خلاصہ خطبہ جمعہ

اخلاص و وفا کے پیکر بدری صحابی حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کی سیرتِ مبارکہ کا تذکرہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 24؍جنوری 2020ء بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن، (سرے)، یوکے

فضلِ عمر ہسپتال ربوہ میں تیس سال خدمت کی توفیق پانے والے مکرم ڈاکٹر لطیف احمد قریشی صاحب کی وفات۔ مرحوم کا ذکرِ خیر اورنمازِ جنازہ غائب

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ  بنصرہ العزیز نے 24؍جنوری 2020ء کو مسجد بیت الفتوح، لندن، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم فیروز عالم صاحب کے حصہ میں آئی۔

تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا کہ آج جن صحابی کا ذکر ہے اُن کا نام ہے حضرت عبداللہ بن رواحہؓ ۔ آپؓ بیعتِ عقبہ میں شریک تھے اور بنو حارث بن خزرج کے سردار تھے۔ رسول اللہﷺ نے حضرت عبداللہ بن رواحہؓ اور حضرت مقدادؓ میں مؤاخات قائم فرمائی تھی۔آپؓ نبی کریمﷺ کے کاتب بھی تھے۔ غزوۂ بدر، احد اور خندق سمیت تمام غزوات میں آپؓ کو شرکت کی توفیق ملی۔ عبد اللہؓ غزوۂ موتہ میں شہید ہوئے۔ ایک مرتبہ رسول خداﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ عبداللہ بن رواحہؓ حاضر ہوئے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا بیٹھ جاؤ، یہ سنتے ہی عبد اللہؓ مسجد سے باہرجس جگہ کھڑے تھے وہیں بیٹھ گئے۔ جب نبی ﷺ خطبےسے فارغ ہوئے اور آپؐ کو یہ خبر ملی تو آپؐ نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں اللہ تمہیں اَور بڑھائے۔ حضورِانور نے فرمایا کہ کتب احادیث میں اسی طرح کا واقعہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے بارے میں بھی ملتا ہے۔

حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہےکہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: عبد اللہ بن رواحہؓ کتنے ہی اچھے آدمی ہیں۔ آپؓ کو فتح خیبر کے بعد آنحضورﷺ نے پھلوں اور فصل وغیرہ کا اندازہ لگانے کے لیے بھیجا تھا۔ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ شدّتِ بیماری سے بے ہوش ہوگئے تو نبی کریمﷺ آپؓ کی عیادت کے لیے تشریف لائے اور دعاکی کہ اگر اِس کی مقررہ گھڑی کا وقت ہوگیا ہےتو اِس کےلیے آسانی پیدا کردے، اور اگر اس کا موعودہ وقت نہیں ہوا تو اسے شفا عطا فرما۔ آنحضورﷺ کی اس دعا کے بعد آپؓ نے بخار میں کچھ کمی محسوس کی تو عرض کیا کہ یارسول اللہﷺ! میری والدہ کہہ رہی تھیں کہ ہائے میرا پہاڑ! ہائے میرا سہارا! مَیں نے دیکھا کہ ایک فرشتے نے لوہے کا گرز اٹھایا ہوا تھا اور اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تُو واقعی ایسا ہے؟ حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ کہتے ہیں کہ اگر مَیں ایسا کہتا تو ضرور یہ شرک والی بات ہوتی اور وہ فرشتہ مجھے گرز مار دیتا۔ آپؓ بہت اچھے شاعر بھی تھے۔ معجم الشعراء کے مصنف لکھتے ہیں کہ عبداللہ بن رواحہؓ زمانۂ جاہلیت میں بھی بہت قدر و منزلت رکھتے تھے اور زمانۂ اسلام میں بھی ان کو بہت بلند مقام اور مرتبہ حاصل تھا۔

حضورﷺ کی شان میں عبد اللہؓ نے ایک ایسا شعر کہا کہ جسے اِن کا بہترین شعر کہا جاسکتا ہے۔ یہ شعرآپؓ کی دلی کیفیات کی خوب ترجمانی کرتا ہے۔ آپؓ اس شعر میں فرماتے ہیں:

اگر حضرت محمدﷺ کی ذات کے بارے میں کھلے کھلے نشانات اور روشن معجزات نہ بھی ہوتے تو آپؐ کی ذات ہی حقیقتِ حال کی آگاہی کے لیے کافی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ زمانۂ جاہلیت میں ہی لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ حضرت عبادہؓ بن صامت سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہﷺ عبداللہ بن رواحہؓ کی عیادت کے لیے تشریف لائے۔ اس وقت عبداللہؓ میں اتنی سکت نہ تھی کہ بستر سے اٹھ سکتے۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ میری امّت کے شہداء کون ہیں؟ لوگوں نے مقتول مسلمانوں کا ذکر کیا۔ اس پر رسولِ خداﷺ نے فرمایا تب تو میری امّت کے شہداء بہت کم ہیں اور فرمایا کہ مسلمان کا قتل ہونا، پیٹ کی بیماری سے فوت ہونا، پانی میں ڈوب کر مرنا، یہ سب شہادتیں ہیں اسی طرح زچگی کی حالت میں فوت ہونے والی عورت بھی شہید ہے۔

غزوۂ موتہ کے موقعے پر آنحضورﷺ نے زید بن حارثہؓ کو سردار نامزد کیا اور فرمایا کہ اگر یہ شہید ہوجائیں تو جعفر بن ابو طالبؓ سردار ہوں گے اوراگر وہ بھی شہید ہوجائیں تو عبداللہ بن رواحہ ؓ سردار ہوں گے۔ اگر عبداللہؓ بھی شہید ہوگئے تو مسلمان جسے پسند کریں اسے اپنا سردار بنا لیں۔

جب جنگ کے لیے روانہ ہونے کا وقت آیا تو عبد اللہ بن رواحہؓ رونے لگے۔ لوگوں کے استفسار پر آپؓ نے سورۃ مریم آیت 72کا حوالہ دیا۔ جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم میں سے ہر ایک دوزخ میں جانے والا ہے۔ آپؓ نے فرمایا کہ مَیں نہیں جانتا کہ پلِ صراط چڑھنے اور پار اترنے میں میرا کیا حال ہوگا۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ اس سے پہلے کی آیت میں دوزخ کا ذکر ہے۔ اس لیے ان کو خوف پیدا ہوا تھا ورنہ دوسری آیت میں صاف ظاہر ہے کہ مومن اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے بارے میں یہ ذکر نہیں ہے

تفسیرِ صغیر کے حاشیے میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ مومن دوزخ کا حصّہ اسی دنیا میں پالیتے ہیں۔ یعنی کفّار انہیں قسم قسم کی تکالیف دیتے ہیں ورنہ مومن قرآن کریم کی روسے اگلے جہان میں دوزخ میں کبھی نہیں جائیں گے۔

جنگِ موتہ کے لیے دورانِ سفر معان مقام پر مسلمانوں کو علم ہوا کہ ہرقل ایک لاکھ رومی اور ایک لاکھ عربی فوج کے ساتھ ماٰب مقام پر موجود ہے۔ مسلمانوں نے دو دن معان پر قیام کیا اور آپس میں مشورہ کیا کہ رسول اللہﷺ کے پاس کسی کو بھیج کردشمن کی کثرت سے متعلق اطلاع کی جائے۔ حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ نے اس موقعے پر مسلمانوں کو جوش دلایا چنانچہ مسلمان جو تعداد میں محض تین ہزار تھے لڑائی کے لیے آمادہ ہوگئے۔

جب نبی کریمﷺ کو زیدؓ، جعفرؓ اور عبداللہ بن رواحہؓ کی شہادت کی خبر پہنچی تو آپؐ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور زیدؓ کے ذکر پر فرمایا کہ اے اللہ! زید کی مغفرت فرما۔ یہ الفاظ آپؐ نے تین مرتبہ فرمائے اور پھر حضرت جعفرؓ اور عبداللہ بن رواحہؓ کے لیے بھی یہی دعائیہ کلمات ادا فرمائے۔حضورِ انور نے سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کے حوالے سے جنگِ موتہ کے اس تکلیف دہ واقعے کی تفاصیل پیش فرمائیں۔

ایک مرتبہ جنگِ بدر سے قبل آنحضورﷺ گدھے پر سوار ہوکر حضرت سعد بن عبادہؓ کی عیادت کے لیے تشریف لے جارہے تھے کہ آپؐ کا گزر ایک ایسی مجلس کے پاس سے ہوا جس میں مسلمان، یہود اور مشرکین ملے جلے بیٹھے تھے۔ ان میں عبداللہ بن ابی بن سلول اور عبداللہ بن رواحہؓ بھی تھے۔ جب آپؐ کی سواری کی گرد اس مجلس تک پہنچی تو عبداللہ بن ابی نے کہا کہ ہم پر گرد نہ اڑاؤ۔ نبی کریمﷺ نے انہیں سلام کیا اور اسلام کی تبلیغ کی ۔ اس پر عبداللہ بن ابی نے سخت لہجہ اختیار کیا اور کہا کہ اے شخص! یہ اچھی بات نہیں۔ اگر جو تم کہتے ہو سچ ہے تو ہماری مجالس میں ہمیں تکلیف نہ دو اور اپنے ڈیرے کی طرف لوٹ جاؤ۔

حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہﷺ آپ ہماری مجالس میں ضرور تشریف لایا کریں ہم یہ پسند کرتے ہیں۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ عبد اللہ بن رواحہؓ نے اس وقت کوئی خوف نہ کھایا اور کوئی پروا نہ کی۔ بعد میں وہاں جھگڑا بھی ہوا لیکن بہرحال ان کا ایک کردار تھا۔

حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ آنحضورﷺ نے بعض اصحاب کو ایک مہم پر روانہ فرمایا۔ جمعے کا دن تھا باقی اصحاب تو روانہ ہوگئے۔ لیکن عبد اللہ بن رواحہؓ آنحضورﷺ کی اقتدا میں نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لیے رُک گئے۔ جب جمعے کی نماز پر آنحضورﷺ نے عبداللہؓ کو دیکھا تو عدم روانگی کی نسبت دریافت فرمایا۔ آپؓ کے جواب پر آنحضورﷺ نے فرمایاکہ زمین میں جو کچھ ہے اگر تم وہ سب خرچ کر ڈالو تو جو لوگ مہم پر روانہ ہوگئے ہیں تم ان کے فضل کو نہیں پاسکتے ۔

حضرت ابو درداءؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ رمضان کے مہینے میں شدید گرمی میں نکلے۔ گرمی اتنی شدید تھی کہ ہم میں سے ہر ایک خود کو گرمی سے بچانے کے لیے سروں کو ہاتھ سے ڈھانپتا تھا۔ ہم میں سے کوئی روزے دار نہیں تھا سوائے رسول اللہﷺ اور عبد اللہ بن رواحہؓ کے۔

خطبے کے دوسرے حصّے میں حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے محترم ڈاکٹر لطیف احمد قریشی صاحب کا ذکرِ خیر کیا اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔ مرحوم 19؍جنوری 2020ء کو 80سال کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے ۔ اجمیر، بھارت میں پیدا ہوئے ۔ 1937ء میں ان کے والد نے حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھ پر بیعت کی ۔مرحوم نے 1968ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی تحریک پر انگلستان کی سکونت ترک کرکے اپنی زندگی وقف کردی۔ فضلِ عمر ہسپتال ربوہ میں مرحوم کو تیس سال خدمت کی توفیق ملی۔ آپ کو خدام الاحمدیہ مرکزیہ اور انصار اللہ مرکزیہ میں مختلف عہدوں پر کام کرنے کی توفیق ملتی رہی۔ آج کل بھی نائب صدر انصاراللہ تھے۔ ان کی اہلیہ بھی چند دن پہلے وفات پاگئی تھیں جن کا حضورِ انور نے ذکرِ خیر فرماکر نمازِ جنازہ غائب بھی پڑھایا تھا۔ مرحوم کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ آپ نمازِ تہجد کے بڑے پابند تھے اور بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ مستحق مریضوں کو اپنی جیب سے ادویہ خرید کر دے دیتے۔ ہرسال بڑے اہتمام سے جلسہ سالانہ قادیان اور انگلستان میں شرکت کے لیے جاتے تھے۔ ہم سایوں سے بڑے پیار کا تعلق تھا۔ بڑے اچھے ادبی ذوق کے مالک تھے۔ درّثمین، کلامِ محمود اور درِّعدن کی نظمیں بڑی خوش الحانی سے پڑھا کرتے تھے۔

حضورِانور نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان سے رحمت اور مغفرت کا سلوک فرمائے۔ ان کے بچوں کو بھی صبر اور حوصلہ عطافرمائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button