حضرت مصلح موعود ؓ

اصلاحِ اعمال کی تلقین (قسط نمبر4۔آخر)

از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

قلوب کی اصلاح سے اشاعت اسلام میں آسانی

پس میں آپ لوگوں کوہدایت کرتا ہوں کہ اپنے قلوب کی اصلاح کروتاکہ تمہارے ذریعہ اشاعت اسلام میں آسانیاں پیداہوں۔ اگر ہماری جماعت کے لوگ قلب کی پوری پوری اصلاح نہ کریں گے تو نہ صرف خود ایمان کے اعلیٰ درجہ کو حاصل نہ کرسکیں گے بلکہ دوسروں کے ایمان لانے میں بھی روک بنیں گے ۔آج کل کئی لوگوں نے اصلاح چندہ دینا سمجھ رکھی ہے اور وہ اپنی ہمت کے مطابق چندہ دیتے ہیں وصیتیں کرتے ہیں اور بھی کئی قسم کی قربانیاں کرتے ہیں مگر بعض اوقات چھوٹی سی بات سے ٹھوکر کھاجاتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ گو ان کے ظاہری اعمال اچھے تھے لیکن ان کے دل میں ایمان مضبوطی کے ساتھ گڑا ہوا نہیں تھا اور انہیں قلب کی پوری صفائی حاصل نہ تھی۔ ان کی حالت ایسی ہی تھی جیسے پاخانہ پر کھانڈ پڑی ہو اور ذرا سی ٹھوکر سے بدبو نکل آئے۔ اس قسم کی کئی مثالیں مل سکتی ہیں کہ چھوٹی چھوٹی باتیں ٹھوکر کاموجب ہوئی ہیں اور پھر ایسے لوگوں نے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کی کہ ان کے ذریعہ کتنا فتنہ پیدا ہوگا۔ ایک آدمی کے متعلق جب معلوم ہوا کہ وہ ڈگمگا رہا ہے تو مَیں نے اس کے پاس آدمی بھیجے جنہیں اس نے کہا کہ مجھے روپیہ کی ضرور ت تھی جو میاں صاحب نے نہیں دیا اور لاہوری احباب نے دے دیا ہے اب مَیں کیاکروں اور کس طرح ان سے ہٹوں۔ اس بات کواگر مان بھی لیا جائے کہ ہماری غلطی ہے اور ہم نے اس وقت اس کی امداد نہیں کی۔ (حالانکہ اسے یہ دھوکا اپنے ہی گھر سے لگا ہے) تو بھی مَیں کہتا ہوں اس سے یہ کس طرح معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب نبی نہ تھے۔ پھر مجھے تو جواس کاجی چاہتا کہہ سکتاتھا لیکن اس کی وجہ سے اسے یہ کس طرح پتہ لگا کہ غیراحمدی مسلمان ہیں۔ میرے روپیہ دینے یانہ دینے میرے خاطر کرنے یا نہ کرنے سے مسئلہ نبوت مسیح موعوؑد پر کیااثر پڑسکتا ہے لیکن اسی بات سے ٹھوکر کھاکر وہ کہیں کاکہیں جاپڑا۔ پس اس بات سے اس کے عقائد کابگڑ جانا بتا رہا ہے کہ اس پر ایک پردہ پڑا ہوا تھا جو ذرا سی ٹھوکر سے پھٹ گیا اور اندر سے اس کے گندے اور ناپاک نفس کی بدبو آنے لگ گئی۔ تواس طرح ٹھوکریں لگنے کی وجہ دراصل یہی ہوتی ہے کہ ایسے لوگوں کے قلب صاف نہیں ہوتے۔

صفائی قلب کا نتیجہ

اگر قلب صاف ہوتو انہیں اپنے عقائد پرایسا یقین اور ثبات ہوکہ جس سے کوئی چیز انہیں متزلزل نہ کرسکے۔ دیکھو اگر ایک شخص کو کامل ایمان ہو کہ رسول کریم ﷺ خدا کے سچے رسول ہیں اور اس کے قلب میں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ داخل ہوتو اسے اگر ساری دنیا مل کر بھی اس عقیدہ سے ہٹانا چاہے تو وہ نہیں ہٹے گا وہ جان تو دے دے گا مگر ایمان نہیں دے گا۔ وہ اپنے بیوی بچوں کوٹکڑے ٹکڑے کرانا منظور کرلے گا لیکن یہ نہیں کہے گا کہ آپؐ خدا کے رسول نہ تھے۔ اسی طرح جس شخص کے قلب میں یہ بات داخل ہو کہ حضرت مسیح موعوؑد خدا کے نبی ہیں۔ اسے خواہ کتنی ہی مشکلات پیش آئیں، کتنی ہی تکالیف کاسامنا ہو وہ آپؑ کے نبی ہونے سے کبھی انکار نہیں کرے گا۔ لیکن جس کے دل میں یہ بات داخل نہ ہوگی وہ خواہ زبانی اس کا کتنا ہی اقرار کرتا رہے، معمولی سی ٹھوکر سے انکار کردے گا۔ پس سب سے ضروری یہی بات ہے کہ قلب کو صاف کیا جائے اور اسے ہر قسم کی آلائشوں اور پلیدیوں سے پاک رکھا جائے۔ آپ لوگوں کواس طرف خاص توجہ کرنا چاہیے اور یاد رکھنا چاہیے کہ صرف ظاہری اعمال سے کام نہیں چلتا۔ اس وقت تک نمازیں نمازیں نہیں کہلاسکتیں۔ روزہ روزہ نہیں کہاجاسکتا۔ حج حج نہیں ہوسکتا۔ زکوٰۃ زکوٰۃ نہیں کہی جاسکتی جب تک قلب صاف نہ ہو اور قلب میں پاکیزگی پیدا نہ ہوجائے اور جب قلب صاف ہو جائے تو پھر سب باتیں خود بخود صاف ہوجاتی ہیں۔

قلب کی صفائی کے طریق

قلب کی صفائی کے کیا ذرائع ہیں۔ یہ ایک لمبا مضمون ہے اور اس وقت مجھے کچھ تکلیف ہے زیادہ بول نہیں سکتا۔ اس لیے میں صرف اتنا بتاتا ہوں کہ قلب کی صفائی کے طریق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں میں موجود ہیں۔ میں اس وقت آپ لوگوں کو جگارہا ہوں اورا یک اہم بات کی طرف متوجہ کررہا ہوں۔ آگے اس کا حاصل کرنا اور اس سے فائدہ اُٹھانا آپ لوگوں کاکام ہے۔ پس میں پھر کہتا ہوں کہ اپنے اپنے قلب کی صفائی کرو۔

قلب صاف ہوجانے کے بعد کیا ہوگا

اگر آج ہماری ساری جماعت اپنے قلوب کو صاف کرے اور ایسا بنا لے کہ کوئی ٹھوکر، کوئی تکلیف، کوئی مشکل اور کوئی مصیبت اسے صراط مستقیم سے ہٹا نہ سکے اور دشمن توالگ رہے اگر اپنوں سے بھی کوئی رنج اور تکلیف پہنچے تو بھی عقائد سے متزلزل نہ ہو کیونکہ اس نے کسی کے لیے حضرت مسیح موعود کو قبول نہیں کیا بلکہ اپنی عاقبت سنوارنے کے لیے مانا ہے۔ پس اگر ہماری جماعت کے تمام افراد کویہ بات حاصل ہوجائے تو موجودہ صورت سے کئی گنا بڑھ کرہماری ترقی کی رفتار تیز ہوجائے گی اور جس طرح سیلاب کے سامنے بڑی بڑی عمارتیں اور دیواریں گرتی اورمٹتی جاتی ہیں اسی طرح اس روحانیت کے دریا کے سامنے کفر کی عمارتیں دھڑا دھڑ گرتی چلی جائیں گی۔ پھر قلب کی صفائی کے ساتھ ظاہری صفائی کی بھی ضرورت ہے اس لیے اس سے بھی غافل نہ رہنا چاہیے اور اپنے فرائض کی اہمیت اور موقع کی نزاکت کو خوب اچھی طرح محسوس کرنا چاہیے۔

موجودہ نازک حالت

اس وقت حالت یہ ہے کہ پہلی بوسیدہ عمارتوں کو مٹایا جارہا ہے ان کی جگہ نئی بنیادیں رکھی جارہی ہیں اور ایسا وقت بہت نازک اور تکلیف دہ ہوتا ہے جبکہ پرانی عمارت گرا کرنئی بنائی جارہی ہوتی ہے کیونکہ خواہ مکان پرانا اور بوسیدہ ہوتو بھی اس میں گزارہ کرنے والے کرہی لیتے ہیں بارش میں اگر ایک جگہ سے ٹپکے تودوسری جگہ ہو بیٹھتے ہیں۔ گرمی میں دھوپ سے اور سردی میں ہوا سے بچتے ہیں لیکن جب مکان بالکل گرجائے تو پھر کچھ بھی سہارا نہیں رہتا۔ پس آج اسلام کی وہ عمارت جونااہلوں کی وجہ سے بوسیدہ ہوگئی تھی گرادی گئی ہے اور اب نئی عمارت بنائی جائے گی۔ بوسیدہ عمارت کے گرنے سے ہمیں خوشی ہے کہ نئی بنے گی لیکن جس طرح نیا مکان بنانے کے لیے بہت زیادہ فکر اور کوشش کرنی پڑتی ہے، اس سے زیادہ کوشش کی ہمیں ضرورت ہے۔ اس وقت زیادہ سے زیادہ دوتین مسلمان کہلانے والوں کی حکومتیں رہ گئی تھیں اور وہی اسلام کی عمارت سمجھی جاتی تھیں لیکن چونکہ وہ بوسیدہ ہوگئیں اس لیے خدا ا نہیں گرارہا ہے اور اس طرح مسلمانوں کوبیدار اور ہوشیار کیا گیا ہے۔ اب نئی عمارت بنے گی مگر تلوار کے ذریعہ نہیں، روحانی ذرائع سے اور اس کے لیے تیاری کرنا ہمارے لیے نہایت ضروری ہے۔ اگرچہ یہ دن اسلام کے لیے بہت نازک اور خطرناک دن ہیں مگر جو خداتعالیٰ پر یقین اور بھروسہ رکھتے ہیں ان کے لیے خوشی کا بھی موقع ہے کہ اب نئی عمارت بنے گی پس اس عمارت کی تیاری کے لیے محنت اور کوشش کی ضرورت ہے۔

اسلام کی ترقی کے ساتھ مسلمانوں کی ترقی وابستہ ہے

باقی جس قدر لوگ ہیں انہیں اس کی پرواہ ہی نہیں وہ دن رات دنیا حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور جنہیں کچھ مذہب کا خیال ہے وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ اپنے ایجاد کردہ ذرائع سے کامیاب ہوجائیں گے حالانکہ کوئی مذہب اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک کہ خدا کے ساتھ صلح نہ ہو اور خدا خود اس کا معاون و مددگار نہ ہوجائے تواسلام کی ترقی کے ساتھ مسلمانوں کی ترقی وابستہ ہے جب تک اسلام ترقی نہیں کرے گا مسلمان بھی ترقی نہیں کرسکتے اور کوئی ذریعہ ان کی کامیابی کا نہیں ہے۔ لیکن عام لوگ اس سے غافل پڑے ہوئے ہیں۔ صرف ایک ہی جماعت ہے جس کی توجہ اس طرف ہے اور وہ احمدی جماعت ہی ہے۔ اب دیکھیے کیسا نازک وقت ہے اسلام کی عمارت تیار ہونے کے لیے ایک طرف تو کروڑوں مزدوروں کی ضرورت ہے لیکن دوسری طرف مزدوروں نے سٹرائک کررکھی ہے اور مسلمان کہلانے والوں نے کہہ دیا ہے کہ ہم اس میں حصہ نہیں لیں گے۔ اس لیے صرف چند لاکھ ایسے آدمی ہیں جو بظاہر اتنی بڑی عمارت کے ایک گوشہ کے لیے بھی کافی نہیں ہیں۔ ایسی حالت میں جس قدر محنت اور کوشش کی ہمیں ضرورت ہے وہ صاف ظاہر ہے۔

یہ آرام کرنے کا وقت نہیں

لیکن کیسی عجیب بات ہے کہ ایسے وقت میں اور اتنے کم مزدور ہونے کی صورت میں ان میں سے بھی کئی پائوں پھیلا کر بیٹھے ہوئے ہیں کہ سستالیں اور آرام کرلیں۔ ایسے لوگوں کو مَیں کہتا ہوں کہ یہ غفلت اور سستی کا وقت نہیں اور نہ ہی آرام کرنے کا موقعہ ہے بلکہ کام کا وقت ہے اور آپ لوگوں نے اس کام کے کرنے کے لیے کئی باروعدے کیے ہیں میں ان وعدوں کے پورا کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ پس جن میں غفلت اور سستی پائی جاتی ہے وہ اسے ترک کریں۔ کامیابی اور کامرانی تمہارے دروازے پرکھڑی ہے اور یہ کامیابی یاتورسول کریم ﷺ کے وقت حاصل ہوئی ہے یا اب ہوگی۔ رسول کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم اچھے ہیں یامسیح ؑ کے صحابہ؟ آپؐ نے فرمایا مَیں نہیں جانتا۔ صحابہ کو جوانعام ملے ان کے متعلق مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہر مسلمان خوب اچھی طرح جانتا ہے۔ پس انعام جوانہیں ملے وہی آپ لوگوں کومل سکتے ہیں اور تمہارے لیے رحمتوں کے دروازے کھل گئے ہیں اور فضل کے فوارے چل رہے ہیں مگر جہاں خدا کے رحم کی پھوار برس رہی ہے وہاں آگ کی بارش بھی ہورہی ہے۔ اب جس کے نیچے کوئی اپنے آپ کو لے جائے گا وہی اس پر پڑے گا۔ ہماری جماعت کے لوگوں کوچاہیے کہ آگ چھوڑ کرپانی کی طرف آئیں اور اپنے آپ کو اس کے نیچے رکھ دیں۔ اپنے اندر تغیر پیدا کریں تاکہ لوگوں کے دلوں کوفتح کرسکیں اور یہ کام بہت ہی مشکل کام ہے جب تک اپنے اندر خاص تبدیلی نہ پیدا کی جائے گی اس وقت تک نہیں ہوسکے گا۔

(الفضل 11؍مارچ1919ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button