حضرت مصلح موعود ؓ

فرائض مستورات (قسط اول)

از: سیدناحضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آج سے سو سال قبل 12؍ اپریل 1920ء کو اپنے قیامِ سیالکوٹ کے دوران پنجابی زبان میں مستورات سے خطاب فرمایا تھا۔ ایڈیٹر صاحب الفضل محترم خواجہ غلام نبی صاحب نے اس خطاب کا اردو ترجمہ 16؍اپریل کے الفضل میں شائع کیا تھا۔ حضورؓ نے اس خطاب میں مستورات کو نہایت آسان اور سادہ پیرایہ میں اسلامی احکام پر عمل کرنے، عبادات و اخلاقِ حسنہ کے اپنانے اور بعض ناپسندیدہ امور مثلاً بدرسوم وغیرہ کو ترک کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔

قارئینِ الفضل انٹرنیشنل کے استفادے کے لیے حضورؓ کا یہ خطاب بالاقساط شائع کیا جا رہا ہے۔ (مدیر)

(یہ تقریر حضرت فضل عمر خلیفۃ المسیح الثانی نے 13 اپریل 1920ء کو بمقام سیالکوٹ مستورات میں پنجابی زبان میں فرمائی تھی جس کو ایڈیٹر صاحب الفضل نے اردو میں لکھا)

وعظ عمل کرنے کے لیے سنو

ان چند دنوں میں مجھے عورتوں کی طرف سے بہت سے رُقعے ملے ہیں جن میں وہ لکھتی ہیں کہ ہمیں بھی کچھ سنایا جائے۔ اگرچہ یہ جوش قابلِ تعریف ہے لیکن خالی جوش اس وقت تک کام نہیں دیتا جب تک انسان جو کہے اس پر عمل نہ کرے۔ دیکھو اگر ایک شخص بھوکا ہو اور بھوک سے اس کی جان نکل رہی ہو اس کو کہو کہ کھانا کھالو۔ کھانا کھا لو لیکن کھانا دیا نہ جائے تو اس سے اس کا پیٹ نہیں بھر جائے گا۔ اسی طرح وہ عورتیں جو دین کی باتیں سنتی ہیں اور ان پر عمل نہیں کرتیں ان کو بھی کچھ فائدہ نہیں ہوتا بلکہ ان عورتوں کی نسبت جن کو دین کی باتیں سننے کا موقع نہیں ملتا ان کے لیے زیادہ خوف اور ڈر کا مقام ہے کیونکہ جو نہیں سنتیں وہ معذور سمجھی جا سکتی ہیں۔ لیکن جو سنتی ہیں اور پھر ان پر عمل نہیں کرتیں وہ زیادہ مجرم اور گنہگار ہیں۔ عام طور پر عورتیں وعظ کو ایک تماشا سمجھتی ہیں جس طرح بچے کوئی تماشا دیکھتے ہیں اور پھر تھوڑی مدت کے بعد اسے بھلا دیتے ہیں اسی طرح عورتیں کرتی ہیں۔ مردوں میں تو ایک جماعت ایسی ہے کہ وہ وعظ و نصیحت کی باتیں سن کر ان پر عمل کرتے اور ترقی کرتے جاتے ہیں لیکن عورتیں عام طور پر کچھ فائدہ نہیں اٹھاتیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نہ اخلاق میں ، نہ دین میں، نہ تمدن میں، نہ معاشرت میں ترقی کرتی ہیں اور نہ ان کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مردوں کی نسبت عورتوں کو کم وعظ و نصیحت کی باتیں سننے کا موقع ملتا ہے تاہم کچھ نہ کچھ تو وہ بھی سنتی ہیں اس لیے ان کا یہ کہنا کہ مردوں جتنا ان کو نہیں سنایا جاتا اس وقت درست ہو سکتا ہے اور یہ کہنے کا انہیں اس وقت حق پہنچتا ہے جبکہ جس قدر انہیں سنایا جاتا ہے اس کو یاد رکھیں اور اس پر عمل کریں۔ ایک طالب علم اگر اپنا پہلا سبق یاد کر کے سنا دے تو پھر اس کو یہ کہنے کا حق ہوتاہے کہ اَور سبق پڑھاؤ۔ لیکن اگر وہ پہلا ہی سبق یاد نہیں کرتا تو اسے اَور پڑھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح عورتوں کو جس قدر سنایا جاتا ہے اس کو اگر وہ یاد رکھیں اور اس پر عمل کریں تو ان کا حق ہے کہ اَور سننے کا مطالبہ کریں ورنہ نہیں۔ پس تم بجائے اس کے کہ یہ کہو کہ ہمیں مردوں کی طرح لیکچر سنائے جائیں جو کچھ سنایا جا چکا ہو اس پر عمل کر کے دکھاؤ۔ ورنہ اگر تم اس پر عمل نہ کرو اور سننے کا مطالبہ کرو تو جو کچھ تمہیں سنایا جائے گا وہ مجبوری سے سنایا جائے گا اور اس کا کچھ فائدہ نہ ہو گا کیونکہ جو ایک بات کو ہی یاد نہیں رکھتا وہ دوسری کو کس طرح یاد رکھے گا۔ جو ایک روٹی ہضم نہیں کر سکتا وہ دو کس طرح ہضم کرے گا۔ پس اگر تم نے ان پہلی باتوں پر عمل نہیں کیا جو تمہیں سنائی جا چکی ہیں تو کیا امید ہو سکتی ہے کہ اَور سنانے سے کچھ فائدہ اٹھایا جائے گا۔ پس میں پہلے تمہیں یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ کسی وعظ کی مجلس میں تماشا کے طور پر شامل ہونا اور وہ باتیں جو اس میں سنائی جائیں ان کو گھر جا کر بھلا دینا گناہ ہے اور اس کا کچھ فائدہ نہیں ہے۔ وعظ سنانے کی غرض یہی ہوتی ہے کہ اس کو یاد رکھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔

اچھا وعظ وہ نہیں جس میں سامعین کی تعریف کی جائے

عام طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ عورتوں کو وعظ میں بھی خیال ہوتاہے کہ ان کے متعلق اس میں کیا کہا گیا ہے۔ جلسہ پر جو عورتیں جاتی ہیں وہ یہی کہتی ہیں کہ فلاں مولوی صاحب کاوعظ بہت اچھا تھا اور فلاں کا اچھا نہیں تھا۔ جب دریافت کیا گیا تو معلوم ہوا کہ جس مولوی صاحب کےوعظ میں ان کی تعریف کی گئی اس کو تو اچھا کہتی ہیں اور جس میں ان کے نقص بیان کیے گئے اور ان کو اصلاح کرنے کے لیے کہا گیا اس کو ناپسند کرتی ہیں۔ حافظ روشن علی صاحب جو بڑے اچھے واعظ ہیں ان کے متعلق کہا گیا کہ ان کا وعظ اچھا نہیں تھا۔ جب دریافت کیا گیا تو معلوم ہوا کہ انہوں نے عورتوں کو نصیحتیں کی تھیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں اسی وعظ کو پسند کرتی ہیں جس میں ان کو اچھا کہا جائے ان کی تعریف کی جائے اور اگر ان کو نصیحت کی جائے تو اس کو پسند نہیں کرتیں حالانکہ کسی کے اچھا کہہ دینے سے وہ اچھی نہیں ہو جاتیں جب تک خود اچھی نہ بنیں اور کسی کے برا کہہ دینے سےبُری نہیں ہو جاتیں۔ اگر ان کو اچھا کہا جاتا ہے اور وہ واقع میں اچھی ہیں تو یہ خوشی کی بات ہے اور اگر ان کی کوئی برائی بیان کی جاتی ہے اور وہ برائی ان میں پائی جاتی ہے تو انہیں اس کی اصلاح کرنی چاہیے اور عبرت پکڑنی چاہیے۔ رسول کریمﷺ فرماتے ہیں جب کوئی شخص مرتا ہے اور عورتیں بین کرتی ہیں۔ اے بھائی ! تو ایسا بہادر تھا کہ تیرے سامنے شیر بھی نہیں ٹھہر سکتا تھا تو فرشتے اسے گرز مار کر پوچھتے ہیں کیا تو ایسا ہی تھا؟ وہ کہتا ہے نہیں۔ فرشتے پوچھتے ہیں پھر کیوں تیرے متعلق کہاجاتا ہے؟ (ترمذی ابواب الجنائز باب ما جاء فی کراھیۃ البکاء علی المیت)اسی طرح عورتیں جو اَور جھوٹی تعریفیں کر کے روتی ہیں ان کے متعلق پوچھا جاتا ہے اور مرنے والے کو اقرار کرنا پڑتا ہے کہ یہ باتیں مجھ میں نہیں پائی جاتی تھیں۔ تو جھوٹی تعریف سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکا اور نہ جھوٹی مذمت سے کوئی نقصان ہوتا ہے۔ اس لیے دیکھنا یہ چاہیے کہ جو کچھ بیان کیا جاتا ہے اس میں میرے عمل کرنے کے لیے کوئی بات ہے یا نہیں۔ اگر کوئی اچھی بات ہو تو اس پر عمل کرنا چاہیے اور اگر کوئی بری بات اپنے اندر نظر آئے تو اسے چھوڑ دینا چاہیے۔ یہ غرض ہوتی ہے وعظ کی۔

اس نصیحت کے بعد میں مختصر طو رپر چند باتیں بیان کرتا ہوں کیونکہ وقت بہت تھوڑا ہے اور دس بجے کے قریب جو گاڑی یہاں سے جاتی ہے اس پر مَیں جانے والا ہوں۔

اسلام کی غرض

پہلے میں یہ بیان کرتا ہوں کہ اسلام کی غرض کیا ہے؟ اسلام کے معنی ہیں ‘‘فرمانبرداری’’ اور ایمان کے معنی ہیں ‘‘مان لینا’’۔ جتنے مسلمان کہلانے والے مرد اور عورتیں ہیں ان سے اگر پوچھا جائے کہ تم کون ہو تو وہ کہتی ہیں۔ اللہ کے فضل سے ہم مسلمان ہیں ایمان دار ہیں۔ لیکن انہیں یہ نہیں معلوم ہوتا کہ مسلمان اور ایمان دار کے کیا معنی ہیں۔ وہ یہی سمجھتی ہیں کہ ہمارے ماں باپ مسلمان کہلاتے ہیں اس لیے ہم بھی مسلمان ہیں۔

مسلمان ہونے کا ثبوت خدا تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنے سے ہے

حالانکہ کوئی مرد اور عورت اس وقت تک مومن اور مسلمان نہیں ہو سکتی جب تک خداتعالیٰ کے احکام کی فرمانبرداری نہ کرے او رجو خداتعالیٰ کی فرمانبرداری نہیں کرتی اور خداتعالیٰ کے احکام کو نہیں مانتی وہ عقلمند کہلانے کی مستحق نہیں بلکہ وہ پاگل اور سودائی ہے۔ دیکھو جب ایک بادشاہ لکھتا ہے کہ میں بادشاہ ہوں تو لوگ اس بات کو تسلیم کر لیتے ہیں لیکن اگر کوئی بادشاہ نہ ہو اور کہے کہ میں بادشاہ ہوں تو اسے پاگل کہا جا سکتا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ یہی کہ جو بادشاہ ہوتا ہے اس کے پاس کئی فوجیں اور بادشاہت کا سازو سامان ہوتا ہے۔ مگر گلیوں میں دھکے کھانے والا ننگا انسان چونکہ بادشاہت کی علامت نہیں رکھتا اس لیے اسے پاگل کہا جاتاہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عقلمند جو بات کہتا ہے اس کا اس کے پاس ثبوت ہوتا ہے لیکن سودائی جو کچھ کہتا ہے اس کا اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔ پس جو شخص یہ کہتا ہے یا جو عورت یہ کہتی ہے کہ میں مومن مسلمان ہوں لیکن وہ خداتعالیٰ کے احکام کو نہیں مانتی، خداتعالیٰ کی فرمانبرداری نہیں کرتی اس میں اور پاگل میں کیا فرق ہے؟ کچھ نہیں۔ ایسا مرد یا ایسی عورت تو ایک پاگل کے بادشاہ ہونے سے بھی بڑا دعویٰ کرتی ہے جس کا اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہوتا اس لیے وہ پاگل سے بھی گئی گزری ہے۔ پس دوسری نصیحت میں تم کو یہ کرنا چاہتا ہوں کہ خداتعالیٰ کے احکام پر عمل کرو، اس کی اطاعت کرو، اس کے حکموں کو مان لو۔ اگر تم ایسا کرو گی تب مومن اور مسلمان کہلا سکو گی ورنہ تمہارا یہ دعویٰ ایک پاگل اور سودائی کے دعویٰ سے بڑھ کر کوئی حقیقت نہیں رکھے گا۔

خدا تعالیٰ کا بندہ وہی ہے جو خدا تعالیٰ کے احکام پر چلے

اب مَیں تمہیں ‘‘اسلام کا خلاصہ’’بتاتا ہوں۔ اسلام کا خلاصہ دو باتیں ہیں ایک یہ کہ بندے کے متعلق خداتعالیٰ فرماتاہے

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذٰریات: 57)

کہ میں نے جن اور انسان کو نہیں پیدا کیا مگر اس لیے کہ میرے بندے بن جائیں۔ یعنی اپنے سچے غلام بنانے کے لیے خداتعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ اب اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ہم خدا کے بندے ہیں مگر اصل بات یہ ہے کہ بہت تھوڑے لوگ ہوتے ہیں جن میں بندگی کی علامتیں پائی جاتی ہیں۔ اگر صرف خداتعالیٰ کے پیدا کر دینے سے ہی انسان اس کے بندے بن جاتے تو پھر خداتعالیٰ کو یہ کہنے کی ضرورت ہی کیا تھی کہ میں نے ان کو بندہ بنانے کے لیے پیدا کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بندہ بننے کے کچھ اَور معنی ہیں اور وہ یہی ہیں کہ ایک غلام اپنے آقا کے سامنے کیا کرتاہے یہی کہ ہاتھ باندھ کر اس کے احکام کے ماننے کے لیے کھڑا رہتا ہے۔ اسی طرح خدا تعالیٰ کا بندہ بننے کے یہ معنی ہیں کہ انسان خدا تعالیٰ کا فرماں بردار رہے ہر وقت اس کے احکام مانتا رہے اور خدا تعالیٰ سے اپنا تعلق اوررشتہ بڑھائے۔

(جاری ہے )

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button