کیا 12 مئی کو ثریا ستارے کےطلوع ہونے پر کورونا کی وبا ختم ہو جائے گی؟ ایک حدیث – ایک تحقیق

(حافظ مظفر احمد)

یوں توموجودہ عالمی وبا کے دوران گزشتہ کئی ہفتوں سے گھروں میں مقید رہنے کے عالمِ قنوطیت میں رجائیت پسندی بہت اچھی بات ہے اور ہر فرد بشر کی طبعی خواہش ہوگی کہ یہ وبا کل کی بجائے آج رخصت ہو تو معمولات زندگی بحال ہوں۔مگر اس سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا کہ حقائق اور خواہشات میں فرق اور فاصلہ ہوتا ہے۔

؂         ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

کچھ ایسے ہی آج کل سوشل میڈیا پرایک حدیث رسولؐ کے حوالہ سے یہ خبروائرل ہے کہ 12 مئی کو کورونا کی وبا ختم ہوجائے گی۔اس اہمیت کے پیش نظر کہ ہمارے آقاو مولا صادق و مصدوق حضرت محمدﷺ کی طرف ایک بات منسوب کرکے اسے پیشگوئی کا رنگ دیاجارہا ہے جس کے 12مئی تک پورا نہ ہونے کی صورت میں الزام بھی ہمارے دین یاہمارے پیارے نبیؐ کوہی دیا جائیگااوریہ بےاحتیاطی جگ ہنسائی کاموجب ہوگی۔اس لحاظ سےیہ ضروری ہے کہ روایت سے اس حدیث کےصحت وسقم پر ایک محققانہ نظر ڈال کریہ تجزیہ پیش کردیا جائے کہ کیا یہ واقعی رسول اللہﷺ کی کوئی ایسی حدیث ہے بھی جس میں ستارۂ صبح طلوع ہونے پر وبا دورہونے کی پیشگوئی تھی یا محض ایک ایسےصحابی کاقول اوراندازہ؟جنہوں نے مدینہ منورہ میں کھجوروں کی بیماری دور ہونے کی ایک نشانی طلوع ثریّا بتائی ہے نہ کہ کسی وبا کے دور ہونے کی خبر!

اصل حدیث:

حدیث کے متعلقہ حصہ کےالفاظ سے ہی یہ بات واضح ہوجاتی ہے:

عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ سُرَاقَةَ قَالَ:۔۔۔ سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ، فَقَالَ: ” نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ حَتَّى تَذْهَبَ الْعَاهَةُ "، قُلْتُ: أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَمَا تَذْهَبُ الْعَاهَةُ ، مَا الْعَاهَةُ؟ قَالَ: ” طُلُوعُ الثُّرَيَّا ”  

(مسند أحمد جزء9صفحہ55)

یعنی حضرت عثمان بن عبد اللہ بن سراقہؓ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے عبد اللہ بن عمرؓ (جن کی کنیت ابوعبد الرحمٰن تھی)سے (ایک سفر میں مختلف سوال پوچھے،ایک سوال علاقہ میں کھجور کے)پھلوں کی خریدوفروخت کے بارہ میں تھاجس پر انہوں نے کہاکہ رسول اللہﷺ نے پھلوں(یعنی کھجور) کی خرید و فروخت سے منع فرمایا یہاں تک کہ اس کی بیماری جاتی رہے۔ عثمان کہتے ہیں میں نے (عبداللہ بن عمرؓ سے)عرض کیا کہ اے ابو عبد الرحمٰن! کونسی بیماری اوریہ کب ختم ہوتی ہے تو حضرت ابن عمرؓ نےجواب دیا کہ جب ثریا طلوع ہوتا ہے۔

حدیث رسولؐ یاقول ابن عمرؓ:

اس روایت سے صاف ظاہر ہے کہ طلوع ثریا پر پھلوں کی بیماری کےختم ہونےکے الفاظ اور اندازہ صحابیٔ رسولؐ حضرت ابن عمرؓ کاہے،نہ کہ رسول اللہﷺ کا ارشاد جسے آج کل معاذاللہ رسول اللہﷺ کی پیشگوئی کے طورپربیان کرکے یہ نتیجہ نکالاجارہا ہے کہ بارہ مئی کو یہ وبا ختم ہوجائے گی۔

مذکورہ بالا موقف کی تائید حضرت امام شافعیؒ کی مسند میں بیان کردہ اسی راوی عثمان کی روایت کے ان الفاظ سے یوں ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے عبد اللہؓ (بن عمر)سےعرض کیا کہ یہ کب ہوتا ہے(یعنی پھلوں کی یہ بیماری کب ختم ہو جاتی ہے؟) انہوں نے کہا:طلوع ثریا کے وقت۔                              

(مسند الشافعي صفحہ 143)

مسنداحمد اور مسند شافعی کے علاوہ اسی مفہوم کی روایت علامہ بیھقی نے سنن الکبریٰ میں اورعلامہ طبرانی نے معجم الکبیر میں بھی بیان کی ہے۔جس سے صاف ظاہر ہے کہ طلوع ثریا کے وقت پھل کی بیماری ماحول مدینہ میں ختم ہوجانے کا خیال حضرت ابن عمرؓ کا ذاتی اندازہ ہے۔

پھراس مضمون کی تائید خودحضرت ابن عمرؓ کی دیگر روایات سے بھی ہوتی ہے۔احادیث کے پرکھنے کے لیے صحیح بخاری ایک بہترین معیار ہے جوامت میں قرآن کے بعد صحیح ترین کتاب مانی جاتی ہے۔اس کے بعد صحیح مسلم ہے۔ان دونوں سے بھی یہی بات ثابت ہے۔

چنانچہ امام بخاری نے ابن عمرؓ کی یہ روایت اس طرح بیان کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے پھل کی صلاحیت ظاہر ہونے سے قبل اس کی خرید و فروخت سے منع کیا اور یہ پوچھنے پر کہ اس کی صلاحیت سے کیا مراد ہے؟آپؐ نے فرمایا کہ جب اس پھل کی بیماری جاتی رہے۔

   (صحيح البخاري کتاب الزکوہ بَابُ مَنْ بَاعَ ثِمَارَهُ، أَوْ نَخْلَهُ، أَوْ أَرْضَهُ)

آپ نے دیکھا کہ امام بخاری نےحضرت ابن عمرؓ کی اس روایت میں ان کےتشریحی الفاظ کہ ’’یہ طلوع ثریا کے وقت ہوتا ہے‘‘ بیان نہ کرکے حقیقت کھول دی کہ وہ قول رسولؐ نہیں۔

صحیح مسلم سے اس کی مزید تائید ہوتی ہے۔حضرت ابن عمرؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے کھجور کے درختوں کی خرید و فروخت سے منع فرمایا یہاں تک کہ وہ زرد ہوکر(پک)جائیں ۔۔۔ اور بیماری سے امن میں آجائیں۔آپؐ نے بیچنے اور خریدنے والے دونوں کو منع فرمایا۔  

     (مسلم کتاب البیوع بَابُ النَّهْيِ عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ قَبْلَ بُدُوِّ صَلَاحِهَا بِغَيْرِ شَرْطِ الْقَطْعِ)

بخاری و مسلم کی ان روایات صحیحہ کی روشنی میں ثابت ہے کہ حضرت ابن عمرؓ کی روایت  میں واضح طور پرمدینہ منورہ اور اس کے ماحول کی بات ہورہی ہے جس میں رسول اللہﷺ نے  کھجور کے درخت پھل پکنے سے پہلے بیچنے سے منع فرمایا۔دراصل رسول اللہﷺ نے مدینہ میں کھجوروں کی بیماری کے بعض سالوں میں (لوگوں کے) کچھ تنازعے پیدا ہونے پراس وقت اس سے منع فرمایا جب وہ کھجوروں کے درختوں کا سودا پھل پکنے سے پہلے ہی کرلیتے تھے۔

چنانچہ امام بخاری نے اس حدیث کا یہی پس منظر حضرت زید بن ثابتؓ سے بیان فرمایا ہے کہ

’’رسول اللہﷺ کے زمانہ میں لوگ پھلوں(کھجور)کی خرید و فروخت کرتے تھے جب لوگ کھجور کی فصل کاٹنے اور مالک باغ کی رقم لینے آتا تو خریدار کہتا کہ پھل کو بیماری لگ گئی تھی اوروہ کھجور کی مختلف بیماریوں(یعنی ’’عاھة‘‘ کھجور کی بیماری کی اقسام) دمّان،مراض،قشام وغیرہ کے لگ جانےکا عذرپیش کرتے تھے۔جب رسول اللہﷺ کے پاس اس طرح کی کئی شکایات آئیں تو آپؐ نے یہ ارشاد فرمایا کہ تم لوگ آئندہ کھجور کی صلاحیت ظاہر ہونے اور پکنے سے پہلے خرید و فروخت نہ کیاکرو۔آپؐ کی یہ ہدایت کثرت مقدمات کی وجہ سے ایک مشورہ کے طور پر تھی۔ خارجہ بن زید بیان کرتے تھے کہ اس کے بعد سے ان کے والد حضرت زید بن ثابتؓ اپنی زمین کے پھل ستارۂ صبح کے طلوع سے قبل یعنی جب تک کھجوروں میں سرخی سے زردی نمایاں ہو(کرپھل پک )نہ جائے،فروخت نہ کرتے تھے۔‘‘

                          (صحيح البخاري   کتاب البیوع بَابُ بَيْعِ الثِّمَارِ قَبْلَ أَنْ يَبْدُوَ صَلاَحُهَا)

اسی طرح علامہ ابو الولیدباجی (متوفی:474ھ)مؤطا کی شرح میں لکھتے ہیں کہ

حدیث کے الفاظ  کہ رسول اللہﷺ نےپھلوں کی خرید و فروخت سے منع کیا یہانتک کہ وہ بیماری سے بچ جائیں۔اس سے آنحضرت کی یہ مراد تھی کہ بیماری کاخدشہ کم ہوجائے اور امام مالک کے نزدیک صلاحیت ظاہر ہوجانے سے پہلے پھلوں(یعنی کھجور وغیرہ)کے درختوں کی خریدوفروخت دھوکہ ہے۔جس سے آپؐ نے منع فرمایااور اس کی وجہ یہ ہوئی کہ(مدینہ میں) کئی سالوں میں پھلوں کی بیماریاں آنے سے نقصان ہوا تھا۔                                                    

(المنتقى شرح الموطإ جزء4صفحہ222)

’’عاھة‘‘ کے معنے:

اس حدیث میں ایک تشریح طلب لفظ ’’العاھة‘‘ ہے۔عربی میں یہ لفظ بالعموم پھلوں کی بیماری کے لیے استعمال ہوتا ہے نہ کہ عام وبا کے لیےجیساکہ علامہ ابن حجر(متوفی:671ھ) نے واضح کیا ہے کہ ’’عاھة‘‘ کے معنے پھلوں کے اس نقص اور  مصیبت کے ہیں جو ان میں کسی بیماری کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔

           (فتح الباري لابن حجر جزء4صفحہ 395)

اس کی مزید وضاحت میں علامہ علقمی(متوفی:969ھ) لکھا ہے کہ دراصل عربوں کا( زمانۂ جاہلیت سے)خیال تھا کہ ثریا ستارہ جو پچاس دن تک سورج سے قریب آجانے کی وجہ سے نظر نہیں آتا اور پھر(گرم موسم میں)12مئی کوظاہرہوجاتا ہے اس (موسمی تبدیلی کے) دوران وبائیں اور بیماریاں پھیلتی ہیں۔

اورعلامہ حربی (متوفی:285ھ)نے فرمایاہے کہ اس حدیث میں صرف ارض حجاز کے علاقہ میں طلوع ثریا کے بعد پھل کی بیماری دور ہونے کاذکر ہے۔کیونکہ’’عاھة‘‘ کا لفظ جو رسول اللہﷺ نے استعمال فرمایا اس سے مراد صرف پھلوں کی بیماری ہے۔     

(السراج المنیر شرح الجامع الصغیر فی حدیث البشیر جزء4 صفحہ204)

طلوع ثریّا کے معنے:

 اس حدیث میں دوسرا وضاحت طلب لفظ طلوع ثریّا ہے۔ثریا چھوٹے ستاروں کا جھرمٹ ہے جسے ستارۂ صبح بھی کہتے ہیں اور جو12 مئی کوقریباً دوماہ کے وقفہ سے صبح نظر آتا ہے۔

طلوع ثریا کے معنے کرتے ہوئے علامہ زرقانی(متوفی:1122ھ) نے لکھا ہے کہ درحقیقت اس ستارۂ صبح کے طلوع سے مراد گرم موسم میں پھلوں کا پکنا ہے،طلوع ثریا اس کی محض ایک علامت ہے۔یہی بات امام بخاری نے خارجہ کی ان کے والد حضرت زید بن ثابتؓ  سے روایت میں کھول کر بیان کردی ہے جس میں طلوع ثریاسے پھلوں کے پکنے کے معنے ظاہر ہیں۔                    

  (شرح الزرقانی علی الموطا جزء3 صفحہ395)

اسی طرح علامہ شوکانی نے نیل الاوطار میں طلوع ثریا کے یہی معنے پھل پکنے اور بیماری دور ہونے کے کیے اورلکھا ہے کہ ’’(امام مالک کی)مؤطا میں پھل کے پک کر سیاہی مائل ہوجانے کے الفاظ سے بھی بیماری کے دور ہونے کی طرف اشارہ ہے۔‘‘                                                                    

(نیل الاوطار جزء5 صفحہ206)

علامہ ابن عبد البر(متوفی:463ھ)اسی مفہوم کی ایک دوسری روایت کے حوالہ سےتحریر کرتے ہیں کہ

’’اس موضوع سے متعلق عَمرہ کی یہ حدیث کہ پھل فروخت نہ کیے جائیں یہاں تک کہ بیماری سے پاک ہوجائیں۔اس کا مطلب پھلوں کی بیماری سے ہی ہےاور یہی اس کے زیادہ غالب معنے ہیں۔جس کی تشریح حضرت زید بن ثابتؓ کی حدیث سے بھی ہوتی ہے جو اپنے کھجور کے باغ ثریا کے طلوع تک فروخت نہ کرتے تھے اوریہ ستارۂ صبح زیادہ تر کھجوریں پکنے اور ہر قسم کی بیماری اور آفت کے بعد ظاہرہوتا تھا۔‘‘

(الاستذكار لابن عبد البرجزء6صفحہ305)

طلوع ثریّا کا زمانہ:

یہ درست ہے کہ طلوع ثریا کا زمانہ اہل علم کے نزدیک بالاتفاق 12 مئی کے بعد ہوتا ہے۔اورجہاں تک ماہرین حدیث اور اہل علم کا تعلق ہے انہوں نے اس حدیث سے مراد مدینہ اوراس کے ماحول میں کھجور کے علاقے لیے ہیں۔اور ستارہ صبح طلوع ہونے سے موسم گرمامیں پھلوں کا پکنا اور پھلوں کی بیماری دور ہونے کامفہوم لیا ہے۔لہذاکسی وبائی مرض کا اس کے طلوع ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہوسکتا۔

چنانچہ علامہ قرطبی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ

’’ثریا کے طلوع ہونے سے مراد کھجوروں کا پکنا ہے کہ اس وقت کھجوروں کی خرید و فروخت جائز ہوجاتی ہے۔ان کا کھانا مناسب ہوتا ہے اور وہ بیماری سے محفوظ ہوتی ہیں اور یہی اللہ تعالیٰ کے علم اورقانون قدرت سے ثابت ہے کہ یہ ستارہ صبح کے طلوع یعنی 12 مئی کے بعد ہوتا ہے۔‘‘

(تفسير القرطبي جزء7صفحہ 51)

خلاصہ کلام یہ کہ اس مبینہ روایت میں جوطلوع ثریاکا ذکر ہے یہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی ذاتی رائے ہے نہ کہ رسول اللہﷺ کی کوئی پیش خبری۔دوسرے طلوع ثریا ایک علامت ہے اور مراد اس سے پھل کا پکنا ہے نہ کہ ظاہراً ستارۂ صبح کا طلوع ہونا۔ تیسرے بیماری سے مراد پھلوں کی بیماری ہے نہ کہ عام وبا۔

روایت ابوہریرةؓ میں ثریّا کی بجائے ستارہ کا ابہام:

اسی ضمن میں ایک اور روایت جو حضرت ابوہریرةؓ سے بیان کی جاتی ہے جس میں ثریا کی بجائے’’نجم‘‘عام ستارے کاذکر ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَا طَلَعَ النَّجْمُ صَبَاحًا قَطُّ، وَتَقُومُ عَاهَةٌ، إِلَّا رُفِعَتْ عَنْهُمْ أَوْ خَفَّتْ”

(مسند أحمد جزء15صفحہ 16)

یعنی کبھی بھی ستارہ صبح کے وقت طلوع نہیں ہوا اور کوئی بیماری موجود ہو تو یا وہ اٹھا دی جاتی ہے یا ہلکی کردی جاتی ہے۔

اس روایت میں ثریا کی بجائے عام ستارے کا لفظ اپنی ذات میں ابہامِ متن پیدا کرتا ہے۔کیونکہ ہرستارہ کے طلوع پر تو پھلوں کی بیماری دور نہیں ہوتی کجا یہ کہ ہروبائی بیماری دورہونا تسلیم کیاجائے۔

چنانچہ امام ابو جعفر طحاوی نے حضرت ابوہریرہؓ کی ا س روایت کا متن ابہام نمایاں کرکے لکھا ہے کہ انہوں نے محض نجم یعنی ستارہ کے طلوع ہونے کا ذکر کیا۔یہ واضح نہیں کہ کون سا ستارہ۔یہ دوسری احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ثریا ستارہ ہے۔                                                                          

(شرح مشکل الآثار جزء6 صفحہ53)

 مسند احمد کی یہی روایت ابوداؤد میں بھی ہےجس کا ذکرکرتے ہوئے علامہ ابن حجر نے یہ وضاحت کی ہے:

’’اس بارہ میں حضرت ابوہریرةؓ کی روایت کے مطابق جب ستارہ طلوع ہوتا ہے تو ہر شہر کے پھلوں کی بیماری دور ہوجاتی ہے ۔حضرت امام ابو حنیفہؒ نے مشہور تابعی عطاء سے اس حدیث کے یہ معنی بیان کیے ہیں کہ پھلوں سے بیماری دور ہوجاتی ہے جب ثریا ستارہ گرمیوں کے آغاز میں اور حجاز کےعلاقہ میں شدت گرمی کے وقت شروع ہوتا ہے جو پھلوں کے پکنے کا آغاز ہوتا ہے۔

پس ثریا کے طلوع ہونے کے الفاظ سے مراد اصل حقیقت پھلوں کا پکنا ہے اور ستارے کا طلوع اس کی اس علامت کے طور پرہے۔جو دوسری حدیث میں آنحضرت کے ان الفاظ میں بھی بیان ہے کہ جب پھل(کھجور وغیرہ)سرخی سے زردی مائل ہوجائیں۔                                         

(فتح الباری فی شرح البخاری جزء4 صفحہ395)

روایت ابوہریرہؓ کی سند میں اضطراب:

حضرت ابوہریرةؓ کی اس روایت میں متن کے مذکورہ بالا اضطراب کے علاوہ اس کے راوی بھی حدیث صحیح کےمعیارکے مطابق نہیں۔چنانچہ یہ روایت علامہ طبرانی نے اپنی معجم الاوسط میں بیان کرکے لکھا ہے کہ ’’اس حدیث کو بیان کرنیوالا اکیلا راوی جراح منفرد ہے۔اور کسی دوسرے راوی نے یہ روایت اس حدیث کے دیگررواة سے بیان نہیں کی دوسرےاس کا ایک راوی عسل بن سفیان ضعیف ہے۔   

(المعجم الاوسط جزء2 صفحہ78)

اسی طرح علامہ ابولولید الباجی لکھتے ہیں کہ

’’یہ حدیث مجھے صحیح روایت سے نہیں ملی ۔‘‘

  (المنتقى شرح الموطإ جزء4صفحہ222)

چنانچہ علامہ ابن عبد البر اس بارہ میں لکھتے ہیں کہ

’’جب ستارہ طلوع ہوتو ہر اہل بلد سے بیماری دور ہوجاتی ہے۔ہم اس حدیث کی سندپر اپنی کتاب ’’التمھید‘‘ میں بات کرچکے ہیں(کہ صحیح نہیں)طلوع ثریا جو بارہ مئی کے بعد ہوتا ہے جہاں تک تمام اہل بلد سے کھجوروں کی بیماری دور ہونے کا ذکر ہے۔اس سے مراد وہ علاقے ہیں جن میں کھجور پائی جاتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد صرف حجاز لیا جائے اور علماء نے ان احادیث کے اس ظاہری معنی کہ ہرقسم کی وبا دور ہوجائے گی ، میں اختلاف کیا ہے۔                                                                   

(الاستذكار جزء6صفحہ306)

جن اہل علم نے طلوع ثریا سے کھجور کی بیماری ختم ہونے کے مخصوص معنے لینے کے ساتھ حضرت ابوہریرةؓ کی روایت کی بنا پر عام وباکے دورہونے کی طرف بھی اشارہ لیا ہے ۔ان میں ابو العباس، سمعانی، مناوی وغیرہ شامل ہیں لیکن ان معدودے چند اہل علم نے بھی اصل معنیٰ کھجوروں کے پکنے اور ان کی آفت دور ہونے کے ہی کیے ہیں اورامکانی طور پران دوسرے معنوں کابھی ذکر کیا ہے کہ بنی نوع انسان اور دنیا میں بھی اگر وہ وبا پائی جائے تو اس کا دور ہونا بھی مراد ہوسکتا ہے۔ گویا ان کے نزدیک بھی وبائی بیماری کے دور ہونے کی بات قطعی اور حتمی نہیں ہے۔ محض ایک ذوقی تخمینہ ہے۔ اور یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ہرذوقی رائے قطعی بھی ہو۔

درایتِ حدیث:

اگر اس حدیث سے ثریّا ستارہ طلوع ہونے کی تاریخ 12مئی کے بعد دنیا سےوبائی مرض دورہونا مرادلیا جائے تونتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس تاریخ کے بعد کوئی وبا دنیا میں رہ نہیں سکتی اور یہ بات خلاف واقعہ ہے۔ کیونکہ اس کے برعکس کئی ایسی وبائیں ہیں جومئی کے مہینہ میں  سالہاسال چلتی رہیں اور لاتعداد اموات کا باعث بنیں۔جیسے انڈیا میں وبائی بیماری طاعون 1896 سے1906ء تک دس سال رہی جس سے لاکھوں افراد ہلاک ہوئے۔ پھرجنوری 1918ء میں سپینش فلو کا آغاز ہواجو دسمبر1920ء تک 36 مہینے رہی اور 17 سے50 ملین ہلاکتوں کا باعث بنی۔اس دوران ہر سال 12مئی کو ثریا ستارہ طلوع ہوتا رہا مگر وبا دور نہ ہوئی۔

خلاصہ کلام:

اس تمام تحقیق و بحث کا خلاصہ اور نتیجہ یہ ہے کہ

  1. حدیث میں طلوع ثریّا پرلفظ ’’عاھة‘‘ دورہونےکےمعنے پھلوں کی بیماری ہے۔اس کا وبا سے کوئی تعلق نہیں۔
  2. طلوع ثریاکے معنے12مئی کو طلوع ہونیوالے ستارۂ صبح کے ہیں جومحض موسم گرما کی آمد کی ایک علامت ہے اورجس سے مرادکھجوروں کا پکناہے ۔
  3. طلوع ثریا کے وقت پھلوں کی بیماری کے خاتمہ کی یہ بات رسول اللہﷺ نے نہیں فرمائی بلکہ یہ عربوں کے سابقہ دستور کے مطابق حضرت ابن عمرؓ کی ذاتی رائے اوراندازہ تھا۔
  4. حضرت ابن عمرؓ کی روایت میں طلوع ثریّا یعنی پھل کی بیماری ختم ہونے تک کھجوروں کی تجارت کی ممانعت ان کے مخصوص علاقہ مدینہ منورہ اور حجاز وغیرہ سے متعلق تھی۔
  5. تاریخی طبی تجربہ سے ثابت ہے کہ دنیا میں طلوع ثریا کے بعد کئی وبائیں جاری ہیں۔

اندریں صورت اس حدیث کو رسول اللہﷺ کی پیشگوئی بنا کر12 مئی کو وبا کے خاتمہ کا اعلان واظہار چنداں مناسب نہیں۔ اگرچہ ہر فرد بشر کی طرح ہماری بھی یہ خواہش اوردعاہے کہ اس بلا اور آفت کا خاتمہ جلد ہو۔مگراس کےلیے ضروری ہے کہ تمام بنی نوع انسان رجوع کرتے ہوئےاللہ کی طرف جھک کر اپناجائزہ لیں اور اپنی خطاؤں کا محاسبہ کریں اوراس مقدس مہینہ رمضان میں اپنے خالق و مالک کی طرف رجوع کرتے ہوئے تسبیح و تحمید و تکبیرکے ساتھ اس کے رحم اور فضل کی بھیک مانگیں۔اس کی صفات کا واسطہ دے کر التجا کریں کہ یَا حَفِیْظُ یَا عَزِیْزُ یَا رَفِیْقُ۔ یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ نَسْتَغِیْثُ۔کہ اے حفاظت کرنے والےخدا!اے غالب اور نرمی کرنے والے رب! اے زندہ اور قائم ہستی! ہم تجھ سے مدد کی فریاد کرتے ہیں۔ رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنَا وَانْصُرْنَا وَارْحَمْنَا (یعنی اے میرے رب! ہر ایک چیز تیری خادم ہے۔ اے میرے رب! ہمیں اپنی حفاظت میں رکھ اورہماری مدد کر اور ہم پر رحم کر)اورلاَ حَولَ وَلَا قُوَّۃَاِلَّا بِاﷲِ العَلِیِّ العَظِیمِ کا ورد کثرت سے کریں کہ کسی کو کوئی قوت اور طاقت حاصل نہیں سوائے اﷲ کے جو بہت بلند شان والااور بڑی عظمت والا ہے۔

جیساکہ ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہوئے اس کی طرف جھکتے ہوئےاللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اس وبا سے بچنے کےلیے دعائیں کریں اورکوشش کریں اوراس بیماری کے علاج کےلیے جو سائنس دان کوشش کر رہے ہیں ان کی دعا کے ذریعے مدد کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دعاؤں کی توفیق دے اور اپنی حالتوں کو بہتر کرنے کی توفیق دے۔آمین                                                      

(خطبہ جمعہ حضور انورمورخہ 24؍اپریل2020ء)

[ بشکریہ مکرم باسل احمد بشارت صاحب بسلسلہ تخریج حوالہ جات]

متعلقہ مضمون

تبصرے 5

  1. حافظ صاحب نے انتہائی محنت سے تمام ااحادیث کے حوالہ سے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہُ ثریا ستارہ کے نکلنے کی حدیث دراصل حدیث نہیں بلکہ حضرت عبد اللہ بن عمر کا اندازہ تھا جو پھلوں کی بیماری کے متعلق تھا۔ اس سے ہم سب کو فائدہ ہؤا ہے اللہ تعلٰی انکو اجر عظیم اس کوشش کا عطا فرمائے آمین

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button