خلاصہ خطبہ جمعہ

اخلاص و وفا کے پیکر بدری صحابی حضرت محمد بن مسلمہ انصاری رضی اللہ عنہ کی سیرتِ مبارکہ کا تذکرہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 07؍فروری 2020ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ،سرے،یوکے

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ  بنصرہ العزیز نے07؍ فروری 2020ء کو مسجدمبارک، اسلام آباد،ٹلفورڈ،یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا ۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم فیروز عالم صاحب کے حصہ میں آئی۔

تشہد،تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا کہ

آج جن صحابی کا ذکر ہوگا اُن کا نام ہے حضرت محمد بن مسلمہؓ انصاری۔ اِن کا تعلق انصار کے قبیلہ اوس سے تھا۔ آپؓ بعثتِ نبوی سے بائیس سال پہلے پیدا ہوئے۔ اس زمانے میں مدینے کےیہود اُس نبی کے منتظر تھے جس کی بشارت حضرت موسیٰؑ نے دی تھی اور وہ اُس نبی کا نام محمد بیان کیا کرتے تھے۔ سیرت النبیؐ کی کتب میں ایسے افراد کی تعداد پندرہ تک بیان کی جاتی ہے کہ جن کے نام زمانۂ جاہلیت میں محمد رکھے گئے۔ حضرت محمد مسلمہؓ قدیم اسلام لانے والوں میں سے تھے۔ آپؓ حضرت مصعب بن عمیرؓ کے ہاتھ پر اسلام لائے۔ آنحضورﷺ نے آپؓ کی مؤاخات حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ کے ساتھ قائم فرمائی۔ آپؓ غزوۂ تبوک کے علاوہ تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ آنحضورﷺ نے بعض غزوات کے موقعے پر آپؓ کو مدینے پر نگران بھی مقرر فرمایا۔ آپؓ کے پانچ بیٹے آنحضورﷺ کے صحابہ میں سے تھے۔

حضرت محمد بن مسلمہؓ اُن صحابہ میں شامل تھے جنہوں نے کعب بن اشرف اور ابو رافع سلام بن ابو حقیق کو قتل کیا۔

حضورِ انور نے ‘سیرت خاتم النبیین’ سے کعب کے قتل کی تفاصیل بیان فرمائیں۔ کعب مذہباً یہودی نہ تھا ۔اس کے باپ اشرف نے بنو نضیر کے رئیسِ اعظم ابو رافع کی بیٹی سے شادی کی تھی جس کے نتیجے میں کعب پیدا ہواتھا۔ اخلاقی لحاظ سے اس بد باطن شخص کعب نے یہود میں بڑا رتبہ قائم کرلیا تھا یہاں تک کہ تمام عرب کے یہود اسے اپنا سردار گردانتے تھے۔ آنحضورﷺ کی مدینہ تشریف آوری کے بعدیہود کے ساتھ مسلمانوں کا باہمی دوستی ،امن اور دفاع کا معاہدہ ہوا ۔ کعب کہ جس کے دل میں بغض و عداوت کی آگ سلگ رہی تھی ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتا رہا۔ بدر میں مسلمانوں کی غیر متوقع کامیابی کے بعد اِن سازشوں میں شدت آگئی۔ کعب نے مکّے کا سفر کیا اور سردارانِ قریش کو مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں تیزی لانے پر انگیخت کیا۔ اسی طرح دیگرعرب قبائل کو بھی کعب نے مسلمانوں کے خلاف خوب بھڑکایا۔ مدینے واپس آکر اس نے مسلمان عورتوں پر تشبیب کہی۔ حتیٰ کہ خاندانِ نبوت کی خواتین کو بھی اپنے اوباشانہ اشعار کا نشانہ بنایا۔ اس بدبخت شخص نے آنحضورﷺ کے قتل کی بھی سازش کی۔ جب نوبت اس حد تک پہنچ گئی تو آپؐ کہ جو اہالیانِ مدینہ کی جمہوری سلطنت کے صدر اور حاکمِ اعلیٰ تھے، نے کعب کے قتل کیے جانے کا فیصلہ صادر فرمایا۔ خطرناک خانہ جنگی کے خوف کے پیشِ نظر آپؐ نے کعب کے خفیہ طور پر قتل کیے جانے کی ہدایت جاری فرمائی۔ یہ کام آنحضورﷺ نے اپنے مخلص صحابی محمد بن مسلمہؓ کے حوالے کیا۔ محمد بن مسلمہؓ، سعد بن معاذؓ کے مشورے سے ابو نائلہ اور دو تین دیگر صحابہ کے ہم راہ کعب کے مکان پر گئے اور اس سے قرض کی استدعا کی۔ کعب نے کوئی شے گروی رکھنے کو کہا جس پر یہ طے پایا کہ ہتھیار رہن رکھ لیے جائیں۔ محمد بن مسلمہؓ اور اُن کے ساتھی رات کو آنے کا وعدہ کرکے واپس چلے آئے۔ جب رات ہوئی تو یہ اصحاب ہتھیار لے کر کعب کے مکان پر پہنچےاور باتیں کرتے کرتے اسے ایک طرف کو لے گئے۔ جہاں موقع پاکر اسے قتل کردیا گیا۔

جب کعب کے قتل کی خبر مشہور ہوئی تو یہود آنحضرت ﷺ کے پاس آئے اور اس امر کی شکایت کی۔ آپؐ نے یہود کے اس وفد کو کعب کی مجرمانہ سرگرمیوں کا احوال بتایا اور آئندہ کے لیے امن اور تعاون کے ساتھ رہنے کی تلقین کی۔ چنانچہ یہود کے ساتھ امن و امان اور باہمی تعاون کا ایک نیا معاہدہ طے پاگیا۔

اگر کعب مجرم نہ ہوتا تو یہود کبھی بھی اتنی آسانی سے نئے معاہدے پر آمادہ نہ ہوتے اور نہ قتل پر خاموش رہتے۔ حقیقت یہ ہے کہ کعب نے مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے امن و امان کے معاہدے کو توڑا تھا۔ وہ معاہدہ جس کے مطابق آنحضرتﷺ مدینے کی جمہوری سلطنت کے سربراہ تھے۔کعب حکومتِ وقت کے خلاف غداری اور فتنہ سازی جیسے جرائم کا مرتکب ہوا تھا۔ آج کی مہذب کہلانے والی دنیا بھی بغاوت، عہد شکنی، اشتعالِ جنگ اور سازشِ قتل جیسے جرائم میں ملوث افراد کو اسی نوعیت کی سزائیں دیا کرتی ہے۔

طریقِ قتل پر کیے جانے والے اعتراض کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ عرب میں اس وقت کوئی باقاعدہ سلطنت نہ تھی۔ کوئی ایسی عدالت موجود نہ تھی جس میں کعب کے خلاف مقدمہ چلایا جاسکے۔ مسلمانوں کے پاس فتنے سے بچتے ہوئے کعب کی سازشوں سے جاں خلاصی کا اس کے علاوہ کوئی راستہ نہ تھاکہ اس مفسد اور شریر شخص کو خفیہ طور پر قتل کردیا جائے۔

یہ اعتراض کہ کعب کے قتل کے لیے آنحضرتﷺ نے اپنے اصحاب کو جھوٹ اور فریب کی اجازت دی تھی بالکل غلط اور خلافِ واقعہ اعتراض ہے۔بخاری کی روایت کے مطابق جب آپؐ نے کعب کے خفیہ قتل کا حکم جاری فرمایا تو محمد بن مسلمہ ؓ کے دریافت کرنے پر کہ خفیہ قتل کے لیے تو اس سے کوئی بات کہنی پڑے گی۔ آپؐ نے صرف ‘‘ہاں’’ کا لفظ فرمایا۔ کعب کو گھر سے باہر بلانے اور ایک طرف لے جانے کے لیے ظاہر ہے کہ محمد بن مسلمہؓ اور اُن کےساتھیوں کو کوئی نہ کوئی بات تو کہنی ہی تھی۔ جنگوں میں جاسوس وغیرہ بھی ایسی باتیں کہتے ہیں جن پر کبھی کوئی عقل مند اعتراض نہیں کرتا۔ سو آنحضورﷺ کا دامن تو اس اعتبار سے بالکل پاک ٹھہرتا ہے۔ رہا سوال محمد بن مسلمہؓ کا تو اُن کی گفتگو میں بھی کوئی بات خلافِ اخلاق نہیں۔ البتہ آپؓ نےاپنے مشن کی غرض کےلیے کچھ ذو معنی الفاظ ضرور استعمال کیے ہیں۔ جنگی حالات میں سادہ الفاظ اور صاف گوئی سے ا س قدر انحراف قابلِ اعتراض نہیں۔ بعض لوگوں نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ جنگ میں جھوٹ بولنا اور دھوکا دینا جائز ہے۔ آنحضورﷺ کے قول اَلْحَرْبُ خُدْعَةٌ کے کچھ لوگ یہ معنی کر لیتے ہیں کہ جنگ تو ایک دھوکا ہے۔ اوّل تو اس کے یہ معنی نہیں بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ جنگ تو خود ایک دھوکا ہے۔گویا جنگ کے نتیجے کے متعلق نہیں کہا جاسکتا کہ کیا ہوگا۔ اگر آنحضورﷺ کے اس نوعیت کےکلمات کے یہ معنی کیے بھی جائیں کہ جنگ میں دھوکا جائز ہے تو بھی اس جگہ دھوکے سےمراد جنگی تدبیر اور حیلہ ہے نہ کہ جھوٹ اور فریب۔ خُدْعَةٌکے معنی داؤ پیچ اور تدبیرِ جنگ کے ہیں۔

داؤ پیچ کی مختلف صورتیں ہیں مثلاً آنحضورﷺ جب کسی مہم پر روانہ ہوتے تو عموماً اپنی منزلِ مقصود ظاہر نہ فرماتے۔ بعض اوقات ایسا بھی کیا کہ جانا تو جنوب کی طرف ہوتا مگر شروع میں شمال کی طرف رُخ کرکے روانہ ہوجاتے اور لمبا چکر کاٹ کر جنوب کی طرف گھوم جاتے۔ کبھی کوئی شخص پوچھتا کہ کدھر سے آئے ہو تو بجائے مدینے کا نام لینے کے کسی درمیانی پڑاؤکا نام لے دیتے۔ یہ ساری صورتیں خُدْعَةٌکی ہیں جسے جنگ میں جائز قرار دیا گیا ہے۔ اسلام جھوٹ اور غداری کو سخت ناپسند کرتا ہے یہاں تک کہ اسلام میں شرک اوروالدین کے حقوق تلف کرنے کے بعدتیسرے نمبر پر جھوٹ بولنےکو بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ ایمان اور بزدلی ایک جگہ جمع ہوسکتے ہیں لیکن ایمان اور جھوٹ ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔ نیز دھوکے اور غداری کے متعلق فرمایا کہ جو شخص غداری کرتا ہے وہ قیامت کے دن خدا کے سخت عتاب کے نیچے ہوگا۔

حضرت صاحب زادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے جنگی تدابیر کے تابع دشمن کو مغلوب اور غافل کرنے کے لیے اختیار کی جانے والی صورتوں کے ذیل میں ایک حدیث پیش فرمائی ہےجس سے علم ہوتا ہے کہ خُدْعَةٌسے مراد جھوٹ اور دھوکانہیں بلکہ وہ باتیں مراد ہیں جو بعض اوقات جنگی تدابیر کے طور پر اختیار کرنی پڑتی ہیں۔

امّ کلثوم بنت عقبہ روایت کرتی ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ ﷺ کو صرف تین موقعوں کےلیے ایسی باتوں کی اجازت دیتے سنا جو حقیقتاً تو جھوٹ نہیں ہوتیں مگر عام لوگ انہیں غلطی سے جھوٹ سمجھ سکتے ہیں۔ پہلی جنگ۔ دوسری لڑے ہوئے لوگوں میں صلح کرانے کا موقع اور تیسرے جبکہ مرد اپنی عورت یا عورت اپنے مرد سے کوئی ایسی بات کرے جس میں ایک دوسرے کو راضی اور خوش کرنا مقصود ہو۔

کعب بن اشرف کے قتل کے بعد ابن ہشام اور ابو داؤد وغیرہ نے یہ روایت نقل کی ہے کہ آنحضورﷺ نے صحابہ سے یہ ارشاد فرمایا کہ اب تم جس یہودی پر قابو پاؤ اسے قتل کردو۔ حضرت صاحب زادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے علمِ روایت کی رو سے اس روایت کو کم زور اور ناقابلِ اعتماد قرار دیا ہے۔پھر یہ کہ اگر آپؐ نے اس نوعیت کا کوئی عمومی حکم دیا ہوتا تو یقیناً اس کے نتیجے میں کئی قتل ہوئے ہوتے۔اسی طرح یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ یہود کے ساتھ نئے معاہدے کے بعد اس قسم کے کسی حکم کی منطق فہم سے بالاہے ۔پس یہ روایت اندرونی و بیرونی شہادتوں کے معیار پر ہرگز پوری نہیں اترتی۔

کعب بن اشرف کے قتل کی تاریخ کے متعلق بھی کسی قدر اختلاف ہے۔ یہ واقعہ ربیع الاوّل تین ہجری یا جمادی الآخر کا ہے۔ خطبے کے اختتام پر حضورِانور نے فرمایا کہ اس ذکر میں ابھی مزید ایک دو واقعات ہیں وہ ان شا ءاللہ آئندہ پیش ہوں گے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button