متفرق مضامین

نماز باجماعت میں صف بندی کا طریق

آنحضورﷺ کا ارشاد ہے:

مَنْ سَمِعَ النِّدَاءَ فَلَمْ یَأْتِہِ، فَلاَ صَلوٰۃَ لَہُ، اِلاَّ مِنْ عُذْرٍ۔

(سنن ابن ماجہ،ابواب المساجد والجماعات، باب التغلیظ فی التخلف عن الجماعۃ)

یعنی جو اذان کی آواز سنے اور مسجد میں نہ آئے (بلکہ گھر میں نماز پڑھ لے)تو اس کی نماز نہیں ہوگی ،سوائے اس کے کہ کوئی عذر ہو۔

ان ایام میں بین الاقوامی سطح پر لوگوں کو کورونا وائرس سے پھیلنے والی خطرناک وبا کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں ہلاکتیں ہوچکی ہیں اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ ماہرین کی رائے ہے کہ یہ وائرس لوگوں کے اجتماعات کی وجہ سے تیزی سے پھیلتا ہے، لہٰذا اس کے اثرات سے محفوظ رہنے کا ایک بہت بڑا طریق یہ بتایا جاتاہے کہ آپس کے میل جو ل سے حتی الامکان گریز کیا جائے۔ اسی طرح کسی بھی جگہ لوگ کثرت سے جمع نہ ہوں تاکہ اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جاسکے۔

 دین اسلام دن میں پانچ مرتبہ نمازکی ادائیگی کا حکم دیتا ہے، خصوصاً مردوں کو حکم دیتا ہے کہ سوائے کسی حقیقی عذر کے مسجد جاکر پانچ وقت نماز باجماعت اداکیا کریں۔ تاہم ان ایام میں کورونا وائرس کی جان لیوا وبا کی وجہ سے علمائے عظام اس بات پر متفق ہیں کہ موجودہ صورتحال میں آپس کا میل جول اور ایک جگہ پر کثرت سے لوگوں کا جمع ہونا خطرناک ہوسکتاہے اور اس وائرس کے پھیلاؤ کا ذریعہ بن سکتا ہےاوریہ کہ قرآن کریم کا حکم کہ ’اپنےہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو‘ کی روشنی میں یہ وائرس موجودہ حالات میں مسجد نہ جانے کے لیے ایک حقیقی عذر ہے۔ چونکہ نماز کے لیے مسجد جانے کی صورت میں میل جول بڑھتا ہے،لہٰذا موجودہ صورتحال میں گھروں پر نماز باجماعت اداکرنے کی ترغیب دی جارہی  ہے۔

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 27؍ مارچ 2020ء کوبراہ راست نشر ہونے والے اپنے خصوصی پیغام میں ہدایت فرمائی ہے کہ موجودہ صورتحال میں ایسے علاقوں میں جہاں حکومتی انتظامیہ کی طرف سے احتیاط کے پیش نظر مساجد میں نہ جانے کی ہدایت کی گئی ہے گھروں پرنماز باجماعت کا اہتمام کیا جائے۔

ایسی صورت میں چند معمولی باتیں وضاحت طلب ہیں۔ مثلاً یہ کہ امام کو کہاں کھڑا ہونا چاہیے، اگرمقتدیوں میں ایک بچہ اورخواتین شامل ہوں یا ایک مرد اور باقی خواتین ہوں، یا امام کی اقتدا میں صرف خواتین نماز پڑھنے والی ہوں وغیرہ وغیرہ تو اس صورت میں مقتدی مرد، بچے یا خواتین کی صف کی صورت حال کیا بنے گی۔ ان امور کو کسی حد تک واضح کرنے کے لیے ایک مختصر تحریر قارئین الفضل انٹرنیشنل کی خدمت میں پیش ہے۔

نماز باجماعت

باجماعت نماز کے معنے یہ ہیں کہ ایک شخص نماز پڑھانے کے لیے آگے کھڑا ہواور دوسرے اس کے پیچھے صف بنائیں اور جس طرح وہ نماز پڑھائے، اسی طرح پیچھے اس کی اقتدا کرنے والے نماز پڑھیں۔آگے کھڑے ہوکر نماز پڑھانے والے کو امام اور جو پیچھے صف میں کھڑے ہوتے ہیں ،ان کو مقتدی کہا جاتا ہے۔ نماز باجماعت کے لیے کم ازکم دوآدمی ہونے چاہئیں۔ نمازپڑھنے والے اگر صرف دو  ہوں تو مقتدی امام کے ساتھ دائیں جانب کھڑا ہو اور اگر نماز پڑھنے والے دو سے زیادہ ہوں تو پھر امام آگے کھڑا ہو اور مقتدی پیچھے صف بنائیں۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:’’امام کا لفظ خود ظاہر کرتا ہے کہ وہ آگے کھڑا ہو۔ یہ عربی لفظ ہے اور اس کے معنے ہیں،وہ شخص جو دوسرے کے آگے کھڑا ہو۔‘‘

(بدر 28 مارچ 1907ء صفحہ 9)

نماز کی امامت کے حوالے سے آنحضورﷺ کی سنت

امامت کے حوالے سے آنحضورﷺ کی سنت سے جو امورثابت ہیں،وہ حسبِ ذیل ہیں:

1۔ پہلایہ کہ جب کبھی حضورؐ کے ساتھ بطورمقتدی صرف ایک مرد یابچہ ہوتا،توآپ اسے بطور مقتدی اپنے دائیں جانب کھڑا کرکے امامت کروایاکرتے۔ جیساکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:

نِمْتُ عِنْدَ مَیْمُوْنَۃَ وَالنَّبِیُّ ﷺ عِنْدَھَا تِلْکَ اللَّیْلَۃَ ،فَتَوَضَّأَ ثُمَّ قَامَ يُصَلِّيْ ،فَقُمْتُ عَنْ يَّسَارِهِ، فَاَخَذَنِیْ فَجَعَلَنِیْ عَنْ یَمِیْنِہِ۔

’’ میں (اپنی خالہ )حضرت میمونہؓ کے پاس سویا اور نبیﷺ اس رات ان کے ہاں تھے۔آپﷺنے وضو کیا۔ پھر کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگے اور میں بھی آپ کے بائیں طرف کھڑا ہوگیا۔آپ نے مجھے پکڑ کر اپنی دائیں طرف کیا۔“

[صحيح بخاری،کتاب الاذان،باب اِذَا قَامَ الرَّجُلُ عَنْ یَسَارِ الاِمَامِ فَحَوَّلَہُ الاِمَامُ اِلیٰ یَمِیْنِہِ لَمْ تَفْسُدَ صَلَاتُھُمَا]

اسی طرح ایک اور روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں :

اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ ﷺصَلَّی بِہِ وَبِاُمِّہِ اَوْ خَالَتِہِ قَالَ فَاَقَامَنِیْ عَنْ یَمِیْنِہِ وَاَقَامَ الْمَرْأَۃَ خَلْفَنَا۔

یعنی رسول کریم ﷺ نے مجھے اور میری والدہ یا خالہ کو نماز پڑھائی (یعنی ہماری امامت کی)اور مجھے اپنے دائیں طرف کھڑا کیا اورعورت کو ہمارے پیچھے۔ 

[صحيح مسلم،کتاب المساجد ومواضع الصلوٰۃ،باب جَوَازِ الْجَمَاعَۃِ فِی النَّافِلَۃِ وَالصَّلٰوۃِ عَلَی حَصِیْرٍ وَخُمْرَۃٍ وَثَوْبٍ وَغَیْرِھَا مِنَ الطَّاھِرَاتِ]

2۔ جب کبھی ایک سے زائد مرد ہوتے توآپ آگے قیام فرما ہوکرامامت کرواتے اور باقی مرد آپ کے پیچھے کھڑے ہوکر نماز باجماعت اداکرتے۔ اس کی مثالیں بہت سی روایات میں بیان ہوئی ہیں۔

3۔ تیسری صورت یہ ثابت ہے کہ آپ کے ساتھ نماز کے وقت ازواج مطہرات ؓ میں سے کوئی ہوتیں اور اس کے علاوہ کوئی ایک مرد یا بچہ بھی ہوتا۔ایسی صورت میں آپ اس ایک مرد یا بچے کو اپنے دائیں جانب بطور مقتدی کھڑا کیا کرتے اور آپ کی زوجہ پیچھے صف میں اکیلی کھڑے ہوکر نماز باجماعت میں شامل ہوتیں۔جیساکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

صَلَّیْتُ اِلَی جَنْبِ النَّبِیِّﷺ وَعَائِشَۃُ خَلْفَنَا تُصَلِّیْ مَعَنَا، وَاَنَا اِلَی جَنْبِ النَّبِیِّﷺ اُصَلِّیْ مَعَہُ۔

یعنی میں نے نبی کریم ﷺکے پہلو میں نماز پڑھی اورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ہمارے پیچھے نماز ادا کی۔

[سنن النسائی،کتاب الامامۃ ،باب موقف الامام اذاکان معہ صبی وامرأۃ ]

4۔ چوتھی صورت یہ ثابت ہے کہ نماز باجماعت کے وقت آپ کے ساتھ آپ کی ازواج کے علاوہ بھی خاتون موجود ہوتیں اور ایک سے زائد مرد یا بچے بھی موجود ہوتے۔ ایسی صورت میں  آنحضورﷺ آگے کھڑے ہوکرامامت فرماتے،آپ سے پچھلی صف میں ایک سے زائد مرد یا بچے کھڑے ہوتے،اور آخری صف میں اکیلی عورت نماز باجماعت میں شامل ہوتی۔ جیساکہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں :

صَلَّيْتُ أَنَا وَيَتِيْمٌ فِىْ بَيْتِنَا خَلْفَ النَّبِىِّ ﷺ وَأُمِّيْ أُمُّ سُلَيْمٍ خَلْفَنَا.

’’ میں نے اورایک یتیم لڑکے نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اپنے گھر میں نماز پڑھی اور میری والدہ حضرت ام سلیمؓ ہمارے پیچھے (کھڑی نماز ادا کر رہی)تھیں۔“

  [صحيح بخاری،کتاب الاذان،باب المَرْأَۃُ وَحْدَھَا تَکُوْنُ صَفًّا]

اسی طرح ایک اور روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں :

اَنَّ جَدَّتَہُ مُلَیْکَۃَ دَعَتْ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ لِطَعَامٍ قَدْ صَنَعَتْہُ لَہُ فَاَکَلَ مِنْہُ ،ثُمَّ قَالَ:’’قُوْمُوْا فَلِأُصَلِّیَ لَکُمْ۔‘‘قَالَ اَنَسٌ:فَقُمْتُ اِلیٰ حَصِیْرٍ لَنَا قَدِ اسْوَدَّ مِنْ طُوْلِ مَالُبِسَ فَنَضَحْتُہُ بِمَاءٍ فَقَامَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ وَصَفَفْتُ أَنَا وَالْیَتِیْمُ وَرَاءَہُ وَالْعَجُوْزُ مِنْ وَرَائِنَا فَصَلَّی لَنَا رَکْعَتَیْنِ ،ثُمَّ انْصَرَفَ۔

یعنی ان کی دادی حضرت ملیکہؓ نے رسول اللہ ﷺ کو کھانے پر مدعو کیا،جسے انہوں نے آپ ﷺ کے لیے تیار کیا تھا۔ آپ ﷺ نے اس میں سے کچھ تناول فرمایا۔پھر فرمایا:اٹھو تاکہ میں تمہیں نماز پڑھاؤں۔حضرت انس ؓ کہتے ہیں :میں اٹھ کر اپنی ایک چٹائی کی طرف بڑھا جو کچھ عرصہ سے استعمال ہونے کی وجہ سے کالی ہوگئی تھی۔میں نے اس پر پانی چھڑکا۔پھرآنحضورﷺ قیام فرما ہوئے، میں نے اورایک یتیم لڑکے نے آپ کے پیچھے صف بنائی،اور بڑھیا(دادی)ہمارے پیچھے تھیں ( نماز پڑھ رہی تھیں)۔حضورﷺ نے دو رکعت نماز پڑھائی اور پھرواپس تشریف لے گئے۔ 

  [سنن النسائی،کتاب الامامۃ ،باب اِذَا کَانُوْا ثَلَاثَۃً وَامْرَأَۃً]

5۔ روایات سے یہ بھی ثابت ہے کہ اگر باجماعت نماز کے لیے صرف عورتیں ہی موجود ہوں تو عورت عورتوں کی امامت کرواسکتی ہے۔جیساکہ حضرت ام ورقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آنحضورﷺ ان کے ہاں ملاقات کے لیے تشریف لایا کرتے، آپﷺ نے ان کے لیے ایک مؤذن مقرر فرمایا جو اذان دیا کرتا تھااور آنحضورﷺ نے انہیں(یعنی حضرت ام ورقہؓ کو)ارشاد فرمایاکہ گھر والوں کی جماعت کروایا کرو۔

(سنن ابی داؤد،کتاب الصلوٰۃ،باب امامۃ النساء)

اگرایسی صورت ہوکہ باجماعت نماز اداکرنے والی صرف عورتیں ہی ہوں،تو عورت امام باقی عورتوں کے ساتھ اسی صف میں کھڑے ہوکر امامت کروائے گی،مرد امام کی طرح اگلی صف میں کھڑے ہوکرامامت نہیں کرواتی۔ جیساکہ ایک روایت سے ثابت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا عورتوں کو امامت کرواتے ہوئے عورتوں کے درمیان میں کھڑی ہوئیں۔

(سنن الدارقطنی، کتاب الصلوٰۃ،باب صلوٰۃ النساء جماعۃ وموقف امامھنّ)

صف بندی کا عمومی اصول

نماز باجماعت کی ادائیگی کے وقت مقتدیوں کی عمومی ترتیب کے لیے مسند احمد میں درج ذیل روایت ملتی ہے:

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ بَهْرَامَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ قَالَ: قَالَ أَبُو مَالِكٍ الْأَشْعَرِيُّ لِقَوْمِهِ: «أَلَا أُصَلِّي لَكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَفَّ الرِّجَالُ، ثُمَّ صَفَّ الْوِلْدَانُ خَلْفَ الرِّجَالِ، ثُمَّ صَفَّ النِّسَاءُ خَلْفَ الْوِلْدَانِ

(مسندأحمدحدیث نمبر22896)

یعنی حضرت ابو مالک الاشعری نے اپنے قوم سے کہا کہ کیا میں تمہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسی نماز نہ پڑھاؤں؟ چنانچہ انہوں نے پہلے مردوں کی صف بنائی مردوں کے پیچھے بچوں کی صف بنائی اور بچوں کے پیچھے عورتوں کی صف بنائی ۔

درج بالا تمام روایات سے ثابت ہے کہ اگر نماز باجماعت کی ادائیگی کے وقت عورتیں بھی موجود ہوں،تو ان کی صف مردوں سے الگ ہوگی، خواہ وہ عورت ایک ہی ہو۔خواہ عورت کی امامت کروانے والا عورت کا محرم ہو(مثلاً خاوند،والد،بیٹا،بھائی) یا کوئی اَورمحرم رشتہ دار،ہرصورت عورت الگ صف میں ہی کھڑے ہوکرباجماعت نمازمیں شامل ہوگی۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اس حوالے سے درج ذیل طریق ثابت ہے:

حضرت میر محمداسحاق صاحبؓ فرماتے ہیں :’’بچپن میں بیسیوں دفعہ ایسا ہوا کہ حضور نے مغرب وعشاء اندرعورتوں کوجماعت سے پڑھائیں۔ میں آپ کے دائیں طرف کھڑا ہوتا تھا۔ عورتیں پیچھے کھڑی ہوتیں۔‘‘ 

  (ماہانہ الفرقان ستمبر، اکتوبر1961ء صفحہ49) 

اسی طرح حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریرکرتے ہیں :

’’منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریرمجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام جالندھرمیں قیام پذیرتھے۔ تو میں اوپرکوٹھے پرگیا۔ حضورؑ تنہائی میں بہت لمبی نماز پڑھتے تھے اوررکوع سجود لمبے کرتے تھے۔ ایک خادمہ غالبًا مائی تابی اس کا نام تھا جو بہت بڑھیا تھی۔ حضور کے برابر مصلےٰ پر کھڑے ہوکر نماز پڑھ کر چلی گئی۔ میں دیرتک بیٹھا رہا۔ جب حضور نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے یہ مسئلہ پوچھا کہ عورت مرد کے ساتھ کھڑی ہوکر نماز پڑھ سکتی ہے یا پیچھے۔ حضورؑ نے فرمایا اُسے پیچھے کھڑا ہونا چاہئے۔ میں نے کہا حضورتابی توابھی حضورکے برابرنمازپڑھ کرچلی گئی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہمیں تو خبرنہیں۔ وہ کب کھڑی ہوئی اور کب چلی گئی۔‘‘  

(سیرت المہدی جلد2صفحہ122) 

یہاں یہ بات بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ شریعت اسلامی محض خشک مسائل کی پیروی نہیں چاہتی بلکہ موقع و محل کی مناسبت سے احکام بجالانے کا حکم دیتی ہے۔جہاں کہیں مجبوری ہو،وہاں گنجائش رکھنا شریعت اسلامی کا حسن ہے۔ چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ثابت ہے کہ آپ آنحضورﷺ کی پیروی میں حتی الامکان کوشش فرمایا کرتے کہ اسی سنت کی پیروی کی جائے کہ مرد الگ صف میں کھڑے ہوں اور عورتیں الگ صف میں کھڑی ہوں،جیساکہ اوپر کی سطور میں حضرت میر محمد اسحٰق صاحب رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی ثابت ہے۔تاہم  جہاں کہیں مجبوری ہوتی،تواحکام شریعت میں موجود گنجائش سے استفادہ بھی فرمایا کرتے۔جیساکہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی روایت ذیل میں درج کی جارہی ہے۔

نماز میں مجبورًا(محرم)عورت کو ساتھ کھڑا کرنا

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں :’’ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مَیں نے بارہا دیکھاکہ گھر میں نماز پڑھاتے تو حضرت ام المومنین کواپنے دائیں جانب بطور مقتدی کے کھڑا کرلیتے حالانکہ مشہور فقہی مسئلہ یہ ہے کہ خواہ عورت اکیلی ہی مقتدی ہو تب بھی اُسے مرد کے ساتھ نہیں بلکہ الگ پیچھے کھڑا ہونا چاہئے۔ ہاں اکیلا مرد مقتدی ہو تو اسے امام کے ساتھ دائیں طرف کھڑا ہونا چاہئے ۔ مَیں نے حضرت ام المومنینؓ سے پوچھا تو انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ حضرت صاحب نے مجھ سے یہ بھی فرمایا تھا کہ مجھے بعض اوقات کھڑے ہوکر چکر آجایا کرتا ہے۔ اس لئے تم میرے پاس کھڑے ہوکر نماز پڑھ لیا کرو۔‘‘  

(سیرت المہدی جلد1صفحہ636-637) 

درج بالا روایت میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عمل سے ثابت ہے کہ اگر واقعۃً کوئی حقیقی عذرہو تو مرد امامت کے وقت اپنے ساتھ کسی  محرم عورت مثلاً بیوی کوکھڑاکرکے نماز باجماعت اداکرسکتا ہے۔

عموماً گھر پر چار قسم کے رشتے مرد اورعورت کے درمیان محرم کا درجہ رکھتے ہیں:

1۔ میاں اور بیوی  

2- والد اور بیٹی  

3- والدہ اور بیٹا 

4- بہن اور بھائی

اس کے علاوہ بھی بعض رشتے محرم کا درجہ رکھتے ہیں،مثلاً والد کے والدین(دادا۔دادی)، والد کےبھائی اور بہنیں، والدہ کے والدین (نانا۔ نانی)،والدہ کےبھائی اور بہنیں وغیرہ۔

تاہم کسی غیر محرم مرد اور عورت کا ایک ہی صف میں ایک ساتھ کھڑے ہوکر نماز باجماعت اداکرنا کسی طرح بھی درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔

(وحید احمد رفیق۔ مربی سلسلہ ربوہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

تبصرے 4

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button