متفرق مضامین

عورت اپنے خاوند کے گھر اوراس کے بچوں کی نگران ہے

عورتیں نمود و نمائش نہ کریں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

‘‘آج میں بعض احادیث کا صفت مالکیت کے لحاظ سے ذکر کروں گا۔ ایک روایت میں آتا ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے سناکہ تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں جوابدہ ہے۔ امام نگران ہے اوروہ اپنی رعیت کے بارے میں جوابدہ ہے۔ آدمی اپنے گھروالوں پر نگران ہے اور اس سے ا س کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے، اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ خادم اپنے مالک کے مال کا نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

(بخاری کتاب الأسقرا ض و اداء الدیوان ۔باب العبد راع فی مال سیّدہ ولایعمل الّا باذنہ ۔حدیث نمبر 2409)

اس حدیث میں چار لوگوں کو توجہ دلائی گئی ہے۔ ایک امام کوکہ وہ اپنی رعیت کا خیال رکھے۔ ایک گھر کے سربراہ کو کہ وہ اپنے بیوی بچوں یا اگر اپنے خاندان کا سربراہ ہے تو اس کا خیال رکھے۔ ایک عورت جو اپنے خاوند کے گھر اور اس کے بچوں کی نگران ہے ان کا خیال رکھے۔ ایک خاد م جو اپنے مالک کے مال کا نگران ہے۔ پھر آخر میں فرمایا کہ یہ سب لوگ جن کے سپرد یہ ذمہ داری کی گئی ہے، یہ سب یاد رکھیں کہ جو مالک کُل ہے، جو زمین و آسمان کا مالک ہے جس نے یہ ذمہ داریاں تمہارے سپرد کی ہیں وہ تم سے ان ذمہ داریوں کے بارے میں پوچھے گا کہ صحیح طرح ادا کی گئی ہیں یا نہیں کی گئیں۔ جس دن وہ مالک یوم الدین جزا اور سزا کے فیصلے کرے گا اس دن یہ سب لوگ جوابدہ ہوں گے۔ اس لئے کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ دل دہل جاتا ہے ہر اس شخص کا جو جزا سزا پر یقین رکھتا ہے۔

… پھر بیوی کو توجہ دلائی کہ خاوند کے گھر کی، اس کی عزت کی، اس کے مال کی اور اس کی اولاد کی صحیح نگرانی کرے۔ اس کا رہن سہن، رکھ رکھائو ایسا ہو کہ کسی کو اس کی طرف انگلی اٹھانے کی جرأت نہ ہو۔ خاوند کا مال صحیح خرچ ہو۔ بعضوں کو عادت ہوتی ہے بلا وجہ مال لوٹاتی رہتی ہیں یا اپنے فیشنوں یا غیر ضروری اشیاء پر خرچ کرتی ہیں ان سے پرہیز کریں۔ بچوں کی تربیت ایسے رنگ میں ہو کہ انہیں جماعت سے وابستگی اور خلافت سے وابستگی کا احساس ہو۔ اپنی ذمہ داری کا احسا س ہو۔ پڑھائی کا احساس ہو۔ اعلیٰ اخلاق کے اظہار کا احساس ہو تاکہ خاوند کبھی یہ شکوہ نہ کرے کہ میری بیوی میری غیر حاضری میں (کیونکہ خاوند اکثر اوقات اپنے کاموں کے سلسلہ میں گھروں سے باہر رہتے ہیں) اپنی ذمہ داریاں صحیح اد انہیں کر رہی۔ اور پھر یہی نہیں، اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ خاوند کا شکوہ یا زیادہ سے زیادہ اگر سزا بھی دے گاتو یہ تو معمولی بات ہے۔ یہ تو سب یہاں دنیا میں ہو جائیں گی لیکن یاد رکھو تم جزا سزا کے دن بھی پوچھی جائو گی ۔اور پھر اللہ بہتر جانتا ہے کہ کیا سلوک ہونا ہے۔ اللہ ہر ایک پہ رحم فرمائے۔’’

(خطبہ جمعہ 06؍اپریل 2007ء)

جلسہ سالانہ برطانیہ میں موسم کی خرابی کے باوجود شامل ہونے والی خواتین کے بارہ میں حضور انور نے فرمایا:

‘‘اسی طرح مجھے کینیڈا سے آئے ہوئے امیرصاحب کینیڈا نے بھی لکھا کہ موسم کی شدت کی وجہ سے میرا خیال تھا کہ لوگ کم آئیں گے لیکن مَیں نے دیکھا کہ اس طرح ہی حاضری ہے۔ عورتیں بھی جو اپنے چھوٹے بچوں کو بچوں کی گاڑی میں بٹھا کے جا رہی تھیں، پاس سے کاریں گزرتی تھیں کیچڑ اور پانی کے چھینٹے اچھل کر ان پر پڑتے تھے لیکن انہوں نے پرواہ نہیں کی اور اللہ کے فضل سے جلسے کے پروگرام کے لئے شامل ہوئیں۔ مجھے بھی کسی نے کہا کہ خواتین نہیں آئیںگی، بہت کم آئیں گی۔ تو میرا یہی جواب تھا کہ صرف وہ جو اپنا زیور اور کپڑے دکھانے کے لئے شامل ہوتی ہیں وہ نہیں آئیں گی باقی اللہ کے فضل سے تمام عورتیں شامل ہوں گی۔’’

(خطبہ جمعہ 03؍اگست 2007ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button