متفرق مضامین

وہ ہے مَیں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے

(امۃ الباری ناصر)

اُس نور پر فدا ہوں اُس کا ہی میں ہوا ہوں

وہ ہے مَیں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے

قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ

(آل عمران:33)

تو کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا۔

اللہ تبارک تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفی ﷺ کو اپنی طرف آنے کا جو راستہ قرآن کریم میں ارشاد فرمایااس پرآپؐ کی اُمّت میں سب سے زیادہ عمل کرنے والا وجود، پیروی کا حقیقی حق ادا کرنے والا، ہمہ وقت آپؐ پر درود و سلام بھیجنے والا، آپؐ کے دین کی اشاعت کو مقصد حیات بنانے والا، فنا فی اللہ اور فنا فی الرسولؐ بزرگ حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام ہیں ۔آپؑ کا قلب صافی اپنے محبوب کا آئینہ بن گیا۔ ایک ہی سرچشمۂ نور سے فیض یابی نے دونوں کو یک رنگ بنا دیا۔ سراجِ منیرکی روشنی کا دلفریب عکس اس چودھویں کے چاندکی ہر ادا میں جھلکتا ہے۔دونوں میں دوئی نہ رہی۔غلام احمد علیہ السلام نے احمدﷺ کی غلامی میں محمدی نور کے دل نشین جلوے دکھائے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:

‘‘ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے ہم کافر نعمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اسی نبیؐ کے ذریعے سے پائی اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اسی کامل نبی کے ذریعہ سے اور اسی کے نور سے ملی ہے اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اس کا چہرہ دیکھتے ہیں اسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسر آیا ہے۔ اس آفتاب ہدایت کی شعاع دھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے اور اسی وقت تک ہم منور رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اس کے مقابل پر کھڑے ہیں’’

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 119)

یَا حِبِّ اِنَّکَ قَدْ دَخَلْتَ مَحَبَّۃً

فِیْ مُھْجَتِیْ وَمَدَارِکِیْ وَ جَنَانِیْ

جِسْمِیْ یَطِیْرُ اِلَیْکَ مِنْ شَوْقٍ عَلَا

یَا لَیْتَ کَانَتْ قُوّۃَ الطَّیَرَانِ

(آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد5صفحہ594)

اے مرے محبوب میری جان اور میرے حواس اور میرے دل میں تیری محبت سرایت کرچکی ہے۔
(اے مرے معشوق)تیرا عشق میرے جسم پر (کچھ) اس طرح غلبہ پا چکا ہے(کہ وفور جذبات کی وجہ سے)وہ تیری طرف اڑا جاتا ہے۔کاش مجھ میں اڑنے کی طاقت ہوتی (اور میں اڑ کر تیرے پاس پہنچ جاتا)
اس نادر خزانے سے ہم رنگ موتی ہاتھ آتے ہیں۔ قارئین کی خدمت میں چند جھلکیاں پیش ہیں ۔

اپنا کام خود کرنا

ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ سفر پر جارہے تھے کہ راستے میں ایک منزل پر پہنچ کر ڈیرے لگا ئے گئے اور صحابہ ؓمیدان میں پھیل گئے تاکہ خیمے لگائیں اور دوسرے کام جو کیمپ لگانے کے لیے ضروری ہوتے ہیں وہ بجا لائیں۔انہوں نے سب کام آپس میں تقسیم کرلیے اور رسول اللہ ﷺ کے ذمے کوئی کام نہ لگایا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا تم نے میرے ذمے کوئی کام نہیں لگایا؟ میں لکڑیاں چنوں گا تاکہ اس سے کھانا پکایا جاسکے۔صحابہ ؓ نے عرض کیایا رسول اللہﷺ!ہم جو کام کرنے والے موجود ہیں آپؐ کو کیا ضرورت ہے؟

آپؐ نے فرمایا نہیں نہیں میرا بھی فرض ہے کہ میں کام میں حصہ لوں۔ چنانحہ آپؐ نے جنگل سے لکڑیاں جمع کیں تاکہ صحابہؓ اس سے کھانا پکا سکیں۔(زرقانی)

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جس وقت آپؐ گھر پر ہوتے گھر والوں کی مدد اور خدمت میں مصروف رہتے یہاں تک کہ آپؐ کو نماز کا بلاوا آجاتا اور آپؐ نماز کے لیے تشریف لے جاتے۔(بخاری کتاب الاذان)

حضر ت مسیح موعود علیہ السلام بھی اپنا کام خود کرنا پسند فرماتے تھے اور اس میں کوئی عار محسوس نہیں فرماتے تھے

حضرت منشی ظفر علیؓ روایت فرماتے ہیں:

ایک دفعہ حضورؑ دہلی سے واپسی پر امرتسر اترے۔حضرت اماں جانؓ بھی ساتھ تھیں۔ حضور نے ایک صاحبزادے کو جو غالباَ حضرت میاں بشیر احمد تھے گود میں لیااور ایک وزنی بیگ دوسری بغل میں لیا۔میں نے عرض کیا حضور یہ بیگ مجھے دیدیں۔ فرمایا نہیں۔ ایک دودفعہ میرے کہنے پر حضورؑ نے یہی فرمایا۔ ہم چل پڑے اتنے میں دو تین نوجوان انگریز جو اسٹیشن پر تھے انہوں نے مجھے کہا کہ حضور سے کہوں کہ ذرا ٹھہر جائیں ۔ چنانچہ میں نے عرض کیا کہ حضور یہ چاہتے ہیں کہ حضور ذرا کھڑے ہوجائیں ۔ حضور کھڑے ہو گئے اور انہوں نے اسی حالت میں حضور کا فوٹو لے لیا۔(روایات ظفر صفحہ 64)

عاجزانہ راہیں

آنحضرت ﷺ اپنی ذات کے لیے احترام میں کسی قسم کا تکلّف پسند نہ فرماتے۔اول آپؐ کو ہر قسم کی مشرکانہ رسوم کا قلع قمع کرنا تھا دوسرے آپؐ کے مزاج میں عاجزی اور انکساری تھی۔ایک دفعہ ایک شخص آپؐ کے پاس آیا تو آپؐ کے رعب کی وجہ سے کانپ رہا تھا آپؐ نے فرمایا

‘‘مجھ سے مت ڈرو میں تو ایک قریش عورت کا بیٹا ہوں جو سوکھا گوشت کھایا کرتی تھی’’

(شفا عیاض باب تواضعہ جلد اوّل صفحہ 87)

شرک کی گرفتار قومیں نئی نئی توحید میں داخل ہوئیں۔ ایک نے آکر کہا شاہانِ فارس اور روم کو ان کی رعایا سجدہ کرتی ہے کیا ہم آپؐ کو سجدہ نہ کریں ؟ آپ ؐنے فرمایا

‘‘سجدہ صرف اللہ تعالیٰ کو کرو ۔کسی دوسرے کو سجدہ نہ کرو۔’’

(فصل الخطاب جلد اوّل الشرکۃ الاسلامیہ 1963ءصفحہ 20)

آپؐ نے کبھی بھی اپنے لیے کوئی امتیازی نشان، وضع قطع،لباس اور نشست پسند نہیں فرمائی حتیٰ کہ ایک محفل میں داخل ہونے پر احتراماًکھڑے ہونے سے بھی منع فرمایا۔

‘‘میرے لیے اس طرح نہ کھڑے ہوا کرو جس طرح عجمی کھڑے ہوتے ہیں’’

(سنن ابی داؤد کتاب الادب باب الرجل یقوم للرجل یعظمہ بذالک)

آپؐ نے فرمایا یہ تو ایرانیوں کا رواج ہے میں بادشاہ نہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے مجھے نبی بنایا ہے

(تفسیر کبیر جلد 20صفحہ 348)

فتح مکہ کے دن مکہ کی بستی نعرہ ہائے تکبیر سے گونجتی رہی کبھی فاتح مکہ محمد ﷺ کا نعرہ نہیں لگا ۔آپؐ کا حال یہ تھا کہ خدا کے حضور حمد وشکر میں جھکتے جھکتے سر اونٹنی کے کجاوے سے لگ رہا تھا ۔(سیرت ابن ھشام)

فتح مکہ کے دن شام کو آپؐ حضرت ام ہانی ؓ بنت ِابی طالب کے ہاں تشریف لائے۔ بھوک محسوس ہوئی تو آپؐ نے ان سے پوچھا کھانے کو کچھ ہے؟ جواب ملا گوشت کا ایک ٹکڑا ہے ۔آپؐ نے فرمایا وہی لے آؤ۔ آپؐ نے اس ٹکڑے کو توڑ کر پانی میں ڈالا۔ اس پر نمک ڈالا اور سرکہ چھڑک کربطور سالن استعمال فرمایا۔

(ترمذی ابواب الاطعمہ باب ما جاء فی الخل)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اسی حصن حصین کا عکس حسین تھے ۔اپنی ذات، نام نمود، شہرت، عزت، ہر دنیاوی وجاہت سے بے نیاز در مولیٰ کی گدائی میں مگن رہتے۔ اللہ تعالیٰ نے سند عطا فرمائی ‘‘تیری عاجزانہ راہیں اس کوپسند آئیں’’

(تذکرہ صفحہ 595)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی حضرت شیخ صاحب دینؓ کا بیان فرمودہ واقعہ درج ہے

غالباً1904ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق لاہور کی جماعت کو اطلاع ملی کہ حضور فلاں گاڑی پر لاہور پہنچ رہے ہیں ۔ہم لوگ حضور ؑکی پیشوائی کے لیے ریلوے سٹیشن پرگئے ان دنوں دو گھوڑا فٹن گاڑی کا بڑا رواج تھا۔ ہم نے فٹن تیار کھڑی کردی۔ جب حضور سوار ہو ئے تو ہم نوجوانوں نے جیسا کہ عام رواج تھا گاڑی کے گھوڑے کھلوائے اور گاڑی کو خود کھنچنا چاہا ۔حضور ؑنے ہمارے اس فعل کو دیکھ کر فرمایاہم انسانوں کو ترقی دے کر مدارج کے انسان بنانے آتے ہیں۔نہ کہ بر عکس اس کے انسانوں کوگرا کر حیوان بناتے ہیںکہ وہ گاڑی کھینچنے کا کام دیں۔ مفہوم یہی ہے شاید الفاظ کم و بیش ہوں۔

(الفضل 8؍مئی 1938ء)

عمر رسیدہ کی دل داری

آنحضور ؐایک دن عدی بن حاتم کے ساتھ اپنے گھر کی طرف تشریف لارہے تھے۔ راستے میں ایک بڑھیا نے جس کے ساتھ ایک بچہ بھی تھا آپؐ کو روکا اور اپنی حاجات بیان کرنے لگی۔وہ دیر تک اپنی حاجات بیان کرتی رہی آپؐ اطمینان سے اس کی بات سنتے رہے اور اس وقت تک ٹھہرے رہے جب تک خود اس نے اپنی بات ختم نہ کرلی۔عدی جو ابھی اسلام نہ لائے تھے اس پر بہت متاثر ہوئے۔

(زرقانی سریہ علی بن ابی طالب الی صنم طئی)

حضرت مسیح موعود ؑبیان فرماتے ہیں:

‘‘ایک دفعہ میں باہر سیر کو جارہا تھا ایک پٹواری عبد الکریم میرے ساتھ تھا۔ذرا آگے تھا میں پیچھے۔راستے میں ایک بڑھیا کوئی ستّر یا پچھتر کی ضعیفہ ملی۔ اس نے ایک خط اسے پڑھنے کو کہا مگر اس نے اسے جھڑکیاں دے کر ہٹا دیا۔ میرے دل پر چوٹ سی لگی اس نے وہ خط مجھے دے دیا۔ میں اس کو لے کر ٹھہر گیا اس کو پڑھ کر اچھی طرح سمجھا دیا اس پر اسے سخت شرمندہ ہونا پڑا کیوں کہ ٹھہرنا تو پڑا اور ثواب سے بھی محروم رہا۔’’

(ملفوظات جلد 4صفحہ 38)

رحم کی وسعتیں

حضرت عبداللہ بن مسعود ؓسے روایت ہے کہ ایک دن ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر پر جا رہے تھے کہ ہم نے ایک فاختہ کے دو بچے دیکھے۔بچے ابھی چھوٹے تھے۔ ہم نے وہ بچے پکڑ لیے جب فاختہ واپس آئی تو چاروں طرف گھبرا کراڑنے لگی۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ ہماری مجلس میں تشریف لے آئے اور آپؐ نے فرمایا
‘‘اس جانور کو اس کے بچوں کی وجہ سے کس نے تکلیف دی؟ فوراََ اس کے بچوں کو چھوڑ دو تاکہ اس کی دل جوئی ہوجائے۔’’

(ابو داؤد کتاب الادب باب فی قتل الذر)

عبد اللہ بن مسعود ؓکہتے ہیں ایک دفعہ ہم نے چیونٹیوں کا ایک غار دیکھااور ہم نے پھونس ڈال کر اسے جلادیااس پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا ‘‘تم نے ایسا کیوں کیا ؟ مخلوقات کو عذاب دینا مناسب نہیں تھا’’

(ابو داؤد کتاب الجہاد باب فی کراہیۃ حرق العدو)

حضرت اقدس مسیح موعود ؑاپنے آقا و مطاع کی کامل تصویر تھے ۔ایک واقعہ دیکھیے

میاں (حضرت میاں بشیرالدین محموداحمدصاحبؓ)گھر کے دالان کے دروازے بند کرکے چڑیاں پکڑ رہے تھے کہ حضرت صاحب نے جمعہ کی نماز پر باہرجاتے ہوئے ان کو دیکھ لیا۔ فرمایا

‘‘میاں گھر کی چڑیاں نہیں پکڑا کرتے جس میں رحم نہیں اس میں ایمان نہیں۔’’ (سیرت مسیح موعود از یعقوب علی عرفانی)

بکریاں چَرانا

آنحضرت ﷺ ابوطالب کے ساتھ رہتے تھے۔اس زمانے میں عام طور پر بچوں کو بکریاں چرانے کے کام پر لگا دیا جاتا اس لیے آپؐ نے بھی کبھی کبھی یہ کام کیا اوربکریاں چرائیں۔ زمانۂ نبوت میں آپؐ فرمایا کرتےتھے کہ بکریاں چَرانا انبیاءکی سنت ہے۔اور مَیں نے بھی بکریاں چرائی ہیں ۔ چنانچہ ایک موقع پر آپؐ کے اصحاب جنگل میں پیلو جمع کرکے کھانے لگے تو آپؐ نے فرمایا‘‘کالے کالے پیلو تلاش کرکے کھاؤ کیونکہ جب میں بکریاں چرایا کرتاتھا اس وقت کا میرا تجربہ ہے کہ کالے رنگ کے پیلو زیادہ عمدہ ہوتے ہیں’’

(بخاری کتاب بدء الخلق)

حضرت اقدس علیہ السلام اپنے عہدِ طفولیت کے حالات بیان کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ ایک دفعہ آپؑ بچپن میں گاؤں سے باہر ایک کنوئیں پر بیٹھے ہوئے تھے کہ آپؑ کو کسی چیز کی ضرورت محسوس ہوئی جو گھر سے لانی تھی ۔اس وقت آپؑ کے پاس ایک شخص بکریاں چرا رہا تھا۔ آپؑ نے اس شخص سے کہا مجھے یہ چیز لادو۔ اس نے کہا میاں میری بکریاں کون دیکھے گا؟

آپؑ نے کہا تم جاؤ مَیں ان کی حفاظت کروں گا اور چراؤں گا ۔چنانچہ آپؑ نے اس کی بکریوں کی نگرانی کی اور اس طرح خدا نے نبیوں کی سنت آپؐ سے پوری کرادی۔

(سیرت المہدی حصہ اوّل صفحہ 250)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button