متفرق مضامین

مغربی ممالک میں اسلامی روایات اوراقدارکو زندہ رکھیں

(سید شمشاد احمد ناصر۔ مبلغ سلسلہ امریکہ)

تازہ ہوا کے شوق میں اے ساکنانِ شہر

اتنے نہ در بناؤ کہ دیوار گر پڑے

کچھ دن ہوئے ایک لمبے سفر کے دوران حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا ایک فقرہ ذہن پر مسلط رہا کہ‘‘ یورپ کے لیے تو اسلام قبول کرنا مقدر ہو چکا ہے۔’’

حضرت مصلح موعودؓ نے 1924ء میں یورپ کا سفر اختیار فرمایا جس کا ایک مقصد وہاں کے حالات کا صحیح اندازہ کر کے تبلیغ اسلام و احمدیت میں مزید بہتری لانے کی تدبیر کرنا تھا۔

دوران سفر حضرت مصلح موعودؓ نے اس حقیقت کو آشکار کرنے اور جماعت کو ان کی ذمہ داریاں یاد دلانے کے بارے میں ایک خط بھی تحریر فرمایا ۔یہ خط انوارالعلوم جلد 8صفحہ 421 تا 437پر درج ہے۔

حضرت مصلح موعود ؓ نے یورپ میں کام کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے اس مکتوب میں تحریر فرمایا:

‘‘ان مشکلات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ممالک جو اسلامی کہلاتے ہیں وہ بھی یورپ کی تہذیب کے اثر کے نیچے پردہ کو چھوڑ بیٹھے ہیں۔ عورت اور مرد کے اکٹھے ناچ کا ان میں رواج پایا جاتا ہے۔ سود عام ہوچکا ہے جب یہ اثر یورپ کے لوگوں نے صرف ملاقات سے ان مسلمان قوموں پر ڈال دیا ہے جو نسلا ًبعد نسل ٍمسلمان چلی آتی ہیں اور جو اس سے پہلے اسلامی احکام کی عادی ہو چکی تھیں تو کس طرح امید کی جاسکتی ہے کہ یہ قومیں مسلمان ہو کر ان عادات کو چھوڑ دیں گی۔… کیونکہ یورپ کو دنیا کے خیالات پر ایسی حکومت ہے کہ وہ مسمریزم کے مشابہ معلوم ہوتی ہے۔ جب یورپ مسلمان ہوا تو مسلمانوں پر اس کے خیالات کا اثر اَور بھی بڑھ جائے گا اور جس بات کو یورپ معمولی کہے گا وہ بھی معمولی سمجھنے لگیں گے۔

… وجہ یہی ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ منہ سے اسلام کا اقرار کراکے اسلام سے ایک ظاہری تعلق تو یورپ کا پیدا کرایا جاسکتا ہے مگر اسلام کے تمدن کا ان کو عادی بنا دینا ناممکن ہے۔

مگر جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ اگر یہی بات ہو کہ یورپ اسلام کو قبول کرلے مگر اس کے تمدن کو قبول نہ کرے تو یہ کیسی خطرناک بات ہوگی۔ اسلام جو تیرہ سو سال سے بالکل محفوظ چلا آیا ہے اس کی شکل کس طرح بدل جائے گی اور مسیح موعود ؑ کی آمد کی غرض کس طرح باطل ہوجائے گی۔’’

(دورہ یورپ، انوار العلوم جلد8صفحہ427تا430)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:

‘‘یورپ کے واقف کہتے ہیں کہ یہ ناممکن ہے۔ یورپ ضرور اسلام لائے گا مگر وہ ساتھ ہی اسلام کو بگاڑ دے گا اور اس کی شکل کو بالکل مسخ کر دے گا۔ بالکل ممکن ہے کہ یورپ میں چاروں طرف سے اللہ اکبر کی آوازیں آنے لگیں اور سب گرجوں کی جگہ مساجد بن جائیں لیکن یہ فرق ظاہری ہوگا۔ لوگ تثلیث کی جگہ توحید کا دعوی ٰکریں گے، مسیح کی جگہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت زیادہ کریں گے،مسیح موعودؑ پر ایمان لائیں گے، گرجوں کی جگہ مساجد بنائیں گے، مگر ان میں وہی ناچ گھر، وہی عورت اور مرد کا تعلق، وہی شراب، وہی سامان عیش نظر آئیں گے، یورپ یہی رہے گا، گو وہ بجائے عیسائی کہلانے کے مسلمان کہلائے گا۔میری عقل یہی کہتی ہے کہ حالات ایسے ہی ہیں مگر میرا ایمان کہتا ہے کہ تیرا فرض ہے کہ تو اس مصیبت کو جو اگر اسلام پر نازل ہوئی تو اس کو کچل دے گی دور کرنے کی کوشش کر۔ غور کر اور فکر اور دعا کر ۔پھر غور کر اور فکر کر اور دعا کر۔ اور پھر غور کر اور فکر کر اور دعا کر ۔کیونکہ تیرا خدا بڑی طاقتوں والا ہے ۔شاید وہ کوئی درمیانی راہ نکال دے اور اس تباہی کو جو اسلام کے سامنے ایک نئے رنگ میں کھڑی ہے دور کردے۔ غیر احمدیوں کے لیے یہ دقت ہے کہ یورپ اپنی مخالفت سے ان کو تباہ کردے گا، ہمارے لیے یہ مشکل ہے کہ یورپ اپنی دوستی سے ہمارے دین کو برباد کر دے گا۔ وہ تو اپنی حالت پر خوش ہیں، ہم لوگ خوش نہیں ہو سکتے۔ ان کو حکومتوں کی فکر ہے ہمیں اسلام کی۔’’

(دورہ یورپ، انوار العلوم جلد8صفحہ432)

حضرت مصلح موعود نے اس فکر اور دعا اور تدبیر کے ساتھ ساتھ اپنی نصائح میں یہ بھی لکھا ہے کہ

‘‘…اگر میں اس جدوجہد میں مر گیا تو اے قوم !میں ایک نذیر عُریان کی طرح تجھے متنبہ کرتا ہوں کہ اس مصیبت کو کبھی نہ بھولنا۔ اسلام کی شکل کو کبھی نہ بدلنے دینا۔ جس خدا نے مسیح موعودؑ کو بھیجا ہے وہ ضرور کوئی راستہ نجات نکال دے گا۔ پس کوشش نہ چھوڑنا، نہ چھوڑنا، نہ چھوڑنا، آہ نہ چھوڑنا۔ میں کس طرح تم کو یقین دلاؤں کہ اسلام کا ہر ایک حکم ناقابل تبدیل ہے، خواہ چھوٹا ہو،خواہ بڑا۔جو چیز سنت سے ثابت ہے وہ ہرگز نہیں بدلی جاسکتی۔ جو اس کو بدلتا ہے وہ اسلام کا دشمن ہے وہ اسلام کی تباہی کی پہلی بنیاد رکھتا ہے کاش وہ پیدا نہ ہوتا۔’’

(دورہ یورپ، انوار العلوم جلد8صفحہ433)

فرمایا:

‘‘ یورپ سب سے بڑا دشمن اسلام کا ہے ۔وہ مانے نہ مانے تمہاری کوشش کا کوئی اثر ہو یا نہ ہو تم کو اسے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اگر تم دشمن پر فتح نہیں پا سکتے تو تمہارا یہ فرض ضرور ہے کہ اس کی حرکت کو دیکھتے رہو تا وہ تمہاری غفلت سے فائدہ اٹھا کر تم پر فتح نہ پالے۔ اور پھر میں کہتا ہوں کہ یہ کسی کو کس طرح معلوم ہوا کہ یورپ آخر اسلام کو قبول نہیں کرے گا ۔یورپ کے لیے تو اسلام کا قبول کرنا مقدر ہو چکا ہے۔

ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم دیکھیں کہ وہ ایسی صورت سے اسلام کو قبول کرے کہ اسلام ہی کو نہ بدل دے۔’’

(دورہ یورپ، انوار العلوم جلد8صفحہ433)

حضرت مصلح موعود ؓ نے اپنے اس مکتوب میں جماعت احمدیہ کے افراد کے سامنے جس کیفیت اور درد کا اظہار فرمایا ہے وہ آج بھی اسی طرح قائم ہے۔ اس مکتوب کو آپ جتنی مرتبہ بھی پڑھیں گے آپ پر یہ حقیقت روشن ہوتی جائے گی کہ جن خدشات کا حضورؓ نے ذکر فرمایا ہے وہ اس وقت شدت کے ساتھ سر اٹھا رہی ہیں۔ ہمارے خلفائے کرام نے بار بار اُن کو اِن کی طرف توجہ دلائی ہے۔ چند ایک کا ذکر کرنا یہاںمناسب سمجھتا ہوں۔

پردے کی اہمیت

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے اس مکتوب میں‘‘ کام کی مشکلات’’ کے تحت جس پہلی اور اہم مشکل کا ذکر فرمایا ہے وہ یورپ کی تہذیب کے زیر اثر پردہ چھوڑنا اور عورت ومرد کا اکٹھے میل ملاپ اور ناچ گانے میں شامل ہونا ہے۔

اس وقت امریکہ اور یورپ میں یہ مرض بہت پھیل چکی ہے۔ بے پردگی کی وجہ سے معاشرہ اخلاقی گراوٹ میں اپنی اونچائی کے مراحل کو چھو گیا ہے۔ بلکہ یورپ اور بالخصوص عیسائیت اس بات پر مسلمانوں کو اکسا رہی ہے کہ اسلام میں عورتوں کے حقوق نہیں ہیںاور وہ عورتوں کو تیسرے درجہ کا شہری سمجھتا ہے۔ عورت کو پردہ میں رکھ کر اس پر ظلم کیا گیا ہےجو اس کے حقوق غصب کرنے والی بات ہے۔ گویا ہر جگہ یہ آواز گشت کر رہی ہے اور بدقسمتی سے مسلمان کہلانے والے اس باز گشت کے زیر اثر آ کر خواتین کا پردہ چھڑا رہے ہیں۔ اور واقعی سمجھنے لگے ہیں کہ اگر ہم نے پردہ کو اختیار کیا تو یہ ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہوگی۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہ احساس کمتری میں مبتلا ہو چکے ہیں اور بعض اسلامی ممالک کے غیر شرعی اور غیر ضروری دباؤ کی وجہ سے ان میں منافقت بھی پیدا ہوگئی ہے۔

ایک دفعہ خاکسارنے اپنے بچوں کے ساتھ چھٹی پر پاکستان جانے کےلیے سفر اختیار کیا۔ ہم نے سوچا کہ راستےمیں عمرہ بھی ادا کرلیں۔ چنانچہ واشنگٹن سے سفر کا آغاز ہوا۔ ہمارے جہاز میں کچھ خواتین سوار ہوئیںجو امریکن لباس میں ملبوس تھیں۔ لیکن جوں ہی ہم جدہ پہنچنے والے تھے اس وقت ان سب خواتین اور بچوں نے فورا ًاپنے لباس کے اوپر برقعے پہن لیے اور محسوس نہ ہونے دیا کہ یہ وہی خواتین ہیں جو چند منٹ پہلے امریکن لباس میں تھیں۔

اس وقت مسلمان یورپین لوگوں کے زیر اثراحساس کمتری میں مبتلا ہوگئے ہیں اور اپنی خواتین ،جو اپنے ملکوں میں پردہ اپنائے ہوئے تھیں،ان میں سے بعض نے نہ صرف پردہ کو خیرباد کہہ دیا ہے بلکہ بے پردگی کے حق میں دلائل دیتے بھی نظر آتی ہیں۔ اور ا س طرح یورپ کی آزادی کے گیت گائے جاتے ہیں۔ اس سے ایسا معلوم ہو تا ہے کہ اسلام کی تعلیمات کو وہ حقیر نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔

دوسری طرف پردہ پر اس شدت سے زور دیا گیا ہے اور غیر اسلامی پردہ اختیار کیا گیا ہے جس سے واقعی بیچاری عورت کو قید کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ جس پر بعض ممالک میں زبردستی بھی عمل درآمد کروایاجا رہا ہے۔ دراصل ان لوگوں نے اسلام کو دلوں میں جگہ نہیں دی۔ نہ اسلام کی حکمتوں کو سمجھا ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑنے ایسے ہی لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا:

‘‘یورپ کی طرح بے پردگی پر بھی لوگ زور دے رہے ہیں۔لیکن یہ ہرگز مناسب نہیں۔یہی عورتوں کی آزادی فسق وفجور کی جڑ ہے۔جن ممالک نے اس قسم کی آزادی کو روارکھا ہے ذرا اُن کی اخلاقی حالت کا اندازہ کرو۔اگر اس کی آزادی اور بے پردگی سے اُن کی عِفّت اور پاک دامنی بڑھ گئی ہے تو ہم مان لیں گے کہ ہم غلطی پر ہیں۔لیکن یہ بات بہت ہی صاف ہے کہ جب مرد اور عورت جوان ہوں اور آزادی اور بے پردگی بھی ہو تو اُن کے تعلقات کس قدر خطرناک ہوں گے۔ بدنظر ڈالنی اور نفس کے جذبات سے اکثر مغلوب ہو جانا انسان کا خاصہ ہے۔پھر جس حالت میں کہ پردہ میں بے اعتدالیاں ہوتی ہیں اور فسق و فجور کے مرتکب ہو جاتے ہیں تو آزادی میں کیا کچھ نہ ہوگا۔مردوں کی حالت کا اندازہ کرو کہ وہ کس طرح بے لگام گھوڑے کی طرح ہو گئے ہیں۔نہ خدا کا خوف رہا ہے نہ آخرت کا یقین ہے۔دنیاوی لذات کو اپنا معبود بنا رکھا ہے۔پس سب سے اول ضروری ہے کہ اس آزادی اور بے پردگی سے پہلے مردوں کی اخلاقی حالت درست کرو۔اگر یہ درست ہو جاوے اور مردوں میں کم ازکم اس قدر قوت ہو کہ وہ اپنے نفسانی جذبات کے مغلوب نہ ہوسکیں تو اس وقت اس بحث کو چھیڑو کہ آیا پردہ ضروری ہے کہ نہیں؛ ورنہ موجودہ حالت میں اس بات پر زور دینا کہ آزادی اور بے پردگی ہو گویا بکریوں کو شیروں کے آگے رکھ دینا ہے۔ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ کسی بات کے نتیجہ پر غور نہیں کرتے۔کم از کم اپنے کانشنس سے ہی کام لیں کہ آیا مردوں کی حالت ایسی اصلاح شدہ ہے کہ عورتوں کو بے پردہ ان کے سامنے رکھا جاوے۔’’

(ملفوظات جلد چہارم ایڈیشن 2010انڈیا 104-105)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے ایک مرتبہ فرمایا:

‘‘پردہ کے متعلق بڑی افراط تفریط ہوئی ہے۔ یورپ والوں نے تفریط کی ہے۔ اب ان کی تقلید سے بعض نیچری بھی اسی طرح چاہتے ہیں۔ حالانکہ اس بے پردگی نے یورپ میں فسق و فجور کا دریا بہا دیا ہے اور اس کے بالمقابل بعض مسلمان افراط کرتے ہیں کہ کبھی عورت گھر سے باہر نکلتی ہی نہیں…غرض ہم ان دونوں قسم کے لوگوں کو غلطی پر سمجھتے ہیں جو افراط اور تفریط کر رہے ہیں۔’’

(ملفوظات جلد سوم انڈیا ایڈیشن 2010صفحہ55)

پھر فرمایا:

‘‘اسلامی پردہ سے یہ ہرگز مراد نہیں ہے کہ عورت جیل خانہ کی طرح بند رکھی جائے۔ قرآن شریف کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں ستر کریں۔ وہ غیر مرد کو نہ دیکھیں۔ جن عورتوں کو باہر جانے کی ضرورت تمدنی امور کے لیے پڑے ان کو گھر سے باہر نکلنا منع نہیں ہے۔ وہ بے شک جائیں لیکن نظر کا پردہ ضروری ہے۔’’

(ملفوظات جلد اول ص297-98۔ایڈیشن 2010ءانڈیا)

پس پردہ سے حیا اور پاکدامنی کی حفاظت ہوتی ہے۔ اب اگر کوئی اسے ہی خیر باد کہہ دےتو کیا باقی رہ جائےگا۔ اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر خلیفۂ وقت باربار اس کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ اسلامی پردہ کے اغراض و مقاصد ،اس کا حسن اور فلسفہ اور اس زمانے میں اس کی خاص کر ضرورت کو بار بار خلفائے کرام ادفراد جماعت کےسامنے اجاگر کرتے رہے ہیں۔ نیز ہمیں اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ ہم بغیر کسی احساس کمتری کے اس معاشرہ کو اسلام کی صحیح تعلیمات کا عکس اپنےعملی نمونے کے ذریعہ دکھائیں۔ کیونکہ اگر آج ہم نے ایسا نہ کیا تو پھر کوئی اور کرنے والا نہیں ہے!

بہت ہی درد کے ساتھ ہمارے سب خلفاء کرام نے بار بار اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ مغربی معاشرہ کی رَو میں ہم نے نہیں بہنا۔ بہادری یہ ہے کہ بہاؤ کے خلاف جایا جائے۔اس لیے نہ صرف بازاروںمیں پردہ کیا جائے بلکہ شادی بیاہ کے موقع پر بھی مردوں اور عورتوں کا الگ الگ انتظام ہواور وہاں پر ناچ گانے کی بجائے دعاؤں اور نیک تمناؤں کےاظہار سے شادیوں کا انعقاد ہو۔ اسی لیے نکاح، رخصتانہ اور ولیمہ کے مواقع پر تلاوت، نظمیں اور دعائیں ہوتی ہیں۔

حضرت مصلح موعودؓ نے مذکورہ بالا مکتوب میں جس امر کی طرف توجہ دلائی ہے اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر ہم نے اسلام کی تعلیمات پر خود عمل نہ کیا بلکہ یورپ کے آگے ایسا اسلام پیش کیا جس کا درحقیقت اسلام سےکوئی واستہ نہیں تو پھراگر یہ لوگ ظاہر میں اسلام قبول کربھی لیںتو اس کا کیا فائدہ ؟

پس ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم مغربی معاشرہ میں جرات کے ساتھ اسلامی اقدار اور روایات کو اپنائے رکھیں۔

بچپن سے تربیت

اسی حوالے سے دوسری بات جس کا خاکسار ذکر کرنا چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے گھروں میں بچوں کی شروع سے ہی اسلامی اقدار اور ریاوات کے مطابق تربیت ہونی چاہیے ۔ بچپن سے ہی بچوں کے دل میں اسلام کی قدر و منزلت اور ا س کی حکمت ذہن نشین کرتےرہنا چاہیے۔

ہر کام شروع کرنے سے پہلے دعا کریں

یہ بھی ایک بہت ضروری امر ہے جس کی طرف توجہ نہیں کی جاتی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ فرماتے ہیں:

‘‘نبی اکرمﷺ کا فرمان ہے کہ ہر کام سے پہلے بسم اللہ الرحمان الرحیم پڑھنا چاہیے۔ اور اللہ تعالیٰ کی مدد چاہتے ہوئے۔ اس سے دعا مانگتے ہوئے کہ وہ ہمارے اس کام میں برکت ڈالے اور اللہ تعالیٰ اس کا نیک نتیجہ نکالے ۔ کام کو شروع کرنا چاہیے …بسم اللہ الرحمان الرحیم کے معنے یہ ہیں۔ کہ ہم یہ کام شروع کررہے ہیں اور اسے شروع کرنے سے قبل اللہ تعالیٰ کی مدد چاہتے ہیں جو تمام صفات کا ملہ و حسنہ اپنے اندر رکھتا ہے۔ اور جس کے اندر کوئی نقص ، قصور ، کو تاہی ، کمی اور کمزوری مقصود نہیں ہو سکتی’’

چھوٹے چھوٹے کام کے لیے بھی دعا کر لینی چاہیے

حضورؒ نے یہاں پر ایک مثال بھی بیان فرمائی کہ مثلاً جوتی پہننی ہے۔ اگر انسان خد ا کو یاد رکھے بغیر جوتی میں پاؤں ڈالتا ہےاور وہاں ایک سانپ بیٹھا ہو۔ یا اس کا اندر کوئی بچھو چھپا ہوجو اس کو ڈس لے تو وہ اس کی ہلاکت کا باعث بن سکتا ہے یا اسے شدید درد اور تکلیف میں مبتلا کر سکتا ہے۔ اب دیکھو یہ کتنا معمولی اور مختصر سا فعل ہے کہ ہم کمرے سے باہر جانے کے لیے جوتی پہننا چاہتے ہیں۔ لیکن اسلام ہمیں یہ کہتا ہے کہ اس کام کے کرنے سے پہلے تم بسم اللہ الرحمان الرحیم پڑھ لو تا تمہارے لیے خداتعالیٰ کی صفات الرحمان اور الرحیم کا جلوہ ظاہر ہو۔ اگر تم ایسا نہ کر و گے تو ممکن ہے اس جوتی کا پہننا تمہارے لیے ہلاکت یا تکلیف کا باعث بن جائے۔

حضور رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:

‘‘بعض لوگ جو اللہ تعالیٰ کی گو کچھ شناخت رکھتے ہیں۔ لیکن پوری شناخت اور عرفان نہیں رکھتے۔ وہ بڑے بڑے اور اہم کاموں کے لیے تو دعا کرتے ہیں اور ان کے لیے دعا کو ضروری سمجھتے ہیں لیکن چھوٹے چھوٹے اور معمولی کاموں کے متعلق وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے لیے دعا کی کیا ضرورت ہے۔ انہیں ہم اپنی طاقت اپنے زور اور اپنے وسائل سے بجالا سکتے ہیں لیکن اسلام ہمیں یہ ہدایت دیتا ہے کہ تم اس غلطی میں کبھی نہ پڑنا۔ اگر جوتی کے ایک تسمہ کی بھی تمہیں ضرورت ہے۔ جو ایک آنہ یا دوآنہ میں بازار سے مل جا تا ہے۔ تو تم یہ سمجھو کہ جب تک خدا تعالیٰ کا اذن اور منشاء نہ ہو تمہیں وہ تسمہ بھی نہیں مل سکتا۔ اس لیے تم جوتی کا وہ تسمہ بھی اپنے رب سے مانگو اور اس کے لیے اس سے دعا کرو۔

ایک قصہ ہے کہ ایک شخص تھا۔ جس کو نبی اکرم ﷺکا یہ ارشادیادنہیں تھا کہ ہر کام سے پہلے بسم الرحمان الرحیم پڑھ کر خدا تعالیٰ کی مدد اور نصرت طلب کیا کرو۔ اس کی جیب میں پیسے تھے۔ اور ان کی وجہ سے وہ اترارہا تھا۔ ایک دفعہ اسے ایک گدھا خریدنے کی ضرورت محسوس ہوئی قریب شہر میں منڈی لگی ہوئی تھی۔ چنانچہ وہ گدھا خریدنے کے لیے گھر سے نکلا لیکن گھر سے باہر نکلتے ہوئے اس نے خدا تعالیٰ کو یاد نہ کیا۔ نہ اس نے خدا تعالیٰ سے دعا کی ۔ وہ شہر کی طرف جارہا تھا۔ کہ رستہ میں اس کا ایک دوست ملا۔ اس نے اس سے دریافت کیا۔تم اس وقت کدھر جارہے ہو اس نے کہا میں منڈی سے ایک گدھا خریدنے جارہا ہوں ۔ منڈی میں بہت سے گدھے ہوں گے ان میں سے میں اپنی پسند کا ایک گدھا خرید لوں گا۔ ایک دوست نے کہا۔ بھئی تم نے یہ فقرے بڑے آرام سے کہہ دیئے ہیں۔ لیکن خدا تعالیٰ سے دعا نہیں کی۔ تم خدا تعالیٰ سے دعا کرو ۔کہ وہ تمہیں تمہاری پسند کا اور برکت والا گدھا مہیا کردے۔ اس جاہل آدمی نے جواب دیا۔ مجھے دعا کی کیا ضرورت ہے۔ روپے میری جیب میں ہیں اور گدھا منڈی میں موجود ہے۔ اور پھر میری مرضی بھی گدھا خریدنے کی ہے۔ سو میں منڈی کی طرف جارہا ہوں ۔ وہاں سے میں اپنی پسند کا ایک گدھا خرید لوں گا اس کے لیے خدا تعالیٰ سے دعا کرنے اور بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنے یا انشاءاللہ کہنے کی کیا ضرورت ہے۔ بہرحال اس نے ایک بڑہانکی ، کبروغرور کا مظاہرہ کیا۔ خداتعالیٰ کے مقابلہ میں ایک رنگ میں ابا ء کا پہلو اختیار کیا ۔ منڈیوں میں ایسے لوگوں کی تلاش میں اور ان کو سبق د ینے کےلیے جیب کترے بھی ہوتے ہیں ۔ چنانچہ جب وہ منڈی گیا تو ایک جیب کترے نے اس کی جیب کتر لی اور اس کا سارا روپیہ نکال لیا اور اسے اس کا علم بھی نہ ہوا۔ اس نے منڈی میں گھوم پھر کر اپنی پسند کا ایک گدھا منتخب کیا۔ وہ بڑا خوش تھا کہ اسے اس کی پسند کا گدھا مل گیا ہے اس نے سودا چکایا گدھے کا مالک بھی اس کے ہا تھ وہ گدھا فروخت کرنے پر تیار ہو گیا لیکن جب اس نے رقم نکالنے کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالا تو وہاں کچھ بھی نہ تھا۔ رقم چوری ہو چکی تھی۔ اس نے اپنا سر نیچے گرایا اور بغیر گدھا خریدے اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہو گیا۔ رستہ میں اس کا دوست ملا تو وہ کہنے لگا۔ میاں تم منڈی سے گدھا خریدنے گئے تھے لیکن خالی ہاتھ واپس آرہے ہو۔ کیا بات ہے۔ اس نے جواب دیا۔ انشاء اللہ میں منڈی سے گدھا خریدنے گیا تھا۔ انشاء الله ایک جیب کترے نے میری جیب کترلی۔ انشاء الله میری ساری رقم چوری ہوگئی۔ انشاء اللہ میں اپنی پسند کا گدھا نہیں خرید سکا۔ اس لیے انشاءاللہ میں بغیر گدھا خرید سے اپنے گھر واپس جارہاہوں۔

اس واقعہ میں بتایا گیا ہے کہ اس شخص نے چونکہ کبر اور غرور کا مظاہرہ کیا تھا۔ اور اپنے اس کبر اور غرور کی وجہ سے اس نے خدا تعالیٰ سے دعا اور مدد ونصرت مانگنے کی ضرورت نہ سمجھی تھی۔ اس نے خیال کیا تھا کہ جب روپے میرے پاس ہیں۔ اور گدھے منڈی میں موجود ہیں تو بسم الله الرحمن الرحیم پڑھنے۔ خدا تعالیٰ سے دعا مانگنے اور اس کی مدد ونصرت چاہنے کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ نے اسے ایک سبق سکھا دیا ۔’’

(مشعل راہ جلد دوم صفحہ 10-11)

بسم اللہ کی فضیلت

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:

‘‘بسم اللہ کی فضیلت پر رسول کریم ﷺ نے خاص زور دیا ہے آپﷺ فرماتے ہیں۔

کُلُّ امْرٍذِیْ بَالٍ لَایُبْدَاُ فِیْہِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اقْطَعُ

(اربعین حافظ عبد القادر عن ابی ھریرۃ بحوالہ الدررالمنثور )یعنی جس بڑے کام کو بسم اللہ سے شروع نہ کیا جائے وہ بے برکت ہوتا ہے۔ چنانچہ رسول کریم ؐنےیہ سنت قائم فرمائی کہ مسلمان اپنے سب کاموں کو بسم اللہ سے شروع کیا کریں۔چنانچہ ایک حدیث ہےاغلق بابک و اذکر اسم اللّٰہ عزوجل فان الشیطن لا یفتح بابا مغلقا واطفی مصباحک وا ذکر اسم اللّٰہ وخمر اناءک ولو بعود تعرضہ و اذکر اسم اللّٰہ واوک سقاءک و اذکر اسم اللّٰہ عزوجل(مسند احمد بن حنبل جلد ثالث صفحہ 319) یعنی اپنا دروازہ بند کرتے ہوئے بھی بسم اللہ کہہ لیا کرو اور چراغ بجھاتے ہوئے بھی، اور برتن کو ڈہانکتے ہوئے بھی۔ اور اپنی مشک کا منہ باندھتے ہوئے بھی۔ اسی طرح بیوی کے پاس جاتے ہوئے۔ وضو کرتے ہوئے کھانا کھاتے ہوئے۔پاخانے میں داخل ہونے سے پہلے ۔ لباس پہنتے ہوئے بسم اللہ کا کہنا دوسری احادیث سے ثابت ہے ۔ قرآن کریم میں حضرت سلیمان ؑکے ایک خط کا ذکر کیا گیا ہے کہ انہوں نے بھی اپنا خط بسم اللہ سے شروع کیا تھا ۔ چنانچہ آتا ہے اِنَّہٗ مِنۡ سُلَیۡمٰنَ وَ اِنَّہٗ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ(نمل ع2) یعنی یہ خط سلیمان کی طرف سے ہے اور بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع ہوتا ہے حضرت نوح ؑکا ذکر کرکے بھی قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے کشتی میں چڑھتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ

ارۡکَبُوۡا فِیۡہَا بِسۡمِ اللّٰہِ مَ‍‍جۡؔرٖٮہَا وَ مُرۡسٰٮہَ’’

(تفسیر سورۃ فاتحہ۔تفسیر کبیر جلد اول صفحہ 14)

السلام علیکم کا رواج

ہمیں السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کو رواج دینا چاہیے۔ مغربی معاشرہ کے زیر اثر ہم میں سے کچھ لوگ ایک دوسرے کو ملتے وقت GOOD MORNINGیا GOOD AFTERNOON وغیرہ کہنے لگ گئے ہیں۔ جبکہ بچے تو صرف HIکا لفظ استعمال کرنے لگے ہیں۔ یا BYEکہنے لگ گئے ہیں۔ حالانکہ یہ کسی بھی طرح ہمیں زیب نہیں دیتا ۔بلکہ ہمیں چاہیے کہ غیروں کو ملتے وقت بھی السلام علیکم کہیں۔ خاکسار نے یہ بات آزما کر دیکھی ہے جس کے نتیجہ میں اب جب بھی ایسے غیر مسلم ملتے ہیںتوخود السلام علیکم کہتے ہیں۔ السلام علیکم کہنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے ہمارے لیےتبلیغ کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔

آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہنے سے انسان تیس نیکیاں کما سکتا ہے۔اور اسی طرح جواب دینے پر بھی اتنی ہی نیکیاں مل سکتی ہیں ۔(سنن ابی داؤد کتاب السلام باب کیف السلام؟ حدیث 5195) صحابہ کرام نے جب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کی اتنی اہمیت سنی تو وہ بازاروں میں صرف السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہنے کے لیے نکل جاتے تھے اور ایک دوسرے کو ملتے وقت دائیں ہاتھ سے مصافحہ اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہنے کو رواج دیتے تاکہ ہر طرف امن اور پیارو محبت کا معاشرہ قائم ہو ۔

(مؤطا امام مالک جلد 3صفحہ 598کتاب جامع السلام حدیث 1747مکتبۃ البشریٰ کراچی 2011ء)

آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ راستہ کا حق ادا کرو۔ پوچھا گیا وہ کیسے؟ فرمایا نگاہیں نیچی رکھنا سلام کا جواب دینا۔ نیکیوں کی تلقین کرنا۔ برائیوں سے روکنا۔

(صحیح البخاری کتاب الاستئذان باب قول اللّٰہ تعالیٰ یا یھا الذین اٰمنوا لا تدخلوا بیوتا …… حدیث 6239)

ہر کام دائیں طرف سے

ایک اور بات اسلامی روایت اور اقدار میں دائیں ہاتھ سے کھانا پینا بھی شامل ہے۔ آنحضرت ﷺ نے ایک موقعہ پر ایک بچہ کو یہی تعلیم دی کہ

کُلْ بِیَمِیْنِکَ وَکُلْ مِمَّا یَلِیْکَ

کہ دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھاؤ۔(صحیح البخاری کتاب الاطمعۃ باب التسمیۃ علی الطعام ……حدیث5376)لیکن مغربی ماحول کے زیر اثر بائیں ہاتھ سے کھانا پینا ایک فیشن کی صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔ چھوٹے بچے تو رہے ایک طرف بڑی عمر کے لوگ بھی بائیں ہاتھ سے کھانے پینے میںکوئی قباحت نہیں محسوس کرتے۔

آنحضورﷺ کی نسبت صحیح البخاری میں اس طرح ذکر ملتا ہے کہ

‘‘ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ التَّيَمُّنَ مَا اسْتَطَاعَ فِي شَأْنِهِ كُلِّهِ فِي طُهُورِهِ وَتَرَجُّلِهِ وَتَنَعُّلِهِ ’’

(صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب التیمن فی دخول المسجد وغیرہ حدیث 426)

کہ آنحضرت ﷺ اپنے تمام کاموں میں جہاں تک ممکن ہوتا دائیں طرف سے شروع کرنے کو پسند فرماتے تھے۔طہارت کےوقت بھی، کنگھی اور جوتے پہنتے وقت بھی۔

بظاہر یہ چھوٹی سی بات ہے مگر اس پر عمل کرنے سے بہترین نتائج مرتب ہوں گے۔اسی طرح شلوار، قمیص،پتلون ، کوٹ اور جوتےپہنتے وقت بھی آنحضرت ﷺ کی اس سنت کو مدنظر رکھیں۔

سونے کے وقت دعا

ایک اور سنت بنوی ﷺ یہ ہے کہ رات کو جب بستر پر سونے کے لیے لیٹیں تو دعا کر تے ہوئے سوئیں۔ یہ بھی سنت ہے اور اس میں یہ بھی آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ دعا کے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے سورۃ فاتحہ، آیت الکرسی اور آخری تینوں قل پڑھتے اور سونے کی دعا پڑھتے اور ہاتھوں پر پھونک مار کر سارے بدن پر ملتے۔

(صحیح البخاری کتاب فضائل القرآن باب فضل المعوذات حدیث 5017)

(فتاوى اللجنۃ الدائمۃ المجموعۃ الثانيۃ جلد اول صفحہ 59(از مکتبۃ الشاملہ) الناشر رئاسۃ إدارة البحوث العلميۃ والإفتاء الرياض)

اسی طرح ایک اور سنت نبوی یہ ہے کہ انسان ان دعاؤں کو پڑھے جو آپ مختلف مواقع پر پڑھا کرتے تھے اور وہ دعائیں کم سے کم معیار ہیں۔ کیونکہ آپ نے مختلف مواقع کی مختلف دعائیں سکھائی ہیں ان میں سے چند دعائیں اور ان کے مواقع درج کیے جاتے ہیں۔

٭…کھانے سے قبل دعا

کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے چاہئیں پھر کھانا کھانے سے قبل دعا پڑھنی چاہیے۔ وہ دعا یہ ہے۔

بِسْمِ اللّٰہِ وَعَلٰی بَرَکَۃِ اللّٰہ

کہ اللہ کے نام کے ساتھ اور اس کی برکت سے میں کھانا کھاتا ہوں۔

(تفسیر مظہری جلد 10 صفحہ 409 سورۃ التکاثر مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور 2002ء)

٭…کھانے کے بعد کی دعا

اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ اَطْعَمَناَ وَسَقَانَا وَکَفَانَا وَ اٰوَانَا وَجَعَلَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ

ترجمہ : تمام تعریفیں اللہ کےلیے ہیں جس نے ہمیں کھلایا پلایا، اور ہماری ضرورت پوری کی، ہمیں ٹھکانا دیا، اور ہمیں مسلمانوں میں سے بنایا۔

(سنن ابی داؤد کتاب الادب باب ما یقول عند النوم حدیث 5053)

(کنز العمال جلد 7 صفحہ 104کتاب الشمائل حدیث 18179 مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت 1985ء)

یہاں ایک بات یاد آئی کہ ایک مرتبہ جلسہ سالانہ ربوہ پر جرمنی سے ہمارے احمدی بھائی ہدایت اللہ ہبش صاحب تشریف لائے۔وہ لاہور میں تھے۔ خاکسار مکرم مولانا عبدالمالک خان صاحب مرحوم کے ساتھ لاہور میں تھا۔ ہم بھی لاہور سے ربوہ آرہے تھے تو سب اکھٹے ہی لاہور سے ربوہ ٹرین پر سوار ہوئے۔

جب ہم شیخوپورہ کے سٹیشن پر پہنچے۔ تو خاکسار نے سوچا کہ جرمنی سے دوست آئے ہیں ان کی مہمان نوازی بھی کرنی چاہیے تو میں نے شیخوپورہ سٹیشن سے کھانے کی کچھ چیزیں خریدیں اور اپنی سیٹوں پر آکر ہم تینوں نے (یعنی مکرم مولانا عبدالمالک خان صاحب، مکرم ہدایت اللہ ہبش صاحب اور خاکسار نے وہ کھائیں آخر پر میں نے کھانا ختم کرنے کی دعا پڑھی۔ تو ہدایت اللہ بخش صاحب کہنے لگے کہ ایسے نہیں بلکہ اب دعا یوں کرنی چاہیے۔

الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَطْعَمَنَا وَ سَقَانَا وَ جَعَلَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ الْاَحْمَدِیِّیْنَ۔

ترجمہ: تمام تعریفیں اللہ کےلیے ہیں جس نے ہمیں کھلایا پلایا،اور ہمیں احمدی مسلمانوں میں سے بنایا۔

٭…مسجد میں داخل ہونے کی دعا اور مسجد سے نکلنے کی دعا کو پڑھے۔

اَللّٰهُمَّ افْتَحْ لِيْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ

اے اللہ مجھ پر رحمت کے دروازے کھول دے۔

(کنز العمال جلد 7 صفحہ 660 کتاب الصلاۃ حدیث 20787 مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت 1985ء)

اَللّٰهُمَّ افْتَحْ لِيْ اَبْوَابَ فَضْلِکَ

اے اللہ مجھ پر فضل کے دروازے کھول دے۔

(کنز العمال جلد 7 صفحہ 660 کتاب الصلاۃ حدیث 20787 مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت 1985ء)

٭…بستر میں جانے کی یعنی سونے کی دعا

اس کے ایک حصہ کا ذکر اوپر کر چکا ہوں۔ سونے کی دعا بھی اسمیں شامل کرنی چاہیے جو آنحضرت ﷺ کی سنت سے ثابت ہے۔

اَللّٰھُمَّ بِاسْمِکَ اَمُوْتُ وَاَحْیٰی۔

اے اللہ ! میں تیرا نام کے ساتھ سوتا اور جاگتا ہوں۔

(صحیح البخاری کتاب الدعوات باب وضع الید تحت الخد الیمنیٰ حدیث 6314)

٭…صبح جاگنے کی دعا بھی پڑھی جائے

اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ اَحْیَانَا بَعْدَ مَااَمَاتَنَا وَاِلَیْہِ النُّشُوْرُ

تمام تعریفیں اسی کے لیے ہیں جس نے ہمیں موت کے بعد پھر زندہ کیا اور ہم سب اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔

(صحیح البخاری کتاب الدعوات باب وضع الید تحت الخد الیمنیٰ حدیث 6314)

٭…آذان کے بعد کی دعا بھی یاد کریں اور پڑھیں:

اَللّٰہُمَّ رَبَّ ھٰذِہِ الدَّعْوَةِ التَّآمَّةِ وَالصَّلٰوةِ الْقَآئِمَةِ اٰتِ مُحَمَّدَنِ الْوَسِیْلَةَ وَالْفَضِیْلَةَ وَالدَّرَجَۃِالرَّفِیْعۃَوَابْعَثْہُ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا الَّذِیْ وَعَدْتَّہٗ انَّکَ لَاتُخْلِفُ الْمِیْعَادُ۔

اس کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جس نے آذان کے بعد کی دعا پڑھی اس پر میری شفاعت واجب ہوگئی۔

(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح جلد 2 صفحہ 330-331 کتاب الصلاۃ باب فضل الاذان … حدیث 659، دار الکتب العلمیہ بیروت 2001ء)

٭…وضو کے بعد کی دعا پڑھنا۔ یہ بھی سنت بنوی ﷺ ہے اس کو بھی یاد کریںاور بچوں کو بھی کروائیں۔

اَللّٰہُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّابِیْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَھِّرِیْنَ

(سنن الترمذی کتاب الطہارۃ باب فی ما یقال بعد الوضوء حدیث 55 سنن الترمذی کتاب الطہارۃ باب فی ما یقال بعد الوضوء حدیث 55)

٭…کسی بھی سواری پر بیٹھنے کی دعا اور سفر کی دعا۔بھی پڑھنی چاہیے۔

سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا، وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ، وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ(الزخرف: 14-15)

میں نے دیکھا ہے کہ بعض والدین جو ان دعاؤں کو خود بھی پڑھتے اور روزمرہ کی بنیاد پر بچوں کو یاد کراتے ہیں وہ بآسانی ان کو یاد کر لیتے اور پڑھ لیتے ہیں شرط یہ ہے کہ خود بھی پڑھیں بچوں کو بھی وقت پر پڑھنے کے لیے کہیں مثلا ًکھانے کے وقت ماں یا باپ بچوں کو یاد دہانی کرائیں کہ یہ دعا پڑھیں ۔یاوضو کے بعد دعا پڑھنے کا کہیں۔یہی یاد کرنے اور یاد کرانے کا آسان طریق ہے۔

سر ڈھانپنا

نماز پڑھتے وقت اسی طرح بازار اور شاپنگ سینٹرز میں سر ڈھانپنا بھی سنت ہے۔ کوشش ہونی چاہیے کہ نماز کے وقت خاص طور پر ٹوپی یا کسی اور چیز سے سر ضرور ڈھانپا ہو لیکن اب آہستہ آہستہ دیکھا دیکھی لوگ ننگے سر نماز پڑھ لیتے ہیں۔ اگر کسی کے پاس ٹوپی نہیں تو وہ الگ بات ہے تاہم کوشش کرنی چاہیے کہ اس کا کوئی بندوبست کیاجائے۔ بلکہ گھر سے اس کا انتظام کرکے نکلنا چاہیے۔ بچپن سے ہی بچوں اور بچیوں کو سر ڈھانک کر نماز پڑھنے کی تحریک اور ترغیب دلانی چاہیے۔

اذان کے بعد خاموشی اور دعا

اذان کے بعد مسجدمیں نماز کے انتظار میں خاموشی اختیار کرنااوراس وقت کو نوافل اور ذکر الہی میں صرف کرنا بھی ایک اہم امرہے۔

آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے۔

الدَّعَاءُ لَا یُرَدُّ بَیْنَ الْاَذَانِ وَا لْاِقَامَۃِ

کہ آذان اور اقامت کے درمیان کی جانے والی دعا رد نہیں ہوتی۔

(سنن الترمذی کتاب الصلاۃ باب ما جاء فی ان الدعاء لا یرد بین الاذان والاقامۃ حدیث 212)

بغیر اجازت گھروں میں داخل ہونا

قرآن کریم نے اس امرکی طرف توجہ دلائی ہےکہ بغیر اجازت کے کسی کے گھر میں داخل ہونا درست نہیں۔ایک شخص ملنے خدمت نبوی ﷺمیں آیا تو آپؐ نے اسے فرمایا کہ پہلےالسلام وعلیکم کہو اور اجازت لو ۔

(سنن ابی داؤد کتاب الادب باب کیف الاستئذان؟ حدیث 5176)

احادیث میں ایک صحابی کا ذکر ملتا ہے جو قرآن شریف کے اس حکم پر عمل کرنے کے لیے بار بار گھروں میں جاتے۔ اس واقعہ کا ذکر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نےآیت

وَ اِنۡ قِیۡلَ لَکُمُ ارۡجِعُوۡا فَارۡجِعُوۡا ہُوَ اَزۡکٰی لَکُمۡ (النور:29)

کی تشریح میںاس طرح بیان فرمایا ہے:

‘‘اور اگر تم کو کہہ دیا جائے کہ جاؤ ہم مل نہیں سکتے ہمیں اس وقت فرصت نہیں تو پھر تمہارا فرض ہے کہ واپس چلے جاؤ۔ یہ نہیں کہ دھرنا مار کر بیٹھ جاؤ کہ ہمیں ضرور آنے کی اجازت دی جائے۔ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں احکام شریعت کو پورا کرنے کی اس قدر تڑپ پائی جاتی تھی کہ ایک صحابی کہتے ہیں مجھے سالہا سال یہ خواہش رہی کہ میں کسی کے ہاں جاؤں اور وہ مجھے کہے کہ واپس چلے جاؤ تاکہ ہُوَ اَزۡکٰی لَکُمۡ کے ماتحت میں ثواب حاصل کر سکوں مگر مجھے کبھی ایسا موقع نہیں ملا۔(فتح البیان جلد نمبر 6)

اس سے صحابہ کی اس محبت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جو انہیں ایک دوسرے کے ساتھ تھی۔ ایک شخص سالہاسال اس موقع کی تلاش میں رہتا ہے کہ مجھے کبھی یہ سننے کا موقع ملے کہ واپس چلے جاؤ مگر ایک صحابی بھی یہ جواب نہیں دیتا اوردوسری طرف اس صحابی میں بھی کس قدر اخلاص تھا کہ سالہا سال اس نے ایسا موقع تلاش کرنے میں لگا دیا۔’’

(تفسیر کبیر جلد ہشتم صفحہ 294)

غرباء کو دعوتوں میں بلانا

دعوت کرنا دعوتوں میں بلانا ایک دوسرے کا خیال رکھنا اہم معاشرتی و تمدنی امور میںشامل ہے۔ اس سے اخوت و محبت، تعلقات میں اضافہ ہوتا ہے۔

عموماً لوگ اپنے گھروں میں دعوتوں پر لوگوں کو بلاتے ہیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ دعوتوں کے موقع پر غرباء کو بھی یاد رکھیں۔بلکہ ولیمہ کے موقع پر اس کی خاص ہدایت ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ ولیمہ کی وہ دعوت بہت ہی بری ہے جس میں غربا ء کو نظر انداز کر دیا گیا ہو۔

(صحیح البخاری کتاب النکاح باب من ترک الدعوۃ فقد عصی اللہ و رسولہ حدیث 5177)

ایک حدیث میں آتا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا اسلام کا بہترین عمل غریبوں کو کھانا کھلانا ہے۔ اور مسلمان کو سلام کہنا ہے چاہے اس سے جان پہچان ہو یا نہ ہو۔

(صحیح البخاری کتاب الایمان باب اطعام الطعام من الاسلام حدیث 12)

آجکل گھروں میں لوگوں کو دعوتوں پر بلانا یا ایک دوسرے کے گھروں میں جانے کا رواج بہت ہی کم ہوتا جارہا ہےجس سے تعلقات میں بھی کمی آتی جا رہی ہے ۔

ایک اور بات جس کا ذکرکرنا بے حد ضروری ہے قرآن کریم کی سورۃ الاحزاب آیت 54میں بیان ہے جس کا ترجمہ یہ ہے:

‘‘اے مومنو! نبی کے گھروں میں سوائے اس کے کہ تمہیں کھانے کے لیے بلایا جائے ہر گز داخل نہ ہوا کرو۔ وہ بھی اس شرط سے کہ کھانا پکنے کے انتظار میں نہ بیٹھے رہا کرو ۔ اور نہ باتیں کرنے کے شوق میں بیٹھے رہا کرو۔ ہاں جب تم کو بلایا جائے تو پھر ضرور چلے جایا کرو ۔ پھر جب کھانا کھا چکو تو اپنے گھروں کو چلے جایا کرو۔’’

(ترجمہ از تفسیر صغیر حضرت مصلح موعود صفحہ 554)

اس آیت کریمہ میں چند بنیادی باتیں اور معاشرہ میں رہنے کے اصول بیان کیے گئے ہیں ۔مثلا ْکسی کے گھر بھی بغیر اجازت نہیں جانا۔ دوسرے بن بلائے دعوت میں نہیں جانا چاہیے اور تیسرے یہ کہ جب دعوت میں بلایا جائے خصوصا ولیمہ کی دعوت میں تو وہاں پر کھانے کے بعد خوش گپیوں کے لیے بیٹھے نہیں رہناچاہیے ۔

تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کے بارہ میں لکھا ہے کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا حضرت زینب بنت حجش سے شادی کے بعد جب آپ نے لوگوں کی دعوت کی تو لوگ دعوت کھا پی کر وہیں بیٹھے باتوں میں مصروف رہے۔ آنحضرت ﷺ نے اٹھنے کی تیاری کی تا لوگ سمجھ جائیں لیکن لوگ پھر بھی نہ اٹھے ۔ حضور واپس آئے۔ لوگ ابھی بھی بیٹھےتھے۔

اس واقعہ کو تفصیل کے ساتھ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز نے اپنے ایک حالیہ خطبہ جمعہ میں بیان فرمایا۔

پس جو اصول اس آیت میںبیان کیے گئے ہیں ان پر عمل ہونا چاہیے اور بلاوجہ کھانے کی دعوت خصوصاً شادی بیاہ کے موقعوں پر کھانے سے فراغت کے بعد جلدی آجانا چاہیے ۔

اب جب مغربی ممالک میں رہتے ہوئے بعض مسلمانوں کو ایک لمبا عرصہ گزر گیا ہے ان کا اثر ہم پر بھی ہوتا جارہا ہے۔ ہر شخص اپنی کم فرصتی کا رونا روتا ہے جس سے تعلقات سرد ہوتے جاتے ہیں۔ بلانا تو الگ رہا ملنا بھی کم ہو گیا ہے، ملاقات کی جگہ ای میل اور واٹس ایپ نے لے لی ہے۔ ماں باپ اور بزرگ ترستے رہ جاتے ہیں کہ ہمارے بچے کب ہم سے ملنے آئیں گے۔

بہرحال باہمی تعلق اور محبت بڑھانے کے لیے، ایک دوسرے کے گھر وںمیںجانا اور دعوتوں میں غرباء کو شریک کرنا بھی ضروی ہے۔

دانتوں کی صفائی

دانتوں کی صفائی بھی سنت نبوی ﷺمیں سے ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا ہےکہ اگر میری امت پر گراں نہ گزرتا تو میں انہیں ہر نماز سے پہلے مسواک کرنے کا حکم دیتا (ریاض الصالحین۔ حدیث1197) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نےآنحضرت ﷺ کو دن میں کئی بار مسواک کرتے دیکھا ہے۔ آپ کی یہ بھی روایت ہے کہ جب آپؐ بیدار ہوتے تو مسواک اور وضو کرتے اور نماز پڑھتے تھے۔(ریاض الصالحین۔ حدیث 1199) جب انسان مسواک یا برش کرتا ہے توکئی قسم کی بیماریوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ مسواک منہ کی پاکیزگی اور رب کی رضا کا ذریعہ ہے۔

(سنن النسائی کتاب الطہارۃ باب الترغیب فی السواک حدیث 5)

اس لیے دانتوں کی صفائی کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔

چھینک آنے پر دعا

اسلامی تہذیب اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک یہ بھی طریقہ ہے کہ جب کسی کو چھینک آئے تو منہ ڈھانپ لے اور الْحَمْدُلِلّٰہ کہے اور سننے والا یرحمک اللّٰہ کہے اورپھر چھینک مارنے والا

یَھْدِیْکُمُ اللّٰہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ

کہے۔کہ اللہ تمہیں ہدایت بھی دے اور تمہارا حال بھی درست رکھے۔ یَھْدِیْکُمُ اللّٰہُ کی بجائے یَغْفِرَاللّٰہُ لَکُمْ کہنا بھی درست ہے۔ اگر جمائی آئے تو منہ پر ہاتھ رکھ لے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ چھینک پسند فرماتا ہے اور جمائی کو ناپسند۔ تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو جہاں تک ہو سکے لوٹا دے ہاہا نہ کرے اس سے شیطان ہنستا ہے۔

(غنیۃ الطالبین صفحہ 36-37)

دس فطری خصائل

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دس چیزیں فطری ہیں مونچھیں کٹوانا ،داڑھی بڑھانا، مسواک کرنا، ناک میں پانی ڈال کر صاف کرنا، ناخن تراشنا، انگلیوں کے جوڑوں کو دھونا ،بغل کےبال صاف کرنا ، زیر ناف بال صاف کرنا یا مونڈنا ،استنجا کرنا ،راوی کہتے ہیں کہ میں دسویں بات بھول گیا شاید وہ کلی کرنا ہو۔

(نیل الاوطار جلد اول صفحہ 350، 352کتاب الطہارۃ باب سنن الفطرۃ حدیث 134 مطبوعہ دار ابن القیم الریاض 2005ء)

یہاں پر دس فطری باتوں کا بیان ہے اور اوپر 9کا ذکر ہے۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ دسویں بات ختنہ کرنا ہے۔ بہرحال یہ دس چیزیں ایسی ہیں جن کی اہمیت اور التزام واضح ہے۔

مونچھیں لمبی نہ ہونی چاہئیں انہیں ترشوانا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غیر ضروری لمبی اور بڑی مونچھیں ناپسندیدہ ہیں۔ اسی طرح داڑھی رکھنا سنت نبوی ہے ہر شخص کو اس سنت مبارکہ کے تحت ضرور داڑھی رکھنی چاہیے۔

صفائی کے نقطہ نظر سے ناخنوں کا ترشوانا بھی بہت ضروری ہے۔ آج کل لمبے لمبے ناخن رکھنا ایک فیشن کی صورت بن گیا ہے۔ سنت نبویؐ یہی ہے ہر ایک کے لیے خواہ مرد ہو یا عورت وہ ناخن ترشوائے۔

ایک اور بات جس کی طرف شدت سے توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ بغلوں اور زیر ناف بالوں کی صفائی بھی ہے۔ اس مغربی معاشرہ میں اس کی طرف توجہ نہیں ہے، خصوصاً نوجوان تو بغلوں کے بال صاف نہیں کرتے اور ان کی دیکھا دیکھی یہ مرض ہمارے نوجوانوں میں بھی بڑھنے لگا ہے۔ اصل میں یہ والدین کا کام ہے کہ بچوں کو یہ باتیں سکھائی جائیں مگر مشرقی حیا اس قدر مانع ہے کہ وہ بچوں کو یہ باتیں سکھانے میں شرم محسوس کرتے ہیں۔

اسی طرح ایک بات استنجا کرنا ،پیشاب اور پاخانے کے بعد صفائی کرنا بھی بہت اہم ہے۔ مغربی معاشرہ میں کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کو بھی برا نہیں سمجھا جاتا اس کی طرف بھی توجہ کی ضرورت ہے۔

کچھ چیزیں جو منع ہیں

کچھ باتیں ایسی ہیں جو ہمیں نہیں کرنی چاہئیں اور ان کا مکروہ ہونا ثابت ہے ۔مثلا ًسیٹی بجانا، تالیاں بجانا، نماز میں انگلیاں چٹخانا یا نماز میں اِدھر اُدھر دیکھنا، راستہ میں یا قبرستان میں کھانا پینا سوائے عذر کے ، خوب کِھل کھلا کر منہ پھاڑ کر ہنسنا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارہ میں فرمایا ہے

وَلاَ تُكْثِرِ الضَّحِكَ ، فَإِنَّ كَثْرَةَ الضَّحِكِ تُمِيتُ الْقَلْبَ،

(سنن الترمذی ابواب الزہد باب من اتقی المحارم فھو اعبد الناس حدیث 2305 ) پاخانہ کرتے وقت یا نہاتے وقت بات کرنا یا سلام کا جواب دینا وغیرہ۔

پانچ کرنے والی باتیں

آنحضور ﷺ نےہمیں پانچ باتیں کرنےکی نصیحت فرمائی جو ہر مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق ہے ۔آپؐ نےفرمایا کہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں۔ سلام کا جواب دینا۔ مریض کی عیادت کرنا۔ جنازے کے ساتھ جانا۔ دعوت قبول کرنا۔ چھینک کا جواب دینا اور یَرْحَمُکَ اللّٰہ کہنا۔

(صحیح البخاری کتاب الجنائز باب الامر باتباع الجنائز حدیث 1240)

اللہ تعالی ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو زندہ رکھنے اور اس کی طرف ترغیب دلانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم اس معاشرے میں رہتے ہوئے اس میں کلیۃً رنگین نہ ہوجائیں بلکہ اسلامی اقدار اور روایات کو نہ صرف خود قائم کرنے والے ہوں بلکہ اگلی نسلوں کو بھی ان پر پختگی سے عمل کروانے والے ہوں۔آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

  1. السلام علیکم ورحمۃ اللہ
    مضمون بہت اچھا ہے ماشاءاللہ
    اللہ کرے کہ خاص طورپر یورپ میں رہنے والے اس مضمون کو پڑھیں اور ہم سب اس بارہ میں سوچیں کہ کہاں کہاں ہمارے میں ان اقدار پر عمل کرنے میں کمی ہے۔ بہت ساری باتوں کا پتا لگا اور جن کا پتا تھا ان پر عمل کرنے کی طرف توجہ پیدا ہوئی۔
    جزاکم اللہ احسن الجزاء

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button