یادِ رفتگاں

میرے شفیق والد لطیف احمد شاہد کاہلوں صاحب (مبلغ سلسلہ)

(امتہ القیوم۔ کینیڈا)

میرے والد جو ایک واقف زندگی مبلغ سلسلہ تھے 29؍جولائی 2019ء کی سہ پہر ٹورانٹو (کینیڈا)کے جنرل ہسپتال میں نمونیہ اور پھیپھڑوں میں انفیکشن کے باعث 80سال کی عمر میں وفات پا گئے ۔انا للّٰه وانا اليه راجعون

میرے والد لطیف احمد شاہد کاہلوں کے آباء مدوکاہلوں ضلع سیالکوٹ سے ہجرت کر کے قادیان کے قریب حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحبؓ کی کوٹھی کے ساتھ دو فرلانگ کے فاصلے پر واقع گاؤں بھینی بانگرمیں آباد ہوئے ۔ اسی گاؤں میں میرے دادا 1904ء میں اور میرے والد 1938ء میں پیدا ہوئے اوردونوں پیدائشی احمدی تھے ۔میرے والد صاحب بتاتے تھے کہ اس گاؤں کی ایک خاتون کی قبر بہشتی مقبرہ قادیان میں حضرت مسیح موعود عليه السلام کے مزار کی چاردیواری میں ہونا اس بات کو تقویت دیتا ہے کہ یہ مبارک گاؤں السابقون الاولون کا نمونہ دکھاتے ہوئے بغیر کسی تاخیر کے فوراً ہی حضرت مسیح موعود عليه السلام کے دعوی پر ایمان لے آیا ۔گو بیعت کا تاریخی ریکارڈ موجود نہیں ۔

میرے والد صاحب نے اپنی ابتدائی تعلیم قادیان میں حاصل کی ۔ ہجرت کے بعد سیالکوٹ رہائش پذیر ہوئے ۔ میٹرک ربوہ سے کرنے کے بعد اپنے والد محترم چوہدری قائم الدین صاحب کی تحریک پر زندگی وقف کر دی ۔

میرے والد محترم ایک واقف زندگی،نافع الناس،متوکل، صابرو شاکر ،نمازوں سے گہرا لگاؤ رکھنے والے ،نہایت دھیمے مزاج کے خدا تعالیٰ کے عاجز بندے تھے ۔آپ نے چار خلفائے مسیح موعود عليه السلام کو دیکھنے کی توفیق پائی ۔درود شریف کثرت سے پڑھنے والے ۔استغفار کا ورد کرنے والے ،ذکر الہی سے اپنی زبان کو تر رکھنے والے،خلافت سے انتہائی پیار کرنے والے اور تبلیغ احمدیت کا شوق رکھنے والے وجود تھے۔ ہر ایک سے خوشی سے ملتے ، ہر ایک کے جذبات کا خیال رکھتے ۔ کسی کی دل آزاری نہ کرتے ۔ چھوٹے بڑے ہر ایک کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتے ۔دین کی طرف رغبت اور خدمت خلق کے کاموں کی طرف خاص توجہ دلاتے ۔انہیں باتوں کو سن کر خوش ہوتے کئی دفعہ اپنے بچوں کو ایک دو ہفتے کا دعائیہ پروگرام بنا کر دیتے اور پھر اس کی رپورٹ لیتے ۔اس پروگرام میں قرآن کریم کے بعض حصوں کی تلاوت ۔قرآنی دعائیں ۔استغفار کرنے اوردرود شریف کا مخصوص تعداد میں ورد کرنے کی طرف توجہ دلاتے ، صدقہ و خیرات ،روزہ رکھنا اور حضرت خلیفة المسيح ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں دعائیہ خط لکھنا اس پروگرام میں شامل ہوتا تھا ۔ آپ کی خواہش اور کوشش ہوتی کہ آپ کی اولاد کو کم از کم ان ایام میں کثرت سے نیکیاں بجا لانے اور درود شریف پڑھنے کی توفیق ملے ۔ ایک دفعہ سورة نوح كى صبح و شام تلاوت اور حقيقة الوحى كا مطالعه كرنے كا پروگرام بھی دیا۔ نمازوں کو انہماک سے پڑھنے کے عادی تھے ۔اپنی ایک بچی کی شادی کے بعد ایک دن گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے پوچھنے پر کہنے لگے کہ ہمارے گھر سے ایک نماز پڑھنے والے کی کمی ہو گئی ہے۔ یہ ان کی نماز سے محبت کا ایک انداز تھا جو کسی بھی دوسری محبت پر غالب تھا ۔
میرے والد صاحب نے ہمیشہ حضرت مسیح موعود عليه السلام کی تعلیم یعنی دس شرائط بیعت پر پابند رہنے کی کوشش کی ۔ ان کی زندگی وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِکے حصول کی کوشش میں گزری ۔ وہ خدا کا خوف رکھنے والے ایک متقی انسان تھے۔ ڈائری لکھنے میں بہت باقاعدہ تھے۔ غالبا ًیہ امر بھی پیش نظر ہوتا ہو گا کہ “چاہیے کہ ہر دن تمہارے لیے گواہی دے کہ تم نے تقویٰ سے رات بسر کی اور ہر شام تمہارے لیے گواہی دے کہ تم نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا”

بطور مربئ سلسلہ آپ کی پہلی تقرری 1965ء میں ساہیوال (منٹگمری)میں ہوئی جہاں ساڑھے سات سال خدمت کی توفیق پائی ۔ اس کے بعد لاہور ماڈل ٹاؤن میں بطور مربی سلسلہ مقرر ہوئے 1974ء کے پر آشوب حالات میں آپ یہیں فرائض کی ادائیگی کر رہے تھے ۔

دسمبر 1975ء میں حضرت خلیفةالمسيح الثالث رحمه الله تعالىٰ نے آپ کو سیرالیون مغربی افریقہ میں بغرض تبلیغ بھجوایا ۔ ڈیڑھ سال بعد ہی وہاں شدیدبیمار ہو گئے اور اس بیماری کا اثر آپ کی زندگی کے آخری ایام تک رہا۔ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو واپس بلا لیا ۔

آپ نے کبھی بھی اپنی سیرا لیون میں بیماری یا کسی بھی قسم کی تنگدستی یا فکرمندی کا اشارةً بھی ساری عمر کوئی اظہار نہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور نہ صرف یہ کہ میرے ابا کو پاکستان واپس آنے بلکہ چند ہی سال میں دوبارہ حضرت خليفة المسيح الثالث رحمه الله تعالىٰ کی طرف سے وہیں تقرری ہونے اور حضور کی دعاؤں سے چار سال یعنی 1982ءسے 1986ء تک خدمت دین کا فریضہ انجام دینے کی توفیق ملی ۔الحمدلله على ذلك

میرے والد صاحب کے دل میں حضرت مسیح موعود عليه السلام کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کی ایک تڑپ تھی اور اس پیغام کو پہنچانے کی کوئی نہ کوئی راہ نکال لیا کرتے تھے ۔ وہ پاکستان میں بس کا سفر کر رہے ہوتے تو اخبار الفضل کھول کر لوگوں کی توجہ احمدیت کے پیغام کی طرف پھیر دیتے ۔ ناروے میں end of the world کے مقام پر پہنچے۔ کسی دنیاوی دکھاوے کی خاطر نہیں کہ اس سے تو وہ کوسوں دور تھے بلکہ مسیح الزماں علیہ السلام کے پیغام کو کسی نفس تک پہنچا سکنے کی تمنا تھی جو وہاں پہنچ کر پوری کرنا چاہتے تھے انہوں نے اپنے شوق تبلیغ کو ہمیشہ اپنا فرض سمجھ کر ادا کیا ۔ وفات سے ایک روز قبل جبکہ پھیپھڑوں میں انفیکشن کے باعث بولنا بھی مشکل تھا اپنی نرس کو مختصر الفاظ میں احمدیت قبول کرنے کی دعوت دی ۔ میرے پاس کیلگری میں صرف ایک دفعہ تین ہفتے کے لیےآئے اس دوران بھی جبکہ کمزوری ٔطبیعت کے باعث آپ کو اکیلے باہر جانے سے منع کیا ہوا تھا آپ نے سکھوں کی عبادت گاہ میں جا کر انہیں پیغام حق پہنچا کر اپنی دلی تسکین کر لی۔ میرے پاس سے رخصت ہوتے ہوئے ایئرپورٹ کے راستے میں اپنی تازہ نظم “سلام اے وقت کے امام”سنا کر گویا وہ ان فضاؤں میں بھی اس پیغام کو پھیلانے کی کوشش کر رہے تھے۔

خلافت سے انتہائی محبت ، پیار اور ادب کا تعلق تھا اور یہی بات اپنے بچوں میں دیکھنا چاہتے تھے۔ پاکستان میں MTA پر خطبۂ جمعہ کے وقت کسی چھوٹے بچے کا بھی اپنی جگہ سے اٹھنا آپ کی طبیعت پر گراں گزرتا تھا ۔ اسی لیے گھر کے چھوٹے بچے بھی پانی کا گلاس اپنے پاس رکھا کرتے تھے کہ اس دوران اپنی جگہ سے اٹھنے کی اجازت نہیں ہو گی ۔ خطبے کو انتہائی ادب کے ساتھ سننا گھر کے ہر فرد پر ضروری تھا۔ االلہ تعالیٰ آپ کی اولاد در اولاد کو قیامت تک حضرت مسیح موعود عليه السلام کی تعلیم کو زندہ رکھنے اور خلیفۂ وقت کے سلطان نصیر بننے کی توفیق دے ۔آمین

غریبوں، یتیموں ، بیواؤں اور ضرورت مندوں کا اپنے پر تنگی کر کے بھی خیال رکھنے کی طرف توجہ دلاتے رہتے ۔ صلہ رحمی کی خاص طور پر تاکید کرتے ۔ ایک دفعہ کسی نے قرض مانگا تو چاہا کہ خود گنجائش ہونے کے باوجود بچے کو بھی اس نیکی میں شامل کر لوں۔چنانچہ اپنی بچی کو یہ بتا کر قرض دینے کو کہا کہ صرف ثواب میں شامل کرنے کی خاطر قرض اس کے ہاتھ سے دلوانا چاہتا ہوں ۔وہ انتہائی خاموشی سے نیکی کے کام کرنے کے عادی تھے مگر کبھی کبھی بچوں کی تربیت کی خاطر ان کو بھی ساتھ لے لیا کرتے۔ یتیم بچوں کو تحفے بنا کر دینے جاتے ہیں تو اپنی بچی کو اس غرض سے ساتھ لے جاتے ہیں کہ اسے بھی یتیموں کی خبرگیری کی طرف توجہ رہے۔ بچوں کو یتامیٰ فنڈ میں مستقل امداد کی طرف خاص کوشش کرکے شامل ہونے کا کہا اور اس کے لیے عملی قدم بھی اٹھائے ۔ایک بیمار بوڑھی رشتہ دار کا حال پوچھنے بچی کو ساتھ لے جانا ہے تو پہلے الفضل سے ایک حدیث اس سے پڑھواتے ہیں اور پھر اس پر عمل کرنا اس کے لیے بھی آسان بنا دیتے ہیں۔ گویا آپ کی نصیحت کا انداز بہت ہی پیارا تھا اور ایسا اسی لیے تھا کہ آپ زمانے کے امام، مہدئ وقت کی جماعت کے ایک ادنیٰ غلام اور اسکی فوج کے ایک دلی محبت کرنے والے سپاہی تھے۔

میرے والد بہت خوددار اور منکسر المزاج تھے۔ ایک مربی کی حیثیت سے اپنا وقار بھی قائم رکھا اور کبھی جماعتی نمائندہ ہونے کا خیال فراموش نہ کیا۔ ایک واقف زندگی کا لیبل لگانا ہی کافی نہ سمجھا بلکہ اس انتہائی باوقار خدمت کا نقش اپنی ذات پر جما رکھنے کی ہمیشہ کوشش بھی کی۔ حضرت خلیفة المسيح الثانى رضی اللہ تعالیٰ کے دَور خلافت میں میدان عمل میں قدم رکھنے والے میرے خوش قسمت باپ کا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہوئے محبت کی کیفیت میں کھو جانا اور آپ کے الفاظ کو ایک جوش اور روانی سے بیان کرنے کا انداز ایک خاص کیفیت لیے ہوئے ہوتا تھا۔ حضرت خليفة المسيح الثالث رحمہ اللہ نے آپ کو گلے لگا کر دعاؤں کے ساتھ تبلیغ اسلام کے لیے رخصت کیا، چار سال بعد سیرالیون سے واپس آئے تو حضرت خليفة المسيح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے لندن میں ملاقات کے دوران آپ کو پیار سے اپنے ساتھ چمٹا لیا۔ اور دو تحفے عنایت فرمائے۔ حضرت خليفةالمسيح الخامس ايده الله تعالىٰ سے تو محبت اور اپنی دلی خواہش یعنی معانقہ کرنے کا اظہار ہی کر دیا کہ یہی تو وہ جگہ تھی جہاں سے آج نور کا انتشار ہورہا ہے۔ اللہ تعالیٰ میرے پیارے امام حضرت خليفة المسيح الخامس ايده الله تعالى کی عمرو صحت میں بہت برکت ڈالے کہ آپ کا دیا ہوا تحفہ میرے والد محترم نے آخر وقت تک اپنے ساتھ رکھا۔ میرے والد صاحب اپنے اور ہم سب کے پیارے امام کی کینیڈا تشریف آوری پر جہاں خوشی ومسرت سے معمور دل کے ساتھ قلم کو جنبش دیتے ہوئے کچھ یوں اظہار کرنے کی ادھوری کوشش میں تھے

بستی بستی پھول کھلیں گے

نگری نگری مہکے گی

آئے گا وہ آنے والا

دل بھر کر ہم دیکھیں گے

وہاں خلیفہ وقت کی طرف سے محبت بھرا تحفہ عنایت ہوجانا کتنا ہی دلربا لگا ہو گا۔

ایں سعادت بزور بازو نیست

ربوہ کی سرزمین انہیں بہت پیاری تھی وہ اس کے ماحول اور اس کے مکینوں کو تمام دنیا سے منفرد دیکھتے تھے۔ یہاں کے بچوں بڑوں کا ایک دوسرے کو راہ چلتے السلام علیکمکا تحفہ پیش کرنا انہیں بھلا معلوم ہوتا تھا۔ اس شہر کو سرسبزو شاداب دیکھنے کے لیے کئی گھروں میں خود ہی پودے دے آئے کہ محلے کا کوئی گھر بھی ربوہ کو سرسبزوشاداب بنانے کی دوڑ میں پیچھے نہ رہ جائے ۔ آرام و آسائش کی خاطرتو کبھی بھی ربوہ سے ہجرت کرنے کو قبول نہ کرتے مگر حالات کے آگے کبھی روک بن کر کھڑے بھی نہ ہوتے بلکہ اپنے رب سے عجزونیاز کے لیے اسی کے آستانہ پر سر جھکا دیتے اور اسی سے خیر کے طالب ہوتے ۔ کینیڈا آنے سے قبل اپنے میڈیکل ٹیسٹ کے لیے مقرر غیر از جماعت ڈاکٹر کو تبلیغ احمدیت کرنے کا موقع بھی ہاتھ سے نہ جانے دیا اور پھر کینیڈا آنے کے بعد بھی تبلیغ کے مختلف مواقع ڈھونڈھتے رہتے خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتےاور ان کا بہت احترام کرتے ۔ہم سے توقع کرتے کہ بچوں کو اردو سکھائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھائیں وقتاُ فوقتاُ یہ جائزہ بھی لیتے رہتے کہ بچے ایم ٹی اے کتنا دیکھتے ہیں جو سست ہوتا اسے پیار سے سمجھاتے ۔
میرے والد ایک خاموش طبع اور اپنے جذبات پر بہت قابو رکھنے والے انسان تھے۔ وہ بے مقصد مجالس میں بیٹھنے اور غیر ضروری باتوں کے کرنے کو پسند نہ کرتے۔ وہ انتہائی متوکل اور بے نفس انسان تھے ان کے پاس موجود کتابیں ان کی طبیعت کی عکاسی کر رہی تھیں

قرآن وانجیل اور چند کتب مسیح پاک کی

بعد مرنے کے گھر سےمیرے یہ ساماں نکلا

چندوں کی بروقت ادائیگی کرنے۔ صدقہ و خیرات کرنے۔ خدمت خلق کے کاموں میں حصہ لینے اور وصیت کے نظام سے منسلک ہو کر اپنا حساب جلد ادا کرنے کی طرف نہ صرف بچوں کو توجہ دلاتے بلکہ اس پر سب سے پہلے خود عمل کرنے کی کوشش کرتے ۔ وہ حالات سے گھبرانے کی بجائے اپنے خدا کے آگے جھک جاتے ۔ کبھی میں نے ا ن کو روتے یا پریشانی کا اظہار کرتے نہ دیکھا۔ ہاں یہ درست ہے کہ اپنے آقا حضرت خليفة المسيح الرابع رحمه الله کی وفات پر ایک طرف تو غم کا انتہائی اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہاں بیٹی حضور فوت ہو گئے…ہمارا حی و قیوم خدا زندہ ہے… تو دوسری طرف اسی اثناء میں جذبات سے مغلوب کیفیت میں اپنی بیٹی کو گلے لگا کر آنسوؤں کا سیل رواں بھی جاری کر دیا جو صرف اور صرف اسی وقت کے لیے مخصوص تھا۔

قرآن کریم بہت خوبصورت آواز میں پڑھتے۔ اس کے مضامین پر غور کرتے۔ میری والدہ کو قرآن کریم کا ترجمہ پڑھایا اور بچوں کو بھی قر آن کریم ترجمے سے پڑھنے کی نصیحت کرتے۔ یہ خوبصورت شعر سنایا کرتے تھے

اے بے خبر بخدمت قرآں کمر ببند

زاں پیشتر کہ بانگ بر آئد فلاں نہ ماند

اے بے خبر انسان اس دنیا میں قرآن کی کچھ خدمت کر لے اس سے قبل کہ آواز آئے کہ فلاں شخص اس دنیا میں نہیں رہا۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں سیرت پر مضامین لکھتے رہتے۔ ایک کتاب حکایات رسول کے نام سے بھی لکھی۔

شکر گزاری انسان کو خدا تعالیٰ کا پسندیدہ بنا دیتی ہے ۔ میں نے اپنے والد کو جہاں نمازوں کے ذریعے خدا کا شکر گذار بننے کی کوشش میں دیکھا وہاں لوگوں کی قدر کرنے والا اور شکر کے جذبات کا اظہار کرنے والا بھی پایا۔ سیرالیون قیام کے دوران ہم بچوں کے لیے ایک کیسٹ ریکارڈ کر کے بھیجی جو سورۃالرحمٰن کی تلاوت اور حضرت مظہر جان جاناں کے لڈو ملنے اوراس کے ہر ذرے پر خدا کا شکر گزار ہونے کے واقعہ پر مشتمل تھی۔ وفات سے تین ہفتے قبل بچوں کو بلا کر اور فون کرکے شکریہ ادا کیا اور وفات سے پہلے آخری دن بھی ہاتھ کی انگلی اوپر کرتے ہوئے خدائے رحمٰن کا شکر اپنی زبان سے ادا کیا ۔

نماز کی بروقت ادائیگی کرتے، نوافل اور ذکر الٰہی میں وقت گزارتے ۔ وفات سے کچھ گھنٹے قبل بھی اپنی انتہائی کمزوری کی حالت میں تیمم کر کے نوافل کی ادائیگی کرتے رہے ۔ قرآن کریم کھول کر دیا۔ اس کو پڑھنے کے بعد کچھ دیر کے لیے ذکر الہی میں مصروف رہے ۔ مطمئن اور خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے سب بچوں کی اپنے پاس موجودگی کی حالت میں اپنے مولا کے حضور حاضر ہو گئے ۔ مسجد بیت الاسلام میں محترم مبارک احمد نذیر صاحب نے نماز جنازہ حاضر پڑھائی اورتدفین کےبعد بریمپٹن کے قبرستان میں محترم چوہدری ہادی علی صاحب نے دعا کروائی ۔پیارے حضور انور ایدہ اللہ تعالی نے ازراہ شفقت 4؍ستمبر 2019ء کو اسلام آباد (ٹلفورڈ )میں ابا جان کی نماز جنازہ غائب پڑھائی۔

اللہ تعالیٰ میرے پیارے ابا جان کےدرجات بلند کرے۔ اپنی بے انتہا رحمتیں ، برکتیں اور فضل نازل کرے۔ اور اپنے پیاروں کا قرب عطا کرے ۔آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button