متفرق مضامین

مغفرتِ الٰہی کے نظارے (قسط اول)

(حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ)

ایک مرتبہ مغفرتِ الٰہی کےمضمون پر غورکررہا تھا اور اس کےمختلف پہلوؤں کو سوچ کر لطف اٹھارہا تھاکہ میرے ذہن پر ایک ربودگی طاری ہوگئی اور بعض ایسے نظارے نظر کے سامنے سےگزرے جن کےساتھ میرے اس مضمون کا تعلق ہے ۔ اب خواہ ان معاملات کو دماغی تصور سمجھ لیں ، خواہ خیالات کی رو،خواہ نیم مکاشفہ کی حالت اس کا کوئی اثراصل بات پرنہیں پڑتا۔فرق صرف اتنا ہے کہ ایک علمی بات معنوی حالت سے ایک صوری شکل پکڑگئی ورنہ مطلب اور حقیقت دراصل ایک ہی ہے۔

کیا دیکھتا ہوں کہ ایک میدان میں ایک عظیم الشان دروازہ ، جیساکہ شادی بیاہ وغیرہ کی تقریبو ں میں نصب کیا ہے ، مجھ سے کچھ فاصلہ پر لگاہوا ہےنزدیک گیا تو اس کے اوپر نہایت خوبصورت حروف میں لکھا ہوا تھا:

كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَاْنٍ(الرحمن:30)

ترجمہ: وہ ہروقت ایک نئی حالت میں ہوتا ہے۔

اور اس بڑے دروازےکے دونوں طرف بھی عجیب و غریب قطعات لگے ہوئے تھے ۔ کسی پر لکھا تھا

نَبِّئْ عِبَادِيْ أَنِّي أَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ (الحجر :50)

ترجمہ: (اے پیغمبر!) میرے بندوں کو آگاہ کردے کہ میں بہت ہی بخشنے والا (اور)بار بار رحم کرنے والا ہوں۔

اور کسی پر

إِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ (النجم :33)

ترجمہ: تیرا رب بڑی وسیع مغفرت والاہے۔

اور کہیں یہ لکھا تھا

يَغْفِرُ لِمَنْ يَّشَآءُ (آلِ عمران :130)

ترجمہ: وہ جسے چاہے بخش دیتا ہے۔

کسی جگہ یہ تحریرتھا۔

إِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ (الزمر :54)

ترجمہ: اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے ۔ وہ بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے ۔

کسی جگہ

يَدْعُوْكُمْ لِيَغْفِرَ لَكُمْ مِنْ ذُنُوْبِكُمْ (ابراہيم:11)

ترجمہ: وہ تمہیں اس لئے بُلا رہا ہے تاکہ وہ تمہارے گناہوں میں سے بعض بخش دے۔

اور کہیں

وَمَنْ يَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ إِلَّا اللّٰهُ (آل عمران :136)

ترجمہ: اور اللہ کے سوا کون قصور معاف کرسکتا ہے۔

غرض دونوں طرف مغفرت کے متعلق بیسیوں خوبصورت قطعات لکھے ہوئے تھے۔

میدانِ حشر

میں نے بعض لوگوں کو اس دروازہ پر بطورپہرہ داروں کے معلّق دیکھا اور خیال کیا کہ شاید یہ فرشتے ہیں اور ان سے پوچھا کہ کیا میں اندر جا سکتا ہوں؟

انہوں نے کہا: ‘‘ہاں، آج اللہ تعالیٰ کی مغفرت کے پُرزور مظاہرے ہورہے ہیں۔ بیشک جاؤ اور دیکھ لو۔ مگر تمہارے ساتھ ایک سرکاری چوکیدار کا ہونا ضروری ہے۔’’

یہ کہہ کر ان کے افسر نے اس جماعت میں سے ایک کو میرے ساتھ کردیااور کہا کہ ان کا نام غفران ہے ، یہ تمہارے ہمراہ رہ کر تمہیں میدانِ حشرکی سیر کرائیں گے، اس دوران میں تم استغفار پڑھتے رہنا ، کسی بات کو دیکھ کر اعتراض نہ کرنا۔

یہ سُن کر جونہی میں نے اس صحرائے محشر کی طرف قدم بڑھائے تو فرشتہ غفران نے میرا بازو پکڑ لیا۔ بازو پکڑتے ہی میں اور وہ دونوں گویا اُڑنے لگے، اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ جہاں اور جدھر ہم جانا چاہتے ہیں پلک جھپکنے میں جا پہنچتے ہیں۔ چلتے چلتے دیکھتا ہوں کہ جہاں تک نظر کام کرتی ہے انسان ہی انسان ہیں، مگر سب کے سب برہنہ ۔سوائے بعض خاص خاص کے جو کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔ ایک ٹولی یہاں ہے تو دوسری وہاں۔ ہرجگہ جمگھٹے لگے ہیں اور ہرجمگھٹے اور مجمع کے درمیان ایک ترازو یعنی میزان نصب ہے۔اسی طرح جہاں تک نظر کام کرتی تھی یاتو انسان نظر آتے تھے یا میزانیں تھیں یا فرشتے۔ مگر کیا مجال جوذرا بھر بھی غل یا شورہو۔ یوں معلوم ہوتا تھا گویا مردے کھڑے ہیں اور سوائے اس کے جسے بولنے کی اجازت ہوکوئی لفظ کسی کے منہ سے نہ نکلتا تھا۔ ہاں یا غفور یاستّار یاغفار کے الفاظ ہر طرف نہایت دھیمی آواز میں سنائی دیتے تھے اور کبھی کبھی جب کسی کی آواز ناواجب طورپر بلند ہوجاتی تو معاً ایک طرف سے بگل بجتا سنائی دے جاتا۔

وَخَشَعَتِ الْأَصْوَاتُ لِلرَّحْمٰنِ فَلَا تَسْمَعُ إِلَّا هَمْسًا (طٰہٰ :109)

ترجمہ: اور رحمٰن (خداکی آواز ) کے مقابلہ میں (انسانوں کی) آوازیں دب جائیں گی پس تو سوائے کھُسر پھُسرکے کچھ نہ سنے گا۔

جس پر ایک ایسا سکوت طاری ہوجاتا جیسا آدھی رات کےوقت قبرستانوں میں ہوا کرتا ہے۔

عرشِ عظیم

غرض ایسے نظارے دیکھتے ہوئے ہم آگے بڑھے، اور جہاں بھی پہنچے یہی حال دیکھا، حتّٰی کہ میں تھک گیا، اتنے میں غفران نے کہا کہ وہ سامنے عرشِ عظیم ہے۔میں نے نظر اٹھائی تو سوائے ایک روشنی اور نور کے کچھ نظر نہ آیا۔ مگر خود بخود اس قدر دہشت اور رعب اُس طرف نظر کرکے مجھ پر طاری ہوا کہ میری گھگھیبندھ گئی۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اس لاانتہا میدان میں یہ مقام ہرجگہ سے یکساں قریب نظر آتا ہے ، اور وہاں کے احکام ہر شخص کو ایسے ہی صاف سنائی دیتے ہیں گویا وہ ہمارے سامنے اور بالکل پاس ہی ہے۔ بے انتہا فرشتے اس جگہ کے گرد چکر لگا رہے تھے۔ کوئی گروہ یہ کہہ رہا تھا:

اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْتَغْفِرُکَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا

اورکوئی یہ کہ

رَبَّنَا اغْفِرْ مَنْ فِی الْاَرْضِ

اورکوئی

رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ (المؤمنون :119)

ترجمہ: اے میرے رب! معاف کر، اور رحم کر کا ورد کررہا تھا۔

کوئی یَا غَفُوْرُ الرَّحِیْم کا اور کوئی یَا عَفُوٌّ یَا غَفُوْرٌ یَا سَتَّارٌ یَا غَفَّارٌ کا۔

غرض وہ لوگ طرح طرح کے جملے پڑھتے جاتے تھے، اور ایک طرف سے آتے اور دوسری طرف غائب ہوتے جاتے تھے۔

خوشی اور طرب کا سماں

ساتھ ہی بہ سبب یومِ مغفرت ہونے کے ایک خوشی اور طرب کا سماں اس نظارہ پر چھایا ہوا تھا۔ ہرگنہگار کے چہرہ پرآس اور امیدکا تبسم موجود تھا۔ لوگوں کے اعمال تُل رہے تھےاور ان کی کمی اور خامیاں فضل اور مغفرت کے انعامات سے پوری ہورہی تھیں، کیونکہ آج صفت عفو و مغفرت کے مظاہرہ کا دن تھا اور حساب کتاب میں بے حدنرمی تھی۔ گو دوسری طرف کراماً کاتبین بھی اپنا کام کئے جاتے تھے۔ مالک و رضوان بھی گاہے گاہے آپس میں جھگڑ لیتے تھے اور سائقین و شہدا کی کشمکش بھی جاری تھی، مگر آخری فیصلہ ان تمام جھگڑوں کا بارگاہ حضرت غفورو رحیم سے ہی صادر ہونا تھا۔

میں اسی سیر میں مشغول تھا کہ غفران نے مجھے کہا ‘‘چل تجھے بعض لوگ دکھلاؤں جنہیں تو جانتا ہے اور ساتھ ہی بعض دلچسپ حالات مغفرتِ الٰہی کے بھی ملاحظہ کراؤں جن سے عام لوگ ناواقف ہیں۔ باقی یہ حشر اور حساب کتاب تو اسی طرح ہوتا رہے گا۔ اور جس طرح آج بموجبكُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَاْنٍ (الرحمٰن:30)ترجمہ: وہ ہروقت ایک نئی حالت میں ہوتا ہے۔

صفت مغفرت کے تقاضا کا دن ہے اسی طرح کوئی دن جلالِ الٰہی اور انتقام کا آجاتا ہے تو کسی دن قہرو جبروت کا۔ مگر یہ سب ایام ان لوگوں کے اعمال اور حالات کے مطابق آتے ہیں جن کا حساب و کتاب ان اسمائے الٰہی کے مطابق ہونا ہوتا ہے۔ اس عالم میں رحم کی تو کوئی حد نہیں ہاں عدل و انصاف بھی کبھی کبھی ہوتا ہے مگر ظلم کبھی نہیں……

آ،چل، تجھے بعض تفصیلی باتیں مغفرتِ الٰہی کے متعلق دکھاؤں تاکہ تیرا ایمان اور محبت اپنے مالک اور آقا سے زیادہ ہواور تاکہ تُو جو ہمیشہ اپنے اعمال کی وجہ سے یاس اور ناامیدی میں گرفتار رہتا ہے کچھ اس عالیشان مغفرت سے بھی آگاہی پائے جو ہر گنہگار کا سہارا اور ہرعاصی کی پشت پناہ ہے اور جس کے بل پر عالمین کی پردہ پوشی اور بخشش ہورہی ہے۔’’

انبیاء کا گروہ

یہ سُن کرمیں اور وہ آگے چلے اور مجمع کے پاس جاکھڑے ہوئے۔ یہ لوگ سب اعلیٰ کپڑے پہنے ہوئے استغفار میں مصروف تھے۔ غفران نے کہا ‘‘یہ انبیاء کا گروہ ہے جو دنیا سے ہی معصوم اور مغفور ہوکریہاں آیا ہے۔’’

مغفرت کے نظارے

(1)

ذرا اور آگے چلے تو دیکھا کہ ایک شخص کے گناہوں کا پلڑا بہت بھاری ہے اور اس کے نیک اعمال بہت کم ہیں۔دوزخ کے فرشتے اسے اپنی طرف کھینچنے لگے تو بارگاہ الٰہی سے آواز آئی۔

‘‘ فلاں نیک شخص کو مع اپنے اعمال نامہ کے حاضر کرو۔’’

یہ کہنا تھا کہ وہ شخص وہاں موجود کردیا گیا۔

فرمایا: ‘‘یہ اس گنہگار کا بیٹاہے، اس کا اعمال نامہ بھی دیکھو’’ جب دیکھا گیا تومعلوم ہوا کہ وہ ہمیشہ اپنے ماں باپ کے لئے دعائے مغفرت مانگا کرتا تھا۔ حکم ہوا کہ بیٹے کی ان دعاؤں کو بھی باپ کی نیکیوں کے پلڑے میں ڈال دو۔ اُن کا ڈالنا تھا کہ پلڑا جھک گیا اور بہشت کے فرشتے اسے اپنے مونڈھوں پر بٹھا کرلے گئے۔

(2)

جب ہم آگے بڑھے تو اسی طرح کا ایک اور گنہگار اپنی قسمت کو رو رہا تھا۔حکم ہوا کہ اس کے مرنے کے بعد اس کی قبر پر کتنے مومنین نے دعا ئے مغفرت کی ہے؟

جب اس کا حساب لگایا گیا اور وہ دعائیں جومحض ناواقف راہ گزروں نے اس کی قبر پر کی تھیں ، وزن کی گئیں تو وہ بھی کودتا پھاندتا مغفرت کے ملائکہ کی گود میں بیٹھ کر وہاں سے رخصت ہوا۔

(3)

آگے چلے تو ایک اور گنہگار کمیٔ اعمال صالحہ کی وجہ سے متاسف کھڑا تھا۔ حکم ہوا کہ جس جس شخص نے کسی قسم کی حق تلفی اس کی کی ہے یا اس کی غیبت وغیرہ کی ہے ان لوگوں کی نیکیاں ان کی حق تلفیوں اور غیبتوں کے عوض اسے دے دو۔

میں نے دیکھا کہ اوروں کی ہزاروں نیکیاں اس طرح اس شخص کے حصہ میں آ گئیں اور وہ بخشا گیا۔

(4)

ذرا اور آگے بڑھے تو دیکھا کہ ایک شخص وہاں بھی اپنے مالک کے پنجے میں گرفتار ہے۔آواز آئی یہ تو فلاں کتاب کا مصنف ہے جس کی وجہ سے کئی نسلوں نے نیکی اور اسلام سیکھا ہے۔ پس اس کتا ب کے پڑھنے کی وجہ سے ہر نیکی کرنے والا نہ صرف نیکی کا ایک اجر خود پائے گا بلکہ اتنا ہی اجر مصنف کو بھی ملے گا۔

چنانچہ حساب کتاب کیا گیاتو ایک لاانتہاءخزانہ باقیات الصالحات کا اس مصنف کے قبضہ میں آگیا۔ مالک نے اپنی گرفت ڈھیلی کر دی اور رضوان کا اسسٹنٹ اسے لے کراپنے ہاں چلا گیا۔

(5)

اور آگے چلا تو دیکھا کہ ایک عورت کھڑی رو رہی ہے، اس کا اعمال نامہ بدکاری سے بھرا پڑا ہے، ایک یاس اور نا امیدی اس پر طاری ہے آواز آئی کہ

‘‘اس فاسقہ و فاجرہ عورت نے کوئی پسندیدہ عمل بھی کیا ہے؟ ’’

کراماً کاتبین میں سے ایک بولا کہ حضور! ایک دن جنگل میں سفر کررہی تھی اور ایک کتا پیاس کے مارے زبان لٹکائے کنویں کے کنارے ہانپ رہا تھا۔ یہ اس کنویں میں اتری، آپ پانی پیا ، پھر اپنی جوتی میں پانی بھر کر سامنے لائی اور کتے کو پلایا۔

ارشاد ہوا ہم نکتہ نواز ہیں ، ہمیں اس کا یہ عمل اتنا پسند آیا تھا کہ ہم نے اسی وقت اسے بخش دینے کا عہد کرلیا تھا، اب ہماری مغفرت کی چادر اس پر ڈال دو۔ اور جہاں جانا چاہتی ہے اسے لے جاؤ۔

(6)

پھرآگے بڑھا تو دیکھا کہ ایک شور سا برپا ہے۔ ایک عاجز گنہگارہے اور پاس ہی ایک مرصع نیکوکار۔ اس گنہگار کی بداعمالیاں دیکھ کروہ نیکوکار کہنے لگا کہ خدا کی قسم! تجھے خدا کبھی نہیں بخشے گا اس بات پر حاضرین میں چہ مگوئیاں ہونے لگیں اور بعض لوگ کہنے لگے یہ مولانا سچ فرماتے ہیں یہ شخص ایسا ہی ہے۔

بارگاہِ الٰہی کی طرف سے اشارہ ہوا کہ اے شخص تو کون ہے میری مغفرت پر قسم کھانے والا؟ جاؤ ہم نے اسے تو بخش دیا اور تیری بابت فیصلہ بعد میں صادر ہوگا۔ اور وہ شخص ہنستا کودتا بہشت کے دروازے کی طرف بھاگا۔

(7)

اسی طرح پھر ایک گروہ میں بعض آدمیوں کا حساب کتاب ہورہاتھا ۔ یہ لوگ مومن تو تھے مگر ان کے اعمال نامے نیکیوں سے خالی تھے، کیونکہ گو وہ اپنے وقت کے نبی پر ایمان لائے تھے مگر عمر نے وفا نہ کی اور جلد ہی فوت ہوگئے، بعض کے اعمال صالحہ تو محض صفر ہی تھے۔ ایسے لوگوں کا فیصلہ بارگاہ الٰہی سے اس آیت کے ماتحت کیاگیا۔

إِنَّا نَطْمَعُ أَنْ يَّغْفِرَ لَنَا رَبُّنَا خَطَايَانَآ أَنْ كُنَّآ أَوَّلَ الْمُؤْمِنِينَ (الشعراء :52)

ترجمہ: ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارا رب ہمارے گناہ اس وجہ سے معاف کردے گا کہ ہم سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں سے بن گئے۔

یعنی یہ چونکہ شروع میں ہی نبی کو مان گئے تھے اس لئے ان

کاَ السَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ

میں ہونا ہی ان کی مغفرت کے لئے کافی ہے، خواہ مسلمان ہو کرایک عمل بھی نیک نہ کیا ہو۔

(8)

یہاں سے ہم اور آگےبڑھے تو دیکھا کہ وہاں حضرت یعقوبؑ کی اولاد اپنی میزان پر سے نجات پا کر آرہی تھی۔ اور ان کی نجات کا باعث دعائےبزرگان تھی یعنی ان کے باپ کی وہ دعائیں جو اِن کی درخواست

یٰٓاَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَآ إِنَّا كُنَّا خَاطِئِيْنَ (يوسف :98)

ترجمہ: اے ہمارے باپ! آپ ہمارے حق میں (خداسے)ہمارے گناہوں کی بخشش طلب کریں۔ ہم یقیناً خطاکار ہیں۔

کے جواب میں بوعدہ

أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي إِنَّهُ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ (يوسف :99)

ترجمہ: میں (ضرور) تمہارے لئے اپنے رب سے بخشش طلب کروں گا۔ یقیناً وہی ہے جو بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔ کی گئی تھی۔

(9)

ایک جگہ دیکھا کہ چندشخص اپنے گناہوں کی مصیبت میں گرفتار ہیں اور نجات کی شکل صورت نظر نہیں آتی ہے۔ حکم ہوا کہ اچھا بتاؤ کہ اس دائیں طرف والے کا جنازہ کس کس نے پڑھا تھا ؟

معلوم ہوا کہ چالیس موحد مسلمان اس کے جنازہ میں شریک ہوئے تھے۔ ارشاد ہوا کہ مالک! اسے چھوڑ دے، ہم نے ان چالیس مومنوں کی شفاعت جوانہوں نے نماز جنازہ میں اس کے لئے کی تھی قبول کرلی۔

پھر بائیں طرف والے کی باری آئی تومعلوم ہوا کہ اس کے مرنے کے بعد اس شہرکے اکثر اہل اللہ نے اسے نیکی سے یاد کیا تھااور تعریف کی تھی کہ اچھا مسلمان آدمی تھا۔ فرمایا ان کی تعریف کی وجہ سے اسے بھی چھوڑ دو۔

پھر تیسرے کے بارے میں سوال پیدا ہوا کہ اس کا کیا حال ہے؟

فرشتوں نے عرض کیا کہ صرف دو مومن تھے جو اسے مرنے کے بعدنیک اور اچھا کہتے تھے۔ ارشاد ہوا چلو اسے بھی جانے دو۔

چوتھے گنہگار کی بخشش اس لئے ہوگئی کہ اس کے جنازہ میں تین صفیں مسلمانوں کی تھیں۔

پھر اور آگے چلے تو دیکھا کہ ایک گنہگار مسلمان اس لئے رہائی پا گیا کہ اس کے تین بچے اس کی زندگی میں ہی فوت ہوگئے تھے۔

اور ایک مومن عورت صرف ایک بچہ کی موت کا صدمہ اٹھانے کی وجہ سے بخش دی گئی۔

ایک میاں بیوی نظر آئے، ان کا حساب کتاب ہورہا تھا، اتنے میں ایک دو برس کابچہ دوڑتا ہوا کہیں سے آگیا اور کہنے لگا کہ یہ میرا باپ ہے اور یہ میری ماں۔ مَیں جنت میں نہیں جاؤں گا جب تک ان دونوں کوساتھ نہ لے جاؤں۔

حاضرین کی آنکھوں میں یہ نظارہ دیکھ کر آنسو آگئے ۔

اتنے میں ایک اور والدین کا مقدمہ پیش ہوا اور اس کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا بچہ ، جس کے آنول نال بھی اس کے ناف کے ساتھ ہی تھے ،چیخنے چلانے لگا اور کہنے لگا اے رب میں اسقاط شدہ بچہ ہوں اور تیرے فضل سے مجھے جنت میں رہنے کی اجازت ملی ہے ۔ مگر میں ہرگز وہاں اپنے ماں باپ کو دوزخ میں چھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔

حکم ہوا کہ تیری خاطر ہم نے ان کی مغفرت کر دی ،لے جا ان کو بھی جنت میں ۔

وہ بچہ بھی اپنی آنول نال کے ساتھ اپنے والدین کو کھینچتا ہوا جنت کی طر ف لے گیا اور سب دیکھنے والے چشم پُر آب تھے ۔

(10)

پھر ہم آگے چلے۔ ایک شخص کے اعمال نامہ میں کچھ کسر تھی۔ وہ اس طرح پوری کی گئی کہ چونکہ وہ اپنے بزرگ والدین کی قبر کی ہر جمعہ کے دن زیارت کرتا تھا اس لئے اُسے چھوڑ دیا گیا۔

دائیں طرف ایک ایسا جم غفیر نظر آیا، جس کے لوگ اپنے اعمال کے وزن کی رو سے بہت ناقص ثابت ہوئے تھے، مگر ان سب کی بخشش اس لئے ہوئی کہ ایک دفعہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تمام رات صبح تک کھڑے یہ دعا فرماتے رہے تھے۔

اِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّھُمْ عِبَادُکَ وَاِنْ تَغْفِرْلَھُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ( المائدہ: 119)

ترجمہ: اگر تُو انہیں عذاب دینا چاہے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تُو انہیں بخشنا چاہے تو تُو بہت غالب (اور) بڑی حکمتوں والا (خدا) ہے۔

پس اس دُعا کی مقبولیت کے نتیجہ میں امت محمدیہ کے یہ سب لوگ نجات پاگئے۔

(11)

وہاں سے چلتے چلتے ہم ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں ایک قاتل کھڑا تھا۔ اس کی بابت یہ سنا کہ اس شخص نے ننانوے خون کئے تھے اس کے بعد اس کے دل میں توبہ کی خواہش پیدا ہوئی اور وہ ایک راہب کے پاس گیا اور کہا ‘‘میری توبہ قبول ہوسکتی ہے یا نہیں؟’’

راہب نے جواب دیا ‘‘ ہر گز نہیں’’ اور اس نے غصہ میں آکر راہب کو بھی مارڈالا۔ پھر وہ آگے چلا لوگوں نے اسے ایک بزرگ کا پتہ دیا کہ شاید وہاں تیری توبہ کی کوئی صورت نکلے۔ یہ قاتل اس گاؤں کی طرف روانہ ہوا۔ راستے میں ایک جگہ وہ قضائے الٰہی سے مرگیا۔اس پر رحمت کے فرشتوں اور عذاب کے فرشتوں میں جھگڑا ہوا۔ عذاب کے فرشتے کہتے تھے کہ یہ ایک ظالم ڈاکو اور قاتل ہے اور دوسرے کہتے تھے کہ ہاں یہ ٹھیک ہے، مگر یہ تو توبہ کرنے والا تھا۔ غرض ایک ہنگامہ اس امر پر برپا تھا۔

میں نے سنا کہ بارگاہ الوہیت سے فرمان صادر ہوا کہ بتاؤ اس کی نعش میں اور اس کے وطن میں کتنا فاصلہ تھا؟ اسی طرح اس کے مرنے کی جگہ میں اور اس بزرگ کے شہر میں کتنا فاصلہ تھا؟

حضرت میکائیل کے محکمہ سے رپورٹ ہوئی کہ اس کی نعش اس بزرگ کی بستی سے بقدر ایک بالشت نزدیک تھی۔

ارشاد ہوا۔ ‘‘ہم نے اس کی توبہ قبول فرمائی اور اسے بخش دیا، اس پر ہماری مغفرت کی چادر ڈال دو۔’’

(12)

پھر اور آگے چلے۔ ایک جگہ ایک بہت بڑے گنہگار کا مقدمہ پیش ہورہا تھا۔ کراماً کاتبین نے عرض کیا۔ ‘‘یا الٰہ العالمین! یہ شخص دن کو تو گناہ کرتا تھا اور رات کو روتا تھا کہ اے میرے رب! میں نے قصور کیا ہے، مجھے معاف فرما۔’’ اس پر حضور کے ہاں سے اس کا قصورمعاف فرمایا جاتا اور ارشاد ہوتا میرا یہ بندہ جانتا ہے کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہوں کو معاف کرسکتا ہے اور ان کے سزا دینے پر بھی قادر ہے۔ سو اے فرشتو گواہ رہو میں نے اسے بخش دیا۔

اس کے کچھ دن بعد وہ پھر گناہ کرتا تھا اور رات کو پھر اسی طرح دعا کرتا تھا کہ خدایا میرے گناہ بخش دے اس وقت بارگاہ احدیت سے یہ حکم صادر ہوتا تھا کہ میرا یہ بندہ یقین رکھتا ہے کہ میں اس کے گناہ پر گرفت بھی کرسکتا ہوں اور اسے معاف کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہوں، سو تم گواہ رہو کہ میں نے اسے پھر بخش دیا۔

کچھ عرصہ گزرنے کے بعد وہ پھر گناہ کرتا تھا اور بعد میں اسی طرح پھر توبہ استغفار کرتا تھا، اور حضور یہی ارشاد فرماتے تھے کہ میرا یہ بندہ یقین رکھتا ہے کہ میں اس کے گناہ پر پکڑ بھی سکتا ہوں اور اسے معاف بھی کرسکتا ہوں۔

پس اسی طرح یہ شخص عمر بھر گناہ کرتا رہا اور اس کا اعمال نامہ سیاہ ہوتا رہا۔ اب جو کچھ ارشاد ہو کیا جائے۔

فرمایا کہ میں نے تو تین دفعہ کے بعد ہی کہہ دیا تھا۔

غَفَرْتُ لِعَبْدِیْ فَلْیَفْعَلُ مَا شَاءَ

میں نے اپنے بندہ کو بخش دیا، اب جو جی چاہے کرے۔

کیا یہ حکم ریکارڈ میں نہیں آیا؟ آخر ڈھونڈنے سے اس فرمان کی نقل بخاری اور مسلم میں مل گئی اور اس ملزم کی خلاصی ہوئی۔

(13)

اور آگے بڑھے تو دیکھا کہ ایک شخص کا مقدمہ پیش ہے کراماً کاتبین نے عرض کیا:

‘‘علاوہ اور قسم کے گناہوں کے اس پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ اس نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی کہ جب میں مرجاؤں تو میری نعش کو جلاکر آدھی راکھ ہوا میں اڑا دینا اور آدھی سمندر میں ڈال دینا، کیونکہ خدا کی قسم! اگر اللہ تعالیٰ نے مجھ پر گرفت کی تو مجھے ایسا عذاب ملے گا کہ مجھ سے پہلے کسی کو نہ ملا ہوگا۔

خیر اس کے کچھ مدت کے بعد وہ شخص مر گیا اور لڑکوں نے اس کی وصیت پر عمل کردیا۔ جزا کے دن حضور تبارک و تعالیٰ کے حکم سے وہ پھر زندہ کیا گیا ہے اس کی بابت کیا فرمان ہے؟’’

ارشاد ہوا

‘‘ اس سے پوچھو کہ تو نے ایسا کام کیوں کیا؟’’

وہ شخص کہنے لگا ‘‘ میرے خداوند ! میں نے کبھی کوئی نیک عمل نہیں کیا اور ہمیشہ بد عملیوں ہی میں مصروف رہا۔ اس لئے اے رب میں نے یہ بات تیرے ڈر کے مارے کی اور تو خود سب حقیقت جانتا ہے۔’’

حضور باری نے یہ سن کر فرمایا ‘‘یہ سچ کہتا ہے، اسے چھوڑ دو۔ اس کے دل میں ضرور میرا حقیقی تقویٰ اور خوف موجود تھا۔’’

(14)

ایک طرف کچھ آدمی خوش خوش جنت کی سڑک پر جارہے تھے۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ تمہاری نجات ہوگئی؟

کہنے لگے ‘‘ ہاں’’

پوچھا کیونکر؟

کہنے لگے کہ جب ہم کو ذاتِ باری نے مصیبت میں مبتلا دیکھا تو فرمایا میرا تو ان لوگوں سے وعدہ ہے کہ ان کو جنت میں داخل کروں گا۔

میں نے کہا یہ وعدہ کیا تھا؟

کہنے لگے کہ حضور احدیت نے اپنے رسول کی معرفت ہم سے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ

مَنْ کَانَتْ لَہٗ اُنْثٰی فَلَمْ یُؤِدْھَا وَلَمْ یُھِنْھَا وَلَمْ یُؤْثِرْ وَلَدَہٗ عَلَیْھَا یَعْنِیْ الذُّکُوْرَ ادْخَلَہُ اللّٰہُ الْجَنَّۃَ

‘‘ جس شخص کی ایک بیٹی ہو، پھر نہ وہ اسے زندہ گاڑ دے اور نہ ذلیل رکھے، اور نہ ترجیح دے اس پر اپنے بیٹوں کو، تو اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا۔’’

پس اس بات پر عمل کی وجہ سے ہم پر خدا کا فضل ہوگیاہے۔

(15)

اسی طرح ایک عورت کو دیکھا کہ باوجود اس کے کہ اس کی عبادتیں یعنی روزے، نمازیں اور صدقے بہت ہی کم تھے، تاہم اس لئے جنتی ہوگئی کہ وہ اپنے ہمسایوں کو اپنی زبان سے کبھی کوئی تکلیف نہ دیتی تھی اور سب اس سے خوش تھے۔

(مضامین حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ جلد اول صفحہ224تا238)

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button