حضرت مصلح موعود ؓ

صداقتِ احمدیت (قسط نمبر04)

از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

حیاتِ مسیح ؑ سےخدا و رسولؐ پر الزام

اس سے خداتعالیٰ پر الزام آتا ہے کہ جب محمدﷺ پیار اور محبت میں سب سے بڑھ گئے تھے تو کیوں خداتعالیٰ نے ان سے سب سے زیادہ پیار اور محبت ظاہر نہ کی اور ان کے مقابلہ میں کیوںحضرت عیسیٰؑ سے اپنی محبت اور پیار کا زیادہ ثبوت دیا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ جب محمدﷺ پیار میں سب سے بڑھ گئے تھے تو خداتعالیٰ بھی انہیں کے ساتھ اپنی زیادہ محبت کا ثبوت دیتا اور مشکلات کے وقت انہیں آسمان پر اٹھا لیتا۔ صحابہؓ کے دل میں آنی کے طور پر یہ بات آئی بھی ہے کہ یہ انسان ایسا نہیں ہے کہ زمین پر وفات پائے۔ چنانچہ جب رسول کریم ﷺ نے وفات پائی تو حضرت عمرؓ جیسا جلیل القدر صحابی تلوار لے کر کھڑا ہو گیا اور انہوں نے کہا کہ جس نے یہ کہا کہ رسول کریم ﷺ فوت ہو گئے میں اس کی گردن اڑا دوں گا وہ تو آسمان پر گئے ہیں اور پھر آئیں گے۔ اس وقت اس کے خلاف کہنے کی کسی کو جرأت نہ ہوئی اور سب خاموش ہو گئے کہ اتنے میں حضرت ابوبکرؓ آئے اور سیدھے اندر چلے گئے۔ جب جاکر دیکھا کہ رسول کریم ﷺ فوت ہو گئے ہیں تو باہر گئے اور لوگوں کو بلا کر کہا سنو

وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ (اٰل عمران:145)

کہ محمد نہیں تھے مگر اللہ کے رسول آپ سے پہلے رسول فوت ہو گئے۔ اگر آپ بھی فوت ہو گئے تو کیا تم ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے۔ یہ رسول ہی تو ہیں خدا نہیں۔ اگر خدا ہوتے تو ہمیشہ زندہ رہتے۔ پھر انہوں نے کہا کہ

فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ مَاتَ، وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللّٰهَ، فَإِنَّ اللّٰهَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ، (بخاری کتاب المناقب باب قول النبی ﷺ لو کنت متخذا خلیلا)

جو محمدؐ کی عبادت کرتا ہے وہ دیکھ لے کہ آپ فوت ہو گئے ہیں اور جو اللہ کی عبادت کرتا ہے وہ سن لے کہ اللہ زندہ ہے کبھی نہیں مرتا۔

اس طرح انہوں نے بتایا کہ جو یہ کہتا ہے کہ رسول کریمﷺ فوت نہیں ہوئے وہ گویا آپ کو خدا سمجھتا ہے کیونکہ خدا ہی ایک ایسی ہستی ہے جس پر موت نہیں آسکتی۔ رسول تو پہلے بھی فوت ہو گئے ہیں اور یہ بھی فوت ہو گئے ہیں۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں جب حضرت ابوبکرؓ نے یہ آیت پڑھی اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ واقع میں رسول کریم ﷺ فوت ہو گئے ہیں اور یہ بات میرے ذہن میں آنی تھی کہ میں لڑکھڑا کر گر پڑا۔ اس وقت پھر حضرت حسانؓ مرثیہ پڑھتے ہیں اور کہتے ہیں:

کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ فَعَمِیَ عَلَیْکَ النَّاظِرُ

مَنْ شَاءَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرُ

(دیوان حسان بن ثابت صفحہ94 مطبوعہ بیروت 1966ء)

ہمارا تو سب کچھ محمد ﷺ ہی تھا جب وہ فوت ہو گیا تو ہمیں کیا کوئی مرے یا جئے۔

پس اس سے معلوم ہوا کہ رسول کریم ﷺ کی افضلیت اسی صورت میں ثابت ہو سکتی ہے کہ یہ تسلیم کیا جائے کہ آپ سے پہلے کوئی رسول زندہ نہیں رہا۔ ورنہ ایک سچا مومن کس طرح یہ برداشت کر سکتا ہے کہ محمد ﷺ تو زمین میں مدفون ہوں اور حضرت عیسیٰؑ اس وقت تک زندہ آسمان پر بیٹھے ہوں۔ طبعی عمر کے متعلق تو ہو سکتا ہے کہ خداتعالیٰ کسی نبی کو زیادہ دے دے اور کسی کو کم مگر طبعی طور پر ایک نبی کو زندہ بٹھائے رکھنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ خداتعالیٰ کو چونکہ اس نبی کی زیادہ ضرورت تھی۔ اس لئے اس کو زندہ رکھا ہے اور دوسرے کی کوئی ضرورت نہ تھی اس لئے اسے وفات دے دی۔ اس سے رسول کریم ﷺ کی شان پر اتنا بڑا حملہ ہوتا ہے کہ کوئی مسلمان اس کو ٹھنڈے دل سے برداشت نہیں کرسکتا۔

عام لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ کیا خداتعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر زندہ رکھنے پر قادر نہیں ہم کہتے ہیں قادر ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس کی کوئی قدرت ظاہر کس طرح ہوتی ہے۔ اس کی قدرت یہ ہے کہ محمد ﷺ کی افضلیت ظاہر کرے پھر اس کے خلاف کس طرح ہو سکتا ہے۔ لیکن مَیں کہتا ہوں خداتعالیٰ کا قانون قدرت بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اس طرح سنبھال کررکھنے کے خلاف ہے۔ دیکھو ایک غریب آدمی اپنے کپڑوں کو خواہ کتنے پرانے ہوں سنبھال کر رکھتا ہے تاکہ وہ پھر کام آئیں لیکن امیر اپنے پرانے کپڑے اور لوگوں کو دے دیتا ہے۔ اسی طرح غریب انسان ایک دفعہ کا پکا ہوا کھانا سنبھال کر رکھتا ہے کہ پھر کھا لوں گا۔ لیکن امیر ایسا نہیں کرتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جب بھوک لگے گی اس وقت پھر تازہ پکوا لوں گا۔ اب حضرت عیسیٰؑ کو سنبھال کر رکھنے کا یہ مطلب ہوا کہ خدا سے اتفاقاً حضرت عیسیٰؑ ایک اعلیٰ درجہ کا نبی بن گئے تھے اور پھر وہ ایسا نبی نہیں بنا سکتا تھا اس لئے ان کو سنبھال کر زندہ آسمان پر رکھ دیا کہ جب دنیا میں فتنہ و فساد پھیلے گا تو ان کو بھیج دوں گا ۔ پہلے تو میں نے بتایا ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑکو زندہ ماننے میں رسول کریم ﷺ کی ہتک ہے اب اس سے ظاہر ہے کہ ان کو زندہ ماننے والے خداتعالیٰ کی ہتک تک بھی پہنچ گئے۔ کسی نے کہا ہے۔ ع

زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجئے دہن بگڑا

عقیدہ حیات مسیح ؑکی ابتدا

اس طرح حضرت مسیحؑ کو زندہ مان کر خداتعالیٰ پر حملہ کر دیا گیا۔ ہم کہتے ہیں کیا وہ خدا جس نے حضرت عیسیٰؑ کے بعد محمد ﷺ جیسا عظیم الشان نبی پیدا کیا وہ پھر حضرت عیسیٰؑ جیسا نبی نہیں پیدا کر سکتا تھا؟ ضرور پیدا کر سکتا تھا پس اس کو ضرورت نہ تھی کہ حضرت عیسیٰؑ کو زندہ رکھ کر اپنی قدرت پر حرف آنے دیتا۔

غرض حضرت عیسیٰؑ کی حیات کا عقیدہ نہ صرف اسلام اور رسول کریم ﷺ کی ہتک کرنے والا ہے بلکہ خداتعالیٰ کی بھی ہتک کرنے والا ہے اور اس کی بنیاد اس وقت پڑی جبکہ مسلمانوں میں عیسائی شامل ہونے لگے۔ ان کی وجہ سے مسلمانوں میں بھی یہ عقیدہ داخل ہو گیا۔ ورنہ کئی بڑے بڑے بزرگوں کا یہی عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیٰؑ فوت ہو گئے ہیں۔ تو غلطی میں آکر مسلمانوں نے یہ عقیدہ اختیار کر لیا ورنہ مجھے خیال بھی نہیں آتا کہ کوئی مسلمان جان بوجھ کر ایسا عقیدہ رکھتا۔ دراصل انہوں نے اس طرف خیال ہی نہیں کیا کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا۔ اگر انہیں علم ہوتا کہ اس سے رسول کریم ﷺ کی سخت ہتک ہوتی ہے تو وہ کبھی اسے اختیار نہ کرتے۔

معیار سچائی حضرت اقدسؑ

اس وقت ہم جس انسان کی صداقت پر غور کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا دوسرا دعویٰ یہ ہے کہ امت رسول کریم ﷺ کی اصلاح کے لئے آپؐ ہی کی امت سے کوئی انسان پیدا ہونا چاہئے کیونکہ دوسرے سے مدد مانگنے سے ہتک ہوا کرتی ہے۔ اب یہ دیکھنا چاہئے کہ اگر رسول کریم ﷺ کی امت کی اصلاح کے لئے حضرت عیسیٰؑ آئیں تو اس میں رسول کریم ﷺ کی ہتک ہے یا نہیں۔ کچھ عرصہ ہوا مَیں نے اخبار میں ایک مضمون پڑھا تھا جس کا مجھ پر بڑا اثر ہوا۔ عمان ایک پرانی ریاست ہے وہاں جب بغاوت ہوئی تو ہندوستان سے تار دیا گیا کہ اگر ضرورت ہو تو ہم مدد دیں۔ اس کے جواب میں سلطان نے کہا۔ جب تک ہم میں جان ہے آپ کی مدد کی ضرورت نہیں۔ تو جب تک کسی میں طاقت ہوتی ہے اس وقت تک دوسرے سے کوئی مدد کی درخواست نہیں کرتا اور نہ دوسرے سے مدد لینا چاہتا ہے۔ اب یہ صاف بات ہے کہ حضرت عیسیٰؑ رسول کریمﷺ کی امت میں شامل نہیں ہیں بلکہ حضرت موسیٰؑ کی قوم میں سے ہیں اور انہی کی قوم کی تربیت کے لئے آئے تھے۔ چنانچہ انہوں نے خود کہا ہے کہ میں بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کی طرف بھیجا گیا ہوں۔

ان کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ جب رسول کریم ﷺ کی امت میں فساد پیدا ہو گا تو ان کو اصلاح کے لئے بھیجا جائے گا۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ خداتعالیٰ رسول کریم ﷺ کو ان کی امداد کا محتاج بنائے گا، لیکن کیا وہ مقدس انسان جس نے دنیا کو نور سے بھر دیا اوروہ سخی مرد جس نے اپنے خزانوں کے دروازے اس قدر فراخ کر دیئے کہ دنیا مالا مال ہو گئی اس کے ہاتھ میں (نعوذ باللہ) بھیک کا ٹھیکرادینا اس کی ہتک کرنا نہیں؟ خداتعالیٰ تو اس کو یہ فرمائے کہ وَ اَمَّا السَّآئِلَ فَلَا تَنۡہَرۡ(الضحیٰ:11) ہم نے تجھے وہ نعمت دی ہے اور تم پر وہ انعام کئے ہیں کہ جو کوئی بھی تم سے مانگنے آئے اس کے سوال کو ردّ نہ کرو۔ تیرے پاس تو اتنی دولت ہے وَ اَمَّا بِنِعۡمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ (الضحیٰ:12)کہ تو علی الاعلان پکار پکار کر لوگوں کو کہہ کہ آؤ اور مجھ سے لو۔ ایک تو وہ سخی ہوتاہے کہ جو اس سے مانگتا ہے اس کو ردّ نہیں کرتا۔ مگر رسول کریم ﷺ کی شان اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ خداتعالیٰ فرماتا ہے تیرا خزانہ اتنا وسیع ہے کہ جگہ بہ جگہ پھر اور شور مچا کہ آؤ مجھ سے لے لو اور یہی نہیں کہ جو سائل تیرے پاس آئے اسے تو دے بلکہ خود سائلوں کو تلاش کر کے دے۔ تو اس عظمت اور شان والا نسان جس کے سپرد خدا تعالیٰ نے نور اور معرفت کے خزانے کر دیئے اس کا بنی اسرائیل کے نبی کو بلا کر لانا کہ آؤ میری امت میں فتنہ پڑ گیا ہے اس کو دور کر دو کہا ںتک اس کی شان کے شایاں ہے۔ اگر واقع میں ایسا ہو تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ قیامت کے دن رسول کریم ﷺ حضرت عیسیٰؑ کے سامنے کیونکر آنکھ اٹھا سکتے ہیں کیونکہ جب کہ ایمان ثریا پر چلا گیا قرآن کو لوگوں نے چھوڑ دیا۔ دشمنوں نے اسلام کو مٹانے کے لئے کمریں باندھ لیں۔ اس وقت آپ کی قدرتِ قدسیہ باطل ہو گئی اور آپؐ کو دوسرے کے گھر سے دیا روشن کرنا پڑا اور دوسرے کی امداد نے آپ کی امت کو بچایا اس سے زیادہ افسوس اور رنج کی بات کون سی ہو گی اور اس سے زیادہ اور کیا محمد ﷺ پر ظلم ہو گا۔ اس بات کو سامنے رکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ محمد ﷺ سب انبیاء سے افضل ہیں۔ ماننا پڑے گا کہ یہ بالکل غلط ہے کہ رسول کریم ﷺ کی امت کی اصلاح کے لئے بنی اسرائیل سے کسی عیسیٰؑ کو لانے کی ضرورت پیش آئے گی۔ بلکہ صحیح اور سچی بات یہ ہے کہ محمد ﷺ کی قوت قدسیہ ہی خود عیسیٰؑ کو پیدا کرے گی۔ آپؐ کا روحانی فیض اور آپؐ کی تعلیم ایسے آدمی کھڑے کرے گی جو آپ کی امت کی اصلاح کریں گے۔

اجرائے نبوت کی حقیقت

اب جبکہ ان دونوں باتوں کا فیصلہ ہو گیاکہ حضرت عیسیٰؑ فوت ہو گئے ہیں اور امت محمدیہ کی اصلاح کے لئے اسی امت سے عیسیٰؑ کھڑا ہو گا تو کہا جا سکتا ہے کہ ان باتوں کو تو مان لیا لیکن خدا کی طرف سے آنے کا جو شخص دعویٰ کرتا ہے وہ تو کہتا ہے کہ میں نبی ہوں۔ کیا اس سے رسول کریم ﷺ کی ہتک نہیں ہوتی ہے؟ اس سے بھی تو ہتک ہوتی ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی آئے۔

اس بات پر بھی ہم اس طرح نظر ڈالتے ہیں کہ آیا رسول کریمﷺ کے بعد کسی نبی کا آنا آپ کی ہتک ہے یا عزت۔ یہ تو ظاہر ہے کہ جو رسول شریعت لاتے ہیں ان کی شریعت کو وہی نبی آکر مٹا سکتا ہے جو ان سے بڑا ہو۔ اب اگر کوئی یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ نبی کریم کے بعد کوئی ایسا نبی آسکتا ہے جو اس کی شریعت کو مٹا دے تو اس سے نبی کریم ﷺ کی بہت بڑی ہتک ہو گی کیونکہ اس سے یہ ظاہر ہو گا کہ آپؐ جو تعلیم لائے وہ چونکہ قابلِ عمل نہیں رہی اس لئے اس کو بدلنے کی ضرورت پیش آئی ہے۔ کیونکہ کوئی عمارت اسی وقت گرائی جاتی ہے جبکہ بوسیدہ ہو جائے یا حسبِ منشاء استعمال کے قابل نہ رہے۔ اسی طرح شریعت محمدیہؐ اسی صورت میں منسوخ ہو سکتی ہے کہ یا تو ناقص ہو جائے یا موجودہ زمانہ کے قابل نہ رہے۔ اب اگر کوئی یہ خیال رکھتا ہے تو رسول کریم ﷺ کی سخت ہتک کرتا ہے۔ لیکن اگر کوئی یہ خیال کرے کہ باوجود محمد ﷺ کی شریعت کے قائم اور برقرار رہنے کے کوئی ایسا نبی آسکتا ہے تو اس میں بھی رسول کریم ﷺ کی ہتک ہے کیونکہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ محمد ﷺ کی اتباع کے علاوہ اور بھی کوئی ایسا دروازہ ہے کہ جس کے راستے انسان خدا تک پہنچ سکتا ہے اگرکوئی ایسا دروزہ ہو تو وہ بھی رسول کریم ﷺ کی طرح یا آپ سے بڑھ کر ہوا اور یہ بھی آپؐ کی ہتک ہے۔ لیکن سوال تو یہ درپیش ہے کہ ایک انسان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کر کے اتنا بڑھ سکتا ہے یا نہیں کہ جتنا پہلے نبیوں کی تعلیم پر عمل کر کے کوئی نہیں بڑھا اور آپؐ کی تعلیم پر عمل کر کے نہ کہ اس کے خلاف چل کر، آپؐ کی غلامی میں ہو کر نہ کہ آپؐ کی برابری کر کے، آپؐ کے احکام کو مان کر نہ کہ ان کو ردّ کر کے ایک شخص عزت کے اس مقام پر کھڑا ہو سکتا ہے یا نہیں جس کا نام نبوت ہے۔ پس اس کے متعلق دیکھنا چاہئے کہ ایسا نبی محمد کی ہتک کرنے والا ہو گا یا عزت کرنے والا۔ (……باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button