متفرق مضامین

1930ء میں مسلم لیگ کا اہم اجلاس۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کا کیا کردار تھا؟

(ڈاکٹر مرزا سلطان احمد)

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کا کیا کردار تھا؟

1930ءکا سال ہندوستان کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔اس سال لندن میں پہلی رائونڈ ٹیبل کانفرنس منعقد ہوئی جس کا مقصداس حوالے سے تجاویز مرتب کرنا تھا کہ مستقبل میں ہندوستان کا آئینی ڈھانچہ کیسا ہو؟ اس غرض کے لیے برطانوی حکومت نے ہندوستان سے مختلف لیڈروں کو لندن مدعو کیا تھا۔اور اسی سال دسمبر میں الہ آباد کے مقام پر مسلم لیگ کا جو سالانہ اجلاس ہوا۔ اس اجلاس کی صدارت علامہ محمد اقبال نے کی اور اس اجلاس کے خطبہ صدارت کے متعلق عمومی خیال ہے کہ اس میں ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ملک کا نظریہ پیش کیا گیا تھا۔ مسلم لیگ کے اس اجلاس کے بارے میں پاکستان میں بہت کچھ لکھا جاتا ہے اور قیام پاکستان کی تاریخ کی کوئی کتاب اس کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ ابتدائی جماعتوں سے لے کر یونیورسٹیوں تک اس اجلاس کی روئیداد پڑھائی جاتی ہے۔لیکن یہ تاریخ کا قتل ہے یا محض ایک فروگذاشت کہ ایک ذکر کہیں نہیں کیا جاتا اور وہ یہ کہ اس اجلاس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی اور جماعت احمدیہ کے نامور مبلغ حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓکا ایک اہم کردار تھا۔

پہلی رائونڈ ٹیبل کانفرنس

مسلم لیگ کے الہ آباد کے اجلاس کا ذکر کرنے سے پہلے رائونڈ ٹیبل کانفرنس کے پس منظر کا ذکر کرنا ضروری ہے۔جب برطانوی حکومت نے پہلی رائونڈ ٹیبل کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کیا تو آل انڈیا نیشنل کانگریس نے اس کا بائیکاٹ کر دیا۔ لیکن بہت سے ہندو اور مسلمان لیڈروں کو اس میں مدعو کیا گیا۔ جن مسلمان احباب کو اس میں مدعو کیا گیا تھا ان میںمحمد علی جناح ، سرشفیع ، سر آغا خان ، مولانا محمد علی جوہر اور حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحبؓ بھی شامل تھے۔

جب الہ آباد میں مسلم لیگ کا یہ سالانہ اجلاس ہوا تو اُنہی دنوں میں لندن میں پہلی رائونڈ ٹیبل کانفرنس ہو رہی تھی۔ لندن میں یہ کانفرنس 12؍نومبر 1930ءکو شروع ہو گئی تھی۔ اس کی ایک سب کمیٹی یہ تجاویز تیار کر رہی تھی کہ آئندہ ہندوستان کا وفاقی ڈھانچہ کیسا ہونا چاہیے؟ مرکزی حکومت کو کیا اختیار ملنے چاہئیں اور ہندوستان کا آئین کیسا ہونا چاہیے؟ محمد علی جناح صاحب اور سرشفیع بھی اس سب کمیٹی کے ممبر تھے۔اس سب کمیٹی نے 16؍ دسمبر 1930ء کو اپنی پہلی رپورٹ پیش کی۔اور ابھی اس سب کمیٹی نے اپنی دوسری رپورٹ اس کے بعد پیش کرنی تھی۔اسی دوران الہ آباد میں مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس ہوا اور اس کی صدارت علامہ محمد اقبال کر رہے تھے۔

مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس اور اقبال کی صدارت

اس اجلاس میں اقبال کےخطبہ صدارت کے متعلق یہ مشہور ہے کہ اس میں پہلی مرتبہ پاکستان کا نظریہ پیش کیا گیا تھا۔ اقبال کی اس تجویز کے معین الفاظ یہ تھے کہ

I would like to see the Punjab, North-West Frontier Province, Sind and Baluchistan amalgamated into a single State. Self-government within the British Empire, or without the British Empire, the formation of a consolidated North-West Indian Muslim State appears to me to be the final destiny of the Muslims, at least of North-West India

ترجمہ: میں چاہتا ہوں کہ پنجاب ،شمال مغربی سرحدی صوبہ ، سندھ اور بلوچستان ایک ریاست میں مدغم ہو جائیں۔ میرے نزدیک برطانوی سلطنت کے اندر رہتے ہوئے یا اس سے علیحدہ ہو کر شمال مغربی ہندوستان میں مسلمان ریاست مسلمانوں کی آخری منزل ہے۔

یہاں پر لفظ سٹیٹ [ریاست ] سے عموماََ مکمل خود مختار ریاست کا مطلب لیا جاتا ہے۔جبکہ تقریر کے اصل مسودے میں بھی اس کے اوپر Muslim India Within Indiaیعنی ‘‘ ہندوستان کے اندر مسلمانوں کا ہندوستان ’’ کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں۔لفظ سٹیٹ ایک ملک کے اندر شامل ریاست یا صوبے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔اسی خطاب میں یہ بات آگے جا کراورواضح ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد یہ الفاظ قابل غور ہیں

What is called ‘residuary powers’ must be left entirely to self-governing States, the Central Federal State exercising only those powers which are expressly vested in it by the free consent of federal States

ترجمہ: جنہیں ‘ باقی اختیارات ‘ کہا جاتا ہے انہیں خود مختار ریاستوں کے ہاتھ میں رہنا چاہیے۔ اور مرکزی وفاقی ریاست کے پاس صرف وہ اختیارات ہونے چاہییں جو کہ اس وفاق میں شامل ریاستیں خود اپنی مرضی سے اس کے حوالے کریں گی۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال کے اس صدارتی خطاب میں جس ریاست یا سٹیٹ کا تصور پیش کیا تھا ، اس نے ہندوستان کی ایک وفاقی حکومت کا حصہ ہونا تھا۔

اس اجلاس میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓکا کیا کردار تھا؟

بہر حال یہ ایک ضمنی بات تھی۔اب اصل موضوع کا ذکر کرتے ہیں کہ مسلم لیگ کے اس اجلاس میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓ کا کیا کردار تھا؟جیسا کہ پہلے عرض کی گئی ہے کہ ہندوستان کے مستقبل کے بارے میں تجاویز تیار کر نے کے لیے رائونڈ ٹیبل کانفرنس ہو رہی تھی۔ظاہر ہے کہ اُس وقت مسلم لیگ کے سامنے یہ سب سے اہم مسئلہ تھا کہ وہ اس بارے میں قرارداد منظور کرے کہ اس کانفرنس میں مسلمان شرکاء جن میں سے کئی مسلم لیگ کے اہم رکن تھے کس لائحہ عمل کی پیروی کریں؟

چنانچہ اس اجلاس میں پہلی قرارداد صدر اجلاس کی طرف سے مختلف وفات شدگان کے لیے اظہار افسوس کے لیے تھی۔اور دوسری قرارداد اس مسئلے کے بارے میں تھی۔اس قرارداد کے الفاظ یہ تھے:

That All India Muslim League while appreciating the united efforts of the Muslim members of the Round Table Conference in giving faithful expression to Muslim opinion strongly supports the resolution passed by All India Muslim Conference at Dehli on 1st January 1929 under the Presidentship of HH Sir Agha Khan and hopes that Muslim members will confine to abide by the resolution

ترجمہ: آل انڈیا مسلم لیگ رائونڈ ٹیبل کانفرنس کے مسلمان ممبران کی ان متفقہ کوششوں کو سراہتی ہے جو انہوں نے مسلمانوں کی آراء کو وفاداری سے پیش کرنے کے لیے کیں۔ اس کے ساتھ مسلم لیگ اُس قرارداد کی بھی تائید کرتی ہے جو کہ یکم جنوری 1929ء کودہلی میں آل انڈیا مسلم کانفرنس نے سر آغا خان کی زیر صدارت منظور کی تھی اور یہ امید کرتی ہے کہ مسلمان ممبران اس کی پابندی کریں گے۔

مسلم لیگ کے اجلاسات کی روئیداد سب سے پہلے مکرم شریف الدین پیرزادہ صاحب کی کتاب Foundations of Pakistanمیں شائع ہوئی۔اس کی جلد 2کے صفحہ 172پر یہ قراداد تیسرے نمبر پر درج ہے۔ اور اس کے اوپر لکھا ہے کہ یہ قرارداد سید حبیب شاہ صاحب نے پیش کی تھی۔ اس قرارداد میں ایک ترمیم پیش کی گئی تھی جسے نامنظور کر دیا گیا تھا۔اور اس ترمیم کی وجہ سے اس قرارداد پر زوردار بحث ہوئی تھی، جب بحث نے زور پکڑا تو اقبال صدارت چھوڑ کر چلے گئے تھے اور باقی اجلاس کی صدارت نواب محمد اسماعیل صاحب نے کی تھی۔

اسی طرح اردو میں ان اجلاسات کا ریکارڈ تحریک پاکستان فائونڈیشن نے ‘‘تاریخ آل انڈیا مسلم لیگ سر سید سے قائد اعظم تک ’’ کے نام سے شائع کیا ہے۔ اس کے مرتب مکرم آزاد بن حیدر تھے۔ اس کے صفحہ464پر یہ قرارداد درج ہے اور اس کے اوپر لکھا ہے کہ یہ قرارداد سید حبیب شاہ [لاہور] نے پیش کی تھی۔ اب تک نیشنل آرکائیوز میں آل انڈیا مسلم لیگ کا جو ریکارڈ محفوظ رہ سکا ہے وہ استفادہ عام کے لیے مہیا کر دیا گیاہے۔اور اس ریکارڈ کی فائل AFM 154میں اس اجلاس کی روئیداد کا ریکارڈ موجود ہے۔ اس فائل کے صفحہ 58پر وہ قرارداد یں شائع شدہ موجود ہیں جو اس اجلاس میں منظور کی گئی تھیں۔اس کے مطابق اس اجلاس میں پہلی قرارداد تو مختلف وفات شدگان کے لیے اظہار افسوس کے لیے تھی۔ اور دوسری قرارداد وہ اہم قرارداد تھی جس کا ذکر کیا جا رہا ہے۔اس کے نیچے لکھا ہے:

Proposed by:- Syed Habib Shah Saheb of Lahore

Seconded by:- Sh. Zahur Ahmad Saheb of Allahabad

Supported by:- Dr. Mufti Muhammad Sadiq of Qadian

ترجمہ:تجویز کنندہ سید حبیب شاہ صاحب آف لاہور

تائید از ظہور احمد صاحب آف الہ آباد

حمایت از ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب آف قادیان

گویا آل انڈیا مسلم لیگ کے اس اہم اجلاس میں جن تین احباب کی طرف سے یہ بنیادی اہمیت کی قرارداد پیش کی گئی تھی ان میں سے ایک حضرت مفتی محمد صادق صاحب بھی تھے۔ کسی وجہ سے یہ نام اب تک شائع ہونے والی کتب میں شائع نہیں ہو سکا تھا۔ حالانکہ تمام اجلاسات کی روئیداد میں قراردادوں کو پیش کرنے والوں کے علاوہ ان کی تائید و حمایت کرنے والوں کے نام بھی شائع ہونے چاہئیں تھے۔

آل انڈیا مسلم کانفرنس کی قرارداد کیا تھی؟

اس قرارداد میں آل انڈیا مسلم کانفرنس کی ایک قرارداد کا ذکر ہے۔ اس بات کا مختصر ذکر ضروری ہے کہ یہ کانفرنس کیا تھی اور اس نے کیا قرارداد منظور کی تھی؟ اُس وقت ہندوستان کے مسلمان کسی ایک پلیٹ فارم پر متحد نہیں تھے۔آل انڈیا مسلم لیگ بھی دو دھڑوں میں تقسیم تھی۔ خلافت کانفرنس اور جمعیت العلماء اس کے علاوہ تھیں۔اس پس منظر میں ایک ایسی کانفرنس کی تجویز ہوئی جس میں تمام مسلمان تنظیموں کو مدعو کیا گیا۔ مسلم لیگ کلکتہ گروپ نے بحیثیت جماعت اس میں شرکت نہیں کی تھی۔ لیکن مسلم لیگ پنجاب گروپ کے افراد اس کے منتظمین میں شامل تھے اور ان میں ایک نام اقبال کا بھی تھا۔ اس میں مسلم لیگ کے دونوں دھڑوں کے ، خلافت کانفرنس اور جمعیت العلماء کے بیس بیس نمائندے، اور مختلف صوبوں سے بھی نمائندے بلائے گئے تھے۔جماعت احمدیہ کے بھی چار نمائندے یعنی حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ، حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب ؓ، ابو طاہر محمد احمد صاحب اور بابو اعجاز حسین صاحب بھی مدعو تھے۔ ان کے علاوہ ایک اور احمدی مکرم پیر اکبر علی صاحب بھی ذاتی حیثیت سے مدعو تھے۔جس قرارداد کا ذکر کیا گیا ہے اس میں بنیادی طور پر یہی لکھا گیا تھا کہ ہندوستان کو ایک فیڈریشن ہونا چاہیے جس میں مختلف ریاستیں شامل ہوں۔ اور مسلمانوں کے حقوق محفوظ کرنے کے لیے مختلف تجاویز تھیں۔

کسی وجہ سے جب مسلم لیگ کا ریکارڈ شائع ہوا تو حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کا نام شائع ہونے سے رہ گیا تھا۔لیکن حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓکئی سال مسلم لیگ کی مرکزی کونسل کے رکن رہے تھے اور اس اجلاس میں بھی آپ کا ایک اہم کردار تھا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button