حضرت مصلح موعود ؓمتفرق مضامین

ہدایاتِ زرّیں (مبلغین کو ہدایات) (قسط دوم)

از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

تینوں قسم کے لوگوں کو مخاطب کرنے کی غرض

اس وقت جو باتیں میں کہوں گا وہ ان تینوں گروہوں کو مدنظر رکھ کر ہوں گی اور گو بعض کے لیے ان کا سمجھنا مشکل ہوگا۔ لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ ایک گروہ یعنی طلباء کو سنانے کی یہی غرض ہے کہ اس کے کان میں اس قسم کی باتیں پڑتی رہیں اور اس کے دل میں نقش ہوتی رہیں۔ دوسرے دو طبقوں کے لوگ جو اپنی واقفیت اور تجربہ کی وجہ سے ان باتوں کو سمجھ سکتے ہیں ان کو سنانے کی یہ غرض ہے کہ اگر انہیں معلوم نہ ہوں تو اب واقف ہو جائیں اور اگر معلوم ہوں تو ان پر اور غور و فکر کریں اور ان سے اچھی طرح فائدہ اٹھائیں۔

مبلغ کے معنی اور اس کا کام

اس تمہید کے بعد میں اس امر کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ مبلغ کسے کہتے ہیں اور اس کا کیا کام ہے ؟ مبلغ کے معنی ہے پہنچا دینے والا مگر جب ہم یہ لفظ بولتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ خواہ وہ کچھ پہنچا دے اس کو مبلغ کہا جائے گا۔ بلکہ اسلامی اصطلاح میں اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ ایسا شخص جو دوسروں کو اسلام کی تعلیم پہنچائے۔ آج کل کے مبلغ تو ظلی مبلغ ہیں۔ بعض لوگ نبوت ظلی پرہی بحث کر رہے ہیں مگر سچی بات یہ ہے کہ ہمارا سبھی کچھ ظل ہی ظل ہے۔ ایمان بھی ظلی ہے تبلیغ بھی ظلی ہے۔ کیونکہ پہلے اور اصلی مبلغ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔ ان کی وساطت اور ذریعہ سے ہی دوسرے لوگ مبلغ بن سکتے ہیں اسی طرح اگر کوئی حقیقی اور اصلی مومن ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔ہم سب ظلی مومن ہیں کیونکہ ہم نے مومن بننے کے لئے جو کچھ لیا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی لیا ہے۔ تو حقیقی مبلغ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ ان کو خدا تعالیٰ نے کس بات کا حکم دیا ہے۔ خدا تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتا ہے

بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ عَلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ( المائدۃ: 68)

جوکچھ تجھ پر تیرے رب کی طرف سے اتارا گیا ہے اسے لوگوں تک پہنچا دے۔اس کو مدنظر رکھ کر اسلامی مبلغ کے یہ معنی ہوئے کہ جو کچھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دے اور اگر اس میں کوتاہی کرے تو مبلغ نہیں کہلا سکتا۔ خدا تعالی فرماتا ہے۔

بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ عَلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ۔

پہنچا دے جو اتارا گیا ہے تجھ پر تیرے رب کی طرف سے۔

وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ

اور اگر تو نے یہ کام نہ کیا تو تب خدا کا پیغام نہ پہنچایا۔ اس کے اگر یہ معنی کیے جائیں کہ تو نے خدا کا کلام اگر نہ پہنچایا تو کلام نہ پہنچایا تو کلام بے معنی ہو جاتا ہے۔ مثلا ًکوئی کہے کہ اگر تو نے روٹی نہیں کھائی تو نہیں کھائی یا پانی نہیں پیا تو نہیں پیا۔ تو یہ لغو بات ہوگی۔ کیوں کہ جب روٹی نہیں کھائی تو ظاہر ہے کہ نہیں کھائی۔ پھر یہ کہنے کا کیا مطلب ہے کہ تونے نہیں کھائی یا پانی نہیں پیا تو ظاہر ہے کہ نہیں پیا۔ پھر یہ کہنے کا کیا مطلب ہے کہ تو نے نہیں پیا۔ اس لیے

وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ ( المائدۃ : 68)

کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اگر تو نے خدا کا کلام نہیں پہنچایا تو کلام نہیں پہنچایا۔ بلکہ یہ ہیں کہ

مَآ اُنْزِلَ عَلَیْکَ

میں جو وسعت رکھی گئی ہے اس میں سے اگر کوئی بات نہیں پہنچائی اس کا کوئی حصہ رہ گیا ہے تو تجھے جو کچھ پہنچانا چاہیے تھا اسے تو نے گویا بالکل ہی نہیں پہنچایا۔ کیونکہ وہ کلام بتمام و کمال پہنچانا ضروری تھا۔

پس مبلغ کا کام یہ ہے کہ جو کچھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا وہ سارے کا سارا دنیا میں پہنچا دے اور جو حصہ جس کے متعلق ہے اسے پہنچائے۔ یہ نہیں کہ کسی اَور کا حصہ اَور ہی کو دے آئے یا بعض کو ان کا حصہ پہنچا دے اور بعض کو نہ پہنچائے۔ اگر وہ اس طرح کرے گا تو اپنے فرض سے سبکدوش نہ ہوگا۔ بلکہ اس کا فرض ہے کہ جس جس کا حصہ ہے اس تک پہنچادے۔مثلاً گھروں میں حصے بٹتے ہیں۔ لوگ نائنوں کو حصہ دیتے ہیں کہ فلاں فلاں گھروں میں دے آؤ۔ اب ا گر نائن کو دس حصے پہنچانے کے لیے دیے جائیں۔ اور وہ ان میں سے آٹھ تو پہنچا دے مگر دو نہ پہنچائے تو وہ یہ نہیں کہہ سکتی۔ آٹھ جو پہنچاآئی ہوں اگر دو نہیں پہنچائے تو کیا ہوا ؟ پس جس طرح اس کا آٹھ حصے پہنچا دینا دو کے نہ پہنچانے کے قصور سے اسے بری الذمہ نہیں کر سکتا۔ اسی طرح مبلغ اگر ہر ایک کو اس کا حصہ نہیں پہنچاتا بلکہ بعض کو پہنچا دیتا ہے تو وہ بری الذمہ نہیں ٹھہر سکتا۔ اس لیے مبلغ کا فرض ہے کہ اسے جس قدر اور جس کے لیے جو کچھ دیا گیا ہے اسے پہنچا دے۔ یہ بھی نہیں کہ سارے کا سارا ایک ہی کو پہنچادے۔ مثلاً اگر ایک شخص کے گھر کے پاس جو آدمی رہتا ہو وہ اسے عیسائیوں، دہریوں ، آریوں وغیرہ کے ردّ کے دلائل پہنچادے لیکن جن عیسائیوں، دہریوں یا آریوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہوانہیں یونہی چھوڑ دے۔ تو اس کی نسبت یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے پہنچا دیا۔ کیونکہ اس کا فرض ہے کہ دہریوں کے ردّ کے دلائل دہریوں کو بتائے اور عیسائیوں کے رد ّکے دلائل عیسائیوں کو بتائے اور آریوں کے ردّ کے دلائل آریوں کو پہنچائے۔ تو جس طرح کوئی شخص اگر وہ ساری چیزیں نہ پہنچائے جو اسے پہنچا نے کے لیے دی جائیں۔ اور یا ان سب کو نہ پہنچائے جن کے لیے دی جائیں بری الذمہ نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح مبلغ ساری باتیں نہ پہنچائے اور جس جس کے لیے ہیں اس کو نہ پہنچائے تو وہ مبلغ ہی نہیں ہو سکتا۔ مثلاً کوئی اس طرح کرے کہ عیسائیوں میں جائے اور جا کر ان کی تو تعریف کرے اور ان میں یہودیوں کے خلا ف دلائل دینے شروع کر دے یا ہندوؤں میں جائے اور ان کی تو تعریف کرے لیکن عیسائیوں کے خلا ف تقریر شروع کر دے یا غیر احمدیوں میں جائے اور ان کے بگڑے ہوئے عقائد کے متعلق تو کچھ نہ کہے مگر مجوسیوں کے خلا ف دلائل دینے شروع کر دے تو اس سے کوئی فائدہ نہ ہو گا اور نہ وہ اپنے فرض سے سبکدوش سمجھا جائے گا۔ اسی بات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیغامی ہم سے الگ ہوئے ہیں۔ ان کے لیکچراروں کا طریق تھا کہ غیر احمدیوں میں گئے تو عیسائیوں کے نقص بیان کرنے شروع کر دیے۔ ہندوؤں میں گئے تو کسی دوسرے مذہب کی برائیاں بیان کرنے لگ گئے اور ساتھ ساتھ ان لوگوں کی جو ان کے سامنے ہوتے تعریف کرتے جاتے۔ گویا وہ کسی کی ٹوپی کسی کو دیتے اور کسی کی جوتی کسی کو پہنچا دیتے۔ اس کا جو کچھ نتیجہ ہوا۔ وہ ظاہر ہی ہے۔

جب تک جس قوم میں جو کمزوریاں اور نقائص ہوں وہ اسے بتائے نہ جائیں اس وقت تک کوئی مبلغ نہیں کہلا سکتا۔ کیونکہ

بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ عَلَیْکَ

کے ماتحت ضروری ہے کہ یہودیوں میں جو نقص ہوں وہ ان کو بتائے جائیں ، عیسائیوں میں جو نقص ہوں وہ ان کو سنائے جائیں۔ غیر احمدیوں میں جو نقص ہوں ان سے انہیں آگاہ کیا جائے اور اپنی جماعت میں جو کمزوریاں ہوں وہ اپنے لوگوں کو بتائی جائیں۔ ہاں جو مبلغ بنانے اور تیار کرنے والے ہوں ان کا کام ہے کہ ایک ایک شخص کو یہ سب باتیں بتائیں۔ لیکن جو شخص تبلیغ کرتا ہے اس کا فرض ہے کہ وہ جس قوم میں جائے اس کی کمزوریاں اور نقائص اس تک پہنچائے۔ اگر اس کے سامنے کسی دوسری قوم کی کمزوریوں کا ذکر کرے گا تو یہ

بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ عَلَیْکَ

کے ماتحت نہ ہوگا۔

پس قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کو ساری صداقتیں پہنچا دینی اور جو جس کا مستحق ہے اس کے پاس وہی پہنچانا مبلغ کا کام ہے۔ اگر کوئی شخص کسی کو پوری پوری صداقت نہیں پہنچاتا تو وہ مبلغ نہیں ہو سکتا۔ اوراگر کسی کے کام آنے والی صداقت کسی اور کو پہنچا دیتا ہے تو بھی مبلغ نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ یہ پہنچانا نہیں ہوتا بلکہ پھینکنا ہوتاہے۔ مثلاً اگر چٹھی رساں کسی کا خط کسی کو دے آئے تو یہ نہیں کہیں گے کہ وہ خط پہنچا آیا بلکہ یہی کہیں گے کہ پھینک آیا ہے۔

غرض مبلغ کے لفظ نے بتا دیا کہ جس کے کام آنے والی صداقت ہو اسی کو پہنچانا ضروری ہے او ر

مَآ اُنْزِلَ عَلَیْکَ

نے بتا دیا کہ ساری کی ساری پہنچانی چاہیے نہ کہ اس کا کچھ حصہ پہنچا دیا جائے۔ اس چھوٹے سے فقرے میں مبلغ کا سارا کام بتا دیا گیا ہے۔

تبلیغ کی تقسیم

آگےپہنچانا دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک اصول کا پہنچانا۔ دوسرے فروع کا پہنچانا۔ غیر مذاہب کے لوگوں کےلیے تو اصول کی تعلیم پہنچانا ضروری ہے اور جو ماننے والے ہوں ان کے لیے تفصیل کی ضرورت ہوتی ہے کہ فلاں بات کس طرح کرنی چاہیے اور فلاں کس طرح۔ اس لحاظ سے تبلیغ کی موٹی تقسیم یہ ہوئی کہ ایک تو ان لوگوں کو تبلیغ کرنا جو اسلام کو نہیں مانتے۔ ان کو اصولی باتیں بتانی چاہئیں اور دوسرے ان کو تبلیغ کرنا جو مسلمان تو کہلاتے ہیں مگر اسلام کی باتوں کو جانتے نہیں یا جانتے ہیں تو ان پر عمل نہیں کرتے۔ ان کو اصول کے علاوہ فروع سے بھی آگاہ کرنا۔

غرض دو طرح کی تبلیغ ہوتی ہے۔ ایک ظاہر کے متعلق اور ایک باطن کے متعلق۔ وہ لوگ جو ابھی اسلام میں داخل ہی نہیں ہوئے ان کے تو قفل لگے ہوئے ہیں۔ جب تک پہلے وہ نہ کھلیں ان کے باطن میں کوئی چیز داخل نہیں ہو سکتی اس لیے ان کی بیرونی اصلاح کی ضرورت ہے۔ انہیں اصولی باتیں سمجھائی جائیں۔ مگر جو اپنی جماعت کے لوگ ہیں ان کے تو قفل کھلے ہوئے ہیں ان کی اندرونی اصلاح کی جا سکتی ہے۔ ان میں روحانیت ، تقویٰ ، طہارت اور پاکیزگی پیدا کرنےکی کوشش کرنی چاہیے۔

(جاری ہے )

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button