حضرت مصلح موعود ؓ

ربوبیت باری تعالیٰ کائنات کی ہر چیز پر محیط ہے (قسط نمبر 03)

از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

قابل غور بات

اس بات پر تمام مذاہب کے لوگوں کو غور کرنا چاہیے کہ جب وہ مانتے ہیں کہ خدا ہم سب کا رب ہے اور اسی طرح کا رب ہے جس طرح ہم سے پہلوں کا تھا۔ پس اگر واقع میں وہ ہمارا بھی رب ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہم سے کئی سو سال پہلے تو کلام کرتا تھا مگر اب نہیں کرتا۔ اس کا جواب ان کے مذہب کوئی نہیں دے سکیں گے لیکن اسلام کہتا ہے کہ اب بھی خدا کلام کرتا ہے اور اس کے ثبوت میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ اسلام میں خدا ہر زمانہ میں ایسے لوگ بھیجے گا جو خدا سے کلام پا کر لوگوں کی اصلاح کریں گے اور اللہ سے علم پائیں گے۔ (ابوداؤد کتاب الملاحم باب ما یذکر فی قرن المائۃ)چنانچہ ایسے لوگ اسلام میں ہوتے رہے ہیں اور اس زمانہ میں بھی ایک انسان ہوا ہے جو اس بات کا مدعی تھا کہ میں اسلامی احکام پر چلنے والا اور رسول کریم ﷺ کا غلام ہوں اور اسلام کی تعلیم پر چل کر اس مرتبہ پر پہنچا ہوں کہ خدا مجھ سے کلام کرتا ہے اور آئندہ کی خبریں بتاتا ہے۔

اگر اس کا یہ دعویٰ درست ثابت ہو جائے اور ہونا چاہیے ورنہ یہ ثابت ہو جائے گا کہ خدا رب العالمین نہیں ہے تو کسی عقلمند انسان کو اسلام کے سچا ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں رہنا چاہیے۔

خدا کی ربوبیت کا ثبوت اسلام میں

مَیں نے بتایا ہے کہ ہمارے آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ اسلام میں ایسے لوگ ہوتے رہیں گے جو خدا سے کلام پاکر لوگوں کی اصلاح کریں گے اور اس کی وجہ یہ بتلائی ہے کہ خداتعالیٰ جیسے پہلے لوگوں کا رب تھا اسی طرح ہمارا بھی رب ہے اور وہ ہماری روحانی ربوبیت کے لیے ضروری ہے کہ ایسا ہو۔ پھر میں نے بتایا ہے کہ اس زمانہ میں ایک انسان ہوا ہے جس کی خداتعالیٰ نے خاص طور پر تربیت کی اور وہ خدا سے کلام پا کر کھڑا ہو اور اس نے کہا کہ مجھے اسلام کی تعلیم پر عمل کر کے اور رسول کریم ﷺ کی غلامی کی وجہ سے یہ رتبہ حاصل ہوا ہے کہ جس طرح پہلے لوگوں کی روحانی ربوبیت کے لیے نبی بھیجے جاتے تھے اسی طرح مجھے بھیجا گیا ہے۔ جو لوگ یہ سننے کے عادی ہیں کہ ہمارے رسول کے بعد اب کوئی رسول نہیں آسکتا اور نہ اب خدا کسی سے کلام کرتا ہے وہ یہ سن کر حیران ہوں گے لیکن تاریخ بتلاتی ہے کہ یہ خیال اسی وقت پیدا ہوتا رہا ہے جب قومیں گرنے لگی ہیں۔ دیکھیے یہود کا ہمیشہ یہ خیال رہا کہ انبیاء کے آنے کا سلسلہ جاری ہے اور خدا اپنے بندوں سے کلام کرتا ہے لیکن جب ان کی تباہی کا وقت آیا تو ان میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ انبیاء کا آنا بند ہو گیا ہے اور اب خدا کسی سے کلام نہیں کرتا۔ اسی طرح عیسائیوں میں بھی یہی خیال پیدا ہوا اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جو چیز کسی کے پاس نہ ہو وہ اول تو اس کے ہونے سے ہی انکار کرتا ہے نہیں تو اسے برا اور فضول بتاتا ہے۔ چنانچہ انگور کھٹے کی مثل مشہور ہے۔ تو وہ مذہب جو کسی نبی کے آنے سے یا خدا کے کلام کے جاری رہنے سے نکار کرتے ہیں وہ اس لیے نہیں کرتے کہ انہیں ضرورت محسوس نہیں ہو رہی بلکہ اس لیے کرتے ہیں کہ ان میں یہ خوبی نہیں پائی جاتی اور اس کو تسلیم کر کے انہیں ماننا پڑتا ہے کہ ہمارا مذہب قابل قبول نہیں ہے مگر اسلام اس کا انکار نہیں کرتا بلکہ اس کے ہونے کا ثبوت دیتا ہے۔ چنانچہ اس زمانہ میں بھی اس نے ثبوت پیش کیا ہے اور ایک شخص نے دعویٰ کیا ہے کہ مجھے خدا نے نبی بنا کر دنیا کی اصلاح کے لیے بھیجا ہے اور خداتعالیٰ کا رب العالمین ہونا اس کے اس دعویٰ کی کہ اب بھی دنیا کی روحانی ربوبیت کے سامان ہونے چاہئیں تصدیق کرتا ہے۔ گو یہ بات رہ جاتی ہے کہ دیکھا جائے کہ یہ دعویٰ کرنے والا سچا ہے یا نہیں۔ اس کے لیے میں مختصر طور پر کچھ دلائل بتاتا ہوں۔

حضرت مرزا صاحب کے دعویٰ کی صداقت

یاد رکھنا چاہیے کہ اس مدعی نے اس زمانہ میں جبکہ مادیات کا بہت زور شور ہے اور کئی شخص ماننے کے لیے تیار نہیں کہ خدا بھی کلام کرتا ہے حتیٰ کہ خدا نے جو پہلے کلام کیا ہوا ہے اسے بھی رد کیا جاتا ہے دعویٰ کیا ہے کہ خدا مجھ سے کلام کرتا ہے۔ اس وقت ہندوؤں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو باوجود اپنے پاس خدا کا کلام موجود ہونے کے کہتے ہیں کہ خدا کلام نہیں کرتا۔ عیسائیوں میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو انجیل و تورات کی موجودگی کے باوجود خداتعالیٰ کے کلام کرنے کے منکر ہیں۔ خود مسلمانوں میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو خدا کے کلام کا انکار کرتے ہیں اس زمانہ میں اس قسم کا دعویٰ کوئی معمولی بات نہیں پھر ایک تعلیم یافتہ اور سمجھدار جماعت سے اس دعویٰ کی تصدیق کرانی اور بھی مشکل کام ہے مگر اس مشکل کام کو اس مدعی نے سرانجام دے کر دکھادیا ہے اور جو شخص بھی اس کے حالات کو بے تعصبی کی نگاہ سے دیکھے گا اسے اس کی صداقت کا قائل ہونا پڑے گا۔

آج سے چالیس سال پہلے اس شخص نے یہ اعلان کیا تھا کہ خداتعالیٰ نے مجھے کہاہے۔

‘‘دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔’’ (تذکرہ صفحہ 104 ایڈیشن چہارم)

یہ الہام اس وقت آپ نے شائع کیا جبکہ آپ کی حالت نہایت کمزور تھی اور آپ کا نام تک کوئی نہ جانتا تھا۔ قادیان ایک ایسی چھوٹی سی بستی تھی کہ جس کی کوئی شہرت نہ تھی۔ ایک پرائمری مدرسہ اور ایک برانچ پوسٹ آفس تھا جس کے انچارج کو تین روپیہ ماہوار الاؤنس ملا کرتا تھا مگر باوجود اس کے کہ ہر لحاظ سے دنیاوی طور پر حالت کمزور تھی آپ نے دعویٰ کیا کہ میں اسلام کی صداقت میں یہ ثبوت پیش کرتا ہوں کہ خدا مجھ سے کلام کرتا ہے اور یہ کلام کیا ہے کہ

‘‘دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا۔ لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔’’ (تذکرہ صفحہ104 ایڈیشن چہارم)

اس میں پیشگوئی کی گئی تھی کہ میں نذیر ہوں یعنی جس طرح کہ پہلے نبی آتے رہے ہیں اسی طرح کا میں بھی نبی ہوں (نذیر جب مامور کی نسبت بولا جاوے تو لغت میں اس کے معنی نبی کے ہوتے ہیں) دنیا مجھے قبول نہیں کرے گی مگر اللہ جس نے مجھے بھیجا ہے وہ قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے دنیا کو منوا کر چھوڑے گا۔

یہ پیشگوئی آپؑ نے اس وقت شائع کی جبکہ آپؑ کا ایک بھی مرید نہ تھا۔ پھر جب آپؑ نے دعویٰ کیا توچاروں طرف سے دشمنوں نے آپ پر حملے کرنے شروع کر دیئے۔ عیسائیوں، ہندوؤں اور خود آپ کے ہم مذہبوں نے آپ کی مخالفت کے لیے کمر باندھ لی۔ قتل کی سازشیں کی گئیں۔ کافر قرار دیا گیا اور یہاں تک فتوے دیے گئے کہ جو شخص اس سے کلام کرے گا اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا اور اس کی اولاد ولد الزنا ہو گی۔ پھر ایسے شخص سے جو مصافحہ کرے گا وہ بھی کافر ہو جائے گا جو اس کی شکل دیکھے گا وہ بھی کافر ہو جائے گا۔ غرض کہ آپ کے خلاف کفر اور سازشوں اور منصوبوں کا ایسا حربہ چلایا گیا جس کی نظیر نہیں ملتی۔ مگر باوجود اس کے ہم دیکھتے ہیں کہ انجام کار کامیابی آپ ہی کو ہوئی۔ ایک بڑے سےبڑے انسان کے جب اس قدر مخالف پیدا ہو جائیں اور اس زور کے ساتھ حملہ آور ہوں تو وہ تباہ ہو جاتا ہے۔ چہ جائیکہ دنیاوی لحاظ سے ایک معمولی آدمی کے ساتھ ایسا سلوک ہو اس کا جو حال ہونا چاہیے وہ سمجھ لیا جائے۔ مگر حضرت مرزا صاحب نے ایسی ہی حالت میں اعلان کیا کہ میں نذیر ہو کر آیا ہوں اگر تم مجھے خوشی سے قبول نہ کرو گے تو زبردستی قبول کرایا جائے گا۔ پھر آپؑ نے فرمایا:

فَحَانَ اَنْ تُعَانَ وَ تُعْرَفَ بَیْنَ النَّاسِ (تذکرہ صفحہ 273 ایڈیشن چہارم)

کہ وقت آگیا ہے کہ تیری مدد کی جائے اور تو دنیا میں پہچانا جائے۔ پھر فرمایا

یَأْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمَیْقٍ۔(تذکرہ صفحہ 201 ایڈیشن چہارم)

یَأْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمَیْقٍ۔(تذکرہ صفحہ 297 ایڈیشن چہارم)

چاروں طرف سے تحفے تیرے پاس آویں گے اور کثرت سے لوگ تیرے پاس آئیں گے۔ یہ وہ وقت تھا جب کوئی انسان خیال بھی نہیں کر سکتا تھا کہ ایسی حالت ہو جائے گی مگر حضرت مرزا صاحب نے جو نہ مال رکھتے تھے نہ شہرت نہ کوئی خطاب یافتہ تھے نہ سلطنت اور سوائے اس کے کہ آپ ایک شریف خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ہر قسم کی دنیاوی عزت سے محروم تھے۔ ایسے وقت میں آپ نے اعلان کر دیا کہ میرا نام تمام دنیا میں مشہور کیا جائے گا۔ اب دیکھو باوجود مخالفوں کی سخت مخالفت اور دشمنی کے نتیجہ کیا نکلا یہی کہ سب پہلوان جو آپ کے مقابلہ پر کھڑے ہوئے پچھاڑے گئے اور ابھی دس سال بھی نہ گزرے تھے کہ دنیا پر آپ کی شہرت ہو گئی اور آج کئی لاکھ کی جماعت آپ کے نام پر جان دینے والی موجود ہے اور ہر ملک میں آپ کا نام پھیلا ہوا ہے اب امریکہ میں بھی ایک شخص نے آپ کو قبول کیا ہے۔ انگلستان، چین، ماریشس اور الجزائر وغیرہ ممالک میں تو ہماری جماعتیں موجود ہیں۔ یہ سب کچھ ایسی صورت میں ہوا کہ ساری دنیا آپ کی مخالفت کے لیے زور لگاتی رہی اور اس ایک پہلوان کے مقابلہ میں سارے پہلوان اٹھے۔ مگر اس نےجیسا کہ پہلے سے ہی کہہ دیا تھا کہ میں سب کو گرالوں گا چنانچہ اس نے گرالیا اور کامیاب ہو گیا۔ اب بتائیں کہ وہ کفر کے فتوے کہاں گئے اور فتوے لگانے والے کدھر گئے۔ اس شہر کے لوگ بھی جانتے ہیں کہ جب آپ نے دعویٰ کیا تو آپ پر کس طرح فتوے لگائے گئے مگر وہ دیکھ لیں کہ آپ کا نام دنیا میں کس شان اور سرعت کے ساتھ پھیلا اور پھیل رہا ہے۔ ہم تو دیکھتے ہیں کہ وہی لوگ جنہیں اپنی آزادی کا بڑا گھمنڈ تھا اور دوسروں کو غلام سمجھتے تھے وہ مجھے لکھتے ہیں کہ ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہم آپ کے غلام ہیں۔ حالانکہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے غلاموں میں سے ایک غلام ہوں۔ انگلستان ایسا آزاد ملک کہ جہاں کے لوگوں نے پوپ کی ماتحتی کو گوارا نہ کیا اور ایسے آزاد کہ کسی کی پرواہ نہ کرنے والے۔ وہاں سے بعض لوگ لکھتے ہیں کہ ہم اس وقت تک سوتے نہیں جب تک کہ احمد پر درود نہ بھیج لیں۔ کیا یہ حضرت مرزا صاحب کے سچے ہونے کا زبردست ثبوت نہیں ہے۔ اگر آپ کوئی ایسی بات پیش کرتے جو دنیا کی منظور نظر ہوتی تو لوگ کہہ سکتے تھے کہ اس کو قبول کرنے کے لیے پہلے سے ہی دنیا تیار تھی مگر آپ نے وہی باتیں پیش کیں جن کا دنیا انکار کر رہی تھی۔ اس زمانہ میں یہ ماننے کے لیے کون تیار تھا کہ خدا اپنے بندوں کو الہام کرتا ہے لوگ تو اپنی الہامی کتابوں کو بھی چھوڑ رہے تھے اور الہام کا بالکل انکار کر رہے تھے مگر آپ نے قبل از وقت بتا دیا کہ لوگ مجھے قبول کریں گے اور دنیا پر میرا نام پھیل جائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور یہ خدا کے بتائے کے بغیر نہیں کہا جا سکتا تھا۔

اسلام کی صداقت کا ثبوت حضرت مرزا صاحب کے ذریع

حضرت مرزا صاحب نے آکر بتا دیا کہ خدا رب العالمین ہے اور جس طرح پہلے اپنے بندوں سے کلام کرتا تھا اسی طرح اب بھی کرتا ہے۔ پھر آپ نے یہ بھی ثبوت دے دیا کہ اسلام ہی ایک سچا اور قابل قبول مذہب ہے۔ اگر حضرت صاحب کوئی مستقل دعویٰ کرتے تو اس سے یہ نتیجہ نکل سکتا تھا کہ آپ خود کوئی تعلیم لائے ہیں جس پر چل کر یہ مرتبہ حاصل ہو سکتا ہے مگر آپ نے تو یہ کہا کہ مجھے جو کچھ حاصل ہوا وہ رسول کریمﷺکی اتباع اور آپ کی وجہ سےحاصل ہوا ہے۔ اس لیے ثابت ہو گیا کہ یہ اسلام پر چلنے کا نتیجہ ہے۔
پھر آپؑ نے ابتدائی زمانہ میں یہ بھی اعلان شائع کیا تھا کہ خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ دنیا تیرا انکار کرے گی اور لوگ شرارت سے کام لیں گے ان پر طاعون کا عذاب آئے گا۔ چنانچہ اس اعلان کے پندرہ سال بعد طاعون پھوٹی اور ایسی پھوٹی کہ ابھی تک بند ہونے میں نہیں آتی۔ کیا کوئی انسان اس قدر قبل از وقت کوئی بات بتانے کی طاقت رکھتا ہے؟ پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے پندرہ سال پہلے اپنی طرف سے ایک بات کہہ دی ہو اور وہ پوری بھی ہو جائے انسان کو تو یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ ایک منٹ کے بعد کیا ہو گا کہاں اتنے عرصہ کی خبر۔ پس یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ خدا کی طرف سے آپ کو یہ علم دیا گیا تھا اور اس سے پتہ لگتاہے کہ جیسے خدا تعالیٰ پہلے ربوبیت کرتا تھا اب بھی کرتا ہے۔ اور یہ بھی کہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو خداتعالیٰ کی ربوبیت کا ثبوت پیش کرتا ہے۔

(………………باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button