ایڈیٹر کے نام خطوط
امّتِ مسلمہ کا حقیقی مسئلہ ………
جناب ایڈیٹر صاحب!گذشتہ دنوں پاکستان میں وکلاء نے ڈاکٹروں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئےپنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی( PIC )پر دھاوا بول دیا جس کے نتیجے میں بے گناہ مریضوں کو بھی جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ یہ ایک ایسا فعل ہے جو کہ دشمن ملک جنگ کے دوران بھی اپنے حریف ملک کے خلاف نہیں کرتا۔ اس واقعہ نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا کہ اخلاقی پستی کی انتہا ہے کہ ایک طبقہ جو قانون کا محافظ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ سمجھا جاتا ہے ایسے فعل کا ارتکاب کر سکتا ہے۔بقول قابل اجمیری ؎
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
امّتِ مسلمہ کا حقیقی مسئلہ اخلاقی مسئلہ ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے امّتِ مسلمہ کو یہ پیغام دیا کہ اگر تمہارا تعلق آسمان سے مضبوط ہے تو زمین تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ گویا اصل مسئلہ تزکیہ نفس ہے جو کہ کسی مزکّی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔
اقوام کو باہر سے کوئی ہلاک نہیں کرتا بلکہ وہ اپنے اندر کی بے یقینی اور بد عملی سے ہلاک ہوتی ہیں۔ لیکن برسرِ اقتدار طبقے اور مذہبی اشرافیہ اصلاح و تجدید کی ہر آواز کو کافر بتا کر خاموش کرنے کی کوشش کرتی ہے تاکہ اس کے مفادات متاثر نہ ہوں۔ لوگوں کا کتھارسس (catharsis)مخالفین کے خلاف ‘کافر،کافر ’کے نعرے لگوا کر کرواتے ہیں اور عوام کو یہ باورکروایا جاتا ہے کہ جو مرضی کرو لیکن بس جسے ہم کافر بتائیں اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہو۔ دیوبند کے ایک عالم مولوی عبیداللہ سندھی صاحب 1915ء میں افغانستان گئے تا کہ انگریزوں کے خلاف افغانستان سے حملہ کر کے انہیں ہندوستان سے نکالا جائے۔ وہاں جا کر جب انہوں نے افغان امیر حبیب اللہ خان کے کرتوت دیکھےاور انہیں دنیا کے حالات کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا تو گویا ان کی آنکھیں کھل گئیں۔ وہ بعد میں روس سے ہوتے ہوئے سعودی عرب پہنچ گئے اور وہاں انہوں نے پروفیسر محمد سرور کو اپنے خیالات لکھوائے۔ آپ نے تاریخ کے تناظر میں اس مسئلہ کو اجاگر کرتے ہوئے لکھوایا
‘‘یہ جو تاریخ اسلام میں تم اکثر پڑھتے ہو کہ فلاں ملحد تھا۔ فلاں زندیق تھا۔ فلاں نے اسلام کو یوں گزند پہنچایا… تو یاد رکھو ان میں سے اکثر ایسے تھے جو اپنے اپنے زمانے میں مروجہ مفاسد کی اصلاح کرنا چاہتے تھے۔ لیکن برسرِ اقتدار طبقے کے مفادات پر اس سے زَد پڑتی تھی۔’’
(افادات و ملفوظات۔ مولانا عبیداللہ سندھی مرتبہ پروفیسر محمد سرور)
جب سے پاکستان کی تشکیل ہوئی ہے برسرِ اقتدار طبقوں نے بجائے عوام کی فلاح و بہبود کے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے ان کانگرسی علماء سے گٹھ جوڑ کر لیا جو کہ پاکستان کی تشکیل کو ہی گناہ سمجھتے تھے۔ چنانچہ پاکستان دو ٹکڑے ہو گیا لیکن اشرافیہ نے سبق نہیں سیکھا۔ ابھی تک نام نہاد علماء کے چنگل میں گرفتار ہے۔ محض آئین میں ترامیم کر کے سمجھتے ہیں کہ ملک محفوظ ہو گیا۔ اسی طرح کا مغالطہ بغداد کی عباسی حکومت کو بھی ہوا تھا جب ایک عباسی شہزادے کی سرپرستی میں اہلِ تشیع کے محلے لوٹنے اور ان پر ظلم و ستم ڈھانے کو ہی اصل ایمان سمجھا جارہا تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر حرکت میں آئی اور کافروں نے فاجروں کو اس طرح تباہ و برباد کیا کہ دریائے دجلہ کا پانی سرخ ہو گیا۔
اس وقت پاکستان کی بھی یہی حالت ہے جہاں کرپشن میں مبتلا وزیر و مشیر صرف جماعتِ احمدیہ پر زبانِ طعن دراز کرنے کو ہی ذریعہ نجات سمجھتے ہیں۔ ڈرو اس وقت سے جب خدا کی تقدیر حرکت میں آ جائے اور مغالطوں میں مبتلا طبقوں کے بارے میں مستقبل کا مؤرخ یہ لکھنے پر مجبور ہو جائے کہ
‘‘آپ اپنی آگ کے خس و خاشاک ہو گئے’’