حضرت مصلح موعود ؓمتفرق مضامین

رمضان کے روزے

خطبہ جمعہ سیدناحضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعودرضی اللہ عنہ فرمودہ11؍جون1920ء

[1920ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے رمضان المبارک کے دوران روزوں کی اہمیت کے حوالے سے ایک نہایت پر معارف خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں احباب جماعت کو عملی طور پر رمضان کی برکات سے مستفیض ہونے کی تلقین فرمائی۔رمضان کی آمد کی مناسبت سے قارئین الفضل انٹرنیشنل کے استفادہ کے لیے اس خطبہ جمعہ کے متن کاکچھ حصہ پیش ہے۔ اللہ ہم سب کو اس ماہ کی برکات سے خوب فیض حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔مدیر]

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تشہدوتعوّذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۔(البقرۃ:184)

اور فرمایا:

‘‘روزوں کی فلاسفی اور ان کی غرض اور ان کے فرض کیے جانے کے اسباب و فوائد کے متعلق بہت دفعہ ہماری جماعت کو بتایا جاتارہا ہے اور یہ ایسا مسئلہ ہے کہ علمی طور پر اس مسئلہ کے متعلق بھی کچھ اور زیادہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ علمی طور پر روزے کی اہمیت اور اس کی فلاسفی اور اس کے فوائد پر جماعت میں ہمیشہ سے روشنی ڈالی جاتی رہی ہے مگر کسی مسئلہ کا علمی طور پر کامل ہونا کسی جماعت کے لیے کافی نہیں ہوتا جب تک عملی طور پر بھی اس میں کمال حاصل نہ کرلے کیونکہ اگر علم کے ساتھ عمل نہ ہو تو علم فائدہ مند نہیں ہو سکتا۔

بلکہ بسا اوقات ایسا علم حسرت و اندوہ کا موجب ہوتا ہے۔ ایسا آدمی جس کو کوئی بیماری لاحق ہو جائے اور اس کے متعلق عام یہ خیال ہو کہ اس کا کوئی علاج نہیں مثلاً کوڑھ کا مرض ہے۔ اب تک اس بیماری کا یقینی علاج دریافت نہیں ہوا اور جس شخص کو حقیقی طور پر یہ مرض ہو جائے وہ اچھا نہیں ہوا۔ اس شخص کو صدمہ ہوتا ہے مگر پھر بھی وہ صبر کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ وہ جس مرض میں مُبتلا ہے وہ لاعلاج ہے لیکن برخلاف ازیں ایک دوسرا شخص جو ایک ایسے مرض میں مُبتلا ہو جس کا علاج ہے مگر کسی نہ کسی وجہ سے وہ اس علاج سے محروم رہتا ہے اس کو اس محرومی کا جو صدمہ اور اندوہ ہو گا وہ پہلے شخص سے کہیں زیادہ ہو گا یا مثلاً کسی ماں باپ کا کوئی بچہ مر جائے ان کو صدمہ ہوتا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ اب ہمیں نہیں ملے گا۔ وہ ہمیشہ کے لیے اس کو اپنے سے جُدا سمجھتے ہیں۔ سوائے مومنین کے جو آئندہ ملنے کی توقع رکھتے ہیں لیکن عام طور پر لوگوں کی فطرت یہی ہوتی ہے کہ وہ بچے کے متعلق یہی سمجھتے ہیں کہ یہ اب ہمیں نہیں ملے گا۔ یہ ایک سخت صدمہ ہے مگر اس کااثر چند روز میں کم ہو جائے گا مگر ایک دوسرے ماں باپ ہیں کہ ان کا بچہ مَرا نہیں بلکہ کھویا گیا ہے تو ان کا صدمہ پہلوں سے زیادہ ہو گا کیونکہ ان کا بچہ مَرا نہیں اس کا ان کو علم ہے۔ اس لیے وہ اس کے ملنے کے بھی آرزو مند ہیں مگر یہ علم ان کے لیے دُکھ اور صدمہ کا موجب ہوتاہے ایسے لوگ جن کی اولاد گم ہو جاتی ہے اور ان کو اس کا علم نہیں ہوتا کہ مر گیا ہے وہ آرزو کیاکرتے ہیں کہ کاش اس سے تو وہ مر جاتا تا اتنا دُکھ نہ ہوتا۔ پس ایک چیز کا علم کبھی دُکھ کا بھی موجب ہوتا ہے۔

اس کا ایک اور پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ اگر ایک شخص کو کسی کام کے متعلق علم نہ ہو اور وہ اس میں غلطی کرے تو وہ اس قدر قابلِ ملامت نہیں ہوتا جس قدر وہ شخص قابلِ ملامت ہے جس کواس کے متعلق علم ہو مگر باوجود علم کے وہ اسی غلطی کا مرتکب ہو۔

پس روزوں کے متعلق ہماری جماعت کو بہت حد تک بتا دیا گیا ہے گویا اس مسئلہ میں علمی پہلو مکمل ہے لیکن جب علم کے ساتھ عملی پہلو بھی مِل جائے تو بہت مکمل ہو جائے گا۔ اگر لوگوں کو روزے کی خوبی معلوم نہ ہو اور وہ نہ رکھیں تو ان کے لیے اتنا صدمہ نہیں ہو سکتا مگر جن کو معلوم ہو اور وہ باوجود علم کے نہ رکھیں ان کے لیے بہت بڑا صدمہ ہے اور وہ دوسروں کے نزدیک بھی زیادہ قابلِ ملامت ہیں۔

روزوں کا حکم بھُوکا رکھنے کے لیے نہیں۔ روزے میں جس قدر خوبیاں ہیں ان کے بیان کی یہاں گنجائش نہیں مگر مختصراً جو قرآن نے دو لفظوں میں بتایا ہے یہ ہے کہ

لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۔

روزوں کا حکم دینے سے خدا کی یہ غرض نہیں کہ تم بھُوکے مرو اور خدا تمہاری بھُوک کی حالت کا تماشہ دیکھے۔ اگر یہ غرض ہوتی تو وہ تمہارے لیے کھانے پینے کے اس قدر افراط کے ساتھ سامان کیوں پیدا کرتا۔ اس نے تمہارے کھانے اور پینے کی ہزار ہا چیزیں پیدا کی ہیں۔ پھر روزہ کا حکم دینے سے کیا مدِنظر ہے۔ فرمایا کہ روزے کا حکم اس لیے ہے تا تم ہلاکت سے بچ جاؤ پس خدا تعالیٰ نے روزے اس لیے مقرر فرمائے ہیں تاکہ تم محفوظ ہو جاؤ لیکن باوجود اس کے لوگ سُستی کرتے ہیں۔

بعض لوگ تو روزوں کے معاملہ میں افراط کی طرف گئے ہیں اور بعض تفریط کی طرف۔ جو لوگ افراط کی طرف گئے ہیں اُنہوں نے تو یہاں تک ترقی کی ہے کہ دودھ پیتے بچوں کو بھی روزے رکھوا دیے اور ان کو دودھ نہیں پینے دیا۔ حتّٰی کہ وہ اسی حالت میں مرگئے۔ ایک دفعہ اخبار میں پڑھا تھا کہ گرمی کے دنوں میں ایک لڑکی کو اس کے والدین نے روزہ رکھوا دیا۔ جب گرمی کی شدت ہوئی تو وہ لڑکی تڑپنے لگی۔ ماں باپ نے اس کے ہاتھ پاؤں پکڑ لیے کہ کہیں جاکر پانی نہ پی لے اور وہ ساتھ ساتھ روتے بھی جاتے۔ آخر لڑکی زور کر کے گھڑوں کی طرف گئی اور ان پر گر کر مر گئی۔

تو جنہوں نے افراط کی اُنہوں نے تو یہاں تک کی اور جو تفریط کی طرف گئے ہیں وہ اچھے خاصے موٹے ہٹے کٹے ہوتے ہیں مگر روزہ نہیں رکھتے۔ جب پوچھا جائے تو کہتے ہیں کہ تکلیف ہوتی ہے ۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم کب کہتے ہیں روزے اس لیے آتے ہیں کہ لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔ روزے تو آتے ہی اس لیے ہیں کہ تکلیف دی جائے اور وہ تکلیف بھی جو دی جاتی ہے اس میں تمہارا ہی فائدہ ہے۔ دیکھو ایک شخص کو بخار ہوتو اس کو کونین دی جاتی ہے اور جب کونین کھائی جائے گی تو مُنہ ضرور کڑوا ہو گا لیکن کونین اس لیے نہیں کھائی جاتی کہ کھانے والے کا مُنہ کڑوا ہو ہاں مُنہ ضرور کڑوا ہو گا مگر بخار بھی اُترجائے گا۔ اسی طرح ڈاکٹر اس لیے نشتر نہیں لگاتا کہ مریض کو دُکھ دے بلکہ اس کی یہ غرض ہوتی ہے کہ آرام ہو لیکن نشترسے دُکھ پہنچنا ضروری ہے۔ اسی طرح روزوں کی غرض یہ نہیں کہ تمہیں دُکھ دیا جائے لیکن اس میں شک نہیں کہ روزوں سے تکلیف ضرور ہوتی ہے۔ تو کیا وہ شخص دانا ہے جو کونین اس لیے نہ کھائے کہ وہ کڑوی ہوتی ہے اور اس پھوڑے میں جس نے اس کی زندگی تلخ کر رکھی ہو نشتر نہ لگانے دے کہ اس سے تکلیف ہوتی ہے۔ کونین سے مُنہ کڑوا ہو گا اور نشتر سے درد ہو گا مگر نتیجہ اس کا یہ ہو گا کہ تکلیف دُور ہو جاوے گی۔ اس طرح روزہ بے شک تکلیف دیتا ہے لیکن یہ نشتر ہے ان ہزاروں پھوڑوں کے دُور کرنے کا جو انسان کی روح میں ہوتے ہیں۔ وہ شخص جاہل ہے جو بخار سے بھُنا جاتا ہے مگر کونین اس لیے کھانے سے انکار کرتا ہے کہ مُنہ کڑوا ہوتا ہے یا وہ جو نشتر اس لیے نہیں لگواتا کہ اس سے تکلیف ہوتی ہے حالانکہ ایک ایسا پھوڑا اس کو نِکلا ہوا ہے جو اس کے لیے ایک عذاب ہے۔ کونین کڑوی ہے، نشتر تکلیف دہ ہے مگر کیا اتنا جتنا بخار اوروہ خطرناک پھوڑا۔ پھوڑا تو وہ ہے جو اس کو موت کی طرف لے جارہا ہے اور نشتر وہ ہے جو اس کو زندگی دیتاہے۔

پس جو روزہ اس لیے نہیں رکھتا کہ تکلیف ہوتی ہے وہ گویا علاج سے بچنا چاہتاہے۔ یا وہ جو روزہ اس طرح رکھتا ہے کہ اپنی زندگی کو ختم کردے۔ یہ دونوں تفریط اور افراط کی راہ کو اختیار کرتے ہیں اور نادانی کرتے ہیں۔ جو اپنی جان کو ہلاک کرتا ہے وہ شریعت کا روزہ نہیں رکھتا اور جو بھُوک یا پیاس کے ڈر سے روزہ ترک کرتا ہے وہ بھی شریعت کے منشاء کو پورا نہیں کرتا۔

اگر بھُوک اور پیاس کی تکلیف سے بری ہوتے تو محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم ہوتے اور پھر اگر روٹی کی ضرورت نہ ہوتی تو وہ صحابہ ہوتے مگر سب کو بھُوک لگتی تھی۔ سب سے اعلیٰ نبیوں کی جماعت ہے جس کو بھُوک سے بچانا چاہیے تھا مگر ہم دیکھتے ہیں نبیوں میں سے سب سے بڑا نبی محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہے مگر وہ بھی پیٹ پر دو دو پتھر باندھے نظر آتا ہے۔(بخاری کتاب المغازی باب غزْوَۃ الْخَنْدَقِ …)پس اس سے معلوم ہوا کہ بھوک کی تکلیف سے کوئی محفوظ نہیں رہ سکتا ۔ اگر بھُوک کی تکلیف کے خیال سے روزہ ترک کرنا درست ہوتا تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے روزے معاف ہوتے۔

بعض نادان جو اپنے آپ کو تعلیم یافتہ سمجھتے ہیں لیکن درحقیقت جاہل ہوتے ہیں کہتے ہیں روزے اُس زمانہ کے لیے تھے جبکہ لوگ جاہل تھے اور وحشت ان پر غالب تھی اور وہ نفسانی جوشوں پر قابو پائے ہوئے نہ تھے مگر آج کل کے لوگ علمی طور پر بہت ترقی کر گئے ہیں اور ہم ایسی ترقی پاگئے ہیں کہ ہمیں ڈنڈے اور مشقتوں کے ذریعہ خدا کے جلال کا قائل نہیں کیا جاسکتا مگر ایسے لوگ نہیں جانتے کہ اگر عملی جدوجہد کے بغیر روحانی مراتب حاصل ہو سکتے تو محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے یہ جدوجہد ضروری نہ ہوتی کیونکہ ان سے زیادہ کون اپنے نفس پر قابو پانے والا ہو سکتا ہے اور علم میں کون آپ کا مقابلہ کر سکتا ہے مگر باوجود اس کے آپ ریاضت کرتے تھے۔ پھر جن کو وحشی اور نا تعلیم یافتہ کہا جاتا ہے ان کی قُربانیوں کا یہ لوگ کیا مقابلہ کر سکتے ہیں جو ان کو وحشی کہتے ہیں۔ یہ لوگ جو بڑے سے بڑا آئیڈیل پیش کر سکتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ قوم اور مُلک کی خاطر اپنی ذات کو قُربان کر سکتے ہوں۔ اگر ہم اسی کو مدِّنظر رکھیں اور صحابہ کے جوش اور قُربانیوں کو مذہبی نہ سمجھیں تو کیا اس کا بھی انکار کر دیا جائے گا کہ ان لوگوں نے اپنی قوم اور مُلک کے لیے جو جو قُربانیاں کیں ان کا عُشرِ عشیر بھی یہ لوگ نہیں کر سکتے۔

پس یہ تفریط کا پہلو ہے اور یہ نادانی کے خیالات ہیں۔ خدا کے احکام کو حیلے بہانوں سے ٹلانے کی کوشش نہ کرو۔ شریعتِ اسلام لعنت نہیں ہے بلکہ رحمت ہے۔ یہ فضل کی بارش ہے۔ فضلوں کی بارش سے نادان کے سوا کوئی نہیں بھاگتا۔ کیا وہ زمیندار دانا ہے جو وقت پر ہونے والی بارش سے اپنے کھیت کو بچانے کی کوشش کرے بلکہ وہ تو کوشش کرے گا کہ تمام پانی کو جمع کرے اور اگر اس میں دینداری اور تقویٰ نہ ہو تو وہ یہاں تک منصوبہ کرتا ہے کہ لوگوں کے کھیتوں کا پانی بھی اپنے کھیت ہی میں ڈال لے۔ وہ پانی کی حفاظت کے لیے منڈیریں بناتا اور سَوسَو جتن کرتا ہے۔ اسی طرح اسلام خدا کا فضل ہے۔ جو شخص اس کے احکام کی تعمیل سے بچنا چاہتا ہے وہ خدا کے ان فضلوں والی شریعت کو لعنت قرار دیتا ہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ اگر وہ شریعت کو لعنت نہیں سمجھتا تو اس سے بچنے کے لیے حیلے بہانے تلاش کرتا ہے۔

ہماری جماعت کو چاہیے کہ وہ خوب سمجھ لے کہ شریعت خدا کی رحمت ہے۔ اس کے احکام کو ٹلانے کے لیے بہانے تلاش کرنا جائز نہیں۔ وہ شخص جو شریعت کے احکام کو ٹلانا چاہتا ہے ہلاکت کو بُلاتا ہے اور گنہگار ہوتا ہے۔ گرمی کی شدّت کے باعث جو روزہ چھوڑتا ہے اس کو یاد رکھنا چاہیے کہ جہنم کی آگ کی گرمی اس سے بہت زیادہ تیز ہے۔ جب لوگوں نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے وقت میں جہاد سے بچنے کے لیے گرمی کا بہانہ تلاش کیا تو خدا نے فرمایا کہ

قُلْ نَارُ جَھَنَّمَ اَشَدُّ حَرًّا(التوبہ:81)

یہ گرمیاں اتنی گرم نہیں جتنی نارِ جہنم تیز گرم ہے۔ یہ دُنیا کی گرمیاں اس کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں۔

پس مَیں اپنی جماعت کو خاص نصیحت کرتا ہوں اور عورتوں کو خصوصاً اور مردوں میں سے ان کو جو حضرت صاحبؑ کے ان احکام کو دیکھتے ہیں جو آپ نے افراط کو توڑنے کے لیے دیے۔ لوگوں نے روزوں کی غرض کو ضائع کر دیا تھا۔ جب اُنہوں نے اس طرح روزے رکھنے شروع کر دیے کہ جان نِکل جائے مگر روزہ نہ جائے تو روزہ چونکہ انسان کی ہلاکت کے لیے نہیں بلکہ اس لیے ہے کہ لوگوں کی نجات کا موجب اور زندگی کا باعث ہو اس لیے اس افراط کے خلاف حضرت اقدسؑ نے فرمایا ہے جو کچھ فرمایا اگر حضرت صاحبؑ کا یہ منشاء ہوتا کہ یونہی عذر پر روزہ ترک کر دینا چاہیے تو آپؑ اس پر عمل بھی کرتے۔ آپؑ نے 74سال کی عمر پائی۔ اخیر عمر کے دنوں میں بوجہ بیماریوں کی کثرت کے آپؑ کے روزوں میں کمی آئی ورنہ آپؑ کے روزے نہیں جاتے تھے اور آپؑ کی غذا اس قدر کم ہوتی تھی کہ دوسرا آدمی دن بھر اس پر گزارہ نہیں کرسکتا۔ حالانکہ آپ کی تعلیم کا یہ منشاء ہوتا تو جتنا کام آپؑ کو اکیلے کرنا پڑتا تھا اور اکیلے آپؑ کو ساری دُنیا کا مقابلہ کرنا پڑتا تھا۔ آپ روزے نہ رکھتے لیکن باوجود اس شدّتِ کار اور اس کمزور صحت کے آپ روزے رکھتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ آپ کے روزے نہ جائیں۔

یہ حکم معمولی نہیں مگر افسوس ہے کہ افراط سے نِکل کر کچھ لوگ تفریط کی طرف چلے گئے ہیں۔ معمولی عُذر پر روزہ ترک کر دیتے ہیں خصوصاً عورتیں معمولی معمولی عُذرات پر روزے چھوڑ دیتی ہیں۔

پھر جو شخص روزہ نہیں رکھتا اور لوگوں کے سامنے کھاتا پیتا ہے تو یہ زیادہ گنہگار ہے کیونکہ اس کے اس عمل سے لوگوں کو ترکِ روزہ کی تحریک ہوتی ہے۔ اگر کوئی چوری کرتا ہے تو وہ چھپاتا ہے کہ پکڑا نہ جائے لیکن جو روزہ ترک کرتا ہے اور دوسروں کے سامنے کھاتا پیتا ہے وہ دوسروں کوتحریک کرتا ہے کہ روزہ چھوڑ دیں۔ ایسا آدمی شعائراﷲ کی ہتک کرتا ہے۔ پس ایسے گناہ جودوسروں کو نظر آتے اور دوسروں کے لیے تحریک کا موجب ہوتے ہیں زیادہ سزا کے مستوجب ہوتے ہیں جو لوگ شریعت کے احکام کو اس طرح ٹلاتے ہیں وہ گویا ظاہر کرتے ہیں کہ اسلام ساری دُنیا اور سب زمانوں کے لیے نہیں اور یہ اسلام پر ایسا حملہ ہے جس کا گناہ بہت بڑاگناہ ہے۔

یہ زمانہ رُوحانی ترقیات کا ہے اور روحانی ترقیات میں روزے ضروری ہیں۔ اس لیے ان کو مت چھوڑو۔ دُعاؤں کے ذریعہ قُرب تلاش کرو۔ ہاں جو بیمار ہیں، جن کو عُرف میں بیمار کہتے ہیں اور جو سفر میں ہو ان کے لیے بھی روزے معاف نہیں، وہ دوسرے ایام میں رکھیں۔ اگر تندرست سے تندرست شخص بھی طبیب کے پاس جائے تو وہ کوئی نہ کوئی تلاش کر کے مرض بتائے گا۔ ایسا مرض مرض نہیں بلکہ عُرف میں جس کو مرض کہتے ہیں وہ مرض ہوتا ہے اور اسی طرح سفر بھی وہ جواتفاقی طور پر پیش آئے لیکن جو شخص تاجر ہے یا جو ملازم ہے اور اس کا کام ہے کہ وہ دورہ کرے یہ سفر نہیں۔ سفر اتفاقی سفر کو کہتے ہیں جس کو مستقل سفر پیش رہے وہ مسافر نہیں۔ جیسے پھیری والا۔ زمیندار کہتے ہیں کہ ہمیں کام سخت کرنا پڑتا ہے، ہم نہیں روزہ رکھ سکتے۔ سو ان کو معلوم ہو کہ ان کا جو کام ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کے لیے جسمانی تکلیف کم ہو گئی ہے۔ اس سخت کام کے باعث ان کے پٹھوں کی حس کم ہو گئی ہے۔ تم نے دیکھا ہو گا کہ ایک دماغی کام کرنے والا اگر آپریشن کرائے تو اس کے لیے کلورافارم کی ضرورت ہوتی ہے اور زمیندار کہہ دیتا ہے کہ کلورا فارم کی ضرورت نہیں۔ وجہ یہ کہ دماغی کام کرنے والے کی حس تیز ہے اور اس کی کمزور۔ پس دماغی کام کرنے والے جو ہیں وہ اس محنت کو برداشت نہیں کر سکتے اس لیے دھوپ سے بچ کر کام کرتے ہیں اور زمینداروں کو جسمانی کام کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے اگر وہ روزہ رکھیں تو ان کی سختی پسند حالت کے باعث ان کے لیے کوئی تکلیف نہیں ہو سکتی۔ پڑھنے والا پڑھ پڑھ کر کمزور ہو گیا ہے اور زمیندار مضبوط بنایا گیا ہے۔ اس لیے اس قدرت کے سامان کے ماتحت زمینداروں کے لیے بھی روزہ کچھ مُشکل نہیں۔

مَیں اپنی جماعت کے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ توجہ کریں کہ نماز تو ایک ایسا حُکم ہے جو کسی حالت میں بھی چھوڑا نہیں جاسکتا لیکن روزہ ایسا ہے کہ بیماری اور سفر میں ملتوی کیا جاسکتا ہے۔ اس کا رکھنا ایمان کے حصول اور تقویٰ کے لیے ضروری ہے۔ جو لوگ ٹلاتے ہیں وہ اسلام کو دوسروں کی نظروں میں حقیر کرتے ہیں اور عملی طور پر وہ خود بھی گویا حقارت سے دیکھتے ہیں۔ پس اس سے بچو۔ یاد رکھو جو اسلام کے احکام کی حقارت کرتا ہے وہ اسلام کو چھوڑتا ہے اور اس نعمت کو ردّ کرتا ہے جوخدا کی طرف سے حاصل ہوتی ہے۔’’

(الفضل 17؍جون 1920ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

تبصرے 3

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button