لجنہ اماء اللہ کی بنیاد اور اس کے شاندار نتائج (حصّہ دوم۔ آخر)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے25؍دسمبر 1922ء کو لجنہ اماء اللہ کی بنیاد رکھی
اس ابتدائی تحریک پر (جو محض رضاکارانہ رنگ کی تھی) قادیان کی تیرہ خواتین نے دستخط کئے۔
حضور کے فرمان پر 25؍دسمبر 1922ء کو یہ دستخط کرنے والی خواتین حضرت ام المومنین کے گھر میں جمع ہوئیں حضور نے نماز ظہر کے بعد ایک مختصر تقریر فرمائی۔ اور لجنہ کا قیام عمل میں آیا۔ اس تقریر میں حضور نے لجنات کے سپرد جلسہ مستورات کا انتظام کر کے کئی مشورے دیئے۔ اور نصائح فرمائیں۔
اس اجلاس اول کے بعد لجنہ اماء اللہ کے مفصل قواعد رسالہ تادیب النساء میں (جو قادیان سے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کی ادارت میں شائع ہوتا تھا) شائع کر دیئے گئے۔ اور اس طرح باقاعدہ سرگرمیوں کا آغازہوا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے لجنہ کے اغراض و مقاصد جلد سے جلد پورا کرنے کے لیے اور احمدی مستورات کی اصلاح و تنظیم کرنے کے لیے سب سے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ لجنات کے ہفتہ وار اجلاس جاری کئے اور فروری اور مارچ 1923ء کے تین اجلاسوں میں نہایت جامعیت کے ساتھ دینی اور دنیاوی علوم کی تفصیلات بیان فرمائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ حضور نے خدمت دین کا عملی جوش پیدا کرنے کے لیے تعمیر مسجد برلن کی ذمہ اداری بھی احمدی مستورات پر ڈالی۔ اور اس کے لیے چندہ کی فراہمی کا کام ‘‘لجنہ اماء اللہ کے سپرد فرمایا’’۔
…دو سال بعد حضرت اقدس خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے خواتین میں دینی تعلیم عام کرنے کے لیے 17؍مارچ 1925ء کو مدرسۃالخواتین جاری فرمایا۔ جس میں حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب حضرت صوفی غلام محمد صاحبؓ سابق مبلغ ماریشس اور دوسرے اصحاب کے علاوہ خود حضور تعلیم دیتے تھے۔ حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ اس مدرسہ کے نگران تھے۔ اس مدرسہ نے خواتین کے علمی و تنظیمی خلاء کو پرکرنے میں بڑا کام کیا۔ اور خواتین کے مرکزی اداروں اور درسگاہوں کے لیے معلمات اور کارکنات پیدا ہو گئیں۔
15؍دسمبر 1926ء کو لجنہ اماء اللہ کی نگرانی میں ماہوار رسالہ ‘‘مصباح’’ جاری ہوا جس سے احمدی خواتین کی تربیت و تنظیم کو بہت تقویت پہنچی۔ ابتداء میں رسالہ کا انتظام مرد کرتے تھے مگر مئی 1947ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے ارشاد پر اس کا پورا اہتمام مرکزی ‘‘لجنہ اماءاللہ’’ کو سونپ دیا گیا جس سے رسالہ کے علمی و دینی معیار میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔…
16؍ستمبر 1927ء کو حضرت امۃ الحئی صاحبہ کی یاد میں ‘‘امۃالحئی لائبریری’’ کا افتتاح ہوا اور اس کی نگرانی حضرت سیدہ ام طاہر احمد صاحبہ کو تفویض ہوئی جنہوں نے اپنی پوری زندگی لجنہ کے کام کے لیے وقف رکھی۔ افتتاح پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ، حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا اور خاندان حضرت مسیح موعودؑ کے دوسرے افراد نے کتابیں عنایت فرمائیں۔ یہ لائبریری حضرت خلیفہ ثانی ؓ کی اجازت خاص سے گول کمرہ میں قائم ہوئی۔ 1947ء کے بعد اس لائبریری کا احیاء جنوری 1960ء کو ربوہ میں ہوا۔
جولائی 1928ء میں صاحبزادی امۃ الحمید صاحبہ (بنت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) کی کوشش سے چھوٹی بچیوں کی لجنہ قائم ہوئی اور کچھ عرصہ بعد صاحبزادی امۃ الرشید صاحبہ کی تحریک پر ناصرات الاحمدیہ کی بنیاد پڑی۔ اسی سال احمدی مستورات نے ‘‘سیرت النبیؐ ’’ کی تحریک کو بھی کامیاب بنانے میں حصہ لینا شروع کیا۔ چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر سابق انچارج احمدیہ مشن امریکہ کا بیان ہے کہ ‘‘میری شادی سے قبل جو 1939ء میں ہوئی میری اہلیہ امۃ الحفیظ صاحبہ اور ان کی چھوٹی بہن امۃ الحئی صاحبہ کئی مہینے تک حضرت سیدہ ام طاہر (خدا تعالیٰ ان سے راضی ہو) کے ہاں مقیم رہیں۔ صاحبزادی امۃ القیوم صاحبہ اور صاحبزادی امۃ الرشید صاحبہ سلمہا اللہ تعالیٰ نے اپنی حقیقی والدہ کی وفات کے بعد اسی گھر میں پرورش پائی۔ میری اہلیہ صاحبہ اور امۃالحئی صاحبہ کے علی الترتیب دونوں صاحبزادیوں کے ساتھ بہنوں کی طرح کے تعلقات تھے جس کا ذکر حضرت امام جماعت نے میرے نکاح میں بھی فرمایا ان کے ہاں میرا آنا جانا پردہ کے اسلامی احکام کی پوری پابندی کے ساتھ اکثر ہوتا رہتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ان دنوں میں صاحبزادی سیدہ امۃ الرشید صاحبہ نے مجھ سے ایک سے زائد مرتبہ ذکر فرمایا کہ خدام الاحمدیہ کی بنیادوں پر احمدی لڑکیوں کی تنظیم قائم ہونی چاہئے۔ چنانچہ باہم مشورہ کے بعد طے پایا کہ ایسی تنظیم کا اعلان فرمانے کے لیے صاحبزادی موصوفہ ایک خط کے ذریعہ سے حضور کی خدمت میں درخواست کریں اور یہ بھی گذارش کریں کہ اس تنظیم کا نام بھی حضور خود تجویز فرمائیں۔ اس خط کا مسودہ تیار کرنے میں خاکسار کو خدمت کا موقع ملا۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ صاحبزادی امۃ الرشید صاحبہ اور خاکسار نے کچھ قیاس آرائی بھی کی کہ حضور اس تنظیم کا کیا نام تجویز فرمائیں گے۔ حسن اتفاق سے ایک نام ‘‘ناصرات الاحمدیہ’’ بھی ذہن میں آیا بہر کیف صاحبزادی موصوفہ کے حضور کی خدمت میں درخواست کے جلد بعد ہی حضور نے احمدی لڑکیوں کی تنظیم کے قیام کا اعلان فرمایا اور ایک کاغذ پر اپنے دست مبارک سے اس کا نام ‘‘ناصرات الاحمدیہ’’ تحریر فرمایا اور اس طرح اس تنظیم کی ابتداء ہوئی۔
صاحبزادی سیدہ امۃ الرشید صاحبہ سلمہا اللہ تعالیٰ مستحق صد مبارک ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ان کے دل میں یہ مبارک تحریک ڈالی اور ان کی کوششیں مثمر ہوئیں۔ فالحمد للہ علی ذالک۔
1930ء میں لجنہ کو مجلس شوریٰ میں نمائندگی کا حق ملا جولائی 1931ء میں تحریک آزادی کشمیر کا آغاز ہوا تو لجنہ نے اسے کامیاب بنانے کے لیے چندہ دیا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے یکم اپریل 1938ء کو حکم دیا کہ جہاں جہاں لجنہ ابھی قائم نہیں ہوئی وہاں کی عورتیں اپنے ہاں لجنہ اماء اللہ قائم کریں اور وہ بھی اپنے آپ کو تحریک جدید کی والنٹیرز سمجھیں۔
ماہ اپریل 1944ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کو الہام ہواکہ اگر تم پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح کر لو تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گی۔ اس خدائی تحریک پر حضور لجنہ اماء اللہ کی تربیت و تنظیم کی طرف اور زیادہ گہری توجہ فرمانے لگے۔
1946ء میں پنجاب اسمبلی کے انتخاب کے سلسلہ میں قادیان کی احمدی خواتین نے اعلیٰ نمونہ پیش کیا جس پر حضور نے فرمایا کہ عورتوں نے الیکشن میں قربانی کر کے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اس بات کی مستحق ہیں کہ ان کے اس ذکر کو ہمیشہ تازہ رکھا جائے۔ اور بار بار جماعت کے سامنے لایا جائے انہوں نے بے نظیر قربانی اور نہایت اعلیٰ درجہ کی جاں نثاری کا ثبوت دے کر ثابت کر دیا ہے کہ وہ مردوں سے قومی کاموں میں آگے نکل آئی ہیں۔
1947ء میں ملک تقسیم ہو گیا اور ہر طرف فسادات کی آگ بھڑک اٹھی جس کی وجہ سے لجنہ اماء اللہ کی تنظیم معطل سی رہی۔ مگر جونہی حالات کچھ سدھرنے لگے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں جماعت کا نیا مرکز ربوہ تعمیر ہونا شروع ہوا تو لجنہ کی دینی سر گرمیاں پھر شروع ہو گئیں۔ چنانچہ 1950ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی تحریک وقف زندگی پر مستورات نے لبیک کہا۔ 1951ء میں لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کا دفتر بنا۔ 1955ء میں ان کے چندوں سے ہالینڈ کی مسجد تعمیر ہوئی۔ 9؍دسمبر 1957ء کو فضل عمر جونیئر ماڈل سکول کا اجراء ہوا جو حضرت سیدہ امۃ المتین کی ذاتی نگرانی اور دلچسپی کے باعث آٹھویں جماعت تک ترقی کر گیا ہے۔ اس سکول کے علاوہ گھٹیا لیاں، ہلال پور اور چک منگلا میں بھی سکول جاری ہو چکے ہیں۔
یہ اجمالی خاکہ ہے ان خدمات کا جو لجنہ اماء اللہ نے انجام دی ہیں۔ لجنہ کی تحریک اب عالمگیر تنظیم بن چکی ہے۔…اور اس کے کام کی وسعت روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔
(تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 303تا309)
٭…٭…٭