متفرق مضامین

دعاؤں کے دن

آج کورونا وائرس سے پھیلنے والی بیماری (Covid-19) دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ ہمارے پیارے امام حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ الودود بنصرہ العزیز نے اس بیماری سے بچنے کے لیے احباب جماعت کو خصوصاً اور دنیا کو عموماً احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ دعائیں کرنے، اپنے خالق کو پہچاننے، اس سے پختہ تعلق قائم کرنے اور اس کے اور اس کی مخلوق کے حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔

آج سے ٹھیک ایک صدی قبل دنیا کو انفلوئنزا کی عالمی وبا نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ یہ بیماری جنوری 1918ء سے دسمبر 1920ء تک اپنے اثرات دنیا پر ظاہر کرتی رہی۔ ایک اندازے کے مطابق انفلوئنزا سے جسے The Spanish Flu بھی کہا جاتا ہے اُس وقت دنیا کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ متاثر ہوا تھا۔
جس طرح ’عافیت کے حصار‘ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلیفہ آج اس بیماری سے بچنے کے لیے عالمِ انسانی کی رہنمائی فرما رہے ہیں اسی طرح ایک صدی قبل حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے انفلوئنزا کی وبا کے ایام میں 6؍ فروری 1920ء کو ایک پر معارف خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں احباب کو ایک زرّیں نصیحت فرمائی۔ حضورؓ نے فرمایا:

’’…میں اس دفعہ اپنی جماعت کے لوگوں کو خاص طور پر ایک بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ جس کی طرف خدا کے مامورین اور انبیاء اور ان کے خلفاء اور اولیاء توجہ دلاتے چلے آئے ہیں اور وہ بات دعا ہے۔ اس زمانہ میں جیساکہ میں نے پچھلے خطبوں میں بتایا تھا۔ خطرناک تغیرات ہورہے ہیں۔ مسیح موعود کے متعلق جیساکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ قَالَ الْاِنْسَانُ مَالَھَا (الزلزال:4) کہ اس وقت انسان کہے گا کہ ہوکیا گیا۔ وہی آج حال ہے۔ پہلے بھی دنیا پر مصیبتیں پڑتی تھیں اور جب مصیبت آتی۔ لوگ سمجھتے تھے کہ مصیبت آئی ہے۔ قحط آتے تو لوگ کہتے تھے کہ ایک مصیبت ہے۔ وباء پڑتی تو وہ اس کو بھی مصیبت سمجھتے تھے۔ مگر اس زمانہ میں اس طرح ابتلاؤں کے دروازے کھلے ہیں کہ انسان کہہ نہیں سکتا کہ کیا مصیبت ہے۔ جس طرح انعامات بے شمار ہیں۔ اسی طرح آج کل مصائب بھی بے شمار ہیں اور یہ بتانا مشکل ہے کہ دنیا کن کن عذابوں میں گھری ہوئی ہے۔

جولوگ دنیا کے اخبار پڑھتے ہیں اور حالات سے واقف ہیں وہ بھی نہیں بتا سکتے کہ کیا تغیرات ہونے والے ہیں۔ اگر کوئی بتانے کی کوشش کرے بھی تو اس کی بات معقول نہیں ہوگی۔ بلکہ اونگی بونگی بات ہوگی۔ پس یہ وہی نقشہ ہے جو مسیح موعود کے زمانہ کا قرآن کریم میں بتایاگیا ہے کہ اس وقت انسان کہے گا۔ اَب کیا ہوگا۔

اِن ابتلاؤں میں جن میں دنیا مبتلا ہے۔ بہت سے ایسے ہیں جن سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ مگر تاہم چونکہ ہم اسی دنیا میں رہتے ہیں۔ اس لئے ہمیں بھی کئی باتوں میں ان کاشریک ہونا پڑتا ہے۔ مثلاً وبائیں ہیں، قحط ہیں۔ ان ابتلاؤں میں ایک حد تک ہمیں بھی حصہ لینا پڑتا ہے۔ قحط ہے۔ اس میں احمدی جماعت بھی مبتلا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ الٰہی جماعتوں کو ایسے ابتلاؤں سے بالکل محفوظ رکھا جائے کیونکہ یہ خدا کی مصلحتوں کے خلاف ہوتا ہے۔ مگر ایسے ابتلاؤں میں ایک خاص فرق ہوتا ہے جو الٰہی جماعت کے لوگوں اور غیروں میں ہوتا ہے کہ غیروں میں اضطراب ہوتا ہے۔ مگر ان ابتلاؤں میں الٰہی سلسلہ کے لوگوں کو ایک اطمینان اور تقویت ملتی ہے۔ لیکن یہ نہیں ہوتا کہ ان لوگوں کے لئے آسمان سے غلہ اُترنے لگے۔ مثلاً عرب میں قحط پڑا۔ صحابہ کو بھی اس قحط میں سخت تکلیفیں برداشت کرنی پڑیں۔ مگر ان کے دل قوی تھے۔ وہ ان ابتلاؤں کو خدا کے لئے برداشت کرتے تھے۔ کیونکہ وہ دیکھتے تھے کہ یہ ابتلاءخداتعالیٰ کی طرف سے رسول کریم ﷺ کی صداقت کے لئے نشان کے طور پر نازل ہوئے ہیں۔ پس سچی جماعتیں اپنے رنگ میں ان باتوں سے بھی فائدہ اُٹھا لیتی ہیں۔

مگر چونکہ یہ موقع تاریکی کا ہوتا ہے اور جو دیکھ کر نہیں چلتا۔ وہ ٹھوکر کھاتا ہے۔ اس لئے ایسے خطرات کے زمانہ میں ضروری ہے کہ دعا سے کام لیا جائے۔ ایسے وقت میں ایک مومن، مومن بھی وہ جو قرآن پر ایمان لاتا ہے اور قرآن بھی وہ جو الحمد سے شروع ہوتا ہے۔ اس کی مثال تو اس بچہ کی سی ہے جس کی ماں اس کے پاس بیٹھی ہو۔ اس کو کیوں اضطراب ہونے لگا۔ مصیبت تو اس کے لئے کمرشکن ہوتی ہے جس کو یقین ہوکہ کوئی اس کی مصیبت دور نہیں کر سکتا اوراس کا مددگار نہیں ہے۔ مگر ایک مصیبت راحت ہوجاتی ہے اور وہ بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے۔ جس کے متعلق یہ جانتے ہوں کہ ہمیں سہارا دینے والا اور ہماری اس آفت میں کام آنے والا ہے۔

پس الحمدللہ کہنے والے کے لئے کوئی مصیبت نہیں۔ خواہ وہ مالی ہو یا جانی۔ یاحکومت کی ہویا رعایا کی۔ اندر کی ہو یاباہر کی۔ کیونکہ وہ یقین کرتا ہے کہ اس مصیبت اس ابتلاء، اس دکھ کے دور کرنے والا ایک خدا ہے۔ جس کی ذرہ ذرہ پر حکومت ہے۔ مصیبت بھیجنا، ابتلاء نازل کرنا، انعام بخشنا، یہ سب اس کے قبضہ میں ہیں۔ پس الحمدللہ کہنے والے کے لئے کوئی مصیبت نہیں۔ کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ اس کے لئے دروازہ کھلا ہے۔ جس میں سے وہ نکل سکتا ہے۔ مگر کافروں کے لئے دروازہ بند ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ ان کے لئے یہ دروازے نہیں ہیں۔ مگر وہ ان کو اپنے پر خود بند کرلیتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ دنیا میں سب سامان خدا نے رکھے ہیں۔ مگر جوان کی تحقیق اور تلاش کرتے ہیں وہی پاتے ہیں۔ دوسرے ان سے محروم رہتے ہیں۔ مثلاً کونین جو انگریزی علاجوں میں سے سے کامیاب علاج ثابت ہوا ہے اور جس سے لاکھوں جانیں بچتی ہیں اور اب تک بچی ہیں۔ پہلے سے دنیا میں موجود تھی۔ مگر دنیا اس سے غافل اور بے خبر تھی۔ اسی طرح خدا کے فضل کے دروازے کھلتے ہیں۔ مگر لوگ اس طرف پیٹھ کرلیتے ہیں۔ خدا نے اس زمانہ میں مسیح موعود کے رنگ میں اپنافضل عظیم ظاہرفرمایا ہے اور اس شکل میں اپنے انعام کا دروازہ کھولا ہے۔ مگر اس دروازے کی طرف احمدیوں نے قدم بڑھایا اور دوسروں نے اس کی ہتک کی۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ احمدیوں میں بھی ایسے ہیں، جنہوں نے اس انعام کو قبول توکیا۔ مگر اس کی پوری پوری قدر نہ کی اور پورا فائدہ نہ اُٹھایا اور بہت ہی کم ہیں جو دعاؤں سے فائدہ اُٹھاتے ہی۔ دعا ایک ہتھیار ہے جو ہر ایک مصیبت کو راستہ سے ہٹا دیتا ہے۔ بعض لوگ رسماً کہہ دیتے ہیں کہ میرے لئے دعا کرو۔ مگر وہ دعا کی حقیقی قوت سے غافل ہیں۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہمیں مانگنے کی ضرورت نہیں ۔ لیکن یہ غلط ہے۔ کیونکہ کوئی انسان ایسا نہیں جو اللہ کا محتاج نہیں۔ غنی توصرف اللہ ہی کی ذات ہے۔

پس یاد رکھو کہ انسان محتاج ہے۔ وہ غلطی کرتا ہے جو یہ خیال کرتا ہے کہ مجھے کوئی ضرورت نہیں۔ اس کی عقل کمزور ہے اور اتنی کمزور ہے کہ اسے اپنی احتیاج کا بھی علم نہیں۔ پس کوئی انسان نہیں جس کو خدا کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں، لیکن پھر بھی میں کہتا ہوں کہ اگر اپنے لئے نہیں تو جماعت کی ترقی کے لئے اور ان بھائیوں کے لئے جو دین کی خدمتوں کے لئے وطنوں سے باہر ہیں۔ دعائیں کرو۔ خدا تعالیٰ تمہارے کام بھی درست کرے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس گُر سےفائدہ اُٹھانے کی توفیق دے اور ہماری توجہ کو اپنی طرف پھیر لے۔ وہی ہمارا سہارا ہو۔ ہمارے دل اس سے راضی ہوں اور اس کی رضا ہمارے ساتھ ہو۔ آمین۔“
(الفضل 12؍فروری 1920ء)

اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ دنیا کو جلد اس بیماری کا علاج سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور جس طرح کہ وہ اپنے کلام میں فرماتا ہے کہ وہ حئی یعنی زندہ کو میّت یعنی مردہ میں سے نکالتا ہے اسی طرح وہ اس بیماری کے بد اثرات دنیا پر کم کردے اور دنیا حضرت خلیفۃ المسیح کے ارشادات کے موافق اپنے خالق کو پہچانتے ہوئے حقیقی زندگی سے ہم کنار ہو۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button