حضرت مصلح موعود ؓ

نشاناتِ صداقت آنحضرت ﷺ (قسط نمبراول)

از: سیدناحضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

(حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ 7؍ اپریل کو قادیان سے سیالکوٹ تشریف لے گئے اور 13؍ اپریل تک وہاں قیام پذیر رہے۔ دورانِ قیام حضورؓ نے 10؍ اپریل 1920ء کو احمدیہ ہال کا سنگِ بنیاد رکھتے ہوئے حاضرین سے جو خطاب فرمایا اسے انوار العلوم کی جلد پنجم میں ‘‘رسولِ کریمﷺ کی صداقت کے نشان’’ کے عنوان سے شامل کیا گیا ہے۔ حضورؓ نے سورۃ ہود کی آیت 18 کی روشنی میں نبی اکرمﷺ کی صداقت کے تین نشانات بیان فرمائے۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں اپنے وعدوں کے موافق نبی کریمﷺ کی صداقت کو ثابت کرنے کے لیے ایک ‘شاہد’(حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام) کو کھڑا فرمایا۔ حضورؓ نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی صداقت کو بھی بعض دلائل کے ساتھ ثابت فرمایا۔ اس مختصر خطاب کا متن ہدیۂ قارئین ہے۔ (مدیر)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾ (الفاتحۃ)

زمانہ بعثت نبوی کی تاریکی

رسول کریم ﷺ جن کی طرف تمام مسلمان کہلانے والے لوگ خواہ وہ کسی فرقہ سے تعلق رکھتے ہوں اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں وہ آج سے تیرہ سو سال پہلے ایک ایسے زمانہ میں مبعوث ہوئے تھے کہ اس زمانہ کی نسبت آپؐ کے دوست و دشمن سب اقرار کرتے ہیں کہ اس سے بڑھ کر تاریک زمانہ تاریخ میں نہیں پایا جاتا۔ وہ زمانہ تاریکی اور جہالت، بے دینی اور خداتعالیٰ سے دوری کے لحاظ سے تمام گزشتہ زمانوں سے بڑھا ہوا تھا۔ ہر مذہب اور ہر ملت میں ایسا اختلال اور کمزوری واقع ہو گئی تھی کہ علاوہ اس بات کے کہ کون سا مذہب سچا ہے اور کون سا جھوٹا۔ اخلاقی طور پر ہر ایک مذہب کے مدعی ایسے گر گئے تھے کہ کوئی مذہب اپنے پیروؤں پر فخر نہیں کر سکتا تھا۔ اس زمانہ میں دنیا کی درستی اور اصلاح کے لیے خداتعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کو مبعوث فرمایا۔

رسول کریمؐ کی عظمت

جس طرح وہ زمانہ سب سے زیادہ تاریک، سب سے زیادہ جہالت اور سب سے زیادہ خداتعالیٰ سے دوری کا زمانہ تھا۔ اسی طرح اس زمانہ میں رسول کریم ﷺ کو خداتعالیٰ نے سب انبیاء سے بڑا بنایا اور سب سے زیادہ چمکتا ہوا نور اور روشنی آپ کو دی کیونکہ جتنی بڑی مرض ہوتی ہے اتنا ہی بڑا اس کا علاج کیا جاتا ہے ۔ جتنی بھوک ہوتی ہے اسی کے مطابق کھانا تیار کیا جاتا ہے۔ اور جتنا لمبا قد ہوتا ہے اسی کے مطابق لباس تیار کیا جاتا ہے۔ ایک ہوشیار اور سمجھدار درزی طویل القامت انسان کے لیے ایک چھوٹے بچہ کے قد کے مطابق لباس تیار نہیں کرتا۔ ایک قابل ا ورعقلمند ڈاکٹر کسی خطرناک بیماری کے لیے بے توجہی سے نسخہ نہیں لکھتا۔ نہ اتنی مقدار میں دوائی تجویز کرتا ہے جس سے مریض کو کچھ فائدہ نہ ہو بلکہ کافی مقدار میں تجویز کرتا ہے۔

رسول کریمؐ کی عظمت کی وجہ

پس جبکہ دنیا کے تمام کے تمام مؤرخ اور سب سمجھدا رلوگ خواہ وہ کسی مذہب اور کسی ملت سے تعلق رکھتے ہوں تسلیم کرتے ہیں اور اس زمانہ کی تاریخ بھی شہادت دیتی ہے کہ اس زمانہ میں سب سے زیادہ تاریکی اور ظلمت پھیلی ہوئی تھی سب لوگ اپنے اپنے مذہب کو چھوڑ چکے تھے ان کے اخلاق و عادات بگڑ چکی تھیں تو ایسے خطرناک زمانہ میں ضروری تھا کہ دنیا کی اصلاح کے لیے وہی انسان آتا جو سب سے زیادہ نیکی اور تقویٰ، پاکیزگی اور طہارت میں بڑھا ہوا ہوتا۔ کیونکہ جب ایک معمولی درزی لمبے قد کے لیے چھوٹا کپڑا نہیں سیتا ایک معمولی طبیب خطرناک بیماری کا معمولی علاج تجویز نہیں کرتا تو وہ خدا جو علیم ہے اور ہر ایک بات کو جانتا ہے وہ کس طرح دنیا کی ایسی خطرناک حالت کو معمولی سمجھتا اور کسی معمولی انسان کو بھیج دیتا۔ پس جبکہ یہ اقرار کر لیا گیا کہ اس زمانہ میں مرض حد سے بڑھا ہوا تھا تو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس وقت اصلاح کے لیے جو رسولؐ آیا وہ بھی سب سے بڑا تھا۔

رسول کریمؐ کا انکار کس قدر خطرناک ہے

اور پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ جتنا وہ رسول بڑا تھا اتنا ہی اس کا انکار بھی بڑا اور خطرناک ہے۔ کیونکہ کوئی نعمت جتنی بڑی ہوتی ہے اس کے پھینکنے اور قدر نہ کرنے والا اتنا ہی زیادہ الزام کے نیچے ہوتا ہے۔ پس جبکہ محمدﷺ سب سے بڑی نعمت اور خداتعالیٰ کی طرف سے سب سے بڑے انسان ہیں مخلوق پر، تو ان کا رد کرنا بھی بہت بڑی ہلاکت اور خدتعالیٰ کے غضب کو بھڑکانے والی بات ہے۔

رسول کریم ﷺ کی صداقت کے نشان

پھر جب رسول کریم ﷺ کا انکار بہت بڑی لعنت اور خداتعالیٰ سے دوری کا باعث ہے۔ (ہمارے ملک میں لعنت گالی سمجھی جاتی ہے۔ لیکن عربی میں دور ہو جانے کو کہتے ہیں) تو اس کا لازمی نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ خداتعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کی صداقت ثابت کرنے کے لیے بڑے بڑے نشان بھی رکھے ہوں تاکہ ان کے ذریعہ لوگ آپؐ کو پہچان سکیں۔ ورنہ اگر ایسا نہ ہو تو قیامت کے دن لوگ کہہ سکتے ہیں کہ جب ان کا اتنا بڑا دعویٰ تھا اس کے لیے دلائل اور نشان بھی بڑے بڑے ہونے چاہئیں تھے۔ لیکن چونکہ ایسا نہ تھا اس لیے ہم ان کے نہ ماننے کی وجہ سے کسی الزام کے نیچے نہیں ہیں۔ تو عقلِ سلیم تسلیم کرے گی اور ہر مسلمان کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ رسول کریمﷺ کی صداقت کے ثبوت پہلے انبیاؑء سے بڑے ہونے چاہئیں کیونکہ آپؐ کی آمد تمام دنیا کے لیے رحمت تھی اور آپؐ کا دعویٰ سب انبیاء سے بڑھ کر تھا۔

قرآن کریم میں صداقت رسول کریم ﷺ کے نشان

اس بات کو مدنظر رکھ کر قرآن کریم کو دیکھتے ہیں کہ اس نے رسول کریم ﷺ کی صداقت کے کیا ثبوت دیئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں رسول کریمؐ کی صداقت کے متعلق فرماتا ہے۔

اَفَمَنْ كَانَ عَلٰى بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ وَ يَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَ مِنْ قَبْلِهٖ كِتٰبُ مُوْسٰۤى اِمَامًا وَّ رَحْمَةً ؕ اُولٰٓىِٕكَ يُؤْمِنُوْنَ بِهٖؕ وَ مَنْ يَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ ۚفَلَا تَكُ فِيْ مِرْيَةٍ مِّنْهُۗ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُوْنَ۔(ہود:18)

فرماتا ہے۔ اس نبی کا انکار کوئی معمولی بات نہیں۔ کسی مذہب کا انسان ہو اس کا فرض ہے کہ اس پر ایمان لائے اگر وہ خدا کی رضا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس پر سوال ہوتا ہے کہ کس طرح معلوم ہو کہ اس کے ماننے سے خداتعالیٰ کی رضا حاصل ہو سکتی ہے۔ فرماتا ہے اس کے تین ثبوت ہیں۔

اَفَمَنْ كَانَ عَلٰى بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ وَ يَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَ مِنْ قَبْلِهٖ كِتٰبُ مُوْسٰۤى اِمَامًا وَّ رَحْمَةً۔

تین زمانے ہوتے ہیں۔ ایک ماضی، دوسرا حال، تیسرا مستقبل۔ یہ تینوں زمانے شہادت دے رہے ہیں کہ محمد رسول اللہ (ﷺ) خدا کی طرف سے ہے پس جس کی صداقت کے لیے زمانہ ماضی، زمانہ حال اور زمانہ مستقبل پکار رہا ہو اس کا کون عقلمند انکار کر سکتا ہے۔

زمانہ حال کی شہادت

فرماتا ہے سب سے پہلے زمانہ حال کے لوگ ہوتے ہیں کہ وہی ایمان لانے والے ہوتے ہیں اس کے متعلق فرماتا ہے۔

اَفَمَنْ كَانَ عَلٰى بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ

کہ اس زمانہ میں ایسے ثبوت موجود ہیں جو اس رسول کی صداقت ظاہر کر رہے ہیں۔ یہاں تو مختصر طور پر فرما دیا اور دوسری جگہ اس کی یوں تفصیل کی ہے کہ دیکھو خدا اس کی تائید کر رہا اور اسے دشمنوں پر غلبہ دے رہا ہے جس سے ظاہر ہے کہ یہ خدا کی طرف سے ہے۔

زمانہ مستقبل کی شہادت

پھر آئندہ زمانہ کے متعلق فرمایا۔

يَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ

کہ آئندہ زمانہ میں بھی خدا کی طرف سے ایک ایسا گواہ آئے گا جو اس کی صداقت کو ثابت کرے گا اور اس کے سچے ہونے کی گواہی دے گا۔ رسول کریم ؐکے وقت کے جولوگ تھے ان پر آپ کے نشان حجت تھے۔ مگر سوال ہو سکتا تھا کہ جو بعد میں آئیں گے ان کے لیے کون سے نشان حجت ہوں گے۔ اس لیے فرمایا ایک ایسا شاہدآئے گا جو اپنے آنے کو خداتعالیٰ کی طرف سے ثابت کرے گا اور اس رسول کی سچائی کی گواہی دے گا۔

تو اس آیت میں فرمایا کہ زمانہ حال کے لیے تو اس کے نشان حجت ہیں اور زمانہ مستقبل کے لیے ایک اور شخص مبعوث کیا جائے گا جو اس وقت دنیا پر اس کی صداقت ظاہر کر دے گا۔ یہ تو زمانہ حال اور مستقبل کے متعلق ہوا۔

زمانہ ماضی کی شہادت

اور زمانہ ماضی کے متعلق فرماتا ہے

وَ مِنْ قَبْلِهٖ كِتٰبُ مُوْسٰۤى۔

اس سے پہلے زمانہ کے متعلق موسیٰؑ کی کتاب شہادت دے رہی ہے اس میں شہادت موجود ہے کہ بنی اسماعیل سے ایک ایسا نبی کھڑا ہو گا کہ جو اس کا انکار کرے گا اسے سزا دی جائے گی۔

(استثناء باب 18آیت 18-19 برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی انارکلی لاہور مطبوعہ 1922ء)

صداقت کے عقلی اور نقلی ثبوت

پس یہ ہیں رسول کریم ﷺ کی صداقت کے ثبوت۔ دنیا میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ا یک وہ جو کہتے ہیں عقلی ثبوت پیش کیے جائیں۔ ان کے لیے فرماتا ہے کہ اس کے ساتھ نشان ہیں اور یہ بینات اپنے ساتھ رکھتا ہے ان کو دیکھ کر اس کی صداقت کو تسلیم کرو۔ دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ نقلی طور پر صداقت کا ثبوت دو۔ ان کو فرماتا ہے۔ تمہاری کتابوں میں موجود ہے کہ آئندہ ایک نبی آئے گا اور وہ یہی ہے۔ پھر آئندہ آنے والے لوگ تھے ان کے متعلق فرمایا۔ جب دنیا خدا کو چھوڑ کر گمراہی میں مبتلا ہو جائے گی اور اس رسول کا انکار کرے گی۔ اس وقت ایسا انسان آئے گا جو نشان دکھلائے گا اور ان نشانوں سے اس رسول محمد (ﷺ) کی صداقت ثابت کر دے گا۔

موجودہ زمانہ میں رسول کریمؐ کا انکار

اب ہمیں موجودہ زمانہ کو دیکھنا چاہیے کہ کیا یہ زمانہ ایسا نہیں ہے جس میں رسول کریم ﷺ کا انکار کیا جارہا ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ ایسے زمانہ میں ایک انسان آئے گا مگر وہ خود نہیں کھڑا ہو گا بلکہ خداتعالیٰ اس کو کھڑا کرے گا۔ ورنہ یوں تو ہر ایک کہہ سکتا ہے کہ میں رسول کریم ﷺ کی صداقت ثابت کرنے کے لیے کھڑا ہوا ہوں۔ یہ صاف بات ہے کہ کسی امر کے متعلق گواہ کی اسی وقت ضرورت ہوتی ہے جب اس کا انکار کیا جاتا ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں اس زمانہ میں رسول کریم ﷺ کی صداقت کا انکار کیا جارہا ہے یا نہیں۔ گو واقعات سے کتنی ہی آنکھیں بند کر لی جائیں تاہم ہر ایک شخص کو جوضد اور تعصب کی آلائشوں سے پاک ہو گا تسلیم کرنا پڑے گا کہ جس قدر سختی کے ساتھ اس زمانہ میں رسول کریم ﷺ کی صداقت کا انکار کیا جارہا ہے اس قدر پہلے کبھی نہیں کیا گیا۔

(………باقی آئندہ )

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button