حضرت اُمّ المومنین سیّدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ اور تربیت اولاد
یہ ایک نہایت اہم مضمون ہے کہ حضرت اُمّ المومنینؓ تربیت کس طرح فرماتی تھیں۔ ہر شخص کو اپنے گھر میں تربیت اولاد کی ضرورت پیش آتی ہے۔…اس سلسلہ میں سب سے اہم بیان حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا ہے۔ آپ تحریر فرماتی ہیں:
‘‘اصولی تربیت میں مَیں نے اس عمر تک بہت مطالعہ عام و خاص لوگوں کو کر کے بھی حضرت والدہ صاحبہ سے بہتر کسی کو نہیں پایا۔ آپ نے دنیوی تعلیم نہیں پائی(بجز معمولی اُردو خواندگی کے) مگر جو آپ کے اصولِ اخلاق و تربیت ہیں ان کو دیکھ کر مَیں نے یہی سمجھا ہے کہ خاص خدا کا فضل اور خدا کے مسیح علیہ السلام کی تربیت کے سوا اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ سب کہاں سے سیکھا؟
1: بچے پر ہمیشہ اعتبار اور بہت پختہ اعتبار ظاہر کریں۔ اس کو والدین کے اعتبار کی شرم اور لاج ڈال دینا یہ آپ کا بڑا اصولِ تربیت ہے۔
2: جھوٹ سے نفرت اور غیرت و غنا آپ کا اوّل سبق ہوتا تھا۔ ہم لوگوں سے بھی آپ ہمیشہ یہی فرماتی رہیں کہ بچہ میں یہ عادت ڈالو کہ وہ کہنا مان لے۔ پھر بے شک بچپن کی شرارت بھی آئے تو کوئی ڈر نہیں۔ جس وقت بھی روکا جائے گا باز آ جائے گا اور اصلاح ہو جائے گی۔ فرماتیں کہ اگر ایک بار تم نے کہنا ماننے کی پختہ عادت ڈال دی تو پھر ہمیشہ اصلاح کی امید ہے۔ یہی آپ نے ہم لوگوں کو سکھا رکھا تھا اور کبھی ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا تھا کہ ہم والدین کی عدم موجودگی کی حالت میں بھی ان کے منشاء کے خلاف کر سکتے ہیں۔
حضرت امّ المومنین ہمیشہ فرماتی تھیں کہ ‘‘میرے بچے جھوٹ نہیں بولتے’’ اور یہی اعتبار تھا جو ہم کو جھوٹ سے بچاتا بلکہ زیادہ متنفر کرتا تھا۔
مجھے آپ کا سختی کرنا کبھی یاد نہیں۔ پھر بھی آپ کا ایک خاص رعب تھا اور ہم بہ نسبت آپ کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دنیا کے عام قاعدہ کے خلاف بہت زیادہ بے تکلف تھے۔ اور مجھے یاد ہے کہ حضور اقدسؑ سے حضرت والدہ صاحبہ کی بے حد محبت و قدر کرنے کی وجہ سے آپؑ کی قدر میرے دل میں اور بھی بڑھا کرتی تھی۔ بچوں کی تربیت کے متعلق ایک اصول آپ یہ بھی بیان فرمایا کرتی تھیں کہ ‘‘پہلے بچے کی تربیت پر اپنا پورا زور لگاؤ دوسرے ان کا نمونہ دیکھ کر خود ہی ٹھیک ہو جائیں گے’’۔
استانی سکینۃ النساء بیگم تحریر فرماتی ہیں:
‘‘…حضرت ام المومنینؓ نے نرمی اور سختی سے بھی بار ہا یہ بات بیان فرمائی ہے کہ جھوٹ بولنا اور مبالغہ آمیز بات کرنا کبیر گناہ ہے۔’’
تربیت اولاد کے سلسلہ میں چوہدری غلام قادر صاحب نمبر دار اوکاڑہ نے ایک روایت لکھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد غالباً 1909ء میں حضرت اُمّ المومنین سارے کنبہ سمیت دہلی تشریف لے گئی تھیں۔ اس سال حضرت خلیفۃ المسیح الثانی جو اس وقت ابھی صاحبزادہ صاحب ہی کہلاتے تھے، کا لیکچر بھی دہلی میں جامع مسجد کے پاس ہوا تھا جس کی صدارت خواجہ حسن نظامی صاحب نے کی تھی۔ اس وقت چوہدری صاحب محکمہ بندوبست کے انگریزی دفتر میں سیکنڈ کلرک تھے اور حضرت قاسم علی صاحب مرحوم بھی نائب ناظر تھے اور یہ دونوں صاحب دریا گنج کے مکان میں اکٹھے رہا کرتے تھے۔ وہیں خاندان مسیح موعود علیہ السلام ان ایام میں قیام پذیر ہوا تو حضرت میر صاحبؓ کی زبانی یہ امر معلوم ہوا کہ
‘‘حضرت امّ المومنینؓ اپنے بچوں، بہو، بیٹیوں کی عبادات وغیرہ کے متعلق پوری توجہ سے نگرانی فرماتیں۔ نماز تہجد کا خاص اہتمام فرماتیں اور ہمیشہ خاندان کے افراد کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نقشِ قدم پر چلنے کی تاکید فرماتی رہتیں۔’’
(سیرت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ حصہ اوّل صفحہ 269۔271، مصنف شیخ محمود احمد عرفانی)
اُمّ محمود عرفانی تحریر فرماتی ہیں:
ایک مرتبہ ہم حضرت اُمّ المومنین کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں۔ میاں محمود احمد (حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ) جو اس وقت چھوٹے تھے ایک ربڑ کا سانپ لئے ہوئے آگئے اور اسے چھوڑ دیا۔ مارے دہشت کے میرا تو رنگ زرد ہو گیا اور میں کانپ گئی۔ حضرت اُم المومنین نے میری طرف دیکھا اور پھر میاں صاحب کو کہا میاں محمود! یہ تمہارے استاد کی بیوی ہیں تم نے یہ کیا کیا؟ میاں صاحب کہنے لگے اماں مجھ سے بھول ہو گئی۔ پھر اماں جان نے مجھے دلاسہ دیا کہ بہو یہ تو ربڑ کا سانپ تھا۔… یہ واقعہ حضرت اُمّ المومنینؓ کی تربیت اولاد کا بھی بہترین سبق ہے کہ استاد اور اس کی بیوی کا ادب کس طرح ملحوظ رکھنا چاہئے۔
(سیرت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ حصہ اوّل صفحہ397، مصنف شیخ محمود احمد عرفانی)
٭…٭…٭