سیرت خلفائے کرام

پیشگوئی مصلح موعود کی عظمت اور اہمیت

(اویس ربّانی ۔ ربوہ)

’’میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا‘‘

اک وقت آئے گاکہ کہیں گے تمام لوگ

ملت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے

ابتدائے آفرینش سے سنت اللہ یہی ہے کہ جب اللہ اپنے کسی پیارے کو دنیا میں بھیجتا ہے تو اس کی تائیدو نصرت کے سامان بھی خود پیدا فرماتا ہے۔ایک طرف اگر دنیا اس کی مخالفت میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی تو دوسری طرف خدا غیب سے زور آور حملوں سے اس کی سچائی اور صداقت کو ایسے ظاہر کرتا ہے کہ مخالفین حسرت سے نامراد ہو کر لوٹتے ہیں۔حضورﷺ کی پیشگوئی کے موافق خدائے تعالیٰ نے اپنے پیارے مسیح کودنیا میں معبوث فرمایا اور اس کی صداقت کے دلائل دنیا پر روز روشن کی طرح واضح کر دیے۔پیشگوئی مصلح موعود بھی انہی نشانات کی ایک لڑی ہے۔اس امر کے متعلق ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک نہایت پر معارف نقطہ کی طرف اشارہ فرمایا کہ

‘‘یہ پیشگوئی جو اسلام کی نشأۃ ثانیہ سے تعلق رکھتی ہے گو تفصیل کے ساتھ آنحضرت ﷺ کے عاشقِ صادق اور مسیح و مہدی کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے اب دوبارہ کی لیکن اس کی بنیاد تو آج سے چودہ سو سال بلکہ اس سے بھی زائد عرصہ پہلے سے آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی پر ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئیاں اور اللہ تعالیٰ کے آپ پر انعامات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بڑائی کے لیے نہیں ہیں بلکہ یہ تو آپ کے آقا و مطاع، سید و مولا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی شان بلند کرنے کے لیے ہیں۔ آپ ﷺ کا جھنڈا دنیا میں گاڑنے کے لیے ہیں۔ یہ تائیدی نشانات جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حق میں اللہ تعالیٰ دکھاتا ہے یہ درحقیقت آنحضرت ﷺ کی شان بلند کرنے کے لیے ہیں۔
اسلام کا زندہ خدا اور زندہ رسول ہونے کی دلیل کے طور پر یہ پیشگوئیاں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے کروائی ہیں۔ پس احمدیت اسلام سے کوئی علیحدہ چیز نہیں ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بڑھ کر دنیا میں آنحضرتؐ کا عاشق کوئی نہیں ہے۔’’

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 18؍فروری2011ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل11؍مارچ2011ءصفحہ5)

20؍فروری1886ء کا دن جماعتِ احمدیہ کی تاریخ میں نہایت اہمیت کا حامل ہے یہ وہ برکات الدعا کے اظہار کا دن تھا کہ جس دن خداتعالیٰ سے خوشخبری پاکر آپ علیہ السلام نے دنیا کے روبرو ببا نگ دہل ایک موعود بیٹے کی بشارت کی نوید سنائی۔ وہی پسرِموعود جن کے بچپن سے ہی دل میں اشاعت دین حق اور قرآنی علوم کے حصول کی خواہش موجزن تھی اور جس نے دنیا کے اندر ایک ہلچل مچا دی او ر سب کو اپنا گرویدہ بنا ڈالا۔ اس کا آنا گویا نور کا آنا قرار دیا گیا اور رحمت اور قربت کی علامت ٹھہرایا گیاکبھی اس کی آمد کو فتح و ظفر کی کلید تسلیم کیا گیا تو کبھی فضل اور احسان کا نشان۔وہ وجیہ اور پاک لڑکے کی بشارت ہدیہ قارئین ہے:

‘‘میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا۔ سو مَیں نے تیری تضرعات کو سنا اور تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے بہ پایۂ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو(جو ہوشیارپور اور لدھیانہ کا سفر ہے)تیرے لیے مبارک کر دیا۔ سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے۔ فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے۔ اے مظفر تجھ پر سلام۔ خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں اور تا دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اورتاحق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تا لوگ سمجھیں کہ مَیں قادر ہوں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں اور تا وہ یقین لائیں کہ مَیں تیرے ساتھ ہوں اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفیٰ( ﷺ)کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے۔ سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا۔ ایک زکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا۔ وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت و نسل ہوگا۔ خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے اس کا نام عنموائیل اور بشیر بھی ہے۔ اس کو مقدس روح دی گئی ہے اور وہ رِجس سے پاک ہے اور وہ نور اللہ ہے۔مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے۔ اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا۔ وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا۔ وہ کلمۃ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دل کا حلیم اور علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا۔’’آپؑ نے لکھا کہ ‘‘(اس کے معنے سمجھ میں نہیں آئے)دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ۔ فرزند دلبند، گرامی ارجمند، مَظْہَرُ الْاَوَّلِ وَالْآخِر، مَظْہَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَاء کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآء۔جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔ نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا۔ وَکَانَ اَمْرًا مَقْضِیًّا۔’’

(اشتہار 20؍فروری 1886ء۔مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ95تا96)

حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ

‘‘یہ ایک عظیم پیشگوئی ہے جو کسی شخص کی ذات سے وابستہ نہیں ہے بلکہ یہ پیشگوئی اسلام کی نشأۃِ ثانیہ سے تعلق رکھتی ہے۔’’

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 18؍فروری2011ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل11؍مارچ2011ءصفحہ5)

بے شک پیشگوئی حضرت مصلح موعود ؓکا ہر فقرہ اپنی جگہ ایک مکمل پیشگوئی ہے۔یہ پیشگوئی مصلح موعود کی باون خصوصیات آپ کے باون سالہ دور خلافت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ان باون خصوصیات کاتفصیل سے بیان ایک مضمون میں ممکن نہیں تاہم پیشگوئی مصلح موعود ؓکے بعض پہلونہایت اختصار کے ساتھ اس مضمون میں ھدیہ ٔ قارئین کیے جاتے ہیں۔

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ کی صحت بچپن سے ہی خراب رہتی تھی اورحضورؓ کے بچپن کی تعلیمی کمزوری اور صحت کا بخوبی سب کو علم ہے مگر یہ جلد جلد بڑھنے والا موعود نوجوا ن جس کا وعدہ غیب سے دیا گیا تھا کہ وہ علوم ظاہر و باطن سے پر کیا جائے گاعلم کے میدان میں خداتعالیٰ کے فضل اور اس کی خاص تربیت کے نتیجہ میں پھر ایسے چمکا کہ دنیا کی آنکھیں خیرہ کردیں۔پس یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ علم کا ایک ذخیرہ تھے۔ نہ صرف دنیا کے ہر علم میں گہری واقفیت رکھتے تھے بلکہ ہر علم میں مکالمہ بھی فرماتے اور جملہ علوم کے نقائص پر اطلاع رکھتے تھے۔ ان پر تنقید بھی کرتے تھے۔غرض اللہ تعالیٰ نے حضور کو دینی اور دنیوی علوم کا حصہ وافر عطافرمایا تھا۔آپ کے پاس ہر قسم کے ماہرین علم ملاقات کے لیے آتے تھے۔آپ ان کو پوری طرح مطمئن فرمایا کرتے تھے۔

آپ کے قلم سے ایسے ایسے مضامین نکلے کہ بڑے بڑے لوگ آپ کی قابلیت اور فراست کا اعتراف کرنے لگے اور ایسا کیوں نہ ہوتا آپ کے بارے میں خدائی بشارت تھی کہ وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا۔ اذن الٰہی سے جب آپ نے مصلح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تو اپنی تقریر میں اپنی خواب کا ایک منظر بیان کرتے ہوئے فرمایا:

‘‘میں وہ ہوں جسے علوم اسلام اور علوم عربی اور اس زبان کا فلسفہ ماں کی گود میں اس کی دونوں چھاتیوں سے دودھ کے ساتھ پلائے گئے تھے۔’’

(الموعود، انوار العلوم جلد 17صفحہ225)

آپؓ کی اس مبارک رویا کی ایک تعبیر آپ کی عظیم الشان تفسیر کبیر تھی۔

علامہ نیاز فتح پوری نے حضرت مصلح موعودؓ کی اس تفسیرکا جب مطالعہ کیا تو آپ کی خدمت میں خط لکھا:

‘‘تفسیرِ کبیر جلد سوم آج کل میرے سامنے ہے اور مَیں اسے بڑی نگاہِ غائر سے دیکھ رہا ہوں۔ ا س میں شک نہیں کہ مطالعہ قرآن کا ایک نیا زاویہ فکر آپ نے پیدا کیا ہے اور یہ تفسیر اپنی نوعیت کے لحاظ سے بالکل پہلی تفسیر ہے جس میں عقل و نقل کو بڑے حُسن سے ہم آہنگ دکھایا گیا ہے۔ آپ کی تبحرِ علمی، آپ کی وسعتِ نظر،آپ کی غیر معمولی فکر و فراست، آپ کا حسنِ استدلال اس کے ایک ایک لفظ سے نمایاں ہے اور مجھے افسوس ہے کہ مَیں کیوں اس وقت تک بے خبر رہا۔ کاش کہ مَیں اس کی تمام جلدیں دیکھ سکتا۔ کل سورۃ ہود کی تفسیر میں حضرت لوط علیہ السلام پر آپ کے خیالات معلوم کر کے جی پھڑک گیا اور بے اختیار یہ خط لکھنے پر مجبور ہو گیا آپ نے هٰؤُلَآءِ بَنَاتِيْکی تفسیر کرتے ہوئے عام مفسرین سے جدا بحث کا جو پہلو اختیار کیا ہے، اُس کی داد دینا میرے امکان میں نہیں۔’’

(الفضل 17؍نومبر 1963ءصفحہ 3)

اللہ تعالیٰ نے اپنی پیشگوئی کے مطابق حضرت مصلح موعودؓ کو اپنے رویا و کشوف سے نوازااور ساری عمرالہامات الٰہیہ کی روشنی میں آپ نے جماعتِ احمدیہ کی رہ نمائی فرمائی۔یہ عظیم الشان سپہ سالار مخالفت کی آندھیوں اور طوفانوں سے لڑتا ہوا جماعت کو محفوظ ومامون منزل مقصود تک لے گیا۔آپ کی ذات اور جماعت الگ وجود نہیں تھے بلکہ دونوں کے دل ساتھ دھڑکتے تھے۔ خداتعالیٰ کی خوش خبریوں اور گذشتہ انبیاء واولیا ءکی پیشگوئیوں کے مطابق آپ کی پیدائش سن1889ء میں ہوئی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی جماعت کی بنیاد اسی سال رکھی گویا حضرت مصلح موعودؓ کی پیدائش اور جماعتِ احمدیہ کے قیام کا آپس میں تعلق توام کا ہے۔چنانچہ نہ صرف خودآپ جلدجلدبڑھے بلکہ جماعت کو بھی اپنے ساتھ لے کر ترقیات کی نئی منازل طے کرتے چلے گئے۔ ایک آسمانی اور دنیاوی لیڈر میں یہ فرق ہوتا ہے کہ دنیاوی لیڈر تنہاترقی کا خواہش مند ہوتا ہے۔ وہ اپنی ترقی کے گھمنڈ میں کسی کی شراکت پسند نہیں کرتا۔ اس راہ میں چاہے جو بھی آئے طاقت کی ہوس میں سب کو روندتا چلا جاتا ہے۔ مگر آسمانی لیڈر جب آگے بڑھتا ہے تو وہ اپنی جماعت کو خدائی رحمت کے ساتھ لیے ہوئے بڑھتا ہے۔وہ قدم قدم پر اپنی جماعت کی رہ نمائی کرتا ہے اور دن رات یہ فکر اس کے دامن گیر ہوتی ہے کہ اس کی جماعت کاکوئی فرد پیچھے نہ رہ جائے اور کسی تکلیف میں مبتلا نہ ہو جائے۔ وہ رات کے تیروں سے ان کی مدد کرتا ہے۔ ان کے لیے درد رکھتا ہے اور باخع نفسککی کیفیت ان کی خاطر اپنے پر طاری کر لیتا ہے۔ حضرت مصلح موعود ؓکوخدا تعالیٰ نے ہدایت کے لیے چنا اور ایک رحمت کا نشان دنیا کو عنایت فرما یا۔گویا کہ وہ حلیم وجود کی شکل میں متمثل ہو کر سامنے آیا اور ایسے اوصاف کا حامل تھا کہ دنیا بھی اقرار کیے بغیر نہ رہ سکی کہ ‘‘تمہارے لیے ایک شخص تمہارا درد رکھنے والا ، تمہاری محبت رکھنے والا، تمہارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والا، تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھنے والاتمہارے لیے خدا کے حضور دعائیں کرنے والاہے’’کے مصداق آپ ہی کی با برکت ذات ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؓ نے اس امر کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کرتے ہوئے بیان فرمایا :

‘‘تو میں آ پ کو وضاحت کے ساتھ بتانا چاہتا ہوں کہ جس شخص کو بھی اللہ تعالیٰ آپ کا خلیفہ بنائے گا، اس کے دل میں آپ کے لیے بے انتہا محبت پیدا کر دے گا اور اس کو یہ توفیق دے گا کہ وہ آپ کےلیے اتنی دعائیں کرے کہ دعا کرنے والے ماں باپ نے بھی آپ کے لیے اتنی دعائیں نہ کی ہوں گی اور اس کو یہ بھی توفیق دے گا کہ آپ کی ان تکلیفوں کو دور کرنے کے لیے ہر قسم کی تکلیف وہ خود برداشت کرے اور بشاشت سےکرے اور آپ پر احسان جتائے بغیر کرے کیونکہ وہ خدا کا نوکر ہے آپ کا نوکر نہیں اور خدا کا نوکر خدا کی رضا کے لیے ہی کام کرتا ہے کسی پر احسان رکھنے کے لیے کام نہیں کرتا لیکن اس کا یہ حال اور اس کا یہ فعل اس بات کی علامت نہیں ہے کہ اس کے اندر کوئی کمزوری ہے اور آپ اس کی کمزوری سے ناجائز فائدہ اٹھا سکتے ہیں وہ کمزور نہیں، خدا کے لیے اس کی گردن اور کمر ضرور جھکی ہوئی ہے لیکن خدا کی طاقت کے بل بوتے پر وہ کام کرتا ہے۔ ایک یا دو آدمیوں کا سوال ہی نہیں میں نے بتایا ہے کہ ساری دنیا بھی مقابلہ میں آجائے تو اس کی نظر میں کوئی چیز نہیں۔’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ 18؍نومبر 1966ء مطبوعہ خطبات ناصر جلد 1 صفحہ494)

خدا تعالیٰ نے نہ صرف آپ کو خود جلد جلد بڑھایا بلکہ آپ کے ساتھ جماعت بھی زمین کے کناروں تک شہرت پاگئی۔آپ کے خدام قادیان کی چھوٹی سی بستی سے نکل کر دنیا کے کناروں میں خدائے واحدویگانہ کی توحیدکی آواز بلند کرنے کے لیے دیوانہ وار نکل کھڑے ہوئے اور رسول کریم ﷺ کی تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچا کر دم لیا۔ آپ کی سوانح کا مطالعہ کرنے سے انسان ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ ایک انسان ان تمام امورکو کامیابی سے کس طرح ہم کنار کر پایا اور پچیس سالہ عمر میں بظاہر دنیا کے علوم سے عاری ایک کمزور صحت والا انسان لاکھوں احباب کی قیادت کیونکر کرنے میں کامیاب ہو سکا؟ دنیا کی اندھی آنکھ اس بھید کو نہ سمجھ سکی کہ

‘‘خلیفہ خود اللہ تعالیٰ بناتا ہے وہ اپنے ایک کمزور بندے کو چنتا ہے جس کے متعلق دنیا سمجھتی ہے کہ اسے کوئی علم حاصل نہیں، کوئی روحانیت اور بزرگی اور طہارت اور تقویٰ حاصل نہیں۔ اسے وہ بہت کمزور جانتے ہیں اور بہت حقیر سمجھتے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ اس کو چن کر اس پر اپنی عظمت اور جلال کا ایک جلوہ کرتا ہے اور جو کچھ وہ تھا اور جو کچھ اس کا تھا اس میں سے وہ کچھ باقی نہیں رہنے دیتا اور خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال کے سامنے کلی طور پر فنا اور نیستی کا لبادہ پہن لیتا ہے اور اس کا وجود دنیا سے غائب ہو جاتا ہے اور خدا کی قدرتوں میں وہ چھپ جاتا ہے تب اللہ تعالیٰ اسے اٹھا کر اپنی گود میں بٹھا لیتا ہے اور جو اس کے مخالف ہوتے ہیں انہیں کہتا ہے مجھ سے لڑو اگر تمہیں لڑنے کی تاب ہے، یہ بندہ بے شک نحیف، کم علم، کمزور، کم طاقت اور تمہاری نگاہ میں طہارت اور تقویٰ سے عاری ہے لیکن اب یہ میری پناہ میں آگیا ہے اب تمہیں بہر حال اس کے سامنے جھکنا پڑے گا۔۔۔’’

(الفضل 17؍ مارچ 1967ء)

پس ا س کم سنی کے باوجود آپ نے علم وعرفان کے ایسے سمندر بہائے کہ دنیا دنگ رہ گئی اوربے سروسامانی وکم عمری کے باوجود جلد جلد بڑھتے چلے گئے۔ بیماریاں اورعوارض آپ کی اولو العزمی کو متاثر نہ کرسکیں اور وسائل کی کمی کے باوجودوہ مصلح عالم جلدجلدبڑھتا چلا گیا اور ہر معترض کو شکست دیتا ہوا بساط عالم پرچھاگیا۔حضرت مصلح موعود ؓفرماتے ہیں:

‘‘…میں اس موقع پر جہاں آپ لوگوں کویہ بشارت دیتاہوں کہ خداتعالیٰ نے آپ کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی اس پیشگوئی کو پوراکردیاجومصلح موعودکے ساتھ تعلق رکھتی تھی۔ وہاں میں آپ لوگوں کوان ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلاتاہوں،جوآپ لوگوں پرعائدہوتی ہیں۔آپ لوگ جومیرے اس اعلان کے مصدق ہیں،آپ کااولین فرض یہ ہے کہ اپنے اندرتبدیلی پیدا کریں اور اپنے خون کا آخری قطرہ تک اسلام اور احمدیت کی فتح اور کامیابی کے لیے بہانے کو تیار ہوجائیں۔بے شک آپ لوگ خوش ہوسکتے ہیں کہ خدا نے اس پیشگوئی کوپوراکیا۔ بلکہ میں کہتاہوں آپ کویقیناً خوش ہوناچاہیے۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے خود لکھاہے کہ تم خوش ہواور خوشی سے اچھلوکہ اس کے بعدروشنی آئے گی۔پس میں تمہیں خوش ہونے سے نہیں روکتا۔میں تمہیں اچھلنے اورکودنے سے نہیں روکتا۔بے شک تم خوشیاں مناؤ اور خوشی سے اچھلواورکودو۔لیکن میں کہتاہوں اس خوشی اور اچھل کود میں تم اپنی ذمہ داریوں کوفراموش مت کرو۔جس طرح خدانے مجھے رؤیامیں دکھایاتھاکہ میں تیزی کے ساتھ بھاگتا چلا جا رہا ہوں اورزمین میرے پیروں کے نیچے سمٹتی جارہی ہے۔اسی طرح اللہ تعالیٰ نے الہاما ًمیرے متعلق یہ خبر دی ہے کہ میں جلد جلد بڑھوں گا۔پس میرے لیے یہی مقدر ہے کہ میں سرعت اور تیزی کے ساتھ اپنا قدم ترقیات کے میدان میں بڑھاتا چلاجاؤں۔مگراس کے ساتھ ہی آپ لوگوں پربھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ اپنے قدم کو تیزکریں اور اپنی سست روی کوترک کردیں۔مبارک ہے وہ جومیرے قدم کے ساتھ اپنے قدم کو ملاتااورسرعت کے ساتھ ترقیات کے میدان میں دوڑتا چلا جاتاہے اور اللہ تعالیٰ رحم کرے اس شخص پرجوسستی اور غفلت سے کام لے کر اپنے قدم کوتیز نہیں کرتا اور میدان میں آگے بڑھنے کی بجائے منافقوں کی طرح اپنے قدم کوپیچھے ہٹالیتاہے اگر تم ترقی کرناچاہتے ہو،اگر تم اپنی ذمہ واریوں کوصحیح طورپر سمجھتے ہوتوقدم بقدم اور شانہ بشانہ میرے ساتھ بڑھتے چلے جاؤ۔’’

(الموعود صفحہ 210تا212)

آج جماعتِ احمدیہ عالمگیر کو خدا تعالیٰ نے جوترقیات عطا فرمائی ہیں، اورجو ڈھانچہ جماعت کا اس وقت موجود ہے وہ بفضل الٰہی حضرت مصلح موعود ؓکا مرہون منت ہے۔ آپؓ کی خداداد فراست نے جماعت کے لیے ایک منظم نظام قائم فرما دیا اور اس ذکی اور ذہین و فہیم وجود نے آئندہ نسلوں کے لیے راستے ہموار کر دیے۔

حضر ت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اس کا ذکر کرتے ہوئے ہمیں اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور ان الفاظ میں حضرت مصلح موعود ؓ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئےفرماتے ہیں:

‘‘…یہ پُر شوکت پیشگوئی تھی جس نے حضرت مصلح موعود کی خلافت کے باون سالہ دور میں ثابت کر دیا کہ کس طرح وہ شخص جلد جلد بڑھا؟ کس طرح اُس نے دنیا میں اسلام کے کام کو تیزی سے پھیلایا؟ مشن قائم کیے، مساجد بنائیں۔ آپ کے وقت میں باوجود اس کے کہ وسائل بہت کم تھے، مالی کشائش جماعت کو نہیں تھی، دنیا کے چونتیس پینتیس ممالک میں جماعت کا قیام ہو چکا تھا۔ کئی زبانوں میں قرآنِ کریم کا ترجمہ شائع ہو چکا تھا مشن کھولے جا چکے تھے۔ اسی طرح جماعتی نظام کا یہ ڈھانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہی بنایا تھا جو آج تک چل رہا ہے اور اس سے بہتر کوئی ڈھانچہ بن ہی نہیں سکتا تھا۔ اسی طرح ذیلی تنظیمیں ہیں اُس وقت کی بنائی ہوئی ہیں وہ بھی آج تک چل رہی ہیں۔ ہر کام آپ کی ذہانت اور فہم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ قرآن کریم کی تفسیر ہے اور دوسرے علمی کارنامے ہیں جو آپ کے علومِ ظاہری و باطنی سے پُر ہونے کا ثبوت ہیں…پس آج ہمارا بھی کام ہے کہ اپنے اپنے دائرے میں مصلح بننے کی کوشش کریں۔ اپنے علم سے، اپنے قول سے، اپنے عمل سے اسلام کے خوبصورت پیغام کو ہر طرف پھیلا دیں۔ اصلاحِ نفس کی طرف بھی توجہ دیں۔ اصلاحِ اولاد کی طرف بھی توجہ دیں اور اصلاحِ معاشرہ کی طر ف بھی توجہ دیں۔ اور اس اصلاح اور پیغام کو دنیا میں قائم کرنے کے لیے بھرپور کوشش کریں جس کا منبع اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو بنایا تھا۔ پس اگر ہم اس سوچ کے ساتھ اپنی زندگیاں گزارنے والے ہوں گے تو یومِ مصلح موعود کا حق ادا کرنے والے ہوں گے، ورنہ تو ہماری صرف کھوکھلی تقریریں ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔’’(خطبہ جمعہ فرمودہ 18؍فروری 2011ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 11مارچ 2011ءصفحہ 9)

بشارت دی کہ اک بیٹا ہے تیرا

جو ہو گا ایک دن محبوب میرا

کروں گا دُور اس مہ سے اندھیرا

دکھاؤں گا کہ اک عالَم کو پھیرا

بشارت کیا ہے اِک دل کی غذا دی

فَسُبحٰنَ الَّذِی اَخْزَی الْاَعَادِیْ

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button