یادِ رفتگاں

مکرم رشید احمد ایاز مرحوم

(امتیاز احمد راجیکی۔ امریکہ)

ساٹھ کی دہائی کے ابتدائی سالوں کی بات ہے، محلہ دارالرحمت غربی ربوہ میں ایک اجنبی چہرہ نمودار ہوا۔ صاف ستھرے پوشاک میں ملبوس کھلتی ہوئی گندمی رنگت والا شرمیلا سا، خاموش خاموش، سہما سہما سا گیارہ بارہ سال کا لڑکا غلہ منڈی کے کھلنڈرے ماحول میں جچ نہیں رہا تھا۔ اگلے روز پتا چلا کہ وہ سکول میں ہماری ہی کلاس میں بیٹھا ہوا ہے، تب تو اس کے حدودِ اربع پر توجہ دینی پڑی۔

معلوم ہوا کہ مشرقی افریقہ کی برٹش کالونی ٹانگانیکا سے مکرم چوہدری مختار احمد صاحب ایاز نامی ایک بزرگ کی فیملی یہاں وارد ہوئی ہے۔ اُس وقت ہم سکول کے بچوں پر مختلف ممالک کی ٹکٹیں جمع کرنے اور تقسیم و تبادلے (Exchange) کا جنون سوار تھا۔ اس لیے اپنے جغرافیائی علم پر بڑا ناز تھا۔ فوراً پتا چل گیا کہ یہ مقام منطقہ حارہ پر ہے یا منطقہ باردہ پر۔ خطِ استوا سے کتنے فاصلے پر ہے، خطِ سرطان اور خطِ جدّی سے کتنی دوری اس جگہ کو حاصل ہے اور طول و عرض کا کون سا زاویہ وہاں پہنچا سکتا ہے۔ ان دقیق معلومات کے لیے ہمیں جغرافیہ کے پروفیسر اور جماعت احمدیہ کے قاضی عزیزی طارق محمود ملک کی خدمات لینے کی حاجت پیش نہ آئی کیونکہ وہ تو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ لیکن اب ہم یاد داشت کے اس ‘‘مقام’’ پر فائز ہیں جہاں ہر لمحے ‘‘گوگل’’ سے مدد لینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ چنانچہ اس ذریعے سے معلومات میں اضافہ کر کے شرمندگی نہیں ہوئی کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد برطانیہ نے اقوامِ متحدہ کے زیرِ تسلط (United Nations Trust Territory) ان علاقوں پر قبضہ جما لیا تھا اور 9؍دسمبر 1961ء کو ٹانگانیکا (Tanganyika) نے آزادی حاصل کرنے کے بعد 26؍اپریل 1964ء کو ساحلی کالونی زنجبار (Zanzibar) سے الحاق کیا۔ 29؍ اکتوبر کو اس کا نام یونائیٹد ریپبلک آف تنزانیہ (United Republic of Tanzania) رکھا گیا جو دراصل ٹانگانیکا اور زنجبار کے ناموں کے ادغام کا مخفف تھا۔

یہ ایک ابتدا تھی ایک ایسے خوبصورت تعلق اور محبت بھری دوستی کی جو کم و بیش چھ دہائیوں پر محیط رہی۔ مگر اس کا ہر لمحہ یہ یاد دلاتا رہا کہ پاس ہوں یا دور، یاد کریں یا نہ وہ ایک انجانی سمت میں رواں دواں ہے، ہر لمحہ بڑھتی ہی جا رہی ہے؛ گویا وہ اس شعر کی مصداق بن گئی تھی۔

یاد اس کو کیا جاتا ہے جس کو بھلایا ہو کبھی

ہم نے نہ یاد کیا ہے نہ بھلایا ہے کبھی

ربوہ کی مقدس سر زمین میں نصف صدی سے زائد عرصہ تک اپنی محبتوں، خدمتوں، لطافتوں، رعنائیوں اور حسن و احسان کی شمعیں روشن کرنے والا، شیریں لب و لہجے اور حریری مزاج والا رشید احمد ایاز جس نے 20؍ اکتوبر 1951ء کو اس فانی دنیا میں آنکھ کھولی اور لڑکپن کے ایام میں ہجرت کر کے بظاہر کانٹوں بھری مگر بباطن گل و گلزار بستی کو اپنایا، اس سے لمحہ لمحہ فیض پایا، پھر اسی میں اپنا عہد نبھا کر 27؍مارچ 2020ء کو آسودۂ خاک ہو کر اپنی اجلِ مسمّیٰ اور معراج کو پا گیا۔اِنَّا لِلّٰہ ِوَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

کافی عرصہ پہلے اس کی والدہ کی وفات پر تعزیت کا خط لکھتے ہوئے مَیں نے اسے مشورہ دیا تھا کہ اب تم اپنی ایک اہم ذمہ داری سے سبکدوش ہو گئے، امریکہ چلے آؤ۔ ہم تمہارے بھائی یہاں ہیں۔ اس کا عملاً جواب یہی تھا:

‘‘جس مٹی کا فیض میرے انگ انگ میں رچا بسا ہے، اس کی خدمت کی ادائیگی کا قرض ابھی باقی ہے۔’’

26؍جون 1990ء کے میرے اس خط کے مندرجہ ذیل اقتباس میں اس کی شخصیت کا ایک ایسا پہلو بیان ہے جس سے شاید آج کل اس کی خدمات کے معترف احباب زیادہ واقف نہ ہوں۔

‘‘ پیارے رشید ایاز، السلام علیکم

شاید تم توقع نہ رکھتے ہو کہ مَیں کبھی تمہیں خط لکھوں گا۔ اور حقیقت میں اپنی غفلت کے باعث غالباً کبھی لکھنے کا موقع ملتا بھی نہ۔ مگر میرے دل و دماغ میں تمہاری شخصیت کا جو تصور تھا جب مَیں نے اس کی کامیاب تکمیل اور تشکیل دیکھی تو مجھ سے رہا نہ گیا کہ مَیں تمہیں آفرین کہوں اور مبارک باد دوں۔

بچپن کے ساتھی اور کلاس فیلو ہونے کی وجہ سے ہم ایک دوسرے کی بہت سی اچھی بری خوبیوں خامیوں سے واقف ہیں۔ مگر میرے ذہن میں جب بھی تمہارا امیج (image) بنا وہ تمہاری بے تکلفی، خدمتِ خلق، خلوص، ہمدردی اور انسانیت کی وجہ سے نہیں… بلکہ ماں کی خدمت اور اس کی خاطر اپنے نفس اور خواہشات کی عظیم قربانی دینے کے ناتے سے بنا۔ بخدا، اِس زمانے میں جب بھی میرے ذہن میں ماں کی خدمت کا تصور آیا تمہاری تصویر ہی ابھری۔ ایسے حالات میں کہ تم بھی اپنے دوسرے عزیزوں کی طرح امریکہ وغیرہ میں بآسانی سیٹل ہو سکتے تھے اور آسائش و آرام کے مزے لوٹ سکتے تھے، تم نے ایک غریب بستی کی خاک چھاننی اس لیے گوارا کی کہ وہاں تمہاری ماں کا بسیرا تھا اور اسے وہیں رہنا پسند تھا… میری روح کے انگ انگ سے تمہارے لیے دعا نکلتی ہے کہ خدا تعالیٰ تمہاری اس قربانی اور خدمت کو قبول کرے اور تمہارے بچوں میں بھی تمہاری یہ سعادت پیدا کرے۔

بہن روحی کے خاوند ڈاکٹر خلیل ملک سے تمہاری والدہ کی رحلت کی خبر ملی تھی۔ دکھ بھی ہوا کہ یہ قدرتی امر تھا۔ ایک محبت کرنے والا وجود جو اپنوں کے علاوہ ہم جیسے بیگانوں کے لیے بھی سایۂ رحمت و عاطفت تھا رخصت ہو گیا۔ اور خوشی بھی ہوئی کہ الحمد للہ خدا تعالیٰ نے اس پیارے وجود کا انجام بخیر کیا اور اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دی اور تمہیں سرخرو کیا۔

اللہ تعالیٰ تمہیں صبر دے اور خوشیوں اور برکتوں سے نوازے۔ تمہاری اس عظمت اور خدمت کے باعث میرے دل کی گہرائیوں میں تمہارے لیے جو عقیدت، احترام اور محبت ہے، شاید تم اس کا اندازہ نہ لگا سکو۔ بچوں کو پیار اور سلام دو۔

والسلام۔ امتیاز’’

خدمتِ خلق و انسانیت کا یہ مثالی وجود جس کی خدمات کا آج ہماری اس پیاری بستی کا ذرہ ذرہ گواہ ہے ایسے ہی صیقل نہیں ہو گیا تھا۔ اس کے پیچھے اس کے والدین اور خاندان کی بے محابا خدمات، قربانیوں اور دعاؤں کی داستان ہے۔

رشید کے والد محترم مکرم چوہدری مختار احمد ایاز صاحب مرحوم پرانے دور کے برٹش انڈیا کے زمانے سے مشرقی افریقہ میں سکونت پذیر ہو گئے تھے جہاں انہیں بے شمار جماعتی خدمات کا موقع ملتا رہا۔ بشیر ہائی سکول یوگنڈا کے بانی مبانی آپ ہی تھے۔ 1969ء میں آپ کی وفات اور تدفین تنزانیہ میں ہوئی۔ آپ کے بڑے صاحبزادے، ڈاکٹر سر افتخار احمد ایاز صاحب (O.B.E [Officer of the Order of the British Empire]) اللہ تعالیٰ کے فضل سے دین و دنیا کے ہر میدان میں اپنی خدمات کا لوہا منوا چکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مختلف شعبوں میں سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ طوالو (Tuvalu) کے قونصل جنرل کی حیثیت سے خدمات بجا لانے پر ملکہ برطانیہ نے 2015ء میں انہیں سَر کے خطاب اور آنریری نائٹ ہوڈ (Knighthood) کے اعزاز سے نوازا۔ اللہ تعالیٰ ان کی عمر و صحت اور عزت و مرتبت میں برکت عطا فرمائے۔ آمین۔

رشید ایاز کے بڑے بھائی برادرم مکرم نذیر احمد ایاز مرحوم بھی ایک انتہائی من موہنی شخصیت کے مالک تھے۔ 23؍ مئی 1947ء کو تنزانیہ میں پیدا ہوئے۔ بعد ازاں امریکہ میں سکونت پذیر ہو گئے۔ 1981ء میں نیویارک جماعت کے صدر منتخب ہوئے اور پینتیس سال اپنی وفات (3؍جولائی 2016ء) تک مسلسل اس خدمت پر مامور رہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے انہیں امریکہ کی جماعتوں کے لیے ایک مثالی پریذیڈنٹ قرار دیا تھا۔ مجھے ذاتی طور پر انہیں قریب سے دیکھنے اور ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ انتہائی قابل، محبت کرنے اور حوصلہ رکھنے والی ایسی مقناطیسی اور بردبار شخصیت تھی جس کے کہے کو کوئی ٹال نہیں سکتا تھا۔ امریکہ میں لنگر مسیحِ موعودؑ کے قیام کے ابتدائی مراحل میں انہوں نے تاریخی خدمات ادا کی تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی بخشش کے سامان کرتے ہوئے درجات بلند فرماتا چلا جائے۔ آمین۔

رشید کے دوسرے بھائی مبشر احمد ایاز بھی ہمارے ایک بہت پیارے بے تکلف دوست ہیں۔ اگرچہ وہ ہائی سکول کے آخری سالوں میں ہمارے ساتھ شامل ہوئے تھے، مگر میٹرک کا امتحان ہم سب نے اکٹھے ہی دیا تھا۔ اپنے بھائیوں کی طرح وہ بھی خدمتِ خلق اور خدمتِ دین کے شیدائی ہیں۔ امریکہ میں اکثر ملاقات اور رابطہ رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحت و عافیت والی، خوشیوں اور خوشحالیوں سے بھرپور لمبی عمر عطا فرمائے۔ آمین۔

رشید کے بہنوئی مکرم چوہدری شریف اشرف صاحب مرحوم سابق ایڈیشنل وکیل المال لندن خلافتِ ثانیہ و ثالثہ کے دَور میں میرے خسر مکرم میجر عارف زمان صاحب مرحوم (سابق ناظر امور عامہ) کے قریبی ساتھی تھے۔ اور ایک بڑے خوبصورت محبت بھرے خاندانی تعلق میں بندھ گئے تھے۔ میری اہلیہ اور اس کے دیگر بہن بھائی رشید کی ہمشیرہ محترمہ کو آنٹی ممتاز کہتے اور ہمیشہ محبت اور احترام کا سلوک کرتے۔ ان کی وفات کے بعد یہ تعلق رشید ایاز، اس کی والدہ اور بیوی بچوں کے ساتھ گہرا ہوتا گیا۔

اُس دور کا ربوہ بھی عجیب تھا۔ خلوص و اپنائیت سے بھرپور، صدق و وفا کی مہک میں لپٹا ہوا، حسین یادوں کی آماجگاہ بنا ایک ایسا گراں قدر خزانہ تھا جس کا کوئی مول نہیں۔ اب دور رہتے ہوئے ایک ایسا خواب لگتا ہے جس کے ٹوٹ جانے کے خوف سے جاگتے میں آنکھیں موندے رکھنے کو جی چاہتا ہے کہ خدا جانے وہ لمحے پھر کب نصیب ہوں۔ یوں محسوس ہوتا تھا، اِک نور کا ہالہ ہے جس میں ہم سب سمٹ گئے ہیں۔ ٹھنڈے میٹھے سروں میں تجلّی الٰہی کا اِک سیلِ رواں ہے جس میں سب بہے چلے جا رہے ہیں، ایک ہی سمت، ایک ہی جہت، ایک ہی جلو میں، ذرّہ ذرّہ بنے ریگ ریگ میں موتی چنتے چلے جا رہے ہیں۔

غلہ منڈی محلہ دارالرحمت غربی کا حصہ تھی۔ یہاں کے بچے بالے اور نوجوان اپنے مزاج میں منفرد تھے۔ جو پڑھنے لکھنے لگ گئے وہ ہر مقابلے میں انعام جیتنے لگے۔ جو کھیل کود میں پڑ گئے وہ ہر کھیل کے ماہر ہو گئے۔ مگر ایک چیز سب میں مشترک تھی۔ خلافت سے وابستگی، وفا، خدمت اور دعاؤں پر یقین۔ آج ہم دنیا بھر میں انہی روایتوں کے پھل کھا رہے ہیں…مگر ان میں ایک ایسا لڑکا بھی تھا جو بظاہر کہیں بھی نمایاں دکھائی نہیں دیتا تھا۔ کھیلوں سے اسے رغبت نہیں تھی۔ پڑھائی میں اس کا دل نہیں لگتا تھا۔ اپنے میں مگن، کسی سوچ میں گم، ایک گہرے استغراق سے کسی نامعلوم تصوف کی گتھیاں سلجھانے میں مصروف۔ ویسے اس میں اس کا زیادہ قصور بھی نہیں تھا۔ وہ سکول کی جس کلاس میں تھا وہ کھیل کود اور غیر نصابی سرگرمیوں میں تو بہت آگے تھی مگر تعلیمی میدان میں خاصی ‘‘نالائق’’ ثابت ہوئی تھی۔ کرکٹ میں ضلع بھر کی چیمپئن۔ ہاکی، فٹ بال اور اتھلیٹکسمیں بڑی معروف۔ تلاوت نظم کے مقابلوں میں حافظ صدیق اور خواجہ رفیق نے دھوم مچا رکھی تھی۔ اردو تقریری مقابلوں میں بشیر طارق، عبدالکریم خالد اور لئیق عابد چھائے ہوئے تھے۔ انگریزی تقریروں میں ہمارے مشرقی افریقہ سے حال ہی میں آنے والے مبشر ایاز اور شبیر بھٹی کسی کو ٹِکنے نہیں دیتے تھے۔ شعر و ادب میں عاصی کرنالی کا طوطی بول رہا تھا۔ مگر پڑھائی میں ‘‘نالائقی’’ کا اعتراف کرنے میں مجھے اس لیے کوئی عار نہیں کہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کی تاریخ میں سب سے کم نمبر لے کر اوّل آنے کا ‘‘اتفاقیہ اعزاز’’ اسی ہیچمدان کے حصے میں آیا تھا۔ یہ دلچسپ اور سبق آموز واقعہ استاذ الاساتذہ حضرت میاں محمد ابراہیم جمونی صاحب مرحوم کی یاد میں لکھے گئے اپنے ایک مضمون سے رقم کرتا ہوں۔

‘‘حضرت میاں جمونی صاحب کی روایت تھی کہ ہر سال دسویں جماعت کو فائنل امتحان سے پہلے الوداعی پارٹی دیتے جس میں نویں جماعت بھی شامل ہوتی؛ گویا جونیئر کلاس کو اس بات کے لیے تیار کیا جاتا کہ آئندہ تمہاری باری ہے۔ ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ اس دعوت میں آپ کی کوشش ہوتی کہ امامِ وقت بنفسِ نفیس تشریف لائیں اور براہِ راست اپنے وجودِ بابرکات سے رونق بخشیں۔ حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی علالت کے باعث یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔ لیکن سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث مرزا ناصر احمد صاحب ؒ مسندِ خلافت پر متمکّن ہوئے تو آپ کو دوبارہ یہ موقع مل گیا؛ چنانچہ حضور رحمہ اللہ اپنے عہدِ امامت کے ابتدائی سالوں میں سکول کی اس تقریب میں رونق افروز ہوتے رہے۔

1967ءمیں ہماری نویں جماعت دسویں جماعت کو الوداعی پارٹی دے رہی تھی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ بھی اس میں تشریف فرما تھے۔ دورانِ تقریب حضرت صاحبؒ سے مصافحے کا انتظام تھا۔ سب طلبا خاموشی سے مصافحہ کرتے ہوئے گزرتے جاتے۔ مَیں اسی پر بڑا نازاں تھا کہ یہ خوش نصیبوں کی سعادت مجھے بھی حاصل ہو رہی ہے۔ آقاؒ کے دیدار اور دست بوسی سے زیادہ کوئی تمنا اُس وقت نہ تھی۔

جب میری باری آئی تو اچانک میاں صاحب بول اٹھے:

‘حضور! یہ امتیاز ہے۔ برکات کا لڑکا۔’

حضرت میاں جمونی صاحب میرے، میرے والد مکرم برکات احمد راجیکی مرحوم اور حضرت خلیفہ ثالثؒ سب کے استاد تھے۔ چنانچہ انہوں نے اسی بے تکلفی سے یہ جملہ کہہ دیا۔ پھر مزید تعارف کے رنگ میں فرمانے لگے:

‘کرکٹ بہت اچھی کھیلتا ہے۔’

آقاؒ نے دریافت فرمایا:‘پڑھتا بھی ہے؟’

‘جی حضورؒ! کلاس میں فرسٹ آتا ہے۔’ میاں صاحب نے ازراہِ شفقت حسن ظنی سے کام لیا۔

حضرت صاحبؒ کی گہری محبت بھری نگاہ اور ہلکی سی مسکراہٹ میری روح کو ہمیشہ کے لیے سرشار کر گئی۔ مجھے اب تک محسوس ہوتا ہے کہ اس لمحے حضورؒ کی توجہ اور زیرِ لب دعا نے نہ صرف میرے وجود کو گھائل کر دیا بلکہ میرے مستقبل کی راہیں بھی متعین کر دیں۔

یہ واقعہ میری نویں جماعت کا تھا۔ اب ہوا یہ کہ میٹرک کے امتحان تک پہنچتے پہنچتے میری توجہ پڑھائی سے ہٹ کر کھیل کود اور دیگر غیر نصابی مشاغل کی طرف زیادہ ہو گئی اور تعلیمی ترقی کا گراف تیزی سے نیچے کی طرف گرتا چلا گیا۔ اس کے بالمقابل میرے بعض دوسرے ہم جماعت بڑی توجہ اور انہماک سے آگے بڑھنے لگے۔ خدا خدا کر کے امتحانوں سے فارغ ہوئے۔ خیال تھا کہ اگر معمولی سی فرسٹ ڈویژن بھی آ گئی تو غنیمت ہو گی … مگر جب نتیجہ نکلا تو حیرت کی انتہا نہ رہی۔ مَیں تمام سکول میں اوّل تھا۔

مَیں سمجھتا ہوں، خدا تعالیٰ نے میرے بزرگ استاد کے حسنِ ظن کی لاج رکھ لی اور حضرت خلیفۃ المسیحؒ کی محبت بھری نگاہ اور خاموش دعا کی قبولیت کا سامان پیدا فرما دیا۔’’

یہ وہ کلاس تھی جس کے شرکاء دنیا بھر میں پھیل گئے۔ مگر ہر کوئی اسی خلوص و وفا اور صدق و صفا سے خلافت سے وابستہ اپنے اپنے رنگ میں خدمتِ دین اور خدمتِ انسانیت میں جُتا رہا۔ وہ خدمتِ خلق اور دکھی انسانیت کے زخم دھونے میں اپنے وجود کو پارہ پارہ کرنے والا رشید ایاز ہو یا خدمتِ دین میں ہمہ تن مصروف نظارتِ علیا کی کرسی پر متمکن سیّد خالد احمد ہو۔ ربوہ میں اپنے دوستوں اور ساتھیوں کو اپنے پروں تلے سمیٹے لئیق عابد ہو یا یورپ میں سب احباب کی یکجائی کا محور عبدالمجید سالک ہو۔ گولبازار کی ریڑھی پر برف بیچنے والا جاں نثار امین ہو یا کینیڈا جماعت کا نائب امیر کلیم ملک اور انصاراللہ امریکہ کا نائب صدر داؤد منیر ہو۔ علم و ادب کی انتہاؤں کو چھونے والا ڈاکٹر عبدالکریم خالد ہو یا مجھ جیسا غافل اور ناکارہ گھر کا نہ گھاٹ کا خانہ بدوش ہو، سبھی ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے، ایک ہی امام کے سایے تلے، خلافت کی وا کی ہوئی آغوشِ مادر جیسی گھنیری چھاؤں تلے ایک ہی منزل کی طرف گامزن، ایک ہی مقصود و منتہا کی تلاش میں عجز اور تشکر کے ساتھ رواں دواں ہیں۔ اپنے اپنے رنگ میں عشق و وفا اور سلوک و طریقت کی منزلیں طے کیے جا رہے ہیں کہ جس پاک سر زمین کی سوندھی سوندھی مٹی اور خوشبو میں رچ بس کر وہ پروان چڑھے اس کا تقاضا یہی تھا۔

ان میں دو ایسے وجود تھے جن میں کچھ قدریں مشترک تھیں۔ مگر پھر بھی مَیں کبھی سمجھ نہیں پایا کہ ان میں ذاتی یا اکتسابی طور پر کون سی صلاحیتیں تھیں جو ایک کو خدمتِ خلق اور دوسرے کو خدمتِ دین میں کمال تک لے گئیں۔ اب یہی ادراک ہوتا ہے کہ یہ کلیۃً اللہ تعالیٰ کا فضل تھا جس نے ان کے آباء کی قربانیوں، تربیتوں اور دعاؤں کو قبول فرما کر ثمر آور کیا۔

دونوں سکول کے زمانے میں انتہائی خاموش طبع، دوستوں کی محفل سے بے نیاز۔ کوئی لڑائی جھگڑا نہیں، شوخی شرارت نہیں، دنگا فساد نہیں۔ بس اپنے میں مگن … مَیں نے ان سے زیادہ ملنسار، خوش اخلاق، ذمہ دار، خدمت اور قربانی کے جذبے سے سرشار، انتھک محنت کرنے والا اور بے پناہ انتظامی صلاحیتوں کا مالک شاید ہی کوئی اور دیکھا ہو۔ ان میں ایک میرا عزیز رشید احمد ایاز اپنی مرادیں پا کر مالکِ حقیقی سے جا ملا دوسرے سیّد خالد احمد کے لیے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی عمر و صحت اور عزت و خدمت میں برکت عطا فرمائے۔

ہم بیس پچیس سال کی عمروں کے نوجوانوں کی زندگی میں ایک بہت بڑا انقلاب سن 74کا سانحہ تھا۔ ویسے تو اس واقعے نے ساری جماعت کو ہلا کر رکھ دیا۔ مگر وہ نوجوان جو اپنے اپنے مشاغل اور کھیل کود میں مصروف تھے وہ بھی جاگ اٹھے کہ ہم کیا ہیں اور ہمیں کیا کرنا ہے۔

22؍مئی کو مَیں ربوہ ہی میں تھا۔ مجھے سٹیشن پر ہنگامے کی آوازیں آئیں مگر میری اس طرف توجہ نہیں تھی۔ اگلے روز تئیس تاریخ کو مجھے ملازمت کے سلسلے میں جھنگ پہنچنا تھا۔ میری آسٹریلیشیا بنک (بعد ازاں الائیڈ بنک آف پاکستان) میں آفیسر کی حیثیت سے تقرری ہو چکی تھی اور یہ میری ٹریننگ کا پہلا دن تھا۔ اگلے ہفتے جب واپس آیا تو دنیا کا نقشہ ہی بدل گیا تھا۔ ایک بھیانک منصوبے کے تحت ملک بھر میں مکر و دجل اور ظلم و ستم کا بازار گرم ہو چکا تھا۔ ربوہ کی پُر امن اور پُر سکون بستی پہلی بار جبرو استبداد اور اضطراب کا شکار تھی۔ جو نوجوان سامنے نظر آتا پولیس اور حکومتی انتظامیہ کے تشدد کا شکار ہو کر جیل کی راہ دیکھتا۔ میرے ہم جماعتوں میں ملک نصیر اور رشید ایاز ان کے ہتھے چڑھ گئے، اور ‘‘اسیرانِ راہِ مولا’’ کا انمول اعزاز پا گئے۔ ان پر حوالات کی سختیوں میں اور مجھ پر ‘‘آزادی’’ کی ‘‘پابندیوں’’ میں کیا کیا بیتی، یہ ایک طویل داستان ہے۔ لیکن ایک بات ہر جگہ صادق آئی کہ ہمارے عزم و ہمت کے حوصلے ٹوٹنے کی بجائے اور آہنی ہو گئے۔ اور یہ احساس بالیقین اور بالصراحت بیدار ہوا کہ ہم کون ہیں، ہمارے سانجھے دکھ درد کیا ہیں اور ہمیں ان سے کیسے نبرد آزما ہو نا ہے۔

اس حادثے نے رشید ایاز کی زندگی کی گویا جُون ہی بدل دی۔ زندگی کی بے ثباتی کا احساس اور سسکتی ہوئی دکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھنے کا جو عزم لیے وہ ایک چھوٹا سا میڈیکل سٹور چلا رہا تھا، وہ اب صرف ذریعۂ معاش نہ رہا بلکہ ایک مشن بن گیا۔ ہر حاجت اور ضرورت مند کی حاجت روائی کے لیے، ہر دکھی اور مریض کی مسیحائی کے لیے۔ تھوڑی سی ٹریننگ کے ساتھ اس نے نہ صرف ادویہ کی ترسیل و تقسیم سیکھ لی بلکہ تجربے کے ساتھ ساتھ تشخیص کا ہنر بھی ہاتھ آ گیا۔ ٹیکہ، ڈرپ لگانے، گلوکوز، بلڈپریشر چیک کرنے اور ایک ڈسپنسر اور نرس کی دوسری ساری خوبیاں اس میں سمٹ آئیں۔ گویا غریب طبقے کے لیے وہ ایک اچھا خاصا ڈاکٹر تھا؛ بلکہ اکثر اس کی فیاضی، سہولت اور دستیابی کے باعث لوگ اسی پر انحصار کرتے تھے۔ مجھے ذاتی طور پر کئی بار اپنے اور اپنی فیملی کے لیے اس کی خدمات حاصل کرنا پڑیں۔ خدا تعالیٰ نے اسے ایک سخی اور ہمدرد دل عطا فرمایا تھا۔ اگر کسی کے پاس رقم نہ ہوتی تو کبھی اسے احساس بھی نہ ہونے دیتا۔ اور یہ تو گویا اس کا معمول اور وتیرہ بن گیا تھا کہ دن ہو یا رات، کسی کی بھی کہیں سے کال آتی وہ اسی وقت اپنا آرام و سکون تج کر اپنے آلات سمیٹے پہنچ جاتا۔ اسے جب بھی بلاوا آتا وہ تپتی دھوپوں کی پروا کرتا نہ ٹھٹھرتی ہوئی یخ بستہ ہواؤں سے گھبراتا۔ موسلا دھار بارشیں ہوں یا کیچڑ اور گندگی میں لت پت راہیں، کبھی اس کی منزلیں روک نہ سکتیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مریض کو ایسی تسلی دیتا کہ وہ اپنی بیماری اور غم بھول جاتا۔ مَیں نے کبھی اس کے ماتھے پر بل پڑتے اور بیزاری کا اظہار ہوتے نہیں دیکھا۔ خدمتِ انسانیت کی یہ روش اس کی زندگی کا ماوا و ملجا بن گئی۔ زندگی کے آخری سانس تک اس نے نہ صرف اپنے اس مشن کو جاری رکھا بلکہ اپنے بڑے بیٹے فائق کو بھی اسی خدمت پر مامور کر کے گویا اسے ایک صدقہ جاریہ کی طرح زندۂ جاوید کر دیا۔

عائلی زندگی میں رشید ایاز ہمیشہ قابلِ رشک اوصاف کا حامل رہا ہے۔ ایک بے حد مطیع و فرمانبردار بیٹا، دکھ سکھ میں ساتھ دینے والا بھائی، مونس و غمخوار شوہر اور انتہائی شفیق اور ہمدرد باپ۔ اللہ تعالیٰ نے اسے چار بیٹے عطا فرمائے۔ اپنے بہت محدود مالی وسائل اور قلیل آمدنی میں جس طرح ان دونوں میاں بیوی نے نفاست اور سلیقہ شعاری سے اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہوئے زندگی گزاری اور بڑے با عزت طریق پر خاندانی تعلقات نبھاتے ہوئے اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم و تربیت کے سامان کیے وہ بذاتِ خود ایک سچے احمدی مثالی گھرانے کی ایک تابندہ مثال ہے۔

انتہائی محسن شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ رشید نہایت احسان شناس اور شکر گزار انسان تھا۔ اس کا منجھلا بیٹا دانیال ایاز فارمیسی میں اعلیٰ تعلیم کے سلسلے میں چند سال پہلے تنزانیہ چلا گیا تھا۔ 2015ء میں اسے یہ سعادت ملی کہ اپنے والد کو ملاقات کے لیے وہاں بلائے۔ یہ بات رشید کے لیے بڑی اہمیت اور جذباتی وابستگی کا باعث تھی کہ وہ اس بستی میں دوبارہ قدم رکھے جہاں اس نے پہلا سانس اور اس کے والد نے آخری سانس لیا تھا۔ اپنے والد بزرگوار کے مزار پر حاضری دینے اور دعا کرنے کی تمنا مدتوں سے اس کے دل میں کروٹیں لے رہی تھی۔ بیٹے کی وساطت سے اسے یہ موقع ملا تو اس کی شکر گزاری اور مسرت دیدنی تھی۔ اس کا بیٹا بتاتا ہے:

‘‘ ابّو، اس قدر گریہ و زاری کے ساتھ تہجد میں اللہ تعالیٰ کے احسانوں کا شکر ادا کرتے اور میرے لیے بھی اتنی احسان مندی اور تشکر کا اظہارِ کرتے کہ مجھے شرمندگی ہونے لگتی۔’’

حقیقتاً رشید ایاز کی ساری زندگی ہی مَنْ لَّا یَشْکُر النَّاسَ لَا یَشْکُر اللّٰہَاور اَکْرِمُوْا اَوْلَادَکُمْ وَ اَحْسِنُوْا اَدَبَھُمْ کی تفسیر بنی رہی۔ نتیجۃً اللہ تعالیٰ نے اسے اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک بھی عطا کی اور اس کی دلی مرادیں بھی پوری کیں۔ دانیال کو کچھ عرصہ پہلے تنزانیہ سے امریکہ آ کر نیویارک میں سکونت پذیر ہونے کا موقع مل گیا۔ اور اِسی سال گیارہ فروری کو توام بچے، ایک بیٹا اور بیٹی عطا کی۔ یہاں بھی تقدیرِ ایزدی نے معجز نمائی فرمائی اور اس کی دعا اور تمنا کو اس رنگ میں قبول فرمایا کہ ان بچوں کی پیدائش متوقع وقت سے ڈیڑھ ماہ قبل ہو گئی؛ یوں وہ کورونا وائرس کے عروج کے زمانے میں ہونے والی پیچیدگیوں سے بھی محفوظ رہے اور رشید کو اس کی زندگی میں پوتے، پوتی کی خوشخبری بھی مل گئی جس کی اسے بڑی تمنا تھی۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک۔

رشید ایاز کا ایک اور بہت بڑا وصف انسانی اور خاندانی تعلقات کا نبھانا تھا۔ اس بیان کے لیے مجھے تھوڑا سا پس منظر میں جانا پڑتا ہے، کہ یہ ہماری جماعت کی کتابِ حیات کا ایک ایسا باب ہے جس کے تانے بانے آقا علیہ الصلوٰۃ و السلام حضرت اقدس مسیحِ پاک کے سر چشمۂ فیض سے پھوٹتے ہیں۔ حضورؑ نے جس طرح ہمیں خاندانی تفاخر و مباہات اور ذات پات کے عُجب و پندار سے آزاد کر کے یکجان کر دیا گویا ہم سب ایک ہی شکمِ مادر کے ماں جائے ہیں، وہ دنیا کے طور طریق سے نظام ہی مختلف ہے۔ اسے وہی سمجھ سکتا ہے جو اس انمول چشمے سے سیراب ہو اور اس پاک مٹی میں رُند ھ جائے۔

قادیان کے بعد ربوہ کی مقدس بستی بھی اس کی ایک خوبصورت مثال ہے۔ مجھے تو اُس کے وہ دن بھی یاد ہیں جب ابھی اس کے کئی گھر بھی کچی مٹی کے گھروندے تھے۔ بجلی کا نام ونشان نہ تھا، ریفریجریٹر اور ٹیلیویژن کا تصور بھی کسی گوشۂ دل و دماغ میں نہ تھا۔ لالٹین کی روشنی، ہاتھ سے جھلنے والے پنکھے اور لکڑی یا گوبر کی پاتھیوں سے جلنے والے چولہوں پر ہی سہولیاتِ زندگی کا دار و مدار تھا … مگر ہر طرف محبتوں کا ایک امڈتا ہوا سمندر موجزن تھا جس کی نیلگوں گہرائیاں تا حدِّ نظر پھیلی ہوئی تھیں۔ ہر کوئی ایک دوسرے کے دکھ درد سے آشنا، ایک دوسرے کی استعانت و اعانت پر آمادہ…بے لوث، بے ریا، بے پناہ، بے کراں ۔

رشید ایاز کے ساتھ میرا تعلق ایک مشترکہ محبت کی بنا پر بھی بڑا گہرا ہو گیا۔ میرا بچپن سے حضرت حافظ محمد رمضان صاحب مرحوم کے گھرانے سے بلا سوچے سمجھے، بلا چاہے اور بغیر کسی خاندانی قرابت داری کے ایک انجان سا انمٹ سا تعلق قائم ہو گیا تھا؛ گویا وہی میرے ماں باپ، وہی میرے بہن بھائی۔ میرا سکول کالج سے آنا تو وہیں ڈیرے لگا لینا۔ لاہور پنجاب یونیورسٹی سے یا بعد ازاں ملازمت کے دوران میں سرگودھا چنیوٹ سے واپسی ہو تو سب سے پہلے بھائی تنویر کی دکان (تنویر سٹوڈیو گولبازار) پر حاضری دینی، پھر ان کے گھر جا کر آلتی پالتی مار کر گرم گرم آلو گوبھی کے سالن کے ساتھ ماں جی کے ہاتھ کے تازہ تازہ پراٹھے کھانے اور پھر چاہے تو وہیں سو جانا۔ کوئی فکر فاقہ نہیں تھا، اپنا ہی گھر تھا۔

مگر ایک عجیب بات ہوئی۔ میری اس تیس پینتیس سالہ ‘‘غیر حاضری’’ میں رشید ایاز میرا نعم البدل بن گیا۔ اس کی طبیعت انسانی ہمدردی، خلوص اور قربانی کے جذبے کے تحت طبعاً بھائی تنویر سے بہت ملتی تھی۔ یوں دونوں ذاتی اور خاندانی تعلق میں ہم پیالہ و ہم نوالہ ہو گئے۔ یہ تعلق اتنا بڑھ گیاکہ مجھے بھی اس پر رشک آنے لگا۔ ایک بار رشید لندن گیا تو بڑی تکلیف اٹھا کر دور دراز علاقے میں بھائی تنویر کی چھوٹی بہن دودی سے ملنے گیا۔ وہ بڑی شکر گزار ہوئی اور شرمندہ بھی کہ بھائی اتنی تکلیف کیوں اٹھائی۔ کہنے لگا:

‘‘تم میری چھوٹی بہن ہو۔ یہ کیسے ہو سکتا تھا یہاں آؤں اور تمہیں ملے بغیر چلا جاؤں۔’’

2012ءمیں چوبیس سال بعد ہم پہلی بار حضرت حافظ صاحب مرحوم کے منجھلے صاحبزادے لقمان کے بیٹے کی شادی میں شرکت کے لیے ربوہ آئے تو یہاں کا نقشہ ہی بدل چکا تھا، کوئی چیز پہچانی نہیں جاتی تھی؛ تاہم چیدہ چیدہ پرانے ساتھی پھر بھی مل گئے۔ ان سب کو اکٹھا کرنے کا محور رشید ایاز ہی تھا۔ تب اس کے ساتھ گفتگو کر کے اندازہ ہوا کہ اس میں ایک عمیق تدبر اور پختہ معاشرتی و سیاسی بصیرت کے ساتھ ساتھ ایک گہری روحانی بالیدگی پائی جاتی ہے جس کا سکول کے زمانے میں ہمیں اتنا اندازہ نہیں ہوتا تھا؛ گو اس وقت بھی وہ ایک سنجیدہ اور تصوف میں ڈوبا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ مگر اب تو ایک صاحبِ عرفان اور صاحبِ بصیرت نمازوں اور دعاؤں میں غرقاں بالغ نظر خادمِ خلق اور خادمِ دین کا روپ دھار چکا تھا۔ مقامی جماعت اور محلے کی انتظامیہ کی بھی کئی ذمہ داریاں سنبھال رکھی تھیں۔ آخری وقت تک محلے کے جائیداد سیکریٹری کا عہدہ اس کے پاس تھا۔

2015ء کے اوائل میں مجھے اپنے تایا زاد بھائی محی الدین راجیکی مرحوم کی عیادت کے لیے دوبارہ اکیلے ربوہ آنے اور قریباً تین ماہ کی مدت یہاں گزارنے کا موقع ملا۔ یہ وقت گھر، مسجد یا رشید ایاز کی دکان پر ہی گزرتا۔ محی الدین ذیابیطس اور فالج کے اثرات کے تحت بالکل صاحبِ فراش ہو چکا تھا۔ چنانچہ اس کی دیکھ بھال کے لیے اکثر وقت بے وقت رشید کو تکلیف دینی پڑتی۔ کبھی خود اور کبھی مصروف ہونے کی بنا پر اپنے بیٹے کو فوراً بھیج دیتا اور باوجود اصرار کے کبھی ایک دھیلہ بھی معاوضے کا نہ لیتا۔ ہمیشہ یہی کہتا محی الدین میرا بھی بڑا بھائی ہے۔ یہاں ایک بات مَیں نے بڑی عجیب نوٹ کی کہ میری غیر موجودگی میں اس کا ایک بہت ہی گہرا بے تکلف تعلق میرے بھائی کے ساتھ قائم ہو چکا تھا۔ محی الدین اور بھائی تنویر سکول کے زمانے میں ہم جماعت رہ چکے تھے۔ اس لیے بے تکلف بھی تھے۔ اسی وساطت سے رشید ایاز بھی اس سے انتہائی بے تکلف ہو گیا۔ وہ اسے بھائی تنویر کی طرح تم اور تُو کہہ کر بلاتا تھا اور اس کی بیماری اور تکلیف کی حالت میں اس کے پاس بیٹھ کر آرام سے تسلی دیتا رہتا جو مجھے بہت پیارا لگتا۔ اور شاید خدا تعالیٰ کو یہی منظور تھا کہ رشید ایاز اپنے محلے کے ایک بزرگ اور بڑے بھائی کی آخری سانس تک خدمت کرتا رہے۔ یہ خدمت پوری ہوئی تو وہ بھی گویا اپنا مشن مکمل کر کے تین ماہ کے اندر اندر دارِ فانی سے کوچ کر گیا۔ اس کے انسانی رشتوں کی پاسداری اور قدر دانی اور خود اللہ تعالیٰ کے حضور مقام کا اس بنا پر بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی وفات سے دو روز قبل لقمان نے خواب میں دیکھا کہ صبح صبح دروازہ کھٹکنے پر رشید ایاز بہت خوبصورت لباس اور صحت مند حالت میں وہاں دکھائی دیتا ہے۔ لقمان بہت حیران ہوتا ہے کہ یہ تو بہت سخت بیمار تھا اور ہسپتال میں داخل تھا، یہاں کیسے پہنچ گیا۔ وہ اسے اندر آنے کو کہتا ہے تو رشید جواب دیتا ہے:

‘‘نہیں نہیں، مَیں بہت جلدی میں ہوں۔ تمہیں اپنی والدہ کو جو پیغام دینا ہے دے دو، مَیں جا رہا ہوں۔’’

اس کے ساتھ ہی لقمان کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ وہ سمجھ جاتا ہے کہ یہ اس کی وفات اور انجام بخیر ہونے کا اشارہ ہے۔ کیونکہ اس کی والدہ محترمہ امۃ السلام صاحبہ اہلیہ حضرت حافظ محمد رمضان صاحب مرحوم کی وفات بھی چند ماہ قبل ہوئی تھی۔ اتفاق سے بہشتی مقبرہ میں محی الدین راجیکی اور ان کے مزار بالکل ساتھ ساتھ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب پیاروں کو غریقِ عفو و رحمت کرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔

یہی بے تکلف، بے لوث اور بے ریا محبتوں، خدمتوں اور قربانیوں کے تعلقات ہیں جو ہمارے انگ انگ کو سرشار اور روح کو گداز کیے رہتے ہیں۔ بھائی محی الدین کے ساتھ اسی طرح کا بے تکلف تعلق حضرت صاحبزادہ میاں غلام احمد صاحب مرحوم کو بھی تھا۔ اکثر اس کی عیادت کے لیے آ جایا کرتے؛ بلکہ ناظر اعلیٰ بننے کے بعد بھی ایک بار تشریف لائے۔ ایک دفعہ اسے کہنے لگے:

‘‘محی الدین، تمہاری رپورٹ ملتی رہتی ہے کہ لوگ دعائیں کروانے تمہارے پاس اکٹھے ہو جاتے ہیں۔’’ پھر ہنس کر کہنے لگے: ‘‘کسی اَور کے لیے دعا کرو نہ کرو، میرے لیے ضرور کرتے رہنا۔’’

یہ محبتوں کے رشتے اور خدمتوں اور قربانی کے جذبے امام الزماں مسیحِ دوراں علیہ السلام کی قائم کردہ جماعت میں ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ یہ اسی پنیری کی پھلواریاں ہیں جو آقاؑ کی عنایتوں کے عرقِ جگر اور اشک آلود دعاؤں سے سیراب ہوئیں۔ اور آپؑ کے بے شمار غلاموں کی طرح ہمارے اس پیارے خدمت گزار عاجز بھائی رشید احمد ایاز کے کردار کی یادوں کے آنگن میں بھی ایک خوبصورت گلدستہ چھوڑ گئیں۔ خدا تعالیٰ رہتی دنیا تک اس کی تروتازگی اور مہک قائم رکھے۔ آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

  1. عزیز محترم امتیاز احمد راجیکی کا محترم رشید ایاز کے متعلق مضمون پڑھا۔یہ ایسا سحر انگیز تھا کہ اسے پڑھتے پڑھتے میں ان تمام مقامات سے ایسے گزرتا چلا گیا جیسے میں سچ میں ربوہ میں ہوں۔محترم امتیاز نے اتنی ساری یادوں کو اکٹھا کیا ہے مجھے محسوس کیآ جیسے میں نے لمحوں میں ایک اچھی کتاب لمحوں میں پڑھ لی ھو۔ مجھے جب کوئی اچھی کتاب مل جائے تو میں ایسے ہی اسے ایک ہی نشست میں پڑھتا ہوں۔
    اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔ ایسے مبسوط محبت بھرا مضمون بہت کم پڑھنے کو ملتا ہے۔میں امتیاز صاحب کو مبارک باد دیتا ہوں
    عاجز
    طاھر مجید

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button