خطاب حضور انور

جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ جرمنی 2019ء کے موقع پر خواتین کے اجلاس سے حضور انور کا بصیرت افروز خطاب (06؍جولائی 2019ء بروزہفتہ)، کالسروئے (جلسہ گاہ) جرمنی

’’جس کے ذہن میں بھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ اسلام میں عورت کے حقوق نہیں اس کو اسلام کی خوبصورت تعلیم کا علم ہی نہیں‘‘

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهٗ حَيٰوةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۔ (النحل:98)

اَلتَّآئِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآئِحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاهُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ۔ (التوبۃ:112)

یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں ان میں پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو کوئی مومن ہونے کی حالت میں نیک اور مناسب حال عمل کرے گا مرد ہو کہ عورت ہم اس کو یقینا ًایک پاکیزہ زندگی عطا کریں گے اور ہم ان تمام لوگوں کو ان کے بہترین عمل کے مطابق ان کے تمام اعمال صالحہ کا بدلہ دیں گے۔

پس یہ ہے خدا تعالیٰ کا انصاف کہ مردوں عورتوں دونوں کو ان کے عمل کا بدلہ ہے۔ بعض باتیں مردوں کے لیے فرض ہیں یا ان کے حالات کے مطابق ضروری ہیں اور عورت کے لیے اس طرح فرض اور ضروری نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہمارے فرائض اور ڈیوٹیوں کی فہرست بھی بتا دی کہ اسلامی معاشرے میں عورت کے کیا فرائض ہیں اور مرد کے کیا فرائض ہیں۔ ان کی ایک لمبی فہرست ہے وہ تو میں اس وقت بیان نہیں کرسکتا۔ مثال دیتا ہوں مثلاً نماز کو ہی لے لیں۔ مردوں پر یہ فرض کیا گیا ہے کہ وہ سوائے اشد مجبوری کے نماز باجماعت مسجد میں جا کر ادا کریں جبکہ عورت کے لیے یہ ضروری نہیںہے۔ حتٰی کہ جمعہ بھی عورت کے لیے اس طرح فرض نہیں ہے جس طرح مرد کے لیے فرض ہے۔

(سنن ابو داؤد کتاب الصلوٰۃ باب الجمعۃ للمملوک والمرأۃ حدیث 1067)

مرد کو یہ کہا گیا ہے کہ اگر تم باجماعت نماز پڑھو تو تمہیں اس کا ستائیس گنا ثواب ملے گا۔

(صحیح بخاری کتاب الآذان باب فضل صلاۃ الجماعۃ حدیث 645)

تو کیا عورت باجماعت نماز نہ پڑھ کے ستائیس گنا ثواب سے محروم رہے گی۔ یا اس کو اس لیے نماز باجماعت پڑھنا ضروری قرار نہیں دیا گیا کہ اسے کہیں ستائیس گنا ثواب نہ مل جائے اور اس سے محروم رکھا جائے۔ نہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہر ایک کے مناسب حال عمل ہیں۔ اگر وہ ان عملوں کو سرانجام دے رہا ہے تو چاہے وہ مرد ہے یا عورت ہے، اسے ثواب ملے گا۔ عورت کا گھر میں نماز پڑھنا اور اپنی گھریلو ذمہ داریاں ادا کرنا ہی اسے مرد کے برابر ثواب کا مستحق قرار دے دے گا ۔تبھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقعے پر ایک عورت کو فرمایا تھا کہ تمہارا اپنے گھروں کو سنبھالنا اور بچوں کی تربیت کرنا تمہیں اتنے ہی ثواب کا مستحق قرار دے گا یا بنائے گا جس کا ایک مرد اسلام کے راستے میں جانی و مالی جہاد کر کے مستحق ہوتا ہے۔

(الجامع لشعب الایمان جلد 11 صفحہ 177-178 حدیث 8369 مطبوعہ مکتبۃ الرشد ناشرون ریاض 2003ء)

پس اگر عورت اپنے ذمہ کام کو سرانجام دے رہی ہے اور مرد اپنے ذمہ کام اور فرائض کو سرانجام دے رہا ہے اور دونوں اللہ تعالیٰ کے خوف اور خشیت اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں تو ان کی اس دنیا کی زندگی بھی پاکیزہ ہو گی اور اللہ تعالیٰ کے حکم پر چلتے ہوئے اس کی رضا کو حاصل کرنے والی ہو گی اور آخرت میں بھی ان کے عمل کے مطابق انہیں بدلہ دیا جائے گا۔ پس جہاں اس آیت میں اسلام نے مرداور عورت دونوں کے حقوق کو تسلیم کیا ہے اور عورت مرد کو یہ کہا گیا ہے کہ تمہیں تمہارے عملوں کے مطابق بدلہ دیا جائے گا وہاں اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ اپنی حالتوں اور اپنے عملوں کو خدا تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق ڈھالو۔ اللہ تعالیٰ کی خشیت اور اس کی خوشنودی اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے اپنے عمل کرو۔ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو۔

اس آیت میں ان لوگوں کے اعتراض کی بھی نفی کی گئی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اسلام عورتوں کے حقوق کی نگہداشت نہیں کرتا۔ اسلام نہ صرف نیک عمل کرنے والی عورتوں کو چاہے بظاہر اس کے عمل مرد کی نسبت کم محنت والے اور مشقت والے نظر آتے ہوں، اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی خبر دے کر اللہ تعالیٰ کے انعامات سے نوازنے کا اعلان کرتا ہے۔یہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنے انعامات سے نوازنے کا اعلان کرتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے پر مرنے کے بعد بھی بہترین اجر کا اعلان کرتا ہے۔ پس یہ ان لوگوں کی جہالت ہے جو اسلام پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ مرد اور عورت کے برابری کے حقوق نہیں ہیں اور ان لوگوں کی ان غیر مسلموں سے بڑھ کر جہالت ہے جو اس دنیاوی طور پر ترقی یافتہ معاشرے کی نام نہاد آزادی سے متاثر ہو کر کسی بھی قسم کے احساسِ کمتری میں مبتلا ہو کر اسلام کی سچائی اور اسلام میں اپنے حقوق کے بارے میں سوچ میں پڑ جاتے ہیں یا کہنا چاہیے کہ عورتیں اور پڑھی لکھی نوجوان لڑکیاں اور لڑکے، خاص طور پر لڑکیوں کی بات کر رہا ہوں، اس سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ اسلام نے ہمیں ہمارے حقوق دیے بھی ہیں کہ نہیں۔

پس اپنوں یا غیروں جس کے ذہن میں بھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ اسلام میں عورت کے حقوق نہیں۔ اس کو اسلام کی خوبصورت تعلیم کا علم ہی نہیں۔ آج ہر احمدی کا کام ہے کہ دنیا کو بتائے کہ دین کیا ہے؟ ہمارے حقوق کیا ہیں اور ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؟ انبیاء دنیا میں بندے کو خدا کے قریب کرنے کے لیے آتے ہیں اور مذہب اس دنیا کی زندگی اور مرنے کے بعد کی ہمیشہ رہنے والی زندگی کی بات کرتا ہے اور ایک دنیا دار صرف اس دنیا کی زندگی کو ہی اپنا مقصد حیات سمجھتا ہے۔ پس یہ بات ہر احمدی مرد اور عورت اور لڑکے اور لڑکی کو اپنے سامنے رکھنی چاہیے کہ اسلام جو کامل اور مکمل شریعت ہے جس میں مرد اور عورت ہر ایک کے حقوق اور فرائض اور ذمہ داریوں کی وضاحت کر دی گئی ہے اور ان پر عمل کر کے ہم نے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے۔ اسے ہم نے اپنی زندگیوں پر لاگو کرنا ہے اور غیر مذہبی لوگوں یا دنیا دار لوگوں سے متاثر نہیں ہونا اور نہ صرف متاثر نہیں ہونا بلکہ ان کو مذہب کی حقیقت بتانی ہے۔ ان کو خدا تعالیٰ کے قریب لانا ہے۔ ان کو ان کی جاہلانہ سوچوں کی نشاندہی کر کے بتانا ہے کہ ہم جو احمدی مسلمان ہیں ٹھیک ہیں اور ہمارا مذہب کے بارے میں جو نظریہ ہے وہ ٹھیک ہے۔ ہمارا خدا تعالیٰ کے بارے میں جو نظریہ ہے وہ ٹھیک ہے اور تم غلط ہو۔ پس اس سوچ کے ساتھ ہم میں سے ہر ایک کو اپنی اپنی زندگی گزارنی ہے۔ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے احکامات کا پابند کرنا ہے اور دنیا کو بھی اسلام کی خوبصورت تعلیم کا قائل کرنا ہے۔ جب یہ ہو گا تبھی ہم حقیقی احمدی کہلا سکیں گے۔ تبھی ہمارے یہ جلسے منعقد کرنے کا فائدہ ہے۔

ہر سال آپ اجتماع کر لیں، تربیتی کلاسیں منعقد کر لیں، جلسے منعقد کر لیں اور اس بات پر خوش ہو جائیں کہ ہماری اتنی حاضری ہے اور خلیفۂ وقت نے ہم سے خطاب کیا ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ وقتی جوش بے فائدہ ہے۔ مقررین کے، یہاں تقریریں کرنے والوں کے بعض فقرات بھی آپ کو وقتی طور پر جذباتی کر دیتے ہیں تو وقتی طور پر جذباتی ہونا یہ بے فائدہ چیز ہے جب تک ایک لگن اور کوشش کے ساتھ ان نیک باتوں کو اپنی زندگیوں کا حصہ نہ بنائیں۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ اگر آپ اللہ تعالیٰ کی باتوں کو نہیں سمجھتیں یا سمجھنے کی کوشش نہیں کرتیں یا سن کر سمجھ کر پھر اس پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کرتیں تو آپ کا علم، آپ کی عقل، آپ کی روشن دماغی سب بے فائدہ ہیں۔

پس نیک اعمال کے لیے جہاں ان جلسوں میں بیان کی گئی باتوں سے فائدہ اٹھائیں وہاں اللہ تعالیٰ کی باتوں کی تلاش کر کے ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں تبھی ان جلسوں اور ان کارروائیوں کا فائدہ ہے۔ جیسا کہ آیت کے حوالے سے میں نے ذکر کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مومن مردوں اور عورتوں کے نیک عمل پر جزا دینے کا کہا ہے اور دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے جزا کی بشارت پانے والوں کے بعض اعمال کا ذکر کیا ہے جیسا کہ فرماتا ہے کہ جو لوگ توبہ کرنے والے ہیں، عبادت کرنے والے ہیں، خدا کی حمد کرنے والے ہیں، خدا کی راہ میں سفر کرنے والے ہیں، رکوع کرنے والے ہیں، سجدہ کرنے والے ہیں، نیک باتوں کا حکم دینے والے ہیں، بری باتوں سے روکنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں ایسے مومنوں کو تُو بشارت دے دے۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرمایا۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ (البقرۃ:224) تو اس بشارت میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں۔

ان خوش خبری پانے والوں کے لیے پہلی بات جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی وہ یہ ہے کہ وہ توبہ کرنے والے ہیں۔ توبہ کیا ہے؟ توبہ یہ ہے کہ جن باتوں، برائیوں، گناہوں سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے ان سے رکنا ۔دنیا داروں کی نظروں، ان کے طنزیہ فقروں، ان کے ڈراووں سے متاثر نہیں ہونا۔ آزادی کے نام پر ان دنیا داروں کے پیچھے نہیں چل پڑنا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ایک جگہ توبہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ‘‘توبہ کے یہ معنی ہیں کہ انسان ایک بدی کو اس اقرار کے ساتھ چھوڑ دے کہ بعد اس کے اگر وہ آگ میں بھی ڈالا جائے تب بھی وہ بدی ہرگز نہیں کرے گا۔’’

(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 190)

پس یہ معیار ہے ایک مومن کا چاہے وہ مرد ہے یا عورت کہ برائیوں سے بچنے کے لیے ایک پکا ارادہ کرے اور اس پر پھر قائم رہنا ہے اور اس کے لیے اگر جان بھی قربان کرنی پڑے تو اس کی بھی پروا نہیں کرنی۔ نہ یہ کہ اس دنیا کی رنگینیوں یا لوگوں کی باتوں سے متاثر ہو کر ان دنیوی برائیوں میں پڑ جانا اور پھر اس حد تک چلے جانا کہ اللہ تعالیٰ کا خوف ہی دل سے نکل جائے۔

اس قسم کی توبہ کرنے اور دنیاوی آلائشوں اور برائیوں سے بچنے کے لیے استغفار ضروری ہے جہاں ان سب دنیاوی برائیوں سے انسان بچ سکے۔ آج کل تو قدم قدم پر دنیاوی برائیاں ہیں۔ ٹی وی کھول لیں وہاں برائیاں۔ انٹرنیٹ کھول لیں وہاں برائیاں۔ بازار میں چلے جائیں وہاں برائیاں۔ سکول میں چلے جائیں وہاں برائیاں۔ نام نہاد ترقی یافتہ معاشرے میں کوئی ایسی محفوظ جگہ نہیں ہے جہاں برائیاں نہ ہوں۔ پس ان سے بچنے کے لیے توبہ اور استغفار ضروری ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ایک جگہ لکھا کہ توبہ کی قوت حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے استغفار کی طرف ہمیں توجہ دلائی ہے۔ اگر ان گناہوں سے بچنا ہے، اپنے آپ کو محفوظ رکھنا ہے تو مستقل استغفار کرتے رہو۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد2 صفحہ 69)

یہ میرے الفاظ ہیں ۔آپؑ کی باتوں کامفہوم یہی ہے ۔ پھر آپؑ نے لکھا کہ بعض وقت انسان نہیں جانتا اور ایک دفعہ ہی زنگ اور تیرگی اس کے قلب پر آ جاتی ہے۔ اس لیے استغفار ہے کہ وہ زنگ اور تیرگی نہ آوے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد4 صفحہ 255)

دنیا کے شغلوں، اس کے کاموں، اس کے کھیل کود اور لہو و لعب میں آج کل اتنی زیادہ attraction ہے اور انسان کا دل اس حد تک اس کی طرف مائل ہونے کی کوشش کرتا ہے کہ اس طرح دل پر زنگ لگ ہی جاتا ہے۔ جو چمک دین کی، روشنی کی، صفائی اور ستھرائی کی اور دل کے مصفّٰی ہونے کی ہے وہ ماند پڑ جاتی ہے اور دنیا کی جو رنگینیاں ہیں وہ غالب آ جاتی ہیں۔ اور دنیا کی جو یہ رنگینیاں ہیں یہی زنگ ہے بلکہ آپؑ نے فرمایا کہ تیرگی آ جاتی ہے، بالکل اندھیرے میں انسان چلا جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ کے وجود اور اس کے دین اور اس کی تعلیم کی روشنی سے انسان میلوں دور ہوتا ہے اور آجکل کے معاشرے میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے اور دنیا کی عارضی روشنی اور چکا چوند اس کو زیادہ روشن ہو کر نظر آتی ہے۔
پس اگر ہم نے اپنی دنیا و عاقبت سنوارنی ہے اور درست رکھنی ہے تو ایک مومن کے لیے مسلسل استغفار ضروری ہے اور سچی توبہ کے لیے محنت ضروری ہے۔پس ہمیں اس طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے۔ زنگ کو دور کرنے اور اندھیروں کو مٹانے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف ایک خاص کوشش سے قدم بڑھانے کی ضرورت ہے اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر نہیں ہوتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے لیے استغفار کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق عبادت بھی ضروری ہے۔

توبہ کرنے کی طرف توجہ دلانے کے بعد اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں عبادت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ عبادت کرنے والوں کو بشارت ہے۔ عبادت کے جو طریق خد اتعالیٰ نے ہمیں بتائے ہیں ان میں سب سے اہم نماز ہے۔ عورت گھر کی نگران ہونے کے لحاظ سے اپنی نمازوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی نمازوں کی حفاظت کی بھی نگران ہے اور اس کو کرنی چاہیے۔ عورتوں میں، ماؤں میں نمازوں کی عادت ہو، اس کا اہتمام ہو تو یہ چیز بچوں کو بچپن سے ہی نمازوں کی طرف توجہ دلانے والی ہوتی ہے۔ اور عموماً ایسی ماؤں کے بچے نمازی ہوتے ہیں اور ایسی عورتیں اور ایسی مائیں ایسے بچوں کو پروان چڑھا رہی ہوتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق اپنے مقصد پیدائش کو سمجھنے والے ہیں۔ بے شک ایک عمر کے بعد بچے باپ کے عمل سے بھی بہت متاثر ہوتے ہیں اور خاص طور پر لڑکے جو باپوں سے متاثر ہو رہے ہوتے ہیں اس لیے میں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں، پھر میں کہتا ہوں کہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ باپ ذمہ دار نہیں ہے اور یہ صرف ماؤں کی ذمہ داری ہے۔ ماؤں کی انتہائی کوشش اور دعاؤں کے بعد اگر بچے باپوں کے عمل دیکھ کر بگڑتے ہیں تو ایسے باپ بھی اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آئیں گے۔ لیکن اچھی تربیت کرنے والی مائیں، بچوں کو عبادت گزار بنانے کی کوشش کرنے والی مائیں کم از کم اپنی اس کوشش کی وجہ سے جو وہ بچوں کو خدا تعالیٰ کے قریب کرنے کے لیے کرتی ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت حاصل کرنے والی بن جائیں گی اور یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ باپوں کے عملوں کی وجہ سے بگڑنے والے بچے ایک وقت میں ماؤں کی دعاؤں اور تربیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف آنے والے بن جاتے ہیں، نیکیوں کے راستے کی طرف چل پڑتے ہیں۔

پس بے شک بعض ماؤں کے لیے بچوں اور خاص طور پر لڑکوں کی تربیت ایک خاص عمر کے بعد بہت بڑا چیلنج بن جاتی ہے لیکن ماؤں کو ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔ اور پھر خاص طور پر لڑکیاں تو عموماً ماؤں کے زیرِ اثر ہوتی ہیں۔ اگر لڑکیاں بگڑ رہی ہیں تو یہ تو خالصۃً ماؤں کا قصور ہے۔ اگر لڑکیاں آزادی کی طرف جا رہی ہیں تو یہ خالصۃً ماؤں کا قصور ہے۔ اگر لڑکیاں یونیورسٹیوں میں جا کر غلط قسم کی دوستیاں لگانی شروع کر دیتی ہیں تو ماؤں کو فکر کرنی چاہیے اور دعائیں زیادہ کرنی چاہئیں۔ اگر ہماری لڑکیاں سنبھل جائیں جو ماشاء اللہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اکثریت سنبھلی ہوئی ہے تو اگلی نسل کے سنبھلنے کے امکان زیادہ روشن ہو جاتے ہیں۔ جب عورتوں میں یہ احساس اور روح قائم رہے گی کہ ہم نے اگلی نسل کو خدا تعالیٰ کے ساتھ جوڑنے کی ذمہ داری اپنی تمام تر طاقتوں سے نبھانی ہے تو نسلوں میں دین قائم رہے گا۔ پس مردوں کے عمل سے عورتیں مایوس نہ ہوں۔ ان مُلکوں میں یہ بات بھی میرے سامنے آتی ہے کہ اگر مرد بگڑ رہے ہیں تو عورتیں بھی اپنی ذمہ داری صحیح رنگ میں نہیں نبھا رہیں۔ پس بعض عورتیں ایسی ہیں اور فکر کی بات یہ ہے کہ ان کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ پس عورتیں اپنے آپ کو دیکھیں اور دعائیں کریں۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کریں تو اللہ تعالیٰ میں بڑی طاقتیں ہیں وہ ان کے مردوں کی بھی اصلاح کر دے گا اور اس دنیا میں بھی وہ جنت کو دیکھنے والی بن جائیں گی۔

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن کی یہ بھی نشانی ہے کہ وہ حمد کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد یہ تقاضا کرتی ہے کہ اس کی نعمتوں کی شکر گزار بنیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو بہتر حالات اور مالی بہتری مہیا فرمائی ہے اس کا شکر ادا کریں۔ جب حقیقی حمد کی طرف توجہ پیدا ہو گی تو یہ خیال دل میں مضبوط ہو گا کہ تعریف کے قابل صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہے اور میرے حالات کی بہتری اگر ہو سکتی ہے تو خدا تعالیٰ کے ساتھ جڑے رہنے سے ہو سکتی ہے اور ہوئی ہے اور اگر کبھی مشکلات اور تنگیوں کا سامنا کرنا بھی پڑے تو اللہ تعالیٰ کی حمد میں تب بھی کمی نہیں ہونی چاہیے۔اللہ تعالیٰ کی حمد میں کمی ناشکری کی طرف لے جاتی ہے اور ناشکری خدا تعالیٰ سے دور لے جاتی ہے۔ پس ہر ایک کو اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بنتے ہوئے اس کی حمد کی طرف توجہ رکھنی چاہیے۔ بعض دفعہ بعض نوجوان لڑکیوں میں یہ خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ ہم نے دعا بھی کی، کسی کام کے حصول کے لیے محنت بھی کی، اللہ تعالیٰ کی حمد بھی کی لیکن ہماری منشا کے مطابق، ہماری خواہش کے مطابق ہمیں نتیجہ نہیں ملا اور اس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ سے دور جانا شروع ہو جاتی ہیں اور یہ لڑکوں میں بھی بہت بڑا مرض ہے ۔ اگر یہ دماغ میں ہو کہ صرف اس دنیا پر ہی ہمیں نظر نہیں رکھنی بلکہ مرنے کے بعد کی زندگی بھی ایک زندگی ہے جیسا کہ ابھی نظم میں بھی آپ نے بڑی تفصیل سنی اور اللہ تعالیٰ کے انعامات بڑے وسیع ہیں تو اللہ تعالیٰ کی حمد کی طرف ہمیشہ توجہ رہے گی اور انسان پھر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بنا رہے گا اور یہ اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے کہ اگر تم شکر گزار ہو گے تو میں ان نعمتوں کو اور بڑھاؤں گا۔ پس ہر حالت میں حمد اور اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری ایک مومن مرد اور عورت کا خاصہ ہونی چاہیے۔

پس ہمیشہ ہر مومن کو یہ بات اپنے پیش نظر رکھنی چاہیے کہ یہ انعامات بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کی وجہ سے ہیں نہ کہ میری کسی خوبی کی وجہ سے۔ اور اگر کوئی عارضی مشکل بھی پڑتی ہے تو پھر بھی مَیں نے اللہ تعالیٰ کا دامن نہیں چھوڑنا اور نہ اپنے بچوں کے سامنے کبھی اس قسم کا اظہار کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور حمد کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ہمیشہ اور ہر حال میں ایک مومن کو صبر اور برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ جو مستقل مزاجی سے اللہ تعالیٰ کا دامن پکڑے رکھے تو پھر اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پر فضل بھی فرما دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے ہمیں بشارت بھی دی ہے۔ یہ خوشخبری بھی دے رہا ہے کہ اگر تم مستقل مزاجی سے قائم رہو گے توتمہیں بشارت ہو۔

پھر یہاں مومن کی ایک خصوصیت یہ بتائی گئی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں سفر کرنے والے ہیں۔ آپ میں سے اکثر جو یہاں آئی ہیں یا مرد ہیں جو یہاں آئے ہیں وہ اس لیے آئے ہیں کہ ان کے ملک میں ان پر حالات تنگ کیے گئے اور ہجرت کرنی پڑی اور ان ممالک میں پناہ لینی پڑی۔ پس اس لحاظ سے آپ کے سفر بھی خدا کی راہ میں سفر ہیں۔ اپنے دین کو بچانے کے لیے ہیں یا دین کی وجہ سے زندگیوں کو بچانے کے لیے آپ نے یہ سفر کیے ہیں۔ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن میں کوئی ایسی قابلیت نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ کہہ سکیں کہ ہم ان ملکوں میں آئے ہیں اور اپنی کسی قابلیت کی وجہ سے ہماری ہجرت ہے۔ پس جب ہجرت اس نام پر کی ہے کہ ہمیں مذہبی آزادی حاصل ہو اور ہم خدا تعالیٰ کا حق ادا کر سکیں تو پھر خدا تعالیٰ کی باتوں کو ماننا بھی ضروری ہے اور یہاں آ کر جو مالی بہتری اور اکثر کو کشادگی پیدا ہوئی ہے، وسعت پیدا ہوئی ہے وہ مزید اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے و الے بنیں۔

پس اگر آپ اپنے دلوں کو ٹٹولیں اور حقیقت پر بنیاد رکھیں تو اکثریت اس بات کی گواہی دے گی کہ آپ کے سونے کے کڑے اور زیور اور بُندے اور لاکٹ اور گھر اور اچھے کپڑے اور کاریں یہ سب اللہ تعالیٰ نے آپ کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں سفر کرنے اور اپنے دین کو بچانے کی وجہ سے انعام دیا ہے۔ یہاں اکثر کے بچے پڑھ لکھ گئے ہیں۔ اگر پاکستان میں رہتے تو شاید اکثریت کو اس طرح پڑھنے کا موقع نہ ملتا اور خاص طور پر لڑکیوں کو تو اس وسیع طور پر بالکل موقع نہ ملتا جو یہاں ان کے پڑھنے کے انتظام ہیں۔ اور آج بہت ساری لڑکیوں نے میڈل لیے ہیں، یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ پس نوجوانوں کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے والدین جو دین کی وجہ سے ہجرت کر کے ان ملکوں میں آئے ہیں یہ ان پر ذمہ داری ڈالتے ہیں کہ اپنے خدا کی عبادت اور اس کی حمد اوراس سے تعلق میں مضبوط تر ہوں نہ کہ دنیاوی خواہشات کو پورا کرنے، مختلف برائیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کو بھول جائیں۔ یہاں کے ماحول سے متاثر ہو کر آزادی کی طرف چلی جائیں۔ پس یہاں آنے والوں اور ان کی اولادوں کو بھی اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوتے ہوئے اس کے آگے جھکتے چلے جانا چاہیے جس نے اپنی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو خوشخبری دینے کے وعدے کیے ہیں اور باوجود آپ کی بہت سی کمزوریوں کے انھی وعدوں کو پورا بھی کیا ہے۔

پھر بہت سے ایسے لوگ ہیں جو یہاں حکومت پر بوجھ ہیں اس کے باوجود آپ کو حکومت اس لیے برداشت کر رہی ہےکہ آپ دین کی خاطر ہجرت کر کے آئے ہیں۔ پس سوچیں اور غور کریں کہ کیا ان تمام انعامات پر اللہ تعالیٰ کا حق ادا کر رہے ہیں؟ یہاں چند سال رہ کر بھول جاتے ہیں کہ اگر پاکستان میں جماعت کے حالات خراب نہ ہوتے تو یہاں کی حکومتیں آپ کو ایک منٹ بھی یہاں ٹکنے نہ دیتیں۔ اب بھی بعض سرکاری حکّام یا جج جو مسلمانوں کے خلاف بُغض رکھتے ہیں یا ان پر مسلمانوں کا غلط تاثر قائم ہو گیا ہے۔ وہ غلط تاثر بعض مسلمانوں کے عمل کی وجہ سے بھی ہوا ہے تو مسلمانوں ہی کی غلطی ہے کہ اس عمل کی وجہ سے غلط تاثر قائم ہوا ہے۔ اسائلم کیسز منظور نہیں کرتے اور پھر اکثریت جب اپیل میں جاتی ہے اور ملک کے قانون کے مطابق جو ہمارے خلاف وہاں قانون ہے اپنے حالات بتاتی ہے تو متعلقہ محکمے یہاں رہنے کی منظوری دے دیتے ہیں۔ یہ یورپ کے بہت سارے ملکوں میں، جرمنی میں بھی ہو رہا ہے۔ پس انسان کو ہمیشہ شکر گزار ہونا چاہیے اور کبھی احسان فراموش نہیں ہونا چاہیے۔ یہاں کی حکومتوں کے جہاں شکرگزار ہوں وہاں یہ بھی یاد رکھیں کہ یہ شکر گزاری اس طرح ہونی چاہیے کہ حکومت سے غلط بیانی کر کے امداد لینے سے ہمیشہ بچیں اور یہاں آ کےکوئی کام تلاش کریں ۔ بجائے مدد لینے کے کام تلاش کر کے حکومتوں پر بوجھ بننے سے اپنے آپ کو بچائیں۔ صدقے کھانے کے بجائے دینے والا ہاتھ بنیں اور اس کے ساتھ ہی وہاں سب آنے والوں پر یہ بھی فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کریں کہ اس نے یہاں آ کر رہنے کے سامان پیدا فرمائے اور مالی کشائش عطا فرمائی۔

بعض لڑکے اور لڑکیاں یہاں شادی کر کے آتے ہیں اور پھر چند دن بعد طلاق اور خلع کے جھگڑوں میں پڑ جاتے ہیں۔ بعض تو آتے ہی اس نیت سے ہیں۔ شروع سے ہی لگ رہا ہوتا ہے کہ یہاں ویزالگ جائے گا تو پھر جو مرضی ہے کریں گے۔ ان کے سفر خدا تعالیٰ کی راہ میں نہیں ہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی راہ میں سفر کے نام پر یہ دھوکا ہے اور اللہ تعالیٰ کو دھوکا نہیں دیا جا سکتا۔ ایسے لوگ جو ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوشخبری کے بجائے اس کی ناراضگی کامورد بنیں گے ۔ اس دنیا میں چند سال شاید اس دھوکے کی وجہ سے اچھے گزر جائیں لیکن ہمیشہ یاد رکھیں کہ نیّتوں کا حال اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور مرنے کے بعد اس کی پکڑمیں ہم آ سکتے ہیں۔ بعض کہہ دیں گے کہ ہماری نیّت یہ نہیں تھی۔ ٹھیک ہے مجھے دلوں کے حال کا نہیں پتا۔ لیکن خدا تعالیٰ دلوں کا حال جانتا ہے۔ اگر نیت نیک نہیں تھی تو ضرور وہ پکڑ سکتا ہے اور پھر ایسوں کو بشارت نہیں دیتا۔ پس ایسے مردوں اور عورتوں کو بھی اپنے جائزے لیتے رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دنیا اور آخرت میں حاصل کرنے والا بننا ہے تو اپنے اندر بھی اور اپنی اولاد کے اندر بھی یہ احساس پیدا کریں کہ ہمارے سفر دین کی وجہ سے ہیں اور یہ اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ہم پہلے سے بڑھ کر اپنے آپ کو جماعت سے جوڑیں اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر پہلے سے بڑھ کر عمل کریں اور کبھی بے وفائی نہ کریں تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث آپ کی نسلیں بھی بنتی چلی جائیں گی ۔

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن خوشخبریاں پانے والے ہیں۔ وہ رکوع و سجود کرنے والے ہیں۔ عبادت کے ذکر میں اس بارے میں کچھ وضاحت آ گئی تھی ۔پھر اللہ تعالیٰ رکوع اور سجود کی طرف مومن کو توجہ دلاتا ہے یعنی عبادتیں ایسی ہوں جو صرف ظاہری اظہار نہ ہوں بلکہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے لیے اپنی زندگیوں کو صَرف کرنے والے ہوں۔ یہ حقیقی رکوع و سجود ہیں اس کے ہر حکم پر لبیک کہنے والے ہوں جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سجدے کی حالت وہ ہے کہ جب انسان خدا تعالیٰ کے قریب ترین ہوتا ہے۔

(صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب ما یقول فی الرکوع والسجود حدیث (482))

پس ظاہری طور پر بھی نمازوں میں ایسے سجدے ہوں جو دنیا سے کٹ کر سجدے ہوں اور خالص طور پر اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے والے سجدے ہوں۔ پس ایسے رکوع اور سجدے ہم میں سے ہر ایک کو کرنے چاہئیں۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومنین کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ نیک باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بُری باتوں سے روکتے ہیں۔ اگر ہمارے مرد اور ہماری عورتیں اس بات کی حقیقت کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے والے ہوں تو ہمارے گھر بھی جنت کا نمونہ بن جائیں اور ہم معاشرے میں بھی اسلام کا حقیقی پیغام پہنچا کر اسلام کے خلاف تحفظات کو دور کرنے والے ہوں۔ پس ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ کس حد تک ہم اس پر عمل کر رہے ہیں۔ مرد یہ نہ سمجھیں کہ یہ صرف عورت کی ذمہ داری ہے کہ نیکی کی تلقین کرے اور برائیوں سے روکے بلکہ مردوں کی بہت بڑھ کر ذمہ داری ہے اور آج میں عورتوں میں خطاب کرتے ہوئے مردوں کو بھی یہ پیغام دیتا ہوں کہ جب تک وہ عورتوں کی مدد نہیں کریں گے اور نیکیوں کے کرنے اور برائیوں سے روکنے کے اپنے عملی نمونے نہیں دکھائیں گے آپ کی نئی نسل کی رُکنے کی ذمہ داری نہیں دی جاسکتی۔ اگر مردوں نے اپنا کردار ادا نہ کیا تو اس کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ آپ کی نسلیں برائیوں سے رُکیں گی اور نیکیوں پر عمل بجا لانے والی ہوں گی۔ عورتیں گھروں میں یہ نمونے قائم کریں اور مرد گھر اور باہر ہر جگہ یہ نمونے قائم کریں اور دنیاوی خواہشات کو پورا کرنے کے بجائے دین کو مقدم کریں تو پھر دیکھیں کہ آپ وہ نسل پروان چڑھائیں گے جو اس آزاد دنیا میں رہنے کے باوجود دین کو دنیا پر مقدم کرنے والی ہو گی، صرف عہدوں میں نعرے لگانے والی نہیں ہو گی۔

نئی نسل میں یہاں کے ماحول کی وجہ سے نیکی اور برائی کا اسلامی تصور کم ہو رہا ہے۔ اس ماحول کے بداثرات سے اگر اپنی نئی نسلوں کو بچانا ہے تو پھر دونوں کو مل کر ایک مشترکہ کوشش کرنی ہو گی جو نیکیوں کے پھیلانے کے لیے ہو اور برائیوں سے روکنے کے لیے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جو احکام دیے ہیں، جن باتوں کو کرنے کا حکم دیا ہے اور جن باتوں سے رکنے کا حکم دیا ہے ان کو تلاش کریں اور ان کو تلاش کر کے اس پر پھر عمل کی ضرورت ہے۔ اگر ہر گھر اس سوچ کے ساتھ یہ کوشش کرے کہ دنیا کے بداثرات سے ہم نے اپنی نسلوں کو بچانا ہے تو تبھی ہم نسلوں کو سنبھال سکتے ہیں ،تبھی ہم اپنی اولادوں کو سنبھال سکتے ہیں۔ دین اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کے خلاف دنیا والے اپنی بھرپور کوشش کر رہے ہیں ایسے میں ہماری ذمہ داری ہے کہ اس کا توڑ کریں۔ سکولوں میں بچوں کو آزادی کے نام پر غلط قسم کی باتیں بتائی جاتی ہیں اس کا توڑ اور ردّ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ جب مائیں پہلے خود اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق نیکی اور بدی کا علم حاصل کریں اور پھر بچوں کو ان برائیوں کے بارے میں بتائیں۔ اسی طرح یہ باپوں کا بھی کام ہے۔ معاشرے کی برائیوں کے بارے میں کھل کر اپنے بچوں کو بتانے کی ضرورت ہے۔ اگر نسلوں کو سنبھالنا ہے تو اس بارے میں اب شرمانے کی ضرورت کوئی نہیں ورنہ یہ نسلیں دین سے دور چلی جائیں گی۔ جس دین کو بچانے کے لیے آپ نے ہجرت کی تھی وہ دنیا کی رنگینیوں کی وجہ سے ہماری نسلوں کے دلوں سے نکل جائے گا۔ پس یہاں رہنے والے ہر احمدی کے لیے بڑے خوف اور فکر کا مقام ہے۔

نیکی کی تلقین نسلوں کو اچھا شہری بنانے کے لیے کریں۔ انہیں بتائیں کہ بعض ایسی باتیں جو قانوناً یہاں جائز ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں بُری ہیں اور ایک مومن کو اس سے بچنا چاہیے۔ ہاں ملک و قوم کی خدمت کا یہ تقاضا ہے کہ ہر احمدی کو اعلیٰ اخلاق کا حامل ہونا چاہیے۔ خدمت انسانیت کے لیے ہر احمدی کو صفِ اول میں ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے ہر شخص کو بچانے کے لیے ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہیے اور اس کے لیے تبلیغی میدان میں آگے بڑھیں اور یہی ملک و قوم کی حقیقی خدمت ہے جو ایک احمدی کر سکتا ہے نہ کہ انسانوں کے بنائے ہوئے آزادی کے نام پر فحاشی پھیلانے والے قوانین پر عمل کر کے۔ اللہ تعالیٰ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی تعلیم دیتا ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کے قوانین کی حدود ہیں اور جس طرح اللہ تعالیٰ ہمیں ان حقوق کی ادائیگی کی تلقین کرتا ہے وہی حقیقت میں انسانیت کی قدریں قائم کرنے کے اور انسانیت کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے کی ضمانت ہیں۔

پسایک احمدی ماں جو آج بچوں کی ماں ہے یا مستقبل میں بچوں کی ماں بننے والی ہے اس کا یہ فرض ہے کہ اپنی گود سے ہی اگلی نسلوں میں اللہ تعالیٰ کی حدود کا ادراک پیدا کریں۔ اس کے لیے کوشش کریں، ان کے لیے دعائیں کریں اوراحمدی باپوں کا کام ہے کہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اپنی بیویوں کا ہاتھ بٹائیں ورنہ آپ سب کے عہد کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے جھوٹ اور زبانی دعوے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ ان عہدوں کے پورا نہ کرنے کے بارے میں پھر ضرور پوچھے گا۔ پس اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہوئےہم سب کو اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے ہم نے جو عہد بیعت کیا ہے اسے پورا کرنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ہم سے کیا چاہتے ہیں۔ ایک موقعے پر آپؑ نے فرمایا کہ

‘‘خدا ایک پیارا خزانہ ہے اس کی قدر کرو کہ وہ تمہارے ہر ایک قدم میں تمہارا مددگار ہے۔ تم بغیر اس کے کچھ بھی نہیں اور نہ تمہارے اسباب اور تدبیریں کچھ چیز ہیں۔’’ پھر آپؑ فرماتے ہیں ‘‘…خبردار!!! تم غیر قوموں کو دیکھ کر ان کی رِیس مت کرو کہ انہوں نے دنیا کے منصوبوں میں بہت ترقی کر لی ہے۔ آؤ ہم بھی انہی کے قدم پر چلیں’’(یہ نہ سوچو) ‘‘سنو اور سمجھو کہ وہ اس خدا سے سخت بیگانہ اور غافل ہیں جو تمہیں اپنی طرف بلاتا ہے۔’’ وہ تو خدا سے غافل ہو چکے ہیں جو تمہیں اپنی طرف بلا رہا ہے اور جس کی خاطر تم نے مسیح موعود کو مانا ہے، اسلام قبول کیا ہے۔ فرمایا ‘‘…… میں تمہیں دنیا کے کسب اور حرفت سے نہیں روکتا’’ کام اور حرفت وغیرہ ہیں، کام ہیں، نوکری ہے، دکانداری ہے، تجارت ہے، صنعت ہے، اس سے آپؑ نے فرمایا میں نہیں روکتا ‘‘مگر تم ان لوگوں کے پیرَو مت بنو جنہوں نے سب کچھ دنیا کو ہی سمجھ رکھا ہے۔ چاہیے کہ تمہارے ہر ایک کام میں خواہ دنیا کا ہو خواہ دین کا خدا سے طاقت اور توفیق مانگنے کا سلسلہ جاری رہے لیکن نہ صرف خشک ہونٹوں سے’’ یہ نہیں کہ منہ سے زبانی کہہ دیا اللہ تعالیٰ ہماری مدد کرے ‘‘بلکہ چاہیے کہ تمہارا سچ مچ یہ عقیدہ ہو کہ ہر ایک برکت آسمان سے ہی اترتی ہے۔ تم راستباز اس وقت بنو گے جبکہ تم ایسے ہو جاؤ کہ ہر ایک کام کے وقت، ہر ایک مشکل کے وقت قبل اس کے جو تم کوئی تدبیر کرو۔ اپنا دروازہ بند کرو اور خدا کے آستانہ پر گرو۔’’ اپنی تدبیریں جو دنیاوی تدبیریں ہیں ان کے لیے پلاننگ کرو لیکن اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکو۔ سجدے کرو اور رکوع کرو اور نمازیں پڑھو اور دعائیں کرو’’ کہ ہمیں یہ مشکل پیش ہے۔ اپنے فضل سے مشکل کشائی فرما۔ تب روح القدس تمہاری مدد کرے گی اور غیب سے کوئی راہ تمہارے لیے کھولی جائے گی۔ اپنی جانوں پر رحم کرو۔ اور جو لوگ خدا سے بکلی علاقہ توڑ چکے ہیں اور ہمہ تن اسباب پر گر گئے ہیں۔ یہاں تک کہ طاقت مانگنے کے لیے وہ منہ سے ان شاء اللہ بھی نہیں نکالتے۔ ان کے پیرو مت بن جاؤ۔ خدا تمہاری آنکھیں کھولے تا تمہیں معلوم ہو کہ تمہارا خدا تمہاری تمام تدابیر کا شہتیر ہے۔ اگر شہتیر گر جائے تو کیا کڑیاں اپنی چھت پر قائم رہ سکتی ہیں؟’’ تمہاری تدبیریں جو ہیں، تمہاری کوششیں ہیں، وہ اگر کامیاب ہو سکتی ہیں یا کھڑی رہ سکتی ہیں یا تمہیں بچا سکتی ہیں تو صرف خدا تعالیٰ کے فضل سے۔ اس لیے خدا تعالیٰ کے آگے جھکو، وہی شہتیر ہے، ایک بیم (beam)ہے۔ اگر گھر کا بیم گر جاتا ہے تو کمرہ بھی نیچے جا پڑتا ہے،گھر بھی نیچے آ پڑتا ہے۔ فرمایا کہ ‘‘اگر شہتیر گر جائے تو کیا کڑیاں اپنی چھت پر قائم رہ سکتی ہیں؟ نہیں بلکہ یک دفعہ گریں گی اور احتمال ہے کہ ان سے کئی خون بھی ہو جائیں۔ اسی طرح تمہاری تدابیر بغیر خدا کی مدد کے قائم نہیں رہ سکتیں۔ اگر تم اس سے مدد نہیں مانگو گے اور اس سے طاقت مانگنا اپنا اصول نہیں ٹھہراؤ گے تو تمہیں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو گی ۔آخر بڑی حسرت سے مرو گے۔ یہ مت خیال کرو کہ پھر دوسری قومیں کیونکر کامیاب ہو رہی ہیں’’ ان ملکوں کی ترقی یافتہ یہ نام نہاد آزاد قومیں، غیرمذہب لوگ جو ہیں کیوں کامیاب ہو رہے ہیں؟‘‘حالانکہ وہ اس خدا کو جانتی بھی نہیں جو تمہارا کامل اور قادر خدا ہے؟ اس کا جواب یہی ہے کہ وہ خدا کو چھوڑنے کی وجہ سے دنیا کے امتحان میں ڈالی گئی ہیں۔ خدا کا امتحان کبھی اس رنگ میں ہوتا ہے کہ جو شخص اسے چھوڑتا ہے اور دنیا کی مستیوں اور لذتوں سے دل لگاتا ہے اور دنیا کی دولتوں کا خواہش مند ہوتا ہے تو دنیا کے دروازے اس پر کھولے جاتے ہیں اور دین کے رو سے وہ نرا مفلس اور ننگا ہوتا ہے اور آخر دنیا کے خیالات میں ہی مرتا اور ابدی جہنم میں ڈالا جاتا ہے۔ اور کبھی اس رنگ میں بھی امتحان ہوتا ہے کہ دنیا سے بھی نامراد رکھا جاتا ہے۔’’

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 22 تا 24)

اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی باتوں کو سمجھنے والے ہوں۔ اس پر عمل کرنے والے ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ اس دنیا کی لغویات اور بیہودگیوں سے بچنے والے ہوں اور اپنی نسلوں کو بچانے والے ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو مان کر ہم نے جو عہد کیا ہے اس عہد کو پورا کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔اب دعا کر لیں۔

٭٭٭٭٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button