یورپ (رپورٹس)

لجنہ اماء اللہ یوکے کی تیرھویں امن کانفرنس

پُر امن معاشرے کے قیام کے لیے خواتین کے کردار‘ پر گفتگو

ماہرین تعلیم ، ممبران پارلیمنٹ ،مذہبی جماعتوں کی نمائندگان، اکیڈیمیا، مختلف خیراتی اداروں میں خدمت کرنے والی کارکنات سمیت متعدد ممتاز شخصیات کی شمولیت

خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے لجنہ اماءللہ یو کے کے زیر اہتمام تیرھویں امن کانفرنس 25؍جنوری 2020ء (بروز ہفتہ) تمام تر اسلامی روايات کے ساتھ منعقد ہوئی۔ اس موقع پر مختلف اقوام سے تعلق رکھنے والی خواتین تشریف لائیں تاکہ پرامن معاشرے کے قیام میں خواتین کے کردار پر تبادلہ خیال کیا جاسکے۔ خواتین کی حاضری 400؍سے زیادہ رہی۔ الحمدللہ

یہ کانفرنس جنوبی لندن میں واقع برطانیہ کی سب سے بڑی مسجد، بیت الفتوح میں منعقد ہوئی۔ اس میں ماہرین تعلیم، مختلف خیراتی اداروں میں خدمت کرنے والی کارکنات ، پارلیمنٹیرینز، شہری رہنما اور مذہبی جماعتوں کی نمائندگان شریک تھیں۔ اس سالانہ کانفرنس کا مقصد حقیقی اور دیر پا معاشرتی امن کے قیام میں خواتین کی کوششوں کی حوصلہ افزائی کرنا تھا۔

نماز عصر کے بعدپروگرام کے مطابق پہلے مہمانوں کو مسجد کا دورہ کروایا گیا۔ ‘القلم ’پراجیکٹ سمیت متعدد نمائشیں بھی مہمانوں کی دلچسپی کے لیے لگائی گئی تھیں۔

ساڑھے چھ بجے پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہوا۔ محترمہ فرزانہ یوسف صاحبہ نیشنل سیکرٹری تبلیغ نے مہمانوں کا خیرمقدم کیا اور احمدیہ مسلم جماعت اور لجنہ اماءللہ کی خدمات کا تعارف کروایا۔

مہمان مقررہ کے طور پر اس تقریب میں سینٹ میری یونیورسٹی (St Mary’s University) لندن میں سیاست اور مواصلات کی پروفیسر مکرمہ Karen Sanders صاحبہ نے امن کو فروغ دینے میں مواصلات کے کردار کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ یہ ایک مشکل کام ہے اور بعض مواقع پر یہ ایک چیلنج بھی ہوسکتا ہے ، لیکن باہمی طور پر پُرامن رہنے کے لیے اس کا صحیح استعمال بہت ضروری ہے اور اس ضمن میں ہم سب گفتگو کرنے کا انداز بہتر بنا سکتے ہیں۔ پروفیسر صاحبہ نے ضابطۂ اخلاق (کوڈنگ)اور ضابطہ کشائی(ڈی کوڈنگ) کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ گفتگو کے دوران ہماری زبان، ہماری حرکات ، لب و لہجہ اور دوسروں کے جذبات کو سمجھنے کی صلاحیت بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔کسی بھی دوسری ثقافت کی تہذیب کو سیکھنے اور سمجھنے میں مشکلات اور پریشانیوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار رہنا، یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ کو اس ثقافت کا احترام ہے اور یہ ہی تعلقات کی بنیاد ہے جو ایک دوسرے کو سمجھنے اور قبول کرنے کی حقیقی خواہش سے پیدا ہوتی ہے۔ ڈی کوڈنگ یا سننا سمجھنا ایک اور مشکل کام ہے۔ انہوں نے سب شرکاء کی توجہ اس طرف مبذول کروائی کہ وہ اپنے ایل کیو LQ یا آئی کیو IQ کے بارے میں سوچیں۔ پروفیسر صاحبہ نےیہ بھی وضاحت کی کہ سب سے بڑی ہستی جس سے تعلق پیدا کرنا چاہیے وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہےجو آسمانی صحیفوں ، انبیاء اور خود ہمارے ذریعہ اپنی ذات سےہمارا تعلق رکھتی ہے۔ پس ہم سب کو اپنے تعلقات میں بہتری کے لیے کام کرنا چاہیے۔

اگلی مہمان مقررہ ‘پیس ڈائریکٹ ’ Peace Direct میں بین الاقوامی پروگراموں کی افسر مکرمہ Alice Coulibaly تھیں۔ موصوفہ مشکلات میں گھرے لوگوں کی مدد کرنے والی بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم کی ایوارڈ یافتہ ہیں۔ موصوفہ نے صومالیہ اور سنٹرل افریقن ریپبلک سمیت مختلف ممالک میں خواتین کی امن کوششوں کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے تنازعات کے حل کرنے کے لیے مختلف گروپس کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے والی خواتین کےحوالے سے اپنے ذاتی تجربے کو بیان کیا۔ یہ اکثر ایسی خواتین ہوتی ہیں جو خودبھی تنازعات کا شکار ہوچکی ہوتی ہیں اور دوسروں کے لیے مشعل راہ بنتی ہیں۔ انہوں نےیہ بھی بتایا کہ جب بھی خواتین دو گروہوں کے درمیان امن کے عمل میں شامل ہوتی ہیں تو معاہدے زیادہ دیر تک قائم رہتے ہیں۔ اور جب خواتین کو امن کے عمل سے خارج کردیا جاتا ہے تو اکثر صورتوں میں تنازعات دوبارہ شروع ہو جاتے ہیں۔ موصوفہ نے اپنی تقریر کے اختتام پر حاضرات سے اپیل کی کہ وہ تنازعات کے حل کے لیے اپنے اپنے دائرہ میں کام کریں اور اپنی زندگیوں میں روابط قائم کریں اور انصاف کے فروغ کے لیے کام کریں۔

30سال سے رائل بحریہ میں کام کرنے والی اگلی مہمان مقررہ لیفٹیننٹ کمانڈر Suzanne Lynchنے بتایا کہ اس ادارے میں خواتین کی شمولیت نے کس طرح اس ادارے کو زیادہ موثر اور متنوع بنا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تنازعات کے وقت خواتین مختلف اقدار ، گفتگو کے مختلف انداز اور دوسروں کو سمجھنے کی ایسی صلاحیت رکھتی ہیں جو مردوں میں اس طرح نہیں ہوتی جس طرح عورتوں میں ہوتی ہے جس کی وجہ سے پیچیدہ معاملات جلدی اور موثر طریقے سے حل کر سکتی ہیں۔ تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین دوسری خواتین سے بات کرنے میں زیادہ آرام محسوس کرتی ہیں اور وہ خواتین جو متاثرین کی مدد کرنا چاہتی ہیں وہ بھی متاثرین کے درد کو زیادہ بہتر طریقے سے محسوس کرسکتی ہیں۔ خواتین کی موجودگی دشمنی کو کم کرنے میں مثبت کردار ادا کرتی ہے۔ خواتین نے خاص طور پر پچھلے 20سالوں میں امن کو فروغ دینے میں ایک بنیادی کردار ادا کیا ہے اور اب وہ اس ادارے کے لیے بہت اہم سمجھی جاتی ہیں۔

اگلی مہمان Shoshana Clark صاحبہ تھیں جو Turquoise Mountain کی سی ای او (CEO)تھیں۔ انہوں نے کابل کے پرانے شہر کی تعمیر نو اور اس کی روائتی دستکاری کے کام کو فروغ دینے کے پروگرام کا تعارف کروایا۔ موصوفہ نے مثالوں کے ذریعہ یہ ثابت کیا کہ خواتین معاشی ترقی بھی کر سکتی ہیں اور ساتھ ساتھ وہ سفیر اور کاریگر بھی بن سکتی ہیں۔ امن کے قیام کے لیے اپنی ذات میں خود اعتمادی کا احساس بہت ضروری ہے اور نوجوان خواتین اس احساس کو آگے بڑھا رہی ہیں۔ دستکاری میں ، ثقافت میں ، بچوں کی پرورش میں اور مختلف سماجی مراکز میں خواتین کا کردار بہت اہم ہے۔

لجنہ اماءللہ یو کے کی صدر محترمہ ڈاکٹر فریحہ خان صاحبہ نے آخر پر مہمانوں سے خطاب کیا اور اسلامی نقطہ نظر سے خواتین کا معاشرے میں امن کے قیام میں کردار واضح کیا۔ امن قائم کرنے کے لیے، انصاف، مواقع، علم وتفہیم،برداشت اور گھروں میں امن کا قیام سب سے اہم ہیں۔ اسلام میں گھروں میں امن قائم کرنےپر بہت زور دیا گیا ہے کیونکہ ہر معاشرے کا بنیادی جزو گھر ہی ہوتا ہے۔ خواتین گھر میں امن کی معمار ہوسکتی ہیں۔ اسلام نے خواتین کو ایک بہت ہی اعلیٰ مقام عطا فرمایا ہے۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔ اس طرح ماؤں کو بھی یہ ذمہ داری دی جاتی ہے کہ وہ بچوں کے لیے گھروں میں امن کی فضا قائم کریں۔ امن کے قیام کے لیے تعلیم ضروری ہے۔ اسلام نے خاص طور پر خواتین کے لیے علم کے حصول پر زور دیا ہے۔

محترمہ صدر صاحبہ نے سیّدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسلام نے پہلی بار خواتین اور لڑکیوں کے حقوق قائم کیے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا تھا اور انہیں کم تر سمجھا جاتا تھا ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیروکاروں کو لڑکیوں کی تعلیم اور ان کی عزت کرنے کی ہدایت فرمائی اور فرمایا کہ جنت میں جانے کا ایک راستہ یہ ہے کہ لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دلواؤ اور ان کی اچھی تربیت کرو۔

پوری دنیا میں احمدی مسلمان لڑکیاں تعلیم یافتہ ہیں اور انہیں برابر کے مواقع دیے جاتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں احمدی لڑکیوں کی خواندگی کی شرح کم از کم 99 فیصد ہے۔ اس دنیا میں انصاف کا فقدان ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں پر مختلف اصول لاگو ہوتے ہیں۔ 1400 سال قبل اسلام نے نسلی مساوات کی تعلیم دی تھی لیکن پھر بھی دنیا اسے حاصل نہیں کرسکی۔ محترمہ صدر صاحبہ نے ماؤں کی اہم ذمہ داريوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ مائیں بچوں کو اخلاق اور معاشرتی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔ محترمہ صدر صاحبہ نے آخر پر امن حاصل کرنے کے انتہائی اہم پہلو یعنی ہر انسان کے اپنے نفس کے امن پر قرآنی آیت کے حوالے سے روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ: ‘اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان ملتا ہے۔ حقیقی امن کا واحد ذریعہ خدا ہے۔ خدا کرے کہ ہم سب اپنے اختلافات بھلا کر ایک دوسرے کی مدد کے لئے اکٹھے ہو جائیں’۔

بعد ازاں سوال و جواب کی ایک نشست بھی رکھی گئی۔ دعا کے بعد مہمانوں کی تواضع کی گئی۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس پروگرام کے با برکت اور دیرپا نتائج ظاہر فرمائے۔ آمین

(رپورٹ: لبنیٰ سہیل۔ سیکرٹری اشاعت لجنہ اماء اللہ یوکے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button