صحت

آنکھیں ہزار نعمت

(محمد ذکریا ورک۔ کینیڈا)

پروردگار عالم نے بنی نو ع انسان کو اتنی نعمتوں سے نوازا ہے کہ ان کا شمار ممکن نہیں۔ ان نعمتوں میں سے ایک اہم اور قیمتی نعمت دو آنکھیں ہیں۔ آنکھیں انسان کو کائنات کی رنگینیوں اور اس کی بو قلمونیوں کا مشاہدہ کراتی ہیں۔اسی نعمت کے ذریعہ وہ خدا کے جلووں کو اس کا ئنات کے مختلف مظاہر میں دیکھتا ہے۔ اگرچہ خدا کو براہ راست ان آنکھوں سے نہیں دیکھ پاتا مگر جب خدا کی قدرت کے نظاروں کو مخلوقات کے گوناگوں رنگوں میں دیکھتا ہے تو ہر جگہ قدرت کے جلوے دیکھتا ہے۔

کہنے کو تو یہ قنچےکے برابر دو آنکھیں ہمارے چہرے کی ہڈیوں کے دو طاق نما کا سہ چشم میں بڑے سلیقے سے آویزاں ہیں مگر اس کی ساخت پر باریکی سے غور کریں تو اس کی بناوٹ، سجاوٹ میں کئی حکمتیں پوشیدہ نظر آتی ہیں۔ کسی نے آنکھوں کو دماغ کی کھڑکی کہا ہے اور کچھ نے ان کو روح کا دروازہ (window to your soul)کہا ہے۔ در حقیقت ہماری آنکھ محض آلۂ بصارت ہی نہیں بلکہ ان آنکھوں کی حرکات و سکنات سے کسی بھی شخصیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے

آنکھ ملے جب آنکھ سے آنکھیں کریں کمال

آنکھ ہی من کی بات کو لاتی ڈھو نڈ نکال

روزمرہ زندگی میں جب ہم کسی سے گفتگو کرتے ہیں تو ایک دوسرے کی نظریں ملتی رہتی ہیں اور حساس نظریں مطالب کو خوب سمجھ جاتی ہیں۔ دراصل آنکھیں دل کا آئینہ ہوتی ہیں جو کچھ دل میں ہوتا ہے وہ آنکھوں سے ظاہر ہوجاتا ہے ۔ آنکھوں کے ذریعہ بہت سارے انسانی تأثرات کااندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ انسان کی اندرونی کیفیات خوشی، پشیمانی، گزارش، درد انسان کی آنکھوں سے جھلکتا ہے۔

حال کہہ دیتے ہیں نازک سے اشارے اکثر

کتنی خاموش نگاہوں کی زباں ہوتی ہے

آپ کسی سیمینار یا کلاس میں پروفیسر کا لیکچر سن رہے ہوں، سوال و جواب کا سلسلہ ہو یا پھر کسی محفل میں کئی لوگوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف ہوں تو اس کی آنکھوں کی حرکات پر غور کریں ۔ بہت سی باتیں زبان سے ادا ہوئے بغیر سمجھ میں آ جاتی ہیں ۔ شاعر حضرات آنکھوں کی خوبصورتی ، ان کی کشش کو اپنی شاعری میں استعمال کر کے اپنے نام کو چار چاند لگا لیتے ہیں۔ کبھی آنکھیں جھیل میں کنول،کبھی ساغر،کبھی شمع،کبھی نیل گگن اور نہ معلوم کتنے استعارات صرف آنکھوں کےلیے استعمال ہوتے ہیں۔ آنکھوں کے تعلق میں چند ایک محاورے قابل غور ہیں: بسر و چشم، نور چشم، آنکھوں پر پلکوں کا بوجھ نہیں ہوتا، سر آنکھوں پر بجا لانا، آنکھوں کا جل چرانا، سر آنکھوں کے بل چل کر آنا، آنکھوں میں دھول ڈالنا، آنکھیں لال پیلی کرنا، آنکھیں چار ہونا، آنکھیں ٹھنڈی کرنا، آنکھیں پتھرا جانا، آنکھیں ترس جانا۔

آنکھوں کی جلوہ سا مانیاں

ہماری جسمانی حرکات اکثر مطالب بیان کرتی ہیں جن میں آنکھ کا حیران کن مخصوص کردار ہے ۔ کیونکہ آنکھیں دیکھنے کے ساتھ ساتھ غیر معمولی پیغامات و اشارات ارسال کرتی جاتی ہیں اوریہ اشارے کنائے سے مطلب سمجھ جانےوالے قرینے سے منشا معلوم کرلیتی ہیں۔

اوپرکی طرف نگاہ :بات کرتے کرتے جب کوئی انسان اوپردیکھنے لگتاہے توسوچ رہاہوتاہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ خیالوںمیںکھوگیاہے ۔ اگر وہ مخاطب ہوتے ہوئے لمحہ بھرکوآنکھیں اوپرگھمالیتا ہے تووہ کسی مخصوص لفظ کو تلاش کر رہا ہوتا ہے ۔ اگر اوپر دیکھتے ہوئے اس کی نگاہیں اوپر میں بائیں طرف گھو متی ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی یاد داشت پر زور دے رہا ہے اور اگر اوپر میں دائیں طرف آنکھ گھماتا ہے تو یہ تخیلاتی تصویر کشی میں محو ہے۔ کبھی کبھار یہ سمت اور نتیجے برعکس بھی ہو سکتے ہیں اور اکثر وبیشتر اوپر دیکھنے کا مطلب ماحول دیکھ کر دل چسپ خیال لانا ہوتا ہے۔

نیچے کی طرف نگاہ :نگاہیں نیچی کرنا یا رکھنا عاجزی، انکساری، شرمندگی، گزارش، خود سپردگی اور بے کسی کا اظہار کرتی ہیں۔ نگاہیں نیچی کر تے ہوئے دائیں طرف آنکھ گھمانا اندرونی جذبات پر غور ظاہر کرتا ہے۔ اکثر نیچی نگاہیں کرنا خود کو قصور وار اور نادم ظاہر کرتا ہے۔ اگر نیچے دیکھتے ہوئے بائیں طرف آنکھ گھمائی جائے تو اس کا مطلب خود سے ہم کلامی ہے۔ خاص طور پر اگر وہ اس دوران بڑبڑاتا جاتا بھی ہے۔ بعض تہذیبوں میں آنکھ ڈال کر بات کرنا طیش، غیض اور اپنے آپ کو مد مقابل کے سامنے بر تر دکھا نا ہے اور یہ انداز گستاخانہ مانا جاتا ہے ۔ ہاں بات کرتے کرتے نیچے دیکھنا احترام ظاہر کرتا ہے۔جبکہ بعض تہذیبوں میں اس کے برعکس نظر سے نظر ملاکر بات کرنا خود اعتمادی کا عکاس سمجھا جاتا ہے۔

دائیں بائیں دیکھنا: ہمارے بصری نظام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ہمارا میدان بصر مسطح ہے۔ اس لیے ادھرادھرنظرگھماناسامنے کی شے نظر اندازکرناہے اوراپنی دلچسپی دوسری جانب شے پر ظاہرکرتاہے۔ بعض دفعہ یہ جھنجھلاہٹ کی پہچان ہوتاہے جو اکثر تنقید پسندنہ آنے پردیکھاجاسکتاہے۔اچانک بائیںبازو دیکھنے کامطلب کسی آواز کوسننے کی کوشش ہوتا ہے اور دائیں جانب نگاہ لے جانے کا مطلب تصور میں آواز پہچاننے کی کوشش ہوتی ہے۔ بعض اوقات دائیں بائیں آنکھ گھمانا جھوٹ کا آئینہ دار ہوتا ہے اور اپنی چوری پکڑے جا نے کی وجہ سے راہ فرار اختیا ر کرنا ظاہر ہوتا ہے۔

دائیں بائیں حرکات: معنی خیز انداز میں دائیںاور بائیں دیکھنا کسی سازش یا سازشی منصوبہ کودکھاتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ وہ ادھر ادھر دیکھ کر اطمینان کرنا چاہتا ہے کہ کوئی دوسرا دیکھ یا سن تو نہیں رہا ہے۔

ٹکٹکی باندھ کر دیکھنا: کسی چیز کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھنا اس شے میں غیر معمولی دلچسپی ظاہر کرتا ہے۔ خواہ وہ کوئی تصویر ہو، مجسمہ ہو یا ٹیلی ویژن پر کوئی پروگرام دیکھا جا رہا ہو۔جب کوئی دوسرا اس طرح دیکھتے وقت اس کی آنکھوں کو دیکھتا ہے تو وہ بھی اس چیز کو غیر ارادی طور پر دیکھنا شروع کر دیتا ہے۔ جب ہم کپڑوں یا جوتوں کی شاپنگ کے لیے جاتے ہیں تو بعض چیزوں کو دیکھ کر ہماری نظریں خیرہ ہو جاتی ہیں۔ دوکاندار ہماری نظروں کو پہچاننے میں مہارت رکھتا ہے اور ہماری پسند کو آنکھوں سے تاڑ لیتا ہے۔ کسی شخص کو اوپر سے نیچے تک دیکھنا تاڑنا کہلاتا ہے، بار بار اس طرح دیکھنا ہتک عزت سمجھا جاتا ہے۔مدمقابل پر بار بار نگاہ ڈالنا بھی معیوب سمجھا جا تا ہے خصو صاََ اگر صنف نازک کی طرف نگاہ ڈالی جا رہی ہو بلکہ اس کا شمار شہوت پرستی میں ہوتا ہے ۔

سرسری نظر ڈالنا: جب کسی چیز میں دلچسپی نہ ہو یا دل اس طرف مائل نہ ہو جیسے دروازے کی طرف نگاہ کرنا یعنی بیزاری ظاہر کرنا ۔

آنکھوں کا ربط:دو افراد کے درمیان آنکھوں کا ربط ترسیل کا بے حد پختہ عمل ہے جو باہمی دلچسپی ، محبت، الفت اور تسلط ظاہر کرتا ہے۔ جیسے شاعر کہتا ہے:

جانے کس آنکھ میں پہچان چھپی ہو میری

آنکھ سے آنکھ ملاتے ہوئے ڈر لگتا ہے

نظر کا ملنا: کسی شخص کی طرف نگاہ کرنا اس بات کو تسلیم کرنا ہے کہ پہلا شخص سامنے والے انسان میں دلچسپی رکھتا ہے خاص طور پر اگر آنکھ سے آنکھ ٹکراتی ہے ۔ جب کوئی شخص بات کہہ رہا ہے اور سامنے والے کی نگاہ اور خیال کہیں اور ہے تو وہ جب مخاطب ہوتا ہے تو مطلب یہ ہے کہ اس نے متوجہ کیا ہے اور نظر التفات حاصل کیا ہے۔

عشق کرنے کے بھی کچھ آداب ہوا کرتے ہیں

جاگتی آنکھوں میں بھی کچھ خواب ہوا کرتے ہیں

نظر انداز: دوران گفتگومخاطب کے ساتھ تا دیر آنکھوں کا ربط غیر معقول اور نامناسب سمجھا جاتا ہے اس لیے گاہے بگاہے نظر ہٹتی رہتی ہے اور دوبارہ ملتی رہتی ہے ۔ لیکن بسا اوقات جب کوئی انسان کسی کی بات سن رہا ہو اور اس کی طرف توجہ خاص ہو، تو دیر تک آنکھوں کا ربط قائم ہوتا ہے اور اگر ایسا نہیں تو نظر اندازی سمجھی جا ئےگی۔

محدود نظر ملانا: جب کوئی شخص اپنی آنکھیں کم ملا رہا ہو تو یا تو وہ خود کو محفوظ نہیں پاتا یا دروغ گوئی کا مرتکب ہو رہا ہے تاکہ اسے لوگ پہچان نہ لیں۔

نظروں سے قائل کرنا: اپنی بات کےلیے قائل کر نے کا کام بھی آنکھیں بڑی آسانی سے کرتی ہیں۔ اس کےلیے پہلاکام تو یہ ہے کہ آنکھ سے آنکھ کا ربط ہو اور یہ دیر تک جاری رکھا جائے۔ جیسے معصوم بچے اپنی ماں سے فرمائش کر کے بات منوا لیتے ہیں۔ ہرماں کےلیے اس کا بچہ دنیا کا خوبصورت ترین بچہ ہوتا ہے اور ہر بچے کےلیے اس کی ماں دنیا کی خوبصورت ترین عورت ہواکرتی ہے اسی لیے تو کہتے ہیں Beauty is in the eye of the beholder
گھورنا: کسی شخص یا کسی چیز میں غیر معمولی دلچسپی کااظہار کرنا گھورنا کہلاتا ہے۔ دیر تک گھورتے رہنا جارحانہ، چاہت، پیار و محبت کے علاوہ فریب بھی ہو سکتا ہے۔ گھورنا معیوب گردانا جاتا ہے۔ گھورتے وقت عام طور پر آنکھیں بڑی ہو جاتیں اور جھپکتی کم ہی ہیں۔ اگر کوئی شخص دوسرے کو گھور رہا ہوتا ہے تو دوسرا شخص عموماََ جھینپ جاتا ہے اور منہ موڑ کر دوسری طرف دیکھنے لگتا ہے۔

نظروں کا تعاقب: آنکھیں قدرتی طور پر حرکت کا تعاقب کرتی ہیں۔ کسی بھی پر کشش چیز میں نظر ٹک جاتی ہے۔ اور آنکھیں حرکت کا پیچھا کرتی رہتی ہیں خاص طور پر جب کوئی چیز خریدنی ہو تو فروخت کرنے والا استعمال کے طریقے بتا رہا ہوتا ہے تو نظریں تعاقب کرتی ہیں۔

آنکھوں کا جھپکنا: آنکھوں کا جھپکنا قدرتی عمل ہے جس میں آنکھ کے پپوٹوں کے ذریعہ آنکھ میں بننے والے آنسو آنکھ کے لینز (شیشے)کو صاف کرتے رہتے ہیں۔ ایک منٹ میں آنکھیں 15سے 20مرتبہ جھپکتی ہیں لیکن جب انسان فکر مند ہو اور کسی قسم کے تناؤ کا شکار ہو تو جھپکنا بڑھ جاتا ہے۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ دروغ گو اپنے جھوٹ کو چھپانے میں آنکھیں بار بار جھپکتا ہے۔ اگر کوئی مخصوص جھپکن کے بعد آنکھیں کھولتا ہے تو اس کے معنی ہیں کہ جو وہ دیکھ رہا ہے اس پر اس کو یقین نہیں آرہا۔ تیز تیز اور بار بار جھپکنے کے معنی غرور، تکبر اور خود پسندی ظاہر کرتا ہے۔

کنکھی مارنا: ایک آنکھ بند کر کے اشارہ کرنا کسی سازش کی نشان دہی کرتا ہے۔ (یعنی تم اور ہم سمجھتے ہیں جب کہ دوسرے نہیں جانتے)آنکھ مارنا تبریک بھی ہو سکتا ہے ہاں اس کے ساتھ اگر ہاتھ کا اشارہ بھی ہو۔

آنکھیں بند کرنا: آنکھوں کو بند کر نا یعنی دنیا سے بے خبر یعنی میرے سامنے جو ہے اسے میں نہیں دیکھنا چا ہتا۔ مفکر اور فلسفی اکثر آنکھیں بند کر کے سوچتے ہیں اور کبھی کبھی بات کرتے کرتے آنکھیں بھی بند کر لیتے ہیں۔

غمگین آنکھیں: عموماََ آنسوکی وجہ سے قدرتی طور پر آنکھیں نم ہوتی ہیں لیکن بھیگی آنکھیں ضبط کردہ آنسو، گھبراہٹ، بے چینی ، خوف و حراس یا غمگین ماحول ظاہر کرتا ہے۔ بعض اوقات تھکاوٹ کی وجہ سے بھی آنکھیں نم رہتی ہیں۔ ماحصل یہ کہ آنکھیں د ل کا آئینہ ہوتی ہیں جو کچھ دل میں ہوتا ہے وہ آنکھوں سے ظاہر و باہر ہوجاتا ہے ۔ آنکھوں کو دیکھ کر انسانی تأثرات کا بہت کچھ اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

اس مختصر مضمون کو ہم ایک دل چسپ نظم پر ختم کرتے ہیں۔

آنکھیں

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button