نور سے معمور تھی تیری حیاتِ کامیاب

(عبد الحمید شوق)

نورِ جان حضرت مہدی امام اتقیا

مصلح موعودِ عالم صاحبِ فہم و ذکا

فخر قوم و فخر ملّت خادم دین متیں

قادیاں کے بادشاہ حضرت امیرالمومنیں

اِک نشانِ رحمت پروردگارِ کائنات

لختِ جگرِ مہدیٔ موعود پاکیزہ صفات

ہر کہ و مہ کی زباں پر تیرا ذکر ضوفشاں

ہوگئی حاصل تجھے واللہ حیات جاوداں

عشق دین مصطفیٰ میں تو تڑپتا تھا مدام

ذکر ربّ العالمیں تیری زباں پر صبح و شام

عہد تیرا رحمت پروردگار بے چگوں

کفر و باطل سامنے تیرے ہمیشہ سرنگوں

تو نے دنیا میں کیا اسلام کا پرچم بلند

ہوگئی ساری زمیں پر یورش شیطان بند

نور سے بھرپور لے کر آستین زندگی

گھس گئے ظلمت میں تیرے واقفین زندگی

چل دیے وہ ساتھ لے کے عشق ربّ ذوالمنن

زندگی میں چھوڑ کر سود و زیانِ مال و تن

جان کی بازی لگا کر غیر ملکوں میں گئے

سینکڑوں رنج و مصائب ایک عرصے تک سہے

احمدیت کا پیام جانفزا سب کو دیا

ساری دنیا کو خدا کے نور سے روشن کیا

کام تیرے تجھ کو زندہ تا قیامت کر گئے

تیرے ذمہ ساری دنیا کی امامت کر گئے

لطف گویائی کے مالک اے فصیح نکتہ داں

آج بھی تڑپا رہا ہے تیرا اندازِ بیاں

نور سے معمور تھی تیری حیات کامیاب

مرقد پُرنور بھی دیکھی ہے مثل ماہتاب

عمر ساری یاد تیری دل سے جا سکتی نہیں

موت تیرا نام دنیا سے مٹا سکتی نہیں

لُٹ گئی جب سامنے اپنے بہارِ زندگی

کس کو ہو گا شوق پھر اب اعتبار زندگی

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button