متفرق مضامین

روزہ …آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کے پاکیزہ اور قابل تقلید نمونے

(عبد السمیع خان۔ گھانا)

رمضان کے علاوہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ سال کا بڑا حصہ روزے رکھتے تھے

روزہ عبادت بھی ہے اور عبادت میں ترقی کرنے کا ذریعہ بھی۔یہ اسلام سے پہلے بھی قوموں پر فرض ہوا تھا مگر نبیوں کے سرتاج اور فخردو عالم حضرت اقدس محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت کی اس معراج کو ایسی سربلندیاں عطا کیں کہ وہ ہر ماضی اور ہر مستقبل کے لیے اسوۂ حسنہ اور محبت الٰہی کا معیار بن گیا اور پھر آپ نے اپنی قوت قدسیہ کے ساتھ اپنے صحابہ کو ان راہوں پر اس طرح گامزن کیا کہ وہ بڑی سہولت اور تیز رفتاری کے ساتھ بلند منازل کی طرف دوڑنے لگے۔

روزہ کی سب سے عالی منزل تو ماہ رمضان ہے جو نزول قرآن کی یادگار ہے اور جو قرآن کریم کے تمام مقاصد کو پورا کرنے والا ہے اس لیے یہ مہینہ فی الحقیقت روحانیت کا موسم بہار ہے اور مدینہ میں اس بہار کی تجلی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ مہینہ وصال الٰہی کی سالگرہ ہے اسی میں وہ رات طلوع ہوئی تھی جس نے اس ظلماتی زمانہ کو لیلة القدر بنا دیا اور انسانی مقدر کے اندھیاروں کو اجالوں میں بدل دیا تھا۔

جشن بہار۔رمضان

یہ مہینہ کائنات کا سب سے سچا جشن ہے جس کی جلوہ گاہ مدینہ ہے، جس کی روح رواں اور میزبان حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور جس کا مہمان جبریل روح الامین ہے اور قدوسیوں کی اس بزم کی رونق قرآن کریم سے ہے۔ اس جشن میں روشنی کے لیے تیل اور گھی کے نہیں تقویٰ کے چراغ جلائے جاتے ہیں او ر ان کی لو پہلے سے بھی بلند کی جاتی ہے۔ یہ کیسا اعلیٰ جشن ہے جس میں چٹ پٹے کھانے نہیں خدا کی خاطر بھوک کی لذتیں ہیں۔ قہقہوں کا بے ہنگم شور نہیں اپنے مولیٰ کی جناب میں گریہ وزاری کا پُر وقار تقدس ہے۔ تیز آندھیوں سے بڑھ کر مال لٹایا جاتا ہے مگر ظاہری آرائش کے لیے نہیں خدا کی بے کس مخلوق کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے۔ دوسروں کے حق چھینے نہیں جاتے اپنے حقوق کی قربانی دی جاتی ہے۔ حرام کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھنا تو درکنا ر حلال اشیاء سے بھی بے رغبتی ہے۔ دن کو جودو سخا کا ایک طوفان برپا ہے تو شب کو گریہ وزاری کا سماں ہے۔ ہر رات نزول جبریل اور قرآن کی دہرائی ہے۔ ہر طرف محبت الٰہی کے غلغلے اور جہاد بالنفس کے تذکرے ہیں۔

لوگ سمجھتے ہیں کہ رمضان 30دنوں کے ایک مہینہ کا نام ہے مگر اہل اللہ نے ہمیں بتایا کہ رمضان ایک زمانے اور کیفیت کا نام ہے جو نبیوں پر ہمیشہ طاری رہتی ہے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:

’’ مجھے القا٫کے طور پر بتایا گیا کہ رمضان کا مہینہ نبیوں کا زمانہ ہے …یہاں تک کہ عید کا دن یعنی ترقی کا زمانہ آ جاتا ہے‘‘

 (خطبات محمود ،عيد الفطر ،جلد 1صفحہ 114تا115)

حضرت مسیح موعود ؑنے ہمیں بتایا کہ رسول اللہ ﷺ کا زمانہ رمضان ہی نہیں لیلۃالقدر تھا جو تمام پہلے زمانوں سے بہتر،بلند تر اور ارفع تر تھا ۔فرمایا :

’’ ہر نبی کے نزول کے وقت ایک لیلۃ القدر ہوتی ہے…لیکن سب سے بڑی لیلۃ القدر وہ ہے جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کی گئی درحقیقت اس لیلۃ القدر کا دامن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے قیامت تک پھیلا ہوا ہے ۔‘‘               

( ازالہ اوہام ،روحاني خزائن جلد 3صفحہ 157تا158)

پس آپ کی زندگی کا تو ہر دن رمضان اور لیلۃ القدر تھا۔ہر دن دکھو ں سے بھر پور ،بھوک اور پیاس کی شدت ، تبلیغ حق، مہینوں عبادت اور جہاد فی سبیل اللہ کی خاطر اہل وعیال اور پیاروں کی جدائی سے عبارت تھا اور ہر رات لمبےقیام ،رکوع اور سجود پر مشتمل تھی جس پر اضافہ ناممکن تھا اسی لیے حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں لَا تَسْئَلُ عَنْ حُسْنِھِنَّ وَطُوْلِھِنَّان کے حسن اور طوالت کا نہ پوچھ ۔یہ رمضان تھا جو آپ کی زندگی میں آیا اور ٹھہر گیا اور آخری دن تک رہا ۔ یہ رمضان اور عید ساتھ ساتھ چلتے رہے ہر روز لَلۡاٰخِرَۃُ خَیۡرٌ لَّکَ مِنَ الۡاُوۡلٰیکا منظر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی زندگی کی دوعظیم الشان فتوحات بھی آپ کو رمضان میں عطا کیں یعنی فتح بدر اور فتح مکہ ۔یہ ان فتوحات کے نمونے کے طور پر تھیں جو قیامت تک آپ کو عطا ہونے والی تھیں۔

ماہ رمضان کے روزے کوئي معمولي آزمائش نہيں اور جس سے پورے صدق سے گزرنے کے بعد خداتعاليٰ عيد کي خوشياں منانے کو فرض قرار ديتا ہے مگر يہ مہينہ عاشقان الٰہي کي پياس کو مٹاتا نہيں اور زيادہ بھڑکا جاتا ہے جس کو تسکين دينے کے ليے آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم نے کثرت کے ساتھ نفلي روزوں کي سنت قائم فرمائي۔اور رمضان کا فيض سارے سال پر پھيلا ديا۔

جاری خوشبو

روزوں کی اس خوشبو سے صرف ماہ رمضان معطر نہیں ہوتا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کا سارا سال عطر بیز رہتا ہے۔ خصوصاً رمضان سے پہلا مہینہ شعبان اور اس کے بعد شوال کا پہلا عشرہ تو خاص طور پر فیض پاتا ہے۔ رمضان کے استقبال اور الوداع کا ا س سے بہتر کوئی طریق نہیں ہوسکتا۔

ماہ شعبان

حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ روزے رکھنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک (رمضان کے بعد) سب سے پسندیدہ مہینہ شعبان تھا۔

(سنن نسائی کتاب الصیام باب صوم النبؐی حدیث نمبر2310)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے علاوہ سب سے زیادہ روزے شعبان میں رکھتے تھے بلکہ شعبان کا اکثر حصہ روزوں میں گزارتے تھے لیکن خاص طور پر شعبان کے آخری حصہ میں اور رمضان سے ایک دو دن متصل شعبان کے روزوں سے منع فرماتے تھے۔

(بخاری کتاب الصوم باب صوم شعبان حدیث نمبر 1833 ۔ولا یتقدم رمضان بصوم یوم حدیث نمبر1781۔ ترمذی ابواب الصوم باب کراھیة الصوم فی النصف الباقی من شعبان حدیث نمبر669)

حضرت اسامہ بن زیدؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شعبان میں روزوں کی کثرت کی وجہ دریافت کی توفرمایا اس ماہ میں بندوں کے اعمال خدا کے حضور پیش ہوتے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ میرے اعمال روزہ دار ہونے کی حالت میں پیش ہوں۔

(نسائی کتاب الصیام باب صوم النبی صلی اللہ علیہ وسلم حدیث نمبر2317)

 ماہ شوال

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے بعد شوال کے چھ روزوں کی ترغیب دیتے تھے اور فرماتے تھے جو یہ روزے باقاعدگی سے رکھے گا وہ گویا ساری زندگی کے روزوں کا اجر پائے گا۔

(مسلم کتاب الصیام باب استحباب صوم ستة ایام من شوال حديث نمبر1984)

ماہ ذي الحج

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت حفصہؓ سے یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذی الحج کے مہینہ میں پہلے 9دن روزہ رکھا کرتے تھے۔

(نسائی کتاب الصیام باب کیف یصوم ثلا ثة ایام حديث نمبر2374)

البتہ آپ نے حاجی کو عرفہ کے دن 9 ذوالحجہ کو روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔

(ابوداؤد کتاب الصوم باب صوم یوم عرفة حديث نمبر 2084)

10؍ محرم کا روزہ

قریش جاہلیت میں عاشورہ یعنی 10؍محرم کا روزہ رکھتے تھے اور یہ طریق غالباً یہود کے اثر کی وجہ سے تھا۔ کیونکہ ان کے خیال میں 10؍محرم کو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات دی تھی اور حضرت موسیٰ اس نشان کی یاد میں روزہ رکھتے تھے۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں 10؍محرم کو روزہ رکھتے رہے۔ جب آپ مدینہ تشریف لائے اور معلوم ہوا کہ یہود یہ روزہ حضرت موسیٰ کی اتباع میں رکھتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ میں تمہاری نسبت موسیٰ سے زیادہ محبت کرتا ہوں اور اتباع کا حقدار ہوں۔ چنانچہ آپ نے بھی یہ روزہ رکھا اور دیگر مسلمانوں کو حکم دیا۔ مگر رمضان کے احکام آنے کے بعد آپ نے اس کی پابندی کروانی ترک کر دی۔ آپ روزہ رکھتے تھے اور صحابہ میں سے جو چاہتا تھا روزہ رکھتا اور جو چاہتا نہ رکھتا۔ 

(صحیح بخاری کتاب الصوم باب صیام یوم عاشورا٫۔ حديث نمبر 1862تا1868)

حضرت ابوہريرہؓ بيان کرتے ہيں کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا رمضان کے بعد سب سے افضل روزے اللہ کے نزديک محرم کے مہينہ کے ہيں۔ ايک شخص نے رسول اللہؐ سے پوچھا کہ آپ مجھے رمضان کے بعد کس مہينہ ميں روزے رکھنے کا ارشاد فرماتے ہيں تو آپؐ نے فرمايا:

اگر تم ماہ رمضان کے بعد کسی اور مہینہ میں روزے رکھنا چاہتے ہو تو محرم میں رکھو کیونکہ یہ اللہ کا مہینہ ہے۔ اس میں ایک ایسا دن ہے جس میں اللہ نے ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی اور اسی ماہ میں آخرین کی توبہ قبول فرمائے گا۔

(جامع ترمذی کتاب الصوم باب صوم المحرم حديث نمبر672,671)

ايام بيض

حضرت ابن عباسؓ بیان فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایام بیض یعنی ہر چاند کی 13-14-15تاریخ کو باقاعدگی سے روزے رکھتے تھے۔                                                     

(نسائی کتاب الصیام باب صوم النبی صلی اللہ علیہ وسلم حديث نمبر2305)

آپ ﷺ صحابہ ؓکو بھی ان ایام کے روزوں کی ترغیب دلاتے اور فرماتے ہیں صوم الشھر یہ مہینہ بھر کے روزوں کا ثواب رکھتے ہیں۔

(نسائی کتاب الصیام باب کیف یصوم ثلاثة ایام من کل شھر حديث نمبر2388)

ايام تشريق

ایام تشریق سے مراد ذوالحجہ کی 13،12،11تاریخیں ہیں۔ یہ وہ دن ہیں جو حاجی لوگ منٰی میں گزارتے ہیں۔حضرت عروہ بن زبیر ؓاور حضرت عائشہ ؓایام تشریق میں روزے رکھتے تھے۔

(بخاری کتاب الصوم باب صیام ایام التشریق)

ایک روایت میں حضرت عروہ ؓکی بجائے حضرت ابوبکر ؓ کا ذکر ہے۔

(فتح الباری)

(ايام تشريق کے روزوں کے متعلق علماء ميں اختلاف ہے)

ہرسوموار اور جمعرات

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہرہفتہ میں دو دن باقاعدگی سے یعنی سوموار اور جمعرات کو روزہ رکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ ان دنوں میں اعمال خدا کے حضور پیش کیے جاتے ہیں اور میں پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال اس حال میں پیش ہوں کہ میں روزہ دار ہوں۔

(سنن نسائی کتاب الصیام باب صوم النبی صلی اللہ علیہ وسلم حديث نمبر2318)

صحابہ بھی ان روزوں کا التزام کرتے تھے ۔چنانچہ حضرت اسامہ ؓنے بڑھاپے میں ان دنوں کے روزے رکھے تو ان کے غلام نے کہا آپ تو بوڑھے ہیں پھر ان دنوں میں کیوں روزے رکھتے ہیں۔ فرمایا اس لیے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی سنت ہے۔

(ابو داؤد کتاب الصوم باب فی صوم الاثنین والخمیس حديث نمبر2080)

ہر ماہ تين روزے

ایک اورروایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر ماہ تین روزے رکھتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓفرماتی ہیں کہ ان روزوں کے لیے کوئی مقررہ ایام نہیں تھے۔

(مسلم کتاب الصیام باب استحباب صیام ثلاثة ایام حديث نمبر1974)

حضرت ابو ہریرہ ؓیہ تین روزے باقاعدگی سے رکھتے تھے اور فرماتے تھے میرے آقا نے مجھے اس کی نصیحت فرمائی ہے۔

(بخاری کتاب الصوم باب صیام ایام البیض حديث نمبر1845)

کفارہ کے روزے

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بعض جگہ کفارہ یا جرمانہ کے طور پر روزے رکھنے کا بھی ارشاد فرمایا ہے مثلا ًحالت احرام میں شکار ، کفارہ قسم ،کفارہ قتل، یا ظہار ،صحابہ سے جب کوئی ایسی غلطی ہو جاتی تو شرح صدر سے روزے رکھتے اور خدا کو راضی کرتے۔رسول اللہ ﷺ نےایک بار فرمایا جو نکاح کرنا چاہتا ہے مگر مالی توفیق نہیں وہ روزے رکھے۔

(بخاری کتاب الصوم باب الصوم لمن خاف علی نفسہ العزبۃ حديث نمبر 1905)

روزے کي تلاش

یوں لگتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھنے کے لیے کسی بہانے کی تلاش میں رہتے تھے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے وقت دریافت فرماتے کہ گھر میں کھانے کو کچھ ہے۔ میں عرض کرتی یا رسول اللہ کوئی چیز نہیں تو فرماتے کہ پھر میں روزہ رکھ لیتا ہوں۔             

(مسلم کتاب الصیام باب جوازصوم النافلة بنیة من النھار حديث نمبر1950)

حضرت ابو الدرداء ؓ، حضرت ابو طلحہؓ ، حضرت ابوہریرہؓ، حضرت ابن عباس ؓاور حضرت حذیفہ ؓبھی اسی سنت پر عمل پیرا تھے۔

(بخاری کتاب الصوم باب اذانوی بالنھار صوماً)

یہ بتانے کے لیے کہ نفلی روزوں کے لیے سال کا کوئی حصہ یا موسم مخصوص نہیں ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سال کے ہر حصہ میں روزے رکھے۔ حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی اس طرح مسلسل روزے رکھتے تھے کہ دیکھنے والا کہتا تھا آپؐ روزے کبھی نہیں چھوڑیں گے اور کبھی روزے اس طرح چھوڑ دیتے کہ دیکھنے والا کہتا آپؐ اب روزے نہیں رکھیں گے۔

(بخاری کتاب الصوم باب مايذکر من صوم النبی صلی اللّٰہ عليہ وسلم حديث نمبر1835)   

اس طرح بھی آپؐ نے اپنے نام لیواؤں کے لیے وسعت اور سہولت پیدا فرمائی ۔

صوم الوصال

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم روزوں میں وصال بھی کرتے تھے۔ جس سے مراد یہ ہے کہ آپ بغیر افطار کیے روزہ مسلسل جاری رکھتے تھے۔ یہ آپ کی غیرمعمولی خداداد صلاحیت اور طاقت تھی۔ جب صحابہ نے آپ کی تقلید کرنا چاہی تو آپ نے اس سے منع فرمادیا اور فرمایا: مجھے تو میرا رب کھلاتا پلاتا رہتا ہے۔ اس لیے تم اتنی ہی تکلیف اٹھاؤ جتنی تم میں طاقت ہے۔ مگر جب بعض صحابہ نے جوش محبت اور اتباع میں صوم وصال شروع کیے تو آپؐ نے دو دن متصل روزہ رکھا تیسرے دن اتفاق سے چاند نظر آگیا تو آپؐ نے فرمایا اگر چاند نہ نکلتا تو میں اور مسلسل روزے رکھتا۔ آپؐ کا یہ ارشاد ان پر ناراضگی کے اظہار کے لیے تھا۔

(صحیح بخاری کتاب الصوم باب التنکیل لمن اکثر الوصال حديث نمبر1829)

حُکماًروکنا پڑا

ایک دفعہ چند صحابہ ؓخاص اس غرض سے ازواج مطہرات کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادات کے حالات دریافت کریں۔ وہ سمجھتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رات دن عبادات کے سوا کچھ نہ کرتے ہوں گے۔ حالات سنے تو ان کے معیار کے موافق نہ تھے۔ بولے کہ بھلا ہم کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا نسبت؟ ان کے تو اگلے پچھلے سب گناہ خدا نے معاف فرما دیے ہیں۔ ایک صحابی نے کہا کہ اب میں رات بھر نماز پڑھا کروں گا۔ دوسرے نے کہا کہ میں عمر بھر روزہ رکھوں گا۔ تیسرے نے کہا کہ میں کبھی شادی نہیں کروں گا۔ اسی اثناء میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور فرمایا خدا کی قسم میں تم سب سے زیادہ خدا کی خشیت اور تقویٰ رکھنے والا ہوں لیکن میں بعض دن روزہ بھی رکھتا ہوں اور بعض وقت نہیں رکھتا اور نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔

(صحیح بخاری کتاب النکاح باب الترغیب فی النکاح حديث نمبر4675)

صحابہ کا ذوق و شوق

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ صائم الدھر رہتے تھے یعنی کسی وقفہ کے بغیر مسلسل روزے رکھتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی تو آپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا کہ ہر ماہ تین روزے رکھ لیا کرو۔ چونکہ ہر نیکی کی جزا دس گنا ہے اس لیے تیس روزوں کا اجر ملے گا اور اس طرح تم خدا کی نظر میں مسلسل روزہ دار قرار پاؤ گے۔ حضرت عبداللہ نے عرض کیا یا رسول اللہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ فرمایا دو دن کے وقفہ کے بعد ایک روزہ رکھ لیا کرو۔ عرض کیا میں اس سے بھی زیادہ طاقت رکھتا ہوں تو فرمایا حضرت داؤد علیہ السلام کی طرح روزے رکھو یعنی ایک دن روزہ اور ایک دن ناغہ اور یہ سب سے زیادہ متوازن طریق ہے۔ حضرت عبداللہ نے پھر عرض کیا کہ میں اس سے بھی زیادہ طاقت رکھتا ہوں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے زیادہ اجازت عطا نہ فرمائی۔ حضرت عبداللہ ایک لمبے عرصہ تک اسی حکم کے مطابق صوم داؤدی پر عمل پیرا رہے مگر بڑھاپے میں جب جسمانی طاقت بہت کم ہو گئی تو فرماتے تھے کاش میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی رخصت کو قبول کر لیتا ۔

(بخاری کتاب الصوم باب صوم الدھر حديث نمبر1840 و حق الجسم فی الصوم حديث نمبر1839)

حضرت عبداللہ بن حارث ؓرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مل کر گئے ایک سال بعد دوبارہ حاضر خدمت ہوئے تو صورت اس قدر بدل چکی تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پہچان نہ سکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری صورت تو بہت اچھی تھی تمہیں کیا ہوا تو انہوں نے کہا جب سے آپ سے مل کر گیا ہوں صرف رات کو کھانا کھاتا ہوں یعنی مسلسل روزے رکھتا ہوں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

تم نے اپنے نفس کو کیوں اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے رمضان کے روزے رکھو اور ہر ماہ ایک روزہ رکھو۔ انہوں نے کہا مجھ میں زیادہ طاقت ہے کچھ اور بڑھائیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو روزے رکھو۔ پھر ان کے اصرار پر تین روزوں کی اجازت دی۔ انہوں نے مزید اصرار کیا تو فرمایا حرمت والے مہینوں یعنی ذیقعدہ، ذی الحجہ اور محرم میں روزے رکھو۔ اس طرح کہ تین دن روزہ رکھو اور پھرتین دن ناغہ کرو۔

(سنن ابو داؤد کتاب الصوم باب فی صوم  اشھرالحرم حديث نمبر2073)

حضرت صرمہ بن قیس انصاریؓ روزہ دار تھے۔ باہر سے گھر واپس آئے بیوی سے کھانا مانگا مگر گھر میں کچھ نہ تھا وہ کوئی چیز حاصل کرنے باہر گئیں تو سارے دن کی تھکاوٹ کی وجہ سے حضرت صرمہ کی آنکھ لگ گئی اور وہ کچھ نہ کھا سکے اور اگلے دن بھی اسی بھوک کے عالم میں روزہ کے ساتھ کام پر نکل کھڑے ہوئے مگر دوپہر کو بھوک کی شدت سے بیہوش ہو گئے۔

(صحیح بخاری کتاب الصوم حديث نمبر1782)

حضرت ابو امامہ الباھلی ؓنے متعدد غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شہادت کی دعا کی درخواست کی مگر آپ نے سلامتی کی دعا کی۔ ایک غزوہ سے واپسی پر انہوں نے عرض کی کہ مجھے ایسا عمل بتائیں جس سے خدا مجھے نفع دے تو آپؐ نے فرمایا روزے رکھا کرو کیونکہ اس کا کوئی بدل نہیں۔چنانچہ ابو امامہ اور ان کی بیوی اور ان کا خادم روزوں کا خاص اہتمام کرتے تھے حتیٰ کہ روزہ ان کے گھر کی امتیازی علامت بن گئی اور اگر کسی دن ان کے گھر میں آ گ یا دھواں نظر آتا تو لوگ سمجھ لیتے کہ ان کے ہاں کوئی مہمان آیا ہوا ہے۔ جس کے لیے گھر میں کھانا پک رہا ہے۔ انہوں نے اپنے طریق کار سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی تو آپ نے انہیں مزید خوشخبریاں دیں۔

(مسند احمد حديث نمبر21171)

حضرت ابو طلحہ انصاریؓ عہد رسالت میں غزوات میں شرکت کی وجہ سے روزے نہ رکھ سکے اس لیے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد انہوں نے اس کی تلافی کرنی شروع کی اور 40برس روزوں کا اہتمام کرتے رہے۔

(اسد الغابہ جلد نمبر2صفحہ233)

ایک شخص نے پوچھا کہ میری ماں فوت ہو گئی ہے اس پر ایک ماہ کے روزے فرض تھے کیا میں اس کی طرف سے رکھوں تو رسول اللہ ﷺ نے اجازت دی ابن عباس کے مطابق ایک عورت نے ماں کی طرف سے نذر کے 15روزے رکھنے کی اجازت مانگی ۔

(بخاری کتاب الصوم باب من مات وعلیہ صوم حديث نمبر 1953)

بعض صحابہ ؓسفر میں بھی اور بعض مسلسل روزہ رکھنے کی اجازت مانگتے تھےبعض کو تو رسول اللہ ﷺ نے سفر میں روزہ کی اجازت عطا فرمائی مگر ساتھ ہی فرمایا اللہ کی رخصت سے فائدہ اٹھانا بہتر ہے

(فتح الباری شرح بخاری کتاب الصوم باب الصوم فی السفر جلد 4صفحہ 180)

اور اصولی حکم یہ دیا کہ سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں ہے۔

(بخاری کتاب الصوم باب قول النبی لمن ظلل علیہ حديث نمبر1946)

قوت کا راز

اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں یہی پاکیزہ ادائیں صحابہ ؓکی قوت اور فتوحات کا راز تھیں اور یہ امر ان کے دشمنوں کو بھی تسلیم تھا۔ حضرت عمر ؓکے دَور میں رومیوں سے جنگیں ہو رہی تھیں کہ ایک جنگ میں رومی شکست کھا کر قیصر روم ہر قل کے پاس انطاکیہ جا پہنچے۔ ہرقل نے ان سے پوچھا مسلمان تمہارے جیسے انسان ہیں تم تعداد میں ان سے زیادہ ہو پھر تمہاری شکست کا کیا سبب ہے۔ لشکر کے سرداروں میں سے ایک بوڑھے نے جواب دیا مسلمان اس لیے غالب آتے ہیں کہ وہ راتوں کو جاگ کر خدا کی عبادت کرتے ہیں۔ وہ دن کو خدا کے لیے روزہ رکھتے ہیں۔ کوئی عہد کریں تو اسے وفا کرتے ہیں۔ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور آپس میں برابری اور مساوات کا معاملہ کرتے ہیں۔ مگر ہم لوگ ہیں کہ شراب پیتے ہیں، زناکرتے ہیں، حرام کاری کرتے ہیں، وعدہ خلافی کرتے ہیں، ظلم ڈھاتے ہیں اور اللہ کی ناراضگی والا کام کرتے ہیں اور زمین میں فساد کرتے ہیں تو ہم لوگ کس طرح غالب آ سکتے ہیں۔(البدايہ والنھايہ جلد نمبر7صفحہ 15)

چراغ سے چراغ

صحابہ ؓروزوں کا یہی ذوق و شوق اپنی آئندہ نسلوں میں بھی منتقل کرتے تھے۔ایک بار حضرت عمر ؓنے رمضان میں ایک بدمست کو یہ کہہ کر سزا دی کہ رمضان میں ہمارے بچے تک روزہ رکھتے ہیں اور تو اس سے محروم ہے۔

(بخاری کتاب الصوم باب صوم الصبیان)

حقیقت یہ ہے کہ روزہ سے محرومی برکتوں سے محرومی ہے، تقویٰ سے محرومی ہے او روزہ سے محبت اور اپنائیت ایمان اور تعلق باللہ کا بلند تر زینہ اور جسمانی اور روحانی فتوحات کا پیش خیمہ ہے۔ یہی تاریخ کا کھلا کھلا اعلان اور فیصلہ ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button