وحی اور کشف میں فرق اور کشف غیر مسلم کو بھی ہو سکتا ہے
ایک صاحب نے عرض کی کہ ایک عرصہ سے میرے دل میں خواہش ہے کہ کشف کی حالت طاری ہو اور اگرچہ میں اپنے علم کی رو سے جانتا ہوں کہ اس کا حاصل ہونا کوئی کمالات میں سے نہیں ہے مگر تاہم اس کا خیال ہر گز دُور نہیں ہوتا۔اس لئے کچھ شفاعت فرماویں۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا کہ
اس کا تعلق مجاہدات اور ریاضات سے ہے۔ لیکن اب آپ کی عمر ان کی متحمل نظر نہیں آتی۔ عالم شباب میں ایسے مجاہدات اور ریاضات انسان کر سکتا ہے جس سے اس پر یہ حالت جلد طاری ہو۔ پیرانہ سالی میں قویٰ ضعیف ہو جاتے ہیں۔ معدہ کام کرنے سے رہ جاتا ہے۔ اس لئے مجاہدات میں استقامت حاصل نہیں ہوتی۔ آپ کے مناسب حال اگر کوئی مجاہدہ ہے تو میری رائے میں یہ ہے کہ خلوت کے درمیان ذکر الٰہی اور توجہ الیٰ اللہ کی کثرت کریں۔ غیر اللہ کو قلب سے دفع کرنا اور اللہ تعالیٰ کو اس کا مسکن بنا لینا آسان کام نہیں ہے۔ یہی بڑا مجاہدہ ہے۔ بیہودہ مجلسوں اور قیل و قال سے الگ رہیے۔ اور غفلت کے پردہ کو جوکہ انسان کی زندگی پر پڑے ہوئے ہیں اُن کو دُور کرنے کی کوشش کریں۔ پیرانہ سالی کے لحاظ سے یہ عمدہ مجاہدہ ہے جس سے تزکیہ نفس ہو سکتا ہے کیونکہ اب اس عمر میں نوافل اور روزے وغیرہ کی برداشت مشکل ہے۔ اس کا مطلب اس شعر میں خوب بیان ہے:
لب بہ بند و گوش بند و چشم بند
گر نہ بینی نور حق بر مابخند
کہ انسان اپنی زبان کو اور کانوں اور آنکھوں کو اپنے قابو میں ایسا کرے کہ سوائے رضائے حق کے اور اُن سے کوئی فعل صادر نہ ہو۔ انسانی زندگی میں جو بے اعتدالی ہوتی ہے اسے اعتدال پر لانا بڑا کام ہے۔ اب اس وقت یہی مناسب حال ہے کہ خلوت بہت ہو اور ذکر الٰہی سے قلب غافل نہ ہو۔ اگر انسان اس کی مداومت اختیار کرے تو آخر کار قلب متاثر ہو جاتا ہے اور ایک تبدیلی انسان اپنے اندر رکھتا ہے۔
کشف رؤیا کا اعلیٰ درجہ ہے
کشف کیا ہے یہ رؤیا کا ایک اعلیٰ مقام اور مرتبہ ہے اس کی ابتدائی حالت کہ جس میں غیبتِ حِس ہوتی ہے۔ صرف اس کو خواب (رؤیا)کہتے ہیں۔ جسم بالکل معطل بیکار ہوتا ہے اور حواس کا ظاہری فعل بالکل ساکت ہوتا ہے۔ لیکن کشف میں دوسرے حواس کی غیبت نہیں ہوتی۔ بیداری کے عالم میں انسان وہ کچھ دیکھتا ہے جو کہ وہ نیند کی حالت میں حواس کے معطل ہونے کے عالم میں دیکھتا تھا۔ کشف اسے کہتے ہیںکہ انسان پر بیداری کے عالم میں ایک ایسی ربودگی طاری ہو کہ وہ سب کچھ جانتا بھی ہو۔ اور حواس خمسہ اس کے کام بھی کر رہے ہوں اور ایک ایسی ہوا چلے کہ نئے حواس اُسے مل جاویں جن سے وہ عالم غیب کے نظارے دیکھ لے۔ وہ حواس مختلف طور سے مِلتےہیں۔ کبھی بَصر میں، کبھی شامہ سونگھنے میں، کبھی سمع میں، شامہ میں اس طرح جیسے کہ حضرت یوسفؑ کے والد نے کہا اِنِّیۡ لَاَجِدُ رِیۡحَ یُوۡسُفَ لَوۡ لَاۤ اَنۡ تُفَنِّدُوۡنِ(یوسف:95) (کہ مجھے یوسف کی خوشبو آتی ہے۔ اگر تم یہ نہ کہو کہ بوڑھا بہک گیا)اس سے مراد وہی نئے حواس ہیں جو کہ یعقوبؑ کو اس وقت حاصل ہوئے اور انہوں نے معلوم کیا کہ یوسفؑ زندہ موجود ہے اور ملنے والا ہے۔ اس خوشبو کو دوسرے پاس والے نہ سونگھ سکے کیونکہ اُن کو وہ حواس نہ ملے تھے جوکہ یعقوبؑ کو ملے۔ جیسے گُڑ سے شکر بنتی ہے اور شکر سے کھانڈ اور کھانڈ سے اور دوسری شیرینیاں لطیف در لطیف بنتی ہیں۔ ایسے ہی رؤیا کی حالت ترقی کرتی کرتی کشف کا رنگ اختیار کرتی ہے اور جب وہ بہت صفائی پر آجاوے تو اس کا نام کشف ہوتا ہے۔
کشف اور وحی میں فرق
لیکن وحی ایسی شئے ہے جوکہ اس سے بدر جہا بڑھ کر صاف ہے اور اس کے حاصل ہونے کے لئے مسلمان ہونا ضروری ہے۔ کشف تو ایک ہندو کو بھی ہو سکتا ہے۔ بلکہ ایک دہریہ بھی جو خدا تعالیٰ کو نہ مانتا ہو وہ بھی اس میں کچھ نہ کچھ کمال حاصل کر لیتا ہے۔ لیکن وحی سوائے مسلمان کے دوسرے کو نہیں ہو سکتی۔ یہ اسی امت کا حصّہ ہے کیونکہ کشف تو ایک فطرتی خاصہ انسان کا ہے اور ریاضت سے یہ حاصل ہو سکتا ہے خواہ کوئی کرے کیونکہ فطرتی امر ہے۔ جیسے جیسے کوئی اس میں مشق اور محنت کرے گا ویسے ویسے اس پر اس کی حالتیں طاری ہوں گی اور ہر ایک نیک و بد کو رؤیا کا ہونا اس امر پر دلیل ہے۔ دیکھا ہو گا کہ سچی خوابیں بعض فاسق و فاجر لوگوں کو بھی آجاتی ہیں۔ پس جیسے اُن کو سچی خوابیں آتی ہیں ویسے ہی زیادہ مشق سے کشف بھی ان کو ہو سکتے ہیں حتیٰ کہ حیوان بھی صاحبِ کشف ہو سکتا ہے لیکن الہام یعنی وحی الٰہی ایسی شئے ہے کہ جب تک خدا تعالیٰ سے پوری صلح نہ ہو اور اس کی اطاعت کے لئے اس نے گردن نہ رکھ دی ہو تب تک وہ کسی کو حاصل نہیں ہو سکتی۔ خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔
اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا تَتَنَزَّلُ عَلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَ اَبۡشِرُوۡا بِالۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ کُنۡتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ(حم السجدۃ:31)
یہ اسی امر کی طرف اشارہ ہے۔نزول وحی کا صرف ان کے ساتھ وابستہ ہے جوکہ خدا تعالیٰ کی راہ میں مستقیم ہیں اور وہ صرف مسلمان ہی ہیں۔ وحی ہی وہ شئ ہے کہ جس سے اناالموجود کی آواز کان میں آکر ہر ایک شک و شبہ سے ایمان کو نجات دیتی ہے۔ اور بغیر جس کے مرتبہ یقین کامل کا انسان کو حاصل نہیں ہو سکتا۔ لیکن کشف میں یہ آواز کبھی نہیں سنائی دیتی اور یہی وجہ ہے کہ صاحبِ کشف ایک دہریہ بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن صاحب وحی کبھی دہریہ نہیں ہو گا۔
اس مقام پر حضرت نور الدین صاحب حکیم الامۃ نے عرض کی کہ حضور سائل کا منشا یہ ہے کہ یہ خواہش کسی طرح دل سے دور ہو جاوے۔
خدا تعالیٰ کے بر گزیدہ اور محبوب نے فرمایا کہ
اُن کے دل میں کشف کی جو عظمت بیٹھی ہوئی ہے جب تک وہ دُور نہ ہو گی تو علاج کیسے ہو گا۔ اسی لئے تو میں فرق بیان کر رہا ہوں۔ ہمارے ہاں ایک چوڑھی (خاکرو بہ) آتی ہے وہ بھی سچی خوابوں کا ایک سلسلہ بیان کیا کرتی ہے لیکن اس سے اس کا عند اللہ مقرب ہونا یا صاحبِ کرامت ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ایک مسلمان کا کشف جس قدر صاف ہو گا اس قدر غیر مسلم کا ہر گز صاف نہ ہو گا کیونکہ خدا تعالیٰ ایک مسلم اور غیر مسلم میں تمیز رکھتا ہے اور فرماتا ہے ۔قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَکّٰٮہَا(الشمس:10)لیکن وحی کو کشف نہیں پا سکتا۔ یہ وحی کی ہی قدر ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے ارادہ سے اس کے لئے ایک شخص کو انتخاب کرتا ہے اور شرف مکالمہ بخشتا ہے اور ہر میدان میں اس کا حافظ و ناصر ہوتا ہے اور صاحب وحی کے تعلقات دن بہ دن خدا تعالیٰ سے قائم ہوتے اور بڑھتے جاتے ہیں اور ایمان میں غیر معمولی ترقی روز مشاہدہ کرتا ہے۔
(ملفوظات جلد 7 صفحہ 319تا322۔ ایڈیشن 1984ء)
٭…٭…٭