سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلامصحتمتفرق مضامین

وبائی امراض کے ایام میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ظاہری احتیاطی تدابیر

(’م م محمود‘)

انبیاء علیھم السلام کی سنت ہے کہ وہ خداتعالیٰ پر کامل ایمان ،اُس پربھروسہ ،توکل اوردعاکے ساتھ ساتھ  اُسی کے پیداکردہ اسباب کوبھی بروئے کارلاتے ہیں۔ آنحضرتﷺ کی سیرتِ طیبہ میں بھی حسنِ تدبیرکا یہ پہلونظرآتاہے کہ باوجود خدائی وعدوں کے آپﷺ بعض اوقات ظاہری تدابیرکوبھی اختیارفرماتے۔ سیدناحضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نےبھی اپنے آقاکی تتبع میں دعاؤں، خدا تعالیٰ کی ذات پرکامل بھروسہ اورخدائی بشارات کے حصول کے ساتھ ایک حد تک رعایتِ اسباب پربھی عمل فرمایا لیکن کبھی بھی اس پرکلیتاً دارومدارنہ فرمایا۔ چنانچہ اِس زمانے میں پیشگوئیوں کےعین مطابق جب1898ء اور بعدازاں 1905ء میں ہندوستان میں طاعون کی وبا پھوٹی تو حضورعلیہ السلام نے دعاؤں کے ساتھ ساتھ احتیاط کے پہلوکوبھی اختیارکرنے کی تلقین فرمائی۔

آج کل دنیا میں کورونا وائرس سے پھیلنے والی مرض زوروں پر ہے۔ اگرچہ طاعون اور Covid-19 کا براہِ راست ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دونوں تیزی سے پھیلنے والی وبائیں ہیں۔ اس لیے ذیل میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وبائی امراض خصوصاً طاعون جیسی مہلک مرض سے بچنے کے لئے جو احتیاطیں اورتدابیراختیارفرمائیں اوراپنی جماعت اورعام خلق اللہ کوانہیں اپنانے کی  تلقین فرمائی وہ افادۂ عام کے لیے بیان کی جاتی ہیں۔

عید الاضحیٰ کے موقع پرجلسہ اور ہدایات

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے 2مئی 1898ء کو عیدالاضحیٰ کے موقع پراپنی جماعت کو اس مہلک بیماری سے بچاؤکی خاطراحتیاطی تدابیرسے آگاہ کرنے کے لئے ایک جلسہ منعقد کیااورمتوقع وبائی خطرہ اوراس کے انسداد کے متعلق اپنے خطاب میں اہم ہدایات عطا فرمائیں نیزجلسہ ھٰذامیں حضرت حکیم مولوی نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی تقریرفرمائی۔ دوردرازسے بکثرت احباب اس جلسہ میں شریک ہوئے۔حضرت  اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نےبرموقع عید منعقدہ جلسہ میں ایک طویل خطاب فرمایا۔آپؑ نے فرمایا’’گورنمنٹ انگلشیہ نے ایک ضرورت اور اشد ضرورت کی وجہ سے اور پھر ایسی مصلحت  اورضرورت سے جیسی  مہربان ماں کواپنے بچوں کی غورو پرداخت اور نگہداشت میں کبھی کبھی پیش آجاتی ہے۔یہ قانون پاس کیا ہے کہ جس گھر میں طاعون کی واردات ہو۔اس گھر کے رہنے والے باہر نکال دئے جاویں اور عند الضرورت ہمسائے اور محلہ دار اور اشد ضرورت کی صورت میں گاؤں کا گاؤں ہی خالی کر دیا جائے۔بیمار الگ رکھے جاویں اور تندرست الگ رکھے جاویں۔اور وہ مقام جہاں ایسے لوگ رکھے جاویں ہلکی ہوا میں ایسی جگہ پر ہو جس کے نشیب میں پانی نہ ہو اور خوب آمدورفت ہو سکےاوراس کے متصل ہی قبرستان بھی ہو،تا کہ مرنے والوں کو جلدی دفن کرسکیں۔تا ایسا نہ ہو کہ ان کے تعفن سے ہوا اور زہریلی ہو ۔۔۔۔۔غرض گورنمنٹ نے ان تدابیر کے اختیار کرنے سے جو نیکی سوچی ہےاور درحقیقت اس میں نیکی ہی ہے۔ اس کو بدی قرار دیا جاتاہے۔یہ  افسوس اورسخت افسوس کی بات ہے کہ جس سے نیکی کی جاوے،وہ اس نیکی کو بدی سمجھتا ہے۔پھر اس پر حیرت اور تعجب تو یہ ہے کہ گورنمنٹ نے  تدابیر انسداد کچھ اپنے گھر سے وضع نہیں کرلئے ہیں ۔یونانی طبیبوں کا اس پر اتفاق ہوا ہے کہ طاعون جس گھر میں ہو،وہ اس گھر بلکہ شہر بلکہ ملک تک کوصاف کر دیتی ہے۔اس کی بہت سی نظیریں بھی اس گروہ نے دی ہیں کہ طاعون جیسی خوف ناک مرض نے بس نہیں کیا جب تک کہ آبادی  سے جنگل نہیں بنا دیا اور اجاڑ کرکے نہیں دکھا دیا۔اکثر لوگوں کو خبر نہیں ہے۔‘‘(ملفوظات جلداول جدیدایڈیشن 2016ء صفحہ 227)

پھرفرمایا ’’کوئی ہم کو یہ تو بتلائے کہ گورنمنٹ نے کیا برائی کی جو یہ کہا کہ وبا زدہ مکان کو چھوڑ دو ۔ جو کام ہماری بھلائی کے لئے ہو اس میں برائی کاخیال پیدا کرنا دانشمند انسان کا کام نہیں۔  میں نے جیسا کہا ہے کہ اگر گورنمنٹ یہ حکم دے دے کہ کوئی نہ نکلے تو لوگ اس حکم کو اس سےبھی زیادہ نا گوارسمجھیں۔۔۔۔۔ اگریہ لوگ اسی حالت میں چھوڑے جاتے اورگورنمنٹ کسی قسم کادخل نہ دیتی پھربھی یہ لوگ وہی کرتے جوآج گورنمنٹ کررہی ہے۔اصل بات یہ ہے کہ لوگوں کو طاعون کی خبرنہیں۔ وہ اس کو نزلہ، زکام کی طرح ایک عام مرض سمجھتے ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلداول جدیدایڈیشن2016ء صفحہ 229)

حفظِ ما تقدّم کے لیے دوا ’تریاقِ الٰہی‘ کی تیاری

حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اُس زمانہ میں اڑھائی ہزارروپے کی خطیررقم سے تریاقِ الٰہی کے نام سے ایک دوا بھی تیارفرمائی جوحفظِ ماتقدم کے طورپراستعمال کروائی گئی۔جبکہ طاعون کی گلٹیوں کے لئے مرہمِ عیسیٰ بھی تیارفرمائی۔اس بارے میں 23جولائی 1898ء کوایک اشتہارشائع فرمایاجس میں اس دوائی کے تیارہونے سے متعلق عوام الناس کوآگاہ فرمایااور بیش قیمت طبی ہدایات بھی عطافرمائیں لیکن ان تمام ظاہری ہدایات کے ساتھ ساتھ سب سے آخرمیں نہایت ضروری بات یہ لکھی کہ ’’خداتعالیٰ سے گناہوں کی معافی چاہیں،دل کوصاف کریں اورنیک اعمال میں مشغول ہوں۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ441)

وبا کے مشکل وقت میں احباب کو خدمتِ خلق اور انسانی ہمدردی میں مشغول رہنے کی تلقین

مخلوقِ خداکے اس حقیقی غم خواراور ہم درد نے6؍فروری 1899ء کو ایک اشتہار میں اس خوفناک اورجان لیوا وبا کے موقع پر مخلوقِ خداکی خدمت کی جانب توجہ دلاتے ہوئے فرمایا ’’ہرایک کو چاہیے کہ اس وقت اپنی سمجھ اوربصیرت کے موافق انسان کی ہمدردی میں مشغول ہوکیونکہ وہ شخص انسان نہیں جس میں ہمدردی کا مادہ نہیں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ390)

ایک اَور اشتہارمیں آپؑ  نےانسانیت کی خدمت اوربنی نوع کی بھلائی کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا

’’اصل امریہ ہے کہ ہمارے نزدیک اس بات پراطمینان نہیں ہے کہ اِن ایامِ گرمی میں (طاعون) کاخاتمہ ہوجائے گا بلکہ جیساکہ پہلے اشتہارمیں شائع کیاگیاہے دوجاڑوں تک سخت اندیشہ ہے لہٰذایہ وقت ٹھیک وہ وقت ہے کہ ہماری جماعت بنی نوع کی سچی ہمدردی اورگورنمنٹ عالیہ کی ہدایتوں کی دل وجان سے پیروی کرکے اپنی نیک ذاتی اورنیک عملی اورخیراندیشی کا نمونہ دکھاوے اورنہ صرف یہ کہ خودہدایات گورنمنٹ کے پابندہوں بلکہ کوشش کریں کہ دوسرے بھی ان ہدایتوں کی پیروی کریں اوربدبخت احمقوں کی طرح فتنہ انگیزنہ بنیں۔‘‘(اشتہار22اپریل 1898ء)

اسی اشتہارمیں آپ علیہ السلام نے گورنمنٹ کے اقدامات کو سراہتے ہوئے فرمایا’’اس بارہ میں گورنمنٹ کی تمام ہدایتیں نہایت احسن تدبیرپرمبنی ہیں۔ گوممکن ہے آئندہ اِس سے بھی بہترتدابیرپیداہوں مگرابھی نہ ہمارے ہاتھ میں نہ گورنمنٹ کے ہاتھ  میں ڈاکٹری اصول کے لحاظ سے کوئی ایسی تدبیرہے جو شائع کردہ تدابیرسے عمدہ اوربہترہو۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بھی مناسب ہے کہ جوکچھ اِس بارہ میں گورنمنٹ کی طرف سے ہدایتیں شائع ہوئی ہیں  خوانخواہ اُن کو بدظنی سے نہ دیکھیں بلکہ گورنمنٹ کو اِس کاروبارمیں مدد دیں اوراُس کے شکرگزارہوں کیونکہ سچ بھی یہی ہے کہ یہ تمام ہدایتیں محض رعایاکے فائدہ کے لئے تجویزہوئی ہیں۔(مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ390تا394)

ظاہری طہارت اور پاکیزگی کی طرف توجہ

سیدناحضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہندوستان میں طاعون کی آمد کے موقع پر احتیاطی تدابیر اورحفظانِ صحت کے بنیادی اصول بھی بیان فرمائے ۔اورظاہری طہارت وپاکیزگی کے نہایت لطیف  امورکی جانب توجہ دلاتے ہوئے فرمایا’’ لفظ رِجْزجو قرآن شریف میں طاعون کے معنوں پر آیا ہے وہ فَتح کے ساتھ اُس بیماری کو بھی کہتے ہیں جواونٹ کے بُنِ ران میں ہوتی ہے اور اس بیماری کی جڑ ایک کیڑا ہوتا ہے جو اونٹ کے گوشت اورخون میں پیدا ہوتا ہے۔ سو اس لفظ کے اختیار کرنے سے یہ اشارہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ طاعون کی بیماری کا بھی اصل سبب کیڑا ہے۔ چنانچہ ایک مقام میں صحیح مسلم میں اِسی امر کی کھلی کھلی تائید پائی جاتی ہے کیونکہ اس میں طاعون کا نام نَغَفرکھا ہے اور نَغَف لُغتِ عرب میں کیڑے کو کہتے ہیں جو اُس کیڑے سے مشابہ ہوتا ہے جو اونٹ کی ناک سے یا بکری کی ناک سے نکلتا ہے۔ ایسا ہی کلامِ عرب میں رِجزکا لفظ پلیدی کے معنوں پر بھی آتا ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ طاعون کی اصل جڑ بھی پلیدی ہے۔ اس لئے بہ رعایتِ اسباب ظاہرضرور ہے اور وہ اس طرح پر کہ طاعون کے دنوں میں مکانوں اور کوچوں اور بدروؤں اور کپڑوں اور بستروں اور بدنوں کو ہرایک پلیدی سے محفوظ رکھا جائے اور ان تمام چیزوں کو عفونت سے بچایا جائے۔

دارالمسیح قادیان کا ایک خوبصورت منظر

شریعت اسلام نے جو نہایت درجے پر ان صفائیوں کا  تقیّد کیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ یعنی ہرایک پلیدی سے جُدارہ ۔یہ احکام اِسی لئے ہیں کہ تا انسان حفظانِ صحت کے اسباب کی رعایت رکھ کر اپنے تئیں جسمانی بلاؤں سے بچاوے۔ عیسائیوں کا یہ اعتراض ہے کہ یہ کیسے احکام ہیں جو ہمیں سمجھ نہیں آتے کہ قرآن کہتا ہے کہ تم غسل کر کے اپنے بدنوں کو پاک رکھو اور مسواک کرو،خلال کرو اور ہر ایک جسمانی پلیدی سے اپنے تئیں اور اپنے گھر کو بچاؤ۔ اور بدبوؤں سے دُور رہو اور مُردار اور گندی چیزوں کو مت کھاؤ۔ اِس کا جواب یہی ہے کہ قرآن نے اُس زمانہ میں عرب کے لوگوں کو ایسا ہی پایا تھا اور وہ لوگ نہ صرف رُوحانی پہلو کے رُو سے خطرناک حالت میں تھے بلکہ جسمانی پہلو کے رُو سے بھی اُن کی صحت نہایت خطرہ میں تھی۔ سو یہ خدا تعالیٰ کا اُن پر اور تمام دنیا پر احسان تھا کہ حفظانِ صحت کے قواعد مقرر فرمائے۔‘‘

فرمایا’’ جیسا کہ تجربہ کے رُو سے یہ مشاہدہ بھی ہوتا ہے کہ جو لوگ اپنے گھروں کو خوب صاف رکھتے اور اپنی بدروؤں کو گندہ نہیں ہونے دیتے اوراپنے کپڑوں کو دھوتے رہتے ہیں اور خلال کرتے اور مسواک کرتے اور بدن پاک رکھتے ہیں اور بدبُو اور عفونت سے پرہیز کرتے ہیں وہ اکثر خطرناک وبائی بیماریوں سے بچے رہتے ہیں پس گویا وہ اس طرح پریُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَ کے وعدہ سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔ لیکن جو لوگ طہارت ظاہری کی پروا نہیں رکھتے آخر کبھی نہ کبھی وہ پیچ میں پھنس جاتے ہیں اور خطرناک بیماریاں اُن کو آپکڑتی ہیں۔ اگر قرآن کو غو ر سے پڑھو تو تمہیں معلوم ہو گا کہ خدا تعالیٰ کے بے انتہا رحم نے یہی چاہا ہے کہ انسان باطنی پاکیزگی اختیار کر کے رُوحانی عذاب سے نجات پاوے اور ظاہری پاکیزگی اختیار کر کے دنیا کے جہنم سے بچا رہے جو طرح طرح کی بیماریوں اور وباؤں کی شکل میں نمودار ہو جاتا ہے۔‘‘(ایام الصلح روحانی خزائن جلد14صفحہ333تا337)

حضورعلیہ السلام کی اس وبائی مرض سے متعلق احتیاطی تدابیراور تجاویزکواُس زمانہ میں پنجاب گورنمنٹ نے بھی سراہااوراس کااعتراف حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمتِ اقدس میں مورخہ 11؍جون 1898ء کو تحریرکردہ ایک مراسلہ کی صورت میں کیا۔ اسی طرح اخبارسول اینڈملٹری گزٹ نے بھی ایک نوٹ میں آپ علیہ السلام کی ان کوششوں کی تعریف کی۔جس کا تفصیلی ذکراخبارالحکم20جون1898ءکی اشاعت میں ملتاہے۔

جبکہ اخباروکٹوریہ پیپرسیالکوٹ نے حضور علیہ السلام کی مساعی کا ان الفاظ میں ذکرکیا۔

’’طاعون سے بچاؤکے لئے جو مناسب تجاویزگورنمنٹ پنجاب نے فرمائی ہیں۔ جناب مرزاغلام احمدصاحب اوراُن کے رفیق حکیم مولوی نورالدین صاحب دل سے پسند کرکے ظاہرکرتے ہیں کہ ان تجاویز پرعمل کیاجانا اسلام کے مذہب کی رُوسے ناجائزنہیں بلکہ جائزہے۔اگرہندؤوں کے لیڈربھی ایسے ہی خیالات ظاہرکریں اورایسے خیالات ملک میں پھیلائیں تو پھرکوئی بھی برائی پیدانہ ہواورمسلمان اورہندوشیروشکرکی صورت پیداکرلیں۔(اخباروکٹوریہ پیپرسیالکوٹ17جون1898ء)

حفظانِ صحت اور دیگر احتیاطی پہلوؤں پرعمل درآمد

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وبائی امراض کے موقعے پرعملی صورت میں بھی ان تدابیراوراحتیاطوں کوملحوظ رکھا ۔چنانچہ حضرت ڈاکٹر میرمحمداسماعیل صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ’’پرندوں کا گوشت آپؑ کو مرغوب تھا اس لئے بعض اوقات جب طبیعت کمزورہوتی تو تیتر، فاختہ وغیرہ کے لئے شیخ عبدالرحیم صاحب نَو مسلم کو ایسا گوشت مہیا کرنے کو فرمایا کرتے تھے۔مرغ اور بٹیروں کا گوشت بھی آپ کو پسند تھا مگر بٹیرے جب سے کہ پنجاب میں طاعون کا زور ہوا کھانے چھوڑ دیئے تھے۔ بلکہ منع کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس کے گوشت میں طاعون پیدا کرنے کی خاصیت ہے۔ اور بنی اسرائیل میں اس کے کھانے سے سخت طاعون پڑی تھی۔ ‘‘(سیرۃ المہدی جلد اول روایت نمبر447)

مکان حضرت امّاں جان، قادیان (یہ مکان حضورؑ کے اس باغ میں واقع ہے جہاں حضور نے طاعون کے ایام میں قیام فرمایا)

1905ء میں حضور علیہ السلام زلزلہ کے وقت مع اہل وعیال باغ میں تشریف لے گئےاورکچھ عرصہ وہیں فروکش ہوگئے۔ آپؑ کے ہمراہ اکثر اصحاب بھی باغ میں چلے گئے تھے۔

حضرت چوہدری حاکم علی صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ’’جب اپریل 1905ء میں بڑا زلزلہ آیا تھااور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے باغ میں تشریف لےجا کر ڈیرہ لگا لیا تھا اوراَور بھی اکثر دوست باغ میں چلے گئے تھے ان دنوں میں مَیں بھی اپنے اہل وعیال سمیت قادیان آیا ہوا تھا۔ حضرت صاحبؑ باغ میں تشریف لے گئے تو اس کے بعد قادیان میں طاعون پھیل گیا۔ میں نے حضرت صاحب سے عرض کیا کہ حضوریہاں باغ میں تشریف رکھتے ہیں اور اکثر دوست بھی یہیں آگئے ہیں اور سب نے یہاں کسی نہ کسی طرح اپنی رہائش کا انتظام کر لیا ہے مگر میرے پاس یہاں نہ کو ئی خیمہ ہے اور نہ ہی کوئی ایسا زائد کپڑا ہے جس کے ساتھ چھپر وغیرہ تان سکوں اورنہ کوئی اَورانتظام کی صورت ہے۔ حضرت صاحبؑ نے فرمایا کہ ہم تو یہاں زلزلہ کی وجہ سے آئے تھے۔ لیکن اب قصبہ میں طاعون پھیلا ہوا ہے اور چونکہ ہم کو اللہ تعالیٰ اس حالت سے قبل یہاں لے آیا تھا اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کسی وجہ سے منشاء ہے کہ ہم فی الحال یہیں پر قیام کریں ورنہ ہمیں اَورکوئی خیال نہیں ہے۔آپ شہر میں ہمارے مکان میں چلیں جائیں۔ اس سے زیادہ محفوظ جگہ اور کوئی نہیں ۔چنانچہ میں حضور کے مکان میں آگیا ۔(سیرۃ المہدی جلد اول روایت نمبر358)

جیساکہ قبل ازیں ذکرآیا کہ وبائی امراض کی ایک وجہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صفائی اورطہارت  کانہ ہونابھی بیان فرمایاہے چنانچہ اس ضمن میں آپ علیہ السلام کے اپنے  طرزِ عمل کے متعلق حضرت ڈا کٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو صفائی کا بہت خیال ہوتا تھا ۔خصوصاً طاعون کے ایام میں اتنا خیال رہتا تھا کہ فینائل لوٹے میں حل کر کے خود اپنے ہاتھ سے گھر کے پاخانوں اور نالیوں میں جا کر ڈالتے تھے۔ خاکسارعرض کرتا ہے کہ بعض اوقات حضرت مسیح موعودعلیہ السلام گھر میں ایندھن کا بڑا ڈھیر لگوا کر آگ بھی جلوایا کرتے تھے تا کہ ضرر رساں جراثیم مرجاویں اور آپ نے ایک بہت بڑی آہنی انگیٹھی بھی منگوائی ہوئی تھی۔ جسے کوئلے ڈال کر اور گندھک وغیرہ رکھ کر کمروں کے اندر جلایا جاتا تھا اور اس وقت دروازے بند کر دیئے جاتے تھے۔ اس کی اتنی گرمی ہوتی تھی کہ جب انگیٹھی کے ٹھنڈا ہو جانے کے ایک عرصہ بعد بھی کمرہ کھولا جاتا تھا تو پھر بھی وہ اندر سے بھٹی کی طرح تپتا تھا۔(سیرۃ المہدی جلد اول روایت نمبر382)

حضرت ڈاکٹر میرمحمد اسمٰعیل صاحبؓ ہی کی ایک اَور روایت ہے کہ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام خطرات کے وقت ہمیشہ احتیاط کا پہلو مدّ نظر رکھتے تھے۔ چنانچہ طاعون کے ایام میں دروازہ پر پہرہ رہتا تھا۔ کہ دیہات کی ہرکس و ناکس عورت گندے کپڑوں کے ساتھ اندر نہ آنے پائے (کیونکہ گھی وغیرہ فروخت کرنے کے لئے دیہات کی عورتیں آتی رہتی تھیں) (سیرۃ المہدی جلد اول روایت نمبر686)

’تریاقِ الٰہی‘ کی تیاری کا آنکھوں دیکھا حال

جیساکہ ابتداء میں ذکرہواکہ حضورؑ نے خلقِ خداکےعلاج اورآرام کی خاطرطاعون کی دوائی بھی تیارفرمائی تھی چنانچہ اس بارہ میں حضرت ڈاکٹرمیر محمد اسمٰعیل صاحبؓ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے طاعون کے ایام میں ایک دوائی تریاق الٰہی تیار کرائی تھی۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ نے ایک بڑی تھیلی یاقوتوں کی پیش کی۔ وہ بھی سب پسوا کر اس میں ڈلوا دیئے۔ لوگ کوٹتے پیستے تھے۔ آپ اندرجا کردوائی لاتے اور اس میں ملواتے جاتے تھے۔ کونین کا ایک بڑا ڈبہ لائے اور وہ بھی سب اسی کے اندر الٹا دیا۔ اسی طرح وائینم اپی کاک کی ایک بوتل لا کر ساری الٹ دی۔ غرض دیسی اور انگریزی اتنی دوائیاں ملا دیں کہ حضرت خلیفہ اوّلؓ فرمانے لگے کہ طبّی طور پر تو اب اس مجموعہ میں کوئی جان اور اثر نہیں رہا۔ بس روحانی اثر ہی ہے۔ ان دنوں میں جو مریض بھی حضور کے پاس آتا۔ خواہ کسی بیماری کا ہو۔ اُسے آپ یہی تریاق الٰہی دیدیتے۔ اور جہاں طاعون ہوتی وہاں کے لوگ حفظ ماتقدم کے لئے مانگ کر لے جاتے تھے۔ ایک شخص کے ہاں اولاد نہ تھی اور بہت کچھ طاقت کی کمزوری بھی تھی۔ اس نے دعا کے لئے عرض کیا۔ آپ نے اُسے تریاق الٰہی بھی دی اور دعا کا وعدہ بھی فرمایا۔ پھر اس کے ہاں اولاد ہوئی۔ اس دوائی کا ایک کنستر بھرا ہوا گھر میں تھا۔ جو سب اسی طرح خرچ ہوا۔ کبھی کسی کو اس کے دینے میں بخل نہ کیا۔ حالانکہ قریباً دو ہزار روپیہ کے تو صرف یاقوت ہی اس میں پڑے تھے۔

خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ کنستر مَیں نے بھی دیکھا تھا۔ ایک پورا کنستر تھا جو مُنہ تک بھرا ہوا تھا بلکہ شاید اس سے بھی کچھ دوائی بڑھ رہی تھی۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کا یہ طریق ہوتا تھا کہ علاج میں کسی ایک دوائی پر حصر نہیں کرتے تھے بلکہ متعدد ادویہ ملا دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ معلوم نہیں خدا نے کس میں شفا رکھی ہے بلکہ بعض اوقات فرماتے تھے کہ ایک دوائی سے بعض کمزور لوگوں میں شرک پیدا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے اور یہ بھی کہ خدا کا فضل عموماً پردے کے پیچھے سے آتا ہے۔‘‘

حضرت مرزابشیراحمدصاحبؓ تحریرفرماتے ہیں  کہ یہ ایک خاص مقام کی بات ہے ورنہ طبّی تحقیق کرنے والوں کے لئے علیحدہ علیحدہ چھان بین بھی ضروری ہوتی ہے۔ تاکہ اشیاء کے خواص معیّن ہوسکیں۔ (سیرۃ المہدی جلد اول روایت نمبر798)

بیماری سے بچاؤ کی ایک اَور ظاہری تدبیر

حضرت ڈاکٹرمیر محمد اسمٰعیل صاحب بیان فرماتے ہیں ’’کہ جب پنجاب میں طاعون کا دور دورہ ہوا اور معلوم ہوا کہ چوہوں سے یہ بیماری انسانوں میں پہنچتی ہے۔ تو حضرت صاحب نے بلیوں کا خیال رکھنا شروع کردیا بلکہ بعض اوقات اپنے ہاتھ سے دودھ کا پیالہ بلیوں کے سامنے رکھدیا کرتے تھے۔ تاکہ وہ گھر میں ہل جائیں۔چنانچہ اس زمانہ سے اب تک دارمسیح موعود میں بہت سی بلیاں رہتی ہیں۔‘‘

حضرت مرزابشیراحمدصاحبؓ تحریرفرماتے  ہیں کہ ایک زمانہ میں تو ہمارے گھر میں بلیوں کی اس قدر کثرت ہوگئی تھی کہ وہ تکلیف کا باعث ہونے لگی تھیں۔جس پربعض بلوں کو پنجروں میں بند کروا کے دوسری جگہ بھجوانا پڑا تھا۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس روایت سے پتہ لگتا ہے کہ باوجود خدائی وعدہ کے کہ آپ کی چاردیواری میں کوئی شخص طاعون سے نہیں مرے گا۔آپ کو خدا کے پیدا کئے ہوئے اسباب کا کتنا خیال رہتا تھا۔۔(سیرۃ المہدی جلد اول روایت نمبر913)

صدقہ و خیرات کا اہتمام

حضور علیہ السلام وبائی امراض کے دنوں میں صدقہ وخیرات کا بھی خاص اہتمام فرماتے۔ اس بارہ میں اہلیہ محترمہ حضرت قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی کی روایت ہے کہ’’جب بڑی سخت طاعون پڑی تھی توحضورؑ نے حکم دیا تھا کہ لوگ صدقہ کریں۔ چنانچہ لوگوں نے صدقے کئے اور حضورعلیہ السلام نے بھی کئی جانور صدقہ کئے تھے۔ گوشت اس قدر ہوگیا تھا کہ کوئی کھانے والا نہیں ملتا تھا۔ انہی دنوں میں ماسٹر محمد دین صاحب جو آج کل ہیڈ ماسٹر ہیں ان کو طاعون ہو گئی تھی۔ ان کے واسطے حضور علیہ السلام نے کیمپ لگوادیا تھا۔ تیمارداری کے واسطے ڈاکٹر گوہردین صاحب کو مقرر فرمایا تھا اور گھر میں ہم سب کو حکم دیا تھا کہ’’دعا کرو،خدا ان کو صحت دیوے۔ چنانچہ ان کو صحت ہوگئی تھی۔‘‘(سیرۃ المہدی جلد دوم روایت نمبر1444)

حضرت میاں فضل محمد صاحبؓ (دوکاندار محلہ دارالفضل قادیان) فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں اپنی بیوی کو ساتھ لے کر آیا۔ جب میری بیوی اندر گھر میں داخل ہونے لگی تو شادی خان دربان نے روک دیا۔ ہر چند کہا گیا مگر اس نے اندر جانے کی اجازت نہ دی کیونکہ اکثر گاؤں میں اردگرد طاعون کا حملہ ہورہا تھا اور اندر جانے کی اجازت نہ تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد حضورؑ باہر سے تشریف لے آئے ۔ السلام علیکم کے بعد مصافحہ بھی ہوا، حضورؑ نے پوچھا کہ ’’اس جگہ کھڑے کیوں ہو؟‘‘ میں نے عرض کی کہ حضور ؑ میاں شادی خان اندر جانے نہیں دیتا۔ حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’آؤ میرے ساتھ چلو‘‘ اور وہ اندر چلے گئے ۔(سیرۃ المہدی جلد دوم روایت نمبر1266)

اسی طرح محترمہ برکت بی بی صاحبہ اہلیہ اللہ یار صاحب ٹھیکیدار روایت کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں اور میری بہن مکیریاں سے آئے۔ طاعون کے دن تھے۔ حضورعلیہ السلام کے دروازہ پر پہرہ تھا۔ حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ تم کو کسی نے نہیں روکا؟‘‘ عرض کیا کہ نہیں ۔ حضورؑ ہم کو کسی نے نہیں روکا۔ حضورعلیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ ’’جہاں سے تم آئی ہو وہاں تو طاعون نہیں تھا؟ ہم نے کہا کہ نہیں۔ حضورعلیہ السلام نے فرمایا کہ ’’کوئی جگہ خالی نہیں رہےگی۔ سب جگہ طاعون پڑ جائے گی‘‘ ۔(سیرۃ المہدی جلد دوم روایت نمبر1479)

وبائی علاقے سے پرہیز ہی اچھا ہے

حضرت میاں محمد شریف صاحب کشمیری ؓبیان فرماتے ہیں کہ میاں جمال الدین صاحب سیکھوانی برادر مولوی امام الدین صاحب سیکھوانی نے حضور سے عرض کیا (حضور مسجد میں اوپر تشریف رکھتے تھے) کہ حضور یہ ہمارا بھائی محمد شریف ہے اور ان کی طرف طاعون کی بیماری کا بہت زور ہے۔ یعنی اُس علاقے میں جہاں سے یہ آئے تھے۔ ان کے لئے دعا کریں۔ تو حضور علیہ السلام نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ طاعون کس طرح ہوتی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ پہلے چوہے مرتے ہیں۔ فرمانے لگے کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نوٹس ہے۔ پھر میں نے عرض کیا کہ حضور! جب سرخ پھوڑا نکلے تو وہ بیمار بچ جاتا ہے اور زرد والا نہیں بچتا۔ حضور نے فرمایا کہ کیا آپ وہاں جایا کرتے ہیں؟مَیں نے عرض کیا، پوچھا کیا مَیں جایا کروں؟ آپ نے فرمایا کہ پرہیز ہی اچھا ہے۔ عام طور پر اُن کے پاس نہ جایا کرو۔ مگر جس کو ایمان حاصل ہے اُس کو کوئی خطرہ نہیں وہ طاعون سے نہ مرے گا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد12صفحہ115-116روایت حضرت میاں محمد شریف صاحب کشمیریؓ)

’’ آپ وہاں نہ جائیں‘‘

حضرت میاں محمد شریف صاحبؓ ای۔ اے۔ سی ولد میاں سراج دین صاحب سکنہ لاہوربیان فرماتے ہیں کہ’’ایک دفعہ میری دادی کو طاعون ہو گیا میں اس وقت قادیان میں تھا۔ مجھے وہاں اطلاع ملی میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ذکر کیا توآپ نے مجھے فرمایا کہ آپ وہاں نہ جائیں چنانچہ لاہور جانے سے رک گیا۔ اس کے چند روز بعد مجھے اطلاع ملی کہ میری دادی فوت ہو گئی ہے(روایات اصحابِ احمد)

وبائی علاقے سے آؔمدہ اشیاء کے استعمال میں احتیاط

ایسے مقامات جہاں وبائی امراض  پھوٹے ہوں آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام وہاں سے آمدہ خطوط کے متعلق بھی احتیاط فرماتے۔چنانچہ ذکرملتاہے کہ وبائی ایام میں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام  اس قدراحتیاط فرمایاکرتے تھے کہ اگرکسی کارڈکوبھی جووباوالے شہرسے آتا،چھوتے توہاتھ ضروردھولیتے۔(ریویوآف ریلیجنزاگست1928صفحہ5،الفضل28مئی 1937صفحہ5)

دوااورتدبیرپرکلّیۃً بھروسہ کرنے سے ممانعت

فرمایا: ’’دنیا ہزاروں بلاؤں کی جگہ ہے جن میں سے ایک طاعون بھی ہے سو تم خدا سے صدق کے ساتھ پنجہ مارو تا وہ یہ بلائیں تم سے دور رکھے کوئی آفت زمین پر پیدا نہیں ہوتی جب تک آسمان سے حکم نہ ہو اور کوئی آفت دور نہیں ہوتی جب تک آسمان سے رحم نازل نہ ہو سو تمہاری عقلمندی اسی میں ہے کہ تم جڑ کو پکڑو نہ شاخ کو۔ تمہیں دوا اور تدبیر سے ممانعت نہیں ہے مگر اُن پر بھروسہ کرنے سے ممانعت ہے اور آخر وہی ہوگا جو خدا کا ارادہ ہوگا۔‘‘(کشتی نوح روحانی خزائن جلد19صفحہ13)

سب سے کارگر نسخہ، شافی خدا سے دعا مانگنے کی نصیحت

حضورعلیہ  الصلوٰۃ والسلام نے اس بارے میں تصنیف فرمودہ کتاب ایام الصلح کی ابتداء میں  ہی جملہ احتیاطی تدابیرکے ساتھ ساتھ دعاؤں کی جانب توجہ دلائی  ہے۔

فرمایا ’’ہم یقیناً جانتے ہیں کہ کسی مرض کے متعلق ڈاکٹروں اور طبیبوں کے ہاتھ میں کوئی ایسی دوا نہیں جس پر دعویٰ کر سکیں کہ وہ قضا و قدر کے ساتھ پوری لڑائی کر کے تمام قسم کی طبائع کو ضرور کسی مرض سے حکماً نجات دے دے گی بلکہ ہمارا یقین ہے کہ اب تک طبیبوں کو ایسی ؔدوا میّسر ہی نہیں آئی اور نہ آسکتی ہے کہ جو حکماً ہر ایک طبیعت اورعمر اور ہرایک ملک کے آدمی کو مفید پڑے اور ہر گز خطا نہ جائے۔ لہٰذا باوجود تدبیر کے بہرحال دُعا کا خانہ خالی ہے اور طاعون تو تمام امراضِ مہلکہ میں سے اوّل درجہ پر ہے۔ پھر کیونکر ایسی مہلک مرض کے بارے میں کوئی دعویٰ کر سکتا ہے کہ کوئی تدبیر یا دوا اس کے حملہ قاتلانہ سے تمام جانوں کو بچا سکتی ہے۔‘‘ (ایام الصلح روحانی خزائن جلد15صفحہ234)

اس مضمون کا بنیادی مقصد جیسا کہ عرض کیا گیا یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے طاعون سے حفاظت کے خدائی وعدے کے باوجود جس قدر ممکن ہو سکا اس سے بچاؤ کی ظاہری تدابیر اختیار فرمائیں اس لیے ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ ہم حضرت خلیفۃ المسیح ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایات کی روشنی میں دعاؤں پر زور دینے کے ساتھ ساتھ کورونا وائرس سے بچاؤ کی ہر ممکنہ تدبیر اور احتیاط کو ملحوظ خاطر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

متعلقہ مضمون

تبصرے 5

  1. السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ ماشااللہ بہت عمدہ اور ایمان افروز مضمون ہے۔ مولاکریم کا سلطان القلم کی جماعت پر کتنابڑا احسان ہے کہ اُسے ایسے قلم کے دھنی عطا فرمائے گئے ہیں۔ خدا تعالیٰ لکھنے والے کے علم اور قلم میں برکت دے، اس کاوش کی بہترین جزا عطا فرمائے۔ اور اس مضمون کو نافع الناس بنائے۔ آمین۔

  2. ماشاء اللہ الفضل اخبار کا معیار پہلے سے بہت بہتر ہوگیا ہے۔ خصوصا مضامین میں جو تصاویر کا سلسلہ ہے نہایت عمدہ ہے۔ اللہ تعالی تمام کارکنان کو جزائے خیر سے نوازے۔آمین

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button