الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

چند شہدائے احمدیت

ماہنامہ ‘‘خالد’’ ربوہ کے مختلف شماروں میں چند شہدائے احمدیت کا تذکرہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے خطباتِ جمعہ کے حوالے سے شامل اشاعت ہے۔

مکرم ملک نصیر احمد صاحب شہید

آپ کے والد مکرم غلام علی صاحب 1911ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کے ہاتھ پر بیعت کرکے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ آپ 1913ء میں فیض اللہ چک میں پیدا ہوئے۔ عملی زندگی کا آغاز محکمہ پولیس کی ملازمت سے کیا اور 1967ء میں بطور سب انسپکٹر ریٹائرڈ ہونے کے بعد وہاڑی میں مستقل رہائش اختیار کرلی۔ آپ وہاڑی کی ایک بااثر شخصیت تھے۔ ایک جیننگ فیکٹری کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ فلپس کمپنی کی ایجنسی بھی آپ کے پاس تھی۔ نہایت دبنگ، غریبوں کے ہمدرد اور بڑے مہمان نواز تھے۔ آپ سالہا سال تک جماعت احمدیہ وہاڑی کے سیکرٹری امور عامہ رہے۔ دو دفعہ زعیم اعلیٰ انصاراللہ بنے اور جولائی 1998ء سے صدر کے عہدہ پر فائز تھے۔ بڑے نڈر داعی الی اللہ تھے۔ خلافت سے بے انتہا محبت تھی۔ باجماعت نماز کے پڑے پابند تھے حتی کہ85 سال کی عمر میں بھی مسجد جاکر تمام نمازیں ادا کرنے کی کوشش کرتے۔

4؍اگست 1998ء کو مسجد میں نماز فجر کی ادائیگی کے لیے کار پر گئے۔ مسجد کے پاس ابھی آپ کار سے اترے ہی تھے کہ پہلے سے گھات لگاکر بیٹھے ہوئے حملہ آوروں نے آپ پر فائرنگ کردی۔ ایک گولی سینے میں لگی جس سے موقع پر ہی آپ نے جامِ شہادت نوش کیا۔ حملہ آور آپ کی گاڑی لے کر فرار ہوگئے۔ جب دیگر نمازی آئے تو انہوں نے آپ کو مسجد کے قریب شہید ہونے کی حالت میں پایا۔ اسی دن آپ کی نعش ربوہ لائی گئی جہاں بعد نماز جنازہ تدفین ہوئی۔پسماندگان میں آپ نے دو بیٹے اور چار بیٹیاں چھوڑیں۔

مکرم ماسٹر نذیر احمد صاحب بھگیو شہید

آپ کے پڑنانا حضرت اخوند محمد رمضان صاحبؓ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی سعادت 1898ء میں نصیب ہوئی۔

مکرم ماسٹر نذیر احمد صاحب قریباً چوبیس سال نوابشاہ کے قریبی گاؤں میں بطور پرائمری ٹیچرمتعیّن رہے۔ آپ بہت نیک، متقی، تہجد گزار بزرگ تھے۔ خاموش طبع، بے لوث خدمت کرنے والے اور مخلص انسان تھے۔ احمدیوں اور غیراحمدیوں میں یکساں ہردلعزیز تھے۔

ایک عرصہ سے دو تین مولوی ماسٹر صاحب کو دھمکیاں دے رہے تھے کہ یہاں سے چلے جاؤ ورنہ ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے۔ رات کے وقت وہ کبھی کبھی آپ کے گھر میں پتھر بھی پھینکتے تھے۔10؍ اکتوبر 1998ء کی صبح نماز فجر کی ادائیگی کے بعد جب آپ گھر پر ہی تھے کہ آپ کے دروازے کی گھنٹی بجی۔ جیسے ہی آپ باہر نکلے تو ایک آدمی نے آپ پر پستول سے فائر کیا۔ آپ دروازہ پر گر گئے اور موقع پر ہی شہید ہوگئے۔ آپ کے پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ چار بیٹے اور تین بیٹیاں شامل تھے۔

مکرم چودھری عبدالرشید شریف صاحب شہید

آپ محترم مولانا چودھری محمد شریف صاحب مرحوم سابق مبلغ بلادِ عربیہ و مغربی افریقہ اور محترمہ فضل بی بی صاحبہ مرحومہ کے بیٹے تھے۔ حیفا فلسطین میں1941ء میں پیدا ہوئے۔ صرف دو سال کے تھے کہ والدہ وفات پاگئیں اور آپ کی پرورش آپ کی دوسری والدہ محترمہ حکمت عباس عودہ صاحبہ نے نہایت ہی محبت اور خوش خلقی کے ساتھ کی۔

آپ دسمبر 1955ء میں اپنے والد محترم کے ہمراہ پاکستان آئے۔ تعلیم الاسلام کالج ربوہ سے بی۔اے اور لاہور کالج سے ایم۔اے کرنے کے بعد CSP کے مقابلہ کے امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کی اور پنجاب میں بطور ڈپٹی سیکرٹری فنانس مقرر ہوئے۔ متعصب مولوی اگرچہ آپ کے خلاف شدید پراپیگنڈہ کرتے رہے مگر آپ کی ایمانداری اور اعلیٰ کارکردگی کی وجہ سے حکومت اُن کو الگ نہ کرسکی بلکہ آپ ترقی کرتے رہے۔ ایک موقع پر منفی سفارش کے ساتھ آپ کا معاملہ صدر ضیاء تک بھی پہنچا تو اُس نے آپ کی ملازمت ختم کرنے کا حکم جاری کر دیا مگر جب گورنر پنجاب جنرل سوار خان نے آپ کی فائل صدر کو بھجوائی کہ دیکھ تو لو یہ کیسا افسر ہے تو پھر اُسے یہ نیا حکم جاری کرنا پڑا کہ سردست اسے کسی اَور جگہ تبدیل کردیا جائے۔

شہید مرحوم رفاہی کاموں میں دل کھول کر حصہ لیتے تھے۔ 30؍اکتوبر1998ء کی شام کو آپ کو احمدیت کے جرم میں بڑی بیدردی سے شہید کردیا گیا۔ آپ نے اپنے پیچھے بیوہ نازی سعید صاحبہ کے علاوہ ایک بیٹا اور دو بیٹیاں چھوڑے۔

مکرم سلیم احمد صاحب پال شہید

آپ مکرم خدابخش پال صاحب اور محترمہ سلیمہ بی بی صاحبہ کے ہاں ڈسکہ کلاں ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ بعد ازاں پہلے ربوہ اور پھر کراچی منتقل ہوگئے۔ منظور کالونی کراچی میں شہید ہونے والے عبدالرحمٰن باجوہ صاحب کی شہادت کے دو ہفتے بعد10؍ نومبر1994ء کی رات جب آپ اپنی دکان بند کرکے گھر کی طرف جا رہے تھے تو دو موٹرسائیکل سواروں نے آپ پر اندھا دھند فائرنگ کرکے آپ کو موقع پر ہی شہید کر دیا۔ شہید مرحوم نے اہلیہ محترمہ رفیعہ بیگم صاحبہ کے علاوہ پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں نیز تین بھائی اور تین بہنیں یادگار چھوڑے۔

مکرمہ مبارکہ بیگم صاحبہ شہید

آپ چونڈہ کے ایک مخلص احمدی مکرم میاں محمد عبداللہ صاحب بٹ کی بیٹی تھیں۔ دعوت الی اللہ کا کام بڑے جوش اور جذبہ سے کرتی تھیں۔ چنانچہ آپ کی کوششوں سے چونڈہ کے نواحی گاؤں ڈوگرانوالی میں دو بہن بھائی فروری 1999ء میں احمدی ہوگئے۔ چونکہ اس گاؤں میں اَور کوئی احمدی نہ تھا اس لیے دونوں نومبائعین کو کافی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ آپ نے دونوں کا بہت خیال رکھا اور ہر مشکل میں انہیں حوصلہ اور تسلّی دیتی رہیں۔ اس مقصد کی خاطر آپ اُن کے گاؤں چلی جاتی تھیں۔ آخری بار یکم مئی1999ء کو وہاں گئیں تاکہ اُن کے والد کو زیارتِ مرکز کے لیے ربوہ لے جانے کا پروگرام بنائیں۔ نومبائع عابد حسین اپنے کسی کام کی غرض سے سیالکوٹ گئے ہوئے تھے لہٰذا ان کی واپسی کا انتظار کرتے کرتے دیر ہوگئی اور پھر کوئی سواری نہ ملنے کی وجہ سے آپ کو ڈوگرانوالی میں ہی رات ٹھہرنا پڑا۔

نومبائعین کا ایک سوتیلا بھائی رفاقت حسین جو مجرمانہ ذہنیت کا مالک تھا اور منشیات اور چوری وغیرہ کے کئی مقدمات میں ملوث تھا، وہ گھر میں احمدیت لانے کی ذمہ دار مبارکہ بیگم صاحبہ کو سمجھتا تھا لہٰذا ن کا سخت دشمن تھا۔ چنانچہ اُس نے اگلے روز 2؍ مئی کی صبح آپ پر چھریوں کے پے در پے وار کرکے آپ کو شدید زخمی کر دیا ۔ آپ کو سیالکوٹ کے ہسپتال میں پہنچایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے آپ کا آپریشن کیا۔ بظاہر آپریشن کامیاب رہا لیکن چند دن بعد آپ کی حالت بگڑگئی اور 9؍مئی کو آپ وفات پاگئیں۔ آپ کے پسماندگان میں آپ نے خاوند مکرم عمر سلیم صاحب کے علاوہ تین بیٹے، دو بیٹیاں اور والدہ پسماندگان میں چھوڑے۔

مکرم ملک محمد دین صاحب شہید

حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے شہدائے احمدیت سے متعلق اپنے خطباتِ جمعہ میں مکرم ملک محمد دین صاحب مرحوم کو بھی شامل فرمایا جو ساہیوال کیس میں اسیرراہ مولیٰ ہونے کے دوران وفات پاگئے تھے۔

محترم ملک محمد دین صاحب ‘فیض اللہ چک’ کے ایک نواحی گائوں کے رہنے والے تھے ۔ آپ کے والدکا نام فقیرعلی تھا۔ تقسیم ہند کے بعدآپ کا خاندان ساہیوال شہر میں آباد ہوا۔ آپ 1940ء کے لگ بھگ پولیس میں بھرتی ہوئے اور 1976ء میں انسپکٹر پولیس کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ۔ اکتوبر 1984ء میں ساہیوال کی احمدیہ مسجد پر حملے کے واقعے کے بعد جن گیارہ بے گناہ افراد کے خلاف جھوٹا مقدمہ قائم کیا گیا اُن میں سے ایک آپ بھی تھے۔ آپ کو رات کے وقت دھوکہ دے کر آ پ کے گھرسے پولیس نے اس حال میں گرفتارکیا کہ آپ کو جوتا تک پہننے کی مہلت نہ دی اور اس کے بعد سات سال تک آپ ساہیوال اور ملتان کی جیلوں میں اسیر رہے ۔ اس دوران پیرانہ سالی میں آپ نے طرح طرح کی صعوبتیں بڑی خندہ پیشانی اور جذبہ ایمانی کے ساتھ برداشت کیں۔ آپ کو 1985ء میں جب فوجی عدالت کی طرف سے 25 سال قید کی سزا سنائی گئی تو آپ نے بے اختیار کہا کہ 75 سال تو میری عمر ہوچکی ہے اب 25 سال مزید کہاںمیں قیدوبند میں رہوںگا!۔ آخر نومبر 1991ء میں سات سال قیدوبند کی صعوبتیں جھیلتے ہوئے جیل ہی میں آپ نے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کرکے شہادت کاعظیم مرتبہ پا لیا۔ مرحوم نے دو بیٹے اور چار بیٹیاں یادگار چھوڑیں جو سب شادی شدہ، صاحب اولاد اور خوش حال ہیں۔

………٭………٭………٭………

بینکوں کا آغاز

ماہنامہ ‘‘خالد’’ ربوہ جون 2011ء میں بینکوں کے آغاز سے متعلق ایک معلوماتی مضمون مکرم ڈاکٹر عطاء الودود صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

بینک اطالوی زبان کے لفظ بینکو (Banco) سے اخذ کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے بنچ۔اطالوی تاجر بنچ پر بیٹھ کر کاروبار کیا کرتے تھے۔دورِ وسطی میں پہلے یہودی پیسے اُدھار دینا اور لوگوں کے زائد پیسے کو سنبھال کر رکھنے کا کام کیا کرتے تھے پھر یہ کام سناروں نے شروع کردیا۔ بینکو کا لفظ کئی تبدیلیوں سے گزرتا ہوا بینک بن گیا۔

جدید بینکنگ سسٹم کا آغاز 1587ء میں اٹلی کے شہر وینس میں ہوا جب بینکو دی ریالٹو قائم کیا گیا۔لوگ اس بینک میں رقم اور زیور جمع کرواسکتے تھے۔ بینک جو رسید جاری کرتا اُس کا استعمال کرنسی نوٹ کے طور پر کیا جاتا تھا۔ امریکہ میں پہلا بینک فلاڈلفیا میں 1782ء میںقائم کیا گیا جبکہ انگلینڈ کا پہلا بینک 1825ء میں شروع ہوا۔انڈیا میں پہلا بینک 1804ء میں ‘دی پریزیڈنسی بینک آف بمبئی’ قائم ہوا لیکن باقاعدہ مکمل بینک 1894ء میں پنجاب نیشنل بینک کے نام سے جاری ہوا۔ انڈین حکومت نے اپریل 1835ء میں ریزرو بینک آف انڈیا قائم کیا۔ پاکستان کے مرکزی بینک یعنی اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا سنگ بنیاد قائداعظم محمد علی جناح نے یکم جولائی 1948ء کو رکھا۔

٭…٭…٭

روزنامہ ‘‘الفضل’’ ربوہ 7؍جنوری 2013ء میں مکرم مولوی ظفر محمد ظفر صاحب کی ایک نعت شامل اشاعت ہے۔ اس نعت میں سے انتخاب پیش ہے :

صاحبِ لولاک ختم الانبیاء

مقتدائے انبیاء و اصفیاء

تیری آمد سے ہے یہ عقدہ کھلا

ارفع و اعلیٰ ہے تُو بعد از خدا

لاجرم ہے تُو ہی ختم الانبیاء

تُو ہے سِرِّ ابتدائے زندگی

تیری ہستی منتہائے زندگی

تجھ سے وابستہ بقائے زندگی

تُو حقیقی راہنمائے زندگی

لاجرم ہے تُو ہی ختم الانبیاء

تجھ سے پہلے جس قدر تھے نامور

تھے وہ جن جن خوبیوں سے بہرہ ور

تُو ہے جامع سب کا قصہ مختصر

تیرے سر ہے سہرۂ فتح و ظفر

لاجرم ہے تُو ہی ختم الانبیاء

تصحیح

‘‘الفضل انٹرنیشنل’’ لندن بتاریخ 20؍دسمبر 2019ء کے کالم ‘‘الفضل ڈائجسٹ’’ میں شہدائے احمدیت کے ضمن میں مکرم بشیر احمد بٹ صاحب کا تذکرہ (حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے خطبہ جمعہ اور ماہنامہ ‘‘خالد’’ ربوہ دسمبر 2011ء کے حوالے سے شامل اشاعت کیا گیا تھا۔ براہ کرم تصحیح فرمالیں کہ شہید مرحوم کا درست نام ‘‘رشید احمد بٹ’’ ہے۔

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button