بارے میں بتادوں کہ سائنسدان اس کی ویکسین تقریباً تیار کرچکے تھے لیکن تب تک  یہ وائرس کہیں غائب ہو چکا تھا۔

اگر اٹھارہ مہینوں میں ویکسین بن جائے تو یہ محیّرالعقول بات ہوگی۔

ویکسین بن بھی جائے تو دیکھنا پڑتاہے کہ کیا محفوظ بھی ہے یا نہیں اور پھر یہ کہ کیا یہ مؤثر بھی ہے یا نہیں۔مؤثرویکسین وہ ہوتی ہے جو کم ازکم ایک سال تک بیماری کے خلاف بچاؤ کا کام دے۔

ماسک (Mask) پہننے سے متعلق ایک سوال پر ڈاکٹرصاحب نے بتایا کہ عام ماسک پہننا کافی ہے۔این-95 پہننے کی ضرورت نہیں، وہ کلینکل سٹاف کے لیے ہے۔

ماسک پہننے کا اصل مقصد دوسروں کو خود سےمحفوظ رکھنا ہوتاہے۔

جب ہم کھانستے ہیں تو ہمارے مونہہ سے تین ہزار (3000) کے لگ بھگ بلبلے (Droplets)خارج ہوتے ہیں جن میں وائرس موجود ہوسکتاہے۔اورجب ہم چھینکتے ہیں توچالیس ہزار( 40000) بلبلے خارج کرتے ہیں جو چھ فٹ بلکہ اس سے بھی دور اڑ اڑکرپہنچ جاتے ہیں ۔

تو ماسک پہننابہت ضروری ہے۔پابندیاں نرم کرنے کے ساتھ یہ لازمی کردینا چاہیے کہ کوئی بھی فرد ماسک پہنے بغیرباہر نہ پھرے۔

ایشیا،مثلاً ہانگ کانگ میں آپ دیکھیں گے کہ عموماً لوگ ماسک پہن کر باہر پھرتے ہیں۔ انہوں نے سارس کی وبا کے ایام سے اس عادت کو اپنا لیا ہے۔

یادرکھیں کہ ابتدا میں کوروناوائرس کے حامل بیس تا چالیس فیصد افراد میں مرض کی کوئی علامت ظاہر نہیں ہوتیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ ہم صحت مند ہیں،ہم کیوں ماسک پہنیں۔یہ رجحان غلط ہے۔ کیونکہ وہ اس ابتدائی دورمیں دوسروں کو وائرس لگا رہے ہوتے ہیں۔اس لیے سب کو ماسک پہننا چاہیے۔

کورونا ٹیسٹ کے حوالے سے ڈاکٹر فہیم صاحب نے کہا کہ جس طرح میڈیاکے ذریعہ اعلان کردیا جاتا ہے کہ ایک ہزار ٹیسٹ یا ایک ملین ٹیسٹ دستیاب کردیے گئے ہیں،یہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔اصل بات یہ ہے کہ کیا کافی تعداد میں ٹیسٹ دستیاب ہیں یا نہیں؟۔’’کافی‘‘(Adequate) کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی ماں اپنے بچے کو لےکر ڈاکٹر کے پاس چلی جائے اور کہے کہ بچے کا کورونا ٹیسٹ کردیں،تو اسی وقت اس کا کورونا ٹیسٹ کردیا جاناممکن ہو۔ یہ ہے ٹیسٹ کی تعداد کا کافی ہونا۔ محض کوئی مخصوص تعداد بتادینا تسلی بخش بات نہیں۔

ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ اسی طرح ساٹھ سال یا اس سے بڑی عمر کے افراد یا کمزور قوت مدافعت رکھنے والے افرادکے لیے بھی ہروقت یہ ٹیسٹ کافی تعداد میں دستیاب ہونے چاہیں۔اور ان کے ساتھ ملنے جلنے والوں کے لیے بھی۔اور انہیں یہ سمجھانا بھی ضروری ہے کہ ٹیسٹ مثبت آنے پر انہیں قرنطینہ میں رہنا ہوگا اور ان کے ملنے جلنے والے سب کا بھی ٹیسٹ ہوگا۔ اسی طرح اس کے پھیلاؤ کو روکا جاسکتا ہے۔

جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ ٹیسٹ کرنا کیوں ضروری ہے تو ڈاکٹر صاحب نے بارش کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ بارش ہوتی چونکہ نظرآتی ہے اس لیے آپ کو پتہ چل جاتا ہے کہ بارش ہے، تب آپ چھتری تان لیتے ہیں۔ لیکن وائرس خالی آنکھ سے نظر نہیں آتا،اس کا پتہ ٹیسٹ سے ہی چلتا ہے تو متاثرہ شخص کی نشاندہی کرنا اور دوسروں کو اس وائرس سے محفوظ رکھنے کے لیے ٹیسٹ کرنا بڑا ضروری ہے۔ اس کی توبارش نہیں بلکہ ژالہ باری ہورہی ہے۔

کیا کورونا وبا کی دوسری لہربھی آسکتی ہے؟۔اس سوال کاجواب اثبات میں دیتے ہوئے ڈاکٹرفہیم نے کہا کہ ایسا ہونا بعیدازقیاس نہیں۔وبائیں عموماً پورا’’ ٹورنامنٹ‘‘ کھیلاکرتی ہیں نہ کہ ایک میچ!۔

موجودہ لہر کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ چھ ماہ جاری رہتی ہے یا دوسال۔تاہم اتنا ضرور ہے کہ عوام کی تربیت ہو گئی ہے کہ کس طرح مکمل یا جزوی لاک ڈاؤن کیا جاتا ہے، احتیاطی تدابیر پر عمل کتنا ضروری ہے،وغیرہ۔

اسی طرح شعبہ صحت سے تعلق رکھنے والوں کی معلومات میں بھی خاطرخواہ اضافہ ہو رہا ہے۔ساتھ مختلف ادویات آزمائی جارہی ہیں،ویکسین پر بھی کام جاری ہے تو ان سب باتوں کی بدولت ہم اس وبا کی دوسری لہر سے نبٹنے کے لیے بہترکارکردگی دکھانے کے قابل ہو چکے ہونگے۔

پروفیسرعاطف میاں

پروفیسرڈاکٹرعاطف رحمٰن میاں کا شمار دنیا کے چوٹی کےماہرینِ مالیات و معاشیات میں ہوتا ہے۔ آپ پرنسٹن یونیورسٹی امریکہ میں میکرواکنامکس (Macro-economics) اور فنانس کے پروفیسر ہیں۔آپ ماضی میں شکاگو، برکلے اور کیلیفورنیا کی یونیوسٹیوں میں بھی اکنامکس کے فاضل استاد رہ چکے ہیں۔ ان دنوں آپ جولیئس رابنووِز(Julius-Rabinowitz) سنٹر فار پبلک پالیسی اینڈ فنانس کے ڈائریکٹرکے طورپر بھی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔آپ شریک مصنف اور مصنف کے طور پردوکتابوں،نیز متعدد مستند تحقیقی مضامین کے خالق ہیں۔2014 ءمیں عالمی مالیاتی ادارہ آئی ایم ایف(IMF) نے آپ کا شماردنیا کے ابھرتے ہوئے ان 25 ؍ماہرین معاشیات میں کیا ہے جو مستقبل میں دنیا کی مالیات اور معاشیات سے متعلق سوچ اور نظریات کو نئی جہتیں عطاکرنے والے ہوں گے۔

پروگرام میں اپنی گفتگو کے آغازمیں کورونا کے ہاتھوں چند ہی ہفتوں میں ہرطرح کے کاروبار کے ٹھپ ہوجانے اور نتیجتاً بے شمار افراد کے روزگارچھن جانے سے پیدا ہونے والے مالی اور معاشی بحران پر تبصرہ کرتے ہوئے پروفیسرعاطف نے کہا کہ پہلی بات جو یاد رکھنے والی ہے وہ یہ ہے کہ ہم ایک ناقابلِ تصوّر کائنات میں بس رہے ہیں ۔ اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ کوئی بھی ماہرِمالیات یا معاشی تجزیہ نگار خواہ کتنا بھی قابل کیوں نہ تھا،بالکل بھی اندازہ نہیں کرسکاتھا کہ اس قسم کی صورتحال پیش آنے والی ہے۔

 چنانچہ ایک نادیدہ دشمن نے ہماری معاشیات کا گلا گھونٹ کر رکھ دیا،اور (امریکہ میں۔ناقل) 26 ملین افراد کی ملازمتیں اب تک داؤ پہ بھی لگ چکی ہیں۔

موجودہ بحران کا تقابلی موازنہ کرنے کے لیے2008ء کے مالیاتی بحران کو دیکھیں ، جسے ’’دِی گریٹ رِی سیشن‘‘(The Great Recession) کہا جاتا ہے ، تو موجودہ صورتحال اس سے کہیں زیادہ سنگین ہو چکی ہے۔

پروفیسر عاطف نے کہا کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم کرکیا سکتے ہیں؟َ

آپ نے بتایا کہ اس سلسلہ میں پہلی اورسب سے اہم بات یہ یاد رکھنے والی ہے کہ ہم نے حواس باختہ نہیں ہونا۔

اس ساری صورتحال کا اچھا پہلو یہ ہے کہ ہمیں علم ہے کہ (یہ عارضی ہے،)اس نے چلےجانا ہے ۔ یہ تعین تو نہیں کیا جاسکتا کہ کب، لیکن اس نے جانا ضرور ہے۔لہٰذہ حواس باختہ ہونے کی بجائے تیاری پکڑنے اور منظّم ہونے کی ضرورت ہے۔

تیاری اور تنظیم کیسے کی جاتی ہے، اس کے لیے میں جانوروں کی مثال دوں گا، ان جانوروں کی جوکڑا موسم آنے پرخود کومردہ بنا کرhibernation کی حالت میں چلے جاتے ہیں۔ان جانوروں کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ وقت باہر نکلنے کے لیے موزوں نہیں،موسم سازگارنہیں۔

جب جانور اس حالت میں چلے جاتے ہیں تو بظاہر بالکل مردہ معلوم ہوتے ہیں ،حالانکہ وہ مردہ نہیں ہوتے وہ محض اپنی ضروریات زندگی کے ذخیرہ کوبچا رہے ہوتے ہیں۔خود کو تبدیلی کے لیے تیارکررہے ہوتے ہیں۔پھرجب موسم بدلتا ہے تو وہ دوبارہ متحرک ہوجاتے ہیں اور پچھلی حالت کی نسبت زیادہ طاقتور بن کر ابھرتے ہیں۔

بعینہٖ یہی وقت ہے کہ ہماری اکانومی بھی خود پر یہی حالت طاری کرلے۔ چنانچہ ہماری اولین ترجیح اس وقت انسانی زندگیوں کو ضائع ہونے سے بچانے کی ہونی چاہیے۔

اس کے لیے اس وقت بنیادی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کو یقینی بناناضروری ہے۔ لوگوں کوخوراک،ادویات اور چھت دستیاب کرکے دیناہوگا۔

اسی طرح اس بات کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ جبکہ پوری قوم اس Hibernation حالت میں چلی جاتی ہے تو اس کی وجہ سے اس پرپڑنے والے بداثرات دائمی نوعیت اختیار نہ کر سکیں۔ (یہ صورتحال عارضی ہی رہے)۔

اس کا مطلب واضح کرنے کے لیے یہ مثال دینا چاہوں گاکہ جب کوئی ملازم موجودہ صورتحال کے ختم ہوجانے پر واپس اپنے کام پر آنا چاہے تو مالک اور ملازم دونوں کو کسی قسم کی دقت کا سامنا نہ کرناپڑے۔

کام کے بارے میں ادارہ اوراس کا ورکر دونوں مشترکہ طورپربہت سارے علم کے حامل بن چکے ہوتے ہیں، لہٰذہ اس فائدہ مند باہمی تعلق کاتسلسل برقرار رکھنا نہایت ضروری ہے۔

ہاؤسنگ کے شعبہ میں بھی اس بات کو یقینی بناناہوگا کہ لوگوں کوگھروں سے بے دخل کرکے ان کی زندگی ہمیشہ کے لیے اجیرن نہ کی جاسکے۔

فیڈرل گورنمنٹ کو لوکل اور سٹیٹ گورنمنٹس کے لیےفنڈز بھی جاری کرنے ہوں گے تاکہ وہ اپنے معمولات جاری رکھ سکیں۔ کیونکہ یہ وقت ایسا ہے جس میں ان کی ریونیو آمدن کم اوراخراجات زیادہ ہو چکے ہیں۔ایسا کرکے لوگوں کودائمی بےدخلی سے بچایا جاسکتاہے۔

پروفیسرعاطف میاں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ جیسا کہ انہوں نے پہلے کہا کہ ہم ایک ناقابلِ تصور کائنات کے باسی ہیں تو اس کی زد میں ہمارا قانونی نظام بھی آتاہے۔اور موجودہ حالات کے تناظرمیں قانونی پیچیدگیوں سے آپ کا باربار واسطہ پڑنا معمول بن سکتاہے۔

خاص کرہم موجودہ حالات سے انجان بن کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ کچھ ہوا ہی نہیں ۔

عام طورپر کیے جانے والے مالی معاہدات کو لے لیں۔جب کوئی شخص قرض لیتا ہے تومعاہدہ کی رو سے قانوناً وہ اس بات کا پابندکیاجاتا ہے کہ خواہ کچھ بھی ہو اس نے مقررہ وقت پر قرض واپس کرنا ہے۔لیکن اب موجودہ حالات کی وجہ سے،جن کا پہلے سےاندازہ نہیں تھا،آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ کچھ بھی نہیں ہوا(اورمعاہدہ پر اسی طرح سے عمل ہوگا۔ناقل)۔

اس لیے آپ کو اپنی اکانومی چلانے کے لیے مالی معاہدات کی تشکیلِ نواوران کی شرائط پر نظرثانی کرنے کی بہت بھاری ضرورت پیش آئے گی۔اور مستقبل میں بھی اس عمل کے لیے تیاررہنا پڑے گا۔

پروفیسرعاطف نے کہا کہ اس وقت کووِڈ سے جڑے معاشی بحران کاجو ہاتھی کمرے کے اندرگھس آیا ہے اسے باہر نکالنے کے لیے ہم نے تا حال کچھ نہیں کیا۔اس کی مزید تفصیل اگرکوئی جاننے کا خواہشمندہوتومیں اسے سوال وجواب کے سیشن میں بیان کرسکتاہوں لیکن سردست اتنا کہوں گا کہ اس سلسلہ میں پہلا مرحلہ  ہاتھی کے سر اور درمیانی دھڑکو کمرے سے باہرنکالناہے۔ اوراس سے میری مراد حد سے زیادہ پائی جانے والی عدم مساوات کاخاتمہ ہے۔ اس کے بغیر موجودہ وقت میں اکانومی کوواپس اپنے ڈگر پہ لانا بہت ہی دشوارہوگا۔

اس سوال کے جواب میں کہ دنیا کی مختلف حکومتوں کے جاری کردہ امدادی پیکج (Stimulus Packages)کے لیے رقومات کہاں سے آتی ہیں اور کب تک یہ بار اٹھایا جاسکتا ہے ،کیونکہ چھوٹے کاروبار کو زیادہ ہی خطرہ لاحق رہتاہے،پروفیسر عاطف نےامریکی تناظر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ امریکہ کے لیے اچھی خبریہ ہے کہ وہ اس پوزیشن میں ہے کہ وہ دنیا بھر کے مقابلے میں سب سے اچھے اور دیرتک جاری رہ سکنے والے امدادی پیکجز کاباآسانی متحمل ہوسکتاہے۔اسے یہ فوقیت بھی حاصل ہے کہ وہ دنیا کےکسی بھی دیگر ملک کی نسبت زیادہ سے زیادہ قرضے بھی لے سکتا ہے اوراس پراپنےاخراجات کومحدودکرنے کی شرط بھی عائد نہیں کی جاسکتی ،جیسا کہ عموماًقرضوں اور ان پر چڑھنے والے سود کی ادائیگیوں کو مدنظررکھ کرعموماًیہ شرطیں لگادی جاتی ہیں۔

امریکہ کو یہ فوقیت کیسے حاصل ہوئی؟ ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ سالہا سال کے عمل کے نتیجہ میں ہمارے جملہ ادارے خوب مستحکم ہو چکے ہیں۔ پس یہی اصل وقت ہے کہ امریکہ اپنی اس طاقت اورفضیلت کو استعمال میں لائے۔امریکہ کوخرچ کرنے سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔

تاہم میں کہوں گا کہ اول تو(حکومت کو) دل کھول کر رقم خرچ کرنے کی ضرورت ہے، اور دوم یہ کہ رقم درست مد میں خرچ کی جائے۔درست مد میں رقم خرچ کرنے کا اصل مطلب یہ ہے کہ یہ رقم اس طبقہ کومحفوظ ومامون رکھنے پرخرچ کی جائے جس کا سب سے زیادہ متاثرہونے کا خدشہ ہو۔ اس طرح سے رقم خرچ کرکے ہم اس بنیادی اصول کو تقویت دے رہے ہوں گے کہ موجودہ بحران میں ہم سب اکٹھے ہیں۔اور ہم ایک دوسرے کے ساتھ ملکی اکانومی کی اکائیوں کی صورت آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔

لہٰذا ہمارا کام حکمت کے ساتھ مالی تنگی کے شکار افراد کو،بے روزگاروں کو،مالی تنگی کے شکارچھوٹے کاروباری طبقہ کو اوپر اٹھاناہونا چاہیے، نہ کہ پہلے سے کسی مراعات یافتہ گروہ کی گرتی ساکھ بحال کرنے(Bail Out) میں رقم لگا دینا۔ اور یہ مؤخرالذکرنکتہ بہت ہی اہم ہے۔اس پر میں شروع سے زوردیتاچلا آیاہوں۔اسی طریق کو اپنا کر ہم اس ہاتھی کو بڑی آسانی سے کمرے سے باہر نکال کرسکتے ہیں۔امریکہ کے پاس ایسا کرنے کے جملہ وسائل وافرمقددارمیں موجودہیں۔

اسی طرح سے چونکہ موجودہ بحران وائرس کی وجہ سے ہے تو اس پر تحقیق ، ٹیسٹنگ،علاج،ویکسین،طبی سہولیات وغیرہ کے لیے بھی بھاری فنڈزدستیاب کرکے دینا ضروری ہے جو کہ امریکہ جیسے مضبوط مالی ساکھ کے حامل ملک کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔

کاروبار کھلے رکھنے کے حوالے سے دنیا کے مختلف ملکوں میں اورپھرامریکہ کی مختلف ریاستوں میں بھی ایک دوسرے سے جداگانہ پابندیاں عائدہیں۔ان میں سے کون سی ریاست ٹھیک کر رہی ہے اور کون سی غلط،اس حوالے سے عاطف میاں نے کہاکہ اس کا جواب امریکہ کے لیے مختلف ہوگا اور بنگلہ دیش جیسے کسی ملک کے لیے مختلف۔ امریکہ کو غریب ممالک کی نسبت بہت زیادہ سہولیات دستیاب ہیں۔اس لیے امریکہ خوش قسمت ہے کہ یہ وہ کچھ کرسکتا ہے جو مثال کے طور پربنگلہ دیش کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ نہ ہی امریکہ کو اتنے سخت اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جو بنگلہ دیش انڈیا وغیرہ کواٹھانے پڑگئے۔

مگرخیر،بنیادی سوال یہ نہیں ہے کہ کاروبارکو کھول دیا جانا چاہیے یا نہیں۔ سوال یہ بنتا ہے کہ کاروبارکھولنے کے بارے میں ہم نے منصوبہ بندی کیا کی ہے؟ پھر یہ کہ اس منصوبہ کے مطابق ہم نے تیاری کیا کی ہے؟ ۔ اوراگر کوئی ہنگامی صورتحال پیدا ہوتی ہے تواس کے لیے بھی کوئی منصوبہ (Contingency Plan) تیارکرلیا گیا ہے یا نہیں؟

کاروباردکانیں وغیرہ کھولنے کا بڑا دارومدار ہماری کورونا کے ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت اورکورونا کیسز کے پھیلنےکی شرح  پر منحصرہے۔( جسے اصلاح میں ’’ریپروڈکشن نمبر ‘‘ کہتے ہیں یعنی جس کے ذریعے بیماری کی پھیلنے کی صلاحیت کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ ناقل)

اگر تویہ شرح بہت ہی کم،یعنی کہ ایک سے کم ہے،تو ترجیحی بنیادوں پر بعض کاروباروں کو کھولنے کی اجازت دے دینی چاہیے۔ لیکن اس کے بعد بھی مریضوں کی شرح پر نظررکھیں،اگر تعداد بڑھتی نظرآئے تو ترجیحات پر نظرِ ثانی کرلیں،پھر سے پابندیاں لگا دیں۔اسی طرح سے پھرچلتے جائیں۔ وسائل تو موجود ہی ہیں،انہیں استعمال میں لانے کا وقت ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں پروفیسرعاطف نے کہا کہ چھوٹے بزنس ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعہ بھی اپنا کاروبار جاری رکھ سکتے ہیں۔

آپ نے یہ بھی کہا کہ پابندیاں نرم ہوں توسب سے پہلے چھوٹے تاجروں کو اجازت ملنی چاہیے کہ وہ اپنا کاروبار کھولیں۔

حکومت کی طرف سے مستحق افراد کو کوپن (Coupon) جاری کیے جاسکتے ہیں جن کے بدلے وہ مقامی تاجروں سے ضروری اشیاء صرف حاصل کرسکیں۔اس سے مقامی گاہک اورمقامی دکاندار، دونوں کا فائدہ ہوگا۔ یہ کوپن حکومت کے امدادی پیکج کا حصہ ہوں۔

آخرپر آپ نے اس امرپر زوردیا کہ موجودہ حالات میں عالمی برادری کا ایک مستحکم اور مالداررکن ہونے کی حیثیت سے امریکہ ایک مثالی کردارادا کرسکتاہے۔ اگر دنیاکے غریب ترین ممالک قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں تو وہ انہیں اس بوجھ سے آزادکرواسکتاہے،اس طرح سے دنیا بھر سے اس نے جو کچھ کمایا وہ دنیا کو واپس لوٹا سکتا ہے۔ یہی وقت ہے اصل طاقت اور بڑائی دکھانے کا۔

اگرامریکہ ایسا کرتا ہے تو وہ دنیا کے دل جیت کر ایسے سیاسی اور جغرافیائی فوائد حاصل کرسکے گا جو دائمی و پائیدار نوعیت کے ہوں گے۔

لیکن اگر دیگر ممالک یہ دیکھ رہے ہوں کہ بحران سے دوچارہوکر امریکہ تو خود اپنی معاشیات نہیں سنبھال سکتا،اپنا ہیلتھ سسٹم مؤثرطریق پر نہیں چلا سکتاتو اس صورت میں دنیا میں قائم اس کی ساکھ کو سخت دھچکالگے گا۔

پروگرام کے آخرپر ہیومینیٹی فرسٹ امریکہ کے ایگزیکٹیوڈائریکٹر مکرم منعم نعیم صاحب بھی وڈیو لنک کے ذریعہ شریکِ گفتگو ہوگئے۔آپ نے پروگرام کے میزبان اور ہردو مہمانانِ گرامی کا فرداً فرداً شکریہ اداکیا نیز کورونا کی وبا ء سے متاثرشدہ افراد اور اسی طرح سوگواران کے ساتھ یکجہتی اور ہمدردی  کے اظہارکے طورپر چندلمحوں کی دعائیہ اورعلامتی خاموشی بھی اختیارکی۔

آپ نے دنیا بھر میں کورونا کے خلاف فرنٹ لائن پرنبردآزما کارکنان کو،خواہ ان کا تعلق کسی بھی شعبہ سے ہو، بھرپور خراج تحسین پیش کیا نیز امریکہ سمیت دنیا بھرمیں ہیومینیٹی فرسٹ کی قابل تحسین خدمات کا اجمالاً ذکربھی کیا اورمزیدعطیات کے لیے درخواست کی۔

منعم صاحب نے بتایاکہ مستقبل میں اس قسم کے اور پروگرام بھی منعقد کیے جائیں گے،جس کے لیے پیشگی سوالات بھی بھجوائے جاسکتے ہیں۔

دلچسپی رکھنے والے قارئین کرام اس پروگرام کی ریکارڈنگ دیکھنے اور سننے کے لیے درج ذیل لنکس میں سے کسی ایک پر کلِک کرکے مستفیدہوسکتے ہیں:

https://usa.humanityfirst.org/hf_events/covid-19-game-changer-for-life/

https://www.youtube.com/watch?v=apALxTVjSso

 (اردو خلاصہ و تدوین:ڈاکٹر طارق احمد مرزا۔ آسٹریلیا)

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button