حاصل مطالعہ

اسلام کی حقیقی تعلیم سے آگہی وقت کی اہم ضرورت ہے

علامہ اقبال کے صاحبزادے ، جناب جسٹس (ر) جاوید اقبال(مرحوم) روزنامہ خبریں کے سنڈے میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

‘‘افسوس اس بات کا ہے کہ ہم میں نفرت کیوں ہے ۔ ہم یہ کیوں کہتے ہیں کہ فلاں سکھ ہے ، عیسائی ہے یا ہندو ۔ ہم مسلمانوں کے ساتھ کیا کر رہے ہیں ۔ سنی شیعہ کو قتل کر رہا ہے اور شیعہ سنی کو۔ مساجد میں خون بہ رہا ہے میں تو کہتا ہوں کہ احمدیوں کو بھی کافر قرار نہیں دینا چاہیے تھا ۔ احمدیوں کو کافر قرار دیا تو انتہا پسند طبقے کو شہ ملی کہ وہ مزید مضبوط ہوں ۔

س: اس کا مطلب ہے کہ احمدیوں کو کافر قرار دینا مذہبی معاملہ نہیں تھا ؟

ج: بالکل نہیں ۔ یہ ایک سیاسی تحریک تھی اور بھٹو نے اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ۔ بھٹو نے اس بات کو بھی سامنے نہیں رکھا کہ احمدیوں نے بحیثیت جماعت ووٹ دیے تھے ۔ میرے حلقے میں موجود تمام احمدیوں نے مجھے ووٹ نہیں دیے بلکہ بھٹو کو ووٹ دیا ۔ جب وہ برسر اقتدار آیا تو اس نے احمدیوں کو مولویوں کے دباؤ پر کافر قرار دے دیا ۔ اقتدار میں رہنے کے لیے اُس نے مولویوں کے مطالبات کو تسلیم کرنا شروع کردیا۔ جمعہ کی چھٹی، شراب پر پابندی اور احمدیوں کو کافر قراردلوانا سب اسی دباؤ کے تحت کیے گئے فیصلے تھے لیکن مولوی نہیں مانے اور انہوں نے کہا کہ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا ہے اور اس کا فائدہ ضیاء الحق نے اٹھایااور اقتدار پر قبضہ کر لیا ۔ ایک بھی احمدی ایسا نہیں تھا جس نے بھٹو اور پیپلز پارٹی کو ووٹ نہیں دیا تھا۔ ہم تو اس وقت اُن کے خلاف الیکشن لڑ رہے تھے ۔

(سنڈے میگزین روزنا مہ خبریں مورخہ 13؍اگست 2006ء صفحہ نمبر 5)

وفاقی وزیر تعلیم حکومت پاکستان جناب شفقت محمود صاحب روزنامہ جنگ 12؍جون 2010ء میںاپنے ادارتی کالم بعنوان ‘‘آخر ہمیں ایک قوم بننا ہی ہوگا’’ میں لکھتے ہیں کہ

پاکستان کے بارے میں عالمی رائے اور نقطہ نظر روز بروز منفی ہوتا چلا جاتا ہے ۔ امریکہ کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے پاکستان کو دنیا کا پانچواں غیر مستحکم ملک قرار دے دیا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ اسرائیل اور بھارت دونوں نے اپنی نظریں ہمارے ملک پر گاڑ رکھی ہیں ۔ بعض اوقات تو اسے یہود وہنود کی مشترکہ سازش قرار دینا بھی مشکل لگتا ہے جو ہمارا پسندیدہ مشغلہ ہے ۔ وقت آن پہنچا ہے کہ ہم اپنے اندر جھانک کر دیکھیں اور اپنی غلطیوں کی اصلاح کر لیں ۔اپنی ناکامیوں کے لیے دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانا اس کے سوا کچھ اور نہیں کہ ہم نے اپنے گناہوں کو از خود ہی معاف کر دیا ہے ۔ یہ درحقیقت ایک بھاری ذمہ داری سے انحراف کے مترادف ہے جس کا مظاہرہ اس وقت بھی دیکھنے میں آیا جب احمدیوں کی عبادت گاہوں کو حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ کسی نے کہا یہ سب کچھ بھارتی خفیہ ایجنسی را نے کیا ہے بعض کا کہنا تھا کہ اس حملے کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ ہے اس طرح ہم اپنی تمام ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوگئے ۔ نہ ہی ہمیں یہ خیال آیا کہ اقلیتوں کے ساتھ ہمارے سلوک کی نوعیت کیا ہے ؟ نہ ہی کسی نے سوچا کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے کس بری طرح ناکامی سے دوچار ہوئے ہیں ۔ ان میں سب سے زیادہ ناقابل معافی لوگ وہ ہیں جن کا خیال ہے کہ احمدیوں کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے تھا کیونکہ ان کے مذہبی عقائد نے اُنہیں ایسے ہی سلوک کا مستحق بنا دیا تھا۔ جب تک ہم اپنی خامیوں کو تسلیم نہیں کریں گے اُس وقت تک کوئی تبدیلی ، کوئی پیش رفت ممکن نہیں ہوگی ۔ ہماری بہت سی غلطیوں ، نقائص اور خامیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم نے ایک مختصر سی اقلیت کو یہ اجازت دے دی ہے کہ وہ ہمیں خوف اور بزدلی کے اندھیروں میں دھکیل دے طالبان نے ہم میں سے بعض کے ساتھ جو سلوک کیا وہ اس کا ثبوت ہے ۔ ہمارے تصادم پسند ملاایک طویل مدت سے اسی کام میں مصروف ہیں ۔ المناک واقعہ تو یہ ہے کہ میڈیا کے کچھ لوگ ان افراد کی بول کر یا مصلحت آمیز خاموشی کے ذریعے مدد کر رہے ہیں ۔ سیاستدانوں کا کردار بھی کچھ زیادہ اچھا نہیں رہا۔ ان میں سے بعض وہ ہیں جو دہشت گردی کی مذمت تو کرتے ہیں تاہم احمدیوں کے حق میں ایک حرف بھی ان کے منہ سے نہیں نکلا ۔
…ہم ایک جنگ لڑنے میں مصروف ہیں جو دہشت گردی کے خاتمے کی غرض سے لڑی جا رہی ہے جس میں ہماری قوم کے بہادر بیٹے اپنی بیش قیمت جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں لیکن ہم اب بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جب تک ہم دہشت گردوں کے سیلاب کے اصل سر چشمے اور منبع کو بند نہیں کریں گے اُس وقت تک اُن کے ساتھ یہ جنگ ہمیشہ جاری رہے گی ۔ یہ دینی اور مذہبی مدرسے دراصل دہشت گردوں کو تیار کرنے کے ذمہ دار ہیں ۔انہیں بند کر دینا ہی اس مسئلے کا حل ہے ۔ چنانچہ یہی مناسب ترین وقت ہے کہ ان دینی مذہبی مدرسوں کو قومی دھارے میں لایا جائے اور ان کے لیے ایک ایسا نصاب تعلیم تجویز کیا جائے جس میں اسلامی تعلیمات اور ہدایات پر زور دینے کے ساتھ ساتھ دیگر مضامین کو بھی شامل کیاجائے ۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ان دینی مذہبی درسگاہوں سے فارغ التحصیل طلبہ نہ صرف اسلامی تعلیمات سے بہرہ مند ہوسکیں گے بلکہ انہیں اس دنیا کے بارے میں وسیع معلومات حاصل ہوں گی جس میں ہم سب اپنی اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔

(روزنامہ جنگ 12؍جون 2010ء ۔ ادارتی صفحہ نمبر 8)

(مرسلہ: نذیر احمد خادم۔ ربوہ )

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button