از افاضاتِ خلفائے احمدیت

پائیدار امن کے قیام میں اقوام متحدہ کا کردار

ضرورت ایسے اقدامات کرنے کی ہے جن کے ذریعہ حکومتوں کو اپنے عوام پر ظلم وستم ڈھانے سے باز رکھا جا سکے

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

حقیقت یہ ہے کہ آج ہر سیاست دان چھوٹا ہو یابڑا اس سلسلہ میں اسلامی تعلیمات کی راہنمائی کا محتاج ہے۔ اسلام ہی وہ مذہب ہے جس میں بین الاقوامی معاملات کی بنیاد کامل عدل و انصاف پر رکھی گئی ہے۔ چنانچہ فرمایا۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ ۫ وَ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡاؕ اِعۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی ۫ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ(سورۃ المائدۃ آیت 9)

ترجمہ:اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جائو اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو ۔انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو۔ یقیناً اللہ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو۔
میں یہ دعویٰ تو نہیں کرتا کہ میں نے دنیا کے تمام بڑے بڑے مذاہب کے متعلق سب کچھ مطالعہ کر رکھا ہے مگر میںان مذاہب کی تعلیمات سے بالکل لاعلم بھی نہیں ہوں۔ مجھے ان مذاہب کی کتب میں کوئی ایک بھی ایسا حکم نہیں ملا جو اس قرآنی آیت کے معیار پر پورااترتا ہو۔ دیگر مذہبی کتب کا تو یہ حال ہے کہ ان میں بین الاقوامی تعلقات کا ذکر شاذو نادر کے طور پر ہی ملتا ہے تاہم اگر کسی اور مذہب میں بھی ایسی ہی تعلیم پائی جاتی ہو تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اسلام اس تعلیم سے پورے طور پر اتفاق کرتا ہے کیونکہ یہی وہ تعلیم ہے جو عالمی امن کے سلسلہ میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔

آج ساری دنیا امنِ عالم کے مستقبل کے متعلق فکر مند ہے۔… دنیا میں رونما ہونے والے حالیہ واقعات اور عالمی امن کے مستقبل پر جگہ جگہ جو بحث و تمحیص جاری ہے اس کا یہ پہلو خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ اقوام متحدہ کو امنِ عالم کے قیام اور اس کے تحفظ کے سلسلہ میں پہلے سے کہیں زیادہ مؤثر طور پر ادا کرنا ہو گا۔ دو سُپر طاقتوں کے مابین سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد امید کی جا رہی ہے کہ عالمی مسائل کے بارہ میںان کا موقف ایک سا ہو جائے گا جس کے نتیجہ میں سلامتی کونسل میں ویٹو کے حق کا استعمال بھی کم ہو جائے گا اور عالمی مسائل باہمی رضا مندی سے طے ہونے لگیں گے اور یوں سلامتی کونسل مستقبل میں ایک نئے روپ میں ہمارے سامنے آئے گی… یہ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ آنے والے سالوں میں سیکیورٹی کونسل اور خود اقوام متحدہ واقعات عالم پر اپنی گرفت کے لحاظ سے ایک طاقتور سیاسی آلہ کار بن کر ابھرنے والی ہے جس کے ذریعہ چھوٹی اقوام کو بڑی طاقتوں کی مرضی کے سامنے جھکنے پر مجبور کیا جائے گا۔ واقعہ یہ ہے کہ دیوارِ برلن کے گرنے سے پہلے تو ایسی صورت حال کا تصور بھی نہیںکیا جا سکتا تھا۔ بہرحال یہ سوال اپنی جگہ پر موجود ہے کہ کیا اقوام متحدہ اپنے موجودہ عظیم عدالتی اور انتظامی اختیارات کے ساتھ عالمی امن کے خواب کو حقیقت میں بدل سکتی ہے؟ میرے نزدیک اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ اگر اس جواب میں آپ کو قنوطیت نظر آئے تو میںمعذرت خوا ہ ہوں۔ بات یہ ہے کہ دنیا میں امن اور جنگ کے فیصلے محض بڑی طاقتوں کے باہمی تعلقات پر ہی منحصر نہیں ہواکرتے بلکہ یہ ایک بہت گہرا اور پیچیدہ مسئلہ ہے جس کی جڑیںقوموں کے سیاسی اور اخلاقی رجحانات میں پیوست ہیں۔

مزید برآں دنیا میں پایا جانے والا اقتصادی تفاوت اور امیر اور غریب ممالک کے درمیان بڑھتا ہوا بُعد بھی مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کے سلسلہ میں لازماً ایک بے حد اہم اور مؤثر کردار ادا کرے گا جس کے بعض پہلوئوں کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے۔ یہ بات بہرحال یقینی ہے کہ جب تک اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک کے مابین اقتصادی تعلقات میں کامل انصاف کے اصول کو نہیں اپنایا جاتا اور جب تک اسے عملاً نافذ نہیں کیا جاتا امن کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ جب تک اقتصادی اور تجارتی ناانصافیاں ہوتی رہیں گی اور غریب ممالک کی دولت کو لوٹا جاتا رہے گا عالمی امن کی ضمانت کا تو تصور بھی نہیںکیا جا سکتا نیز جب تک رکن ممالک کے ساتھ اقوام متحدہ کے تعلق اورکردار کا واضح طور پر تعین نہیں ہو جاتا امن عالم کا مستقبل تاریک رہے گا۔

ضرورت ایسے اقدامات کرنے کی ہے جن کے ذریعہ حکومتوں کو اپنے عوام پر ظلم وستم ڈھانے سے باز رکھا جا سکے۔ اقوام متحدہ کے پاس کچھ ایسے اختیارات اور طریق کار ہونا چاہیے جس سے وہ دنیا میں کسی بھی جگہ ہونے والی ناانصافی کے خلاف ایک منصفانہ اور مؤثر جہاد کر سکے۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا امن عالم کا خواب شرمندہ تعبیرنہیں ہو سکتا۔

یہ ایک بڑا نازک مگر عالمی امن کے قیام کے لئے بہت ضروری سوال ہے کہ اقوام متحدہ کسی ملک کے داخلی معاملات میں کس حد تک مداخلت کر سکتی ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ اگر اقوام متحدہ کی پالیسی کامل انصاف پرمبنی نہ ہو اور سب قوموں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر سلوک نہ کیا جائے تو اس صورت میںاقوام متحدہ کو مختلف ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مزید اختیارات دینے سے مسائل پیدا زیادہ ہوںگے اور حل کم ہوں گے۔ پس یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر ٹھنڈے دل کے ساتھ غیر جانبدارانہ طور پر تفصیل سے غور ہونا چاہئے۔

(اسلام اور عصر حاضر کے مسائل کا حل صفحہ 285تا 289)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button