رپورٹ دورہ حضور انور

طلباء جامعہ احمدیہ جرمنی کے ساتھ ایک نشست۔ جامعہ احمدیہ جرمنی کا معائنہ (15؍ اکتوبر 2019ء)

امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ جرمنی 2019ء

………………………………………………

15؍اکتوبر2019ءبروزمنگل

………………………………………………

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح 6بج کر 50منٹ پر تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔ صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دفتری ڈاک، رپورٹس اور خطوط ملاحظہ فرمائے اور ہدایات سے نوازا۔

فیملی ملاقاتیں

پروگرام کے مطابق 11بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لائے اور فیملیز ملاقاتیں شروع ہوئیں۔ آج صبح کے اس سیشن میں 19فیملیز کے 76افراد اور 2 احباب نے انفرادی طور پر ملاقات کی سعادت پائی۔ ملاقات کرنے والی یہ فیملیز جرمنی کی مختلف 17جماعتوں سے آئی تھیں۔ ان کے علاوہ پاکستان سے آنے والے ایک دوست نے بھی شرف ملاقات پایا۔ بعض فیملیز اپنے پیارے آقا سے ملاقات کے لیے بڑے لمبے فاصلے طے کر کے آئیں۔ Pulheim اور Stuttgart سے آنے والے 215کلومیٹر، Freiburg سے آنے والے 250کلومیٹر، Calw سے آنے والے 285کلومیٹر اور میونخ (Munchen) سے آنے والے 405کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے آئے تھے۔

ان سبھی نے اپنے پیارے آقا کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت بھی پائی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلباء اور طالبات کو قلم عطا فرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائیں۔

ملاقاتوں کا یہ پروگرام 12بج کر 45منٹ تک جاری رہا۔ بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

جامعہ احمدیہ جرمنی میں ورود

آج پروگرام کے مطابق جامعہ احمدیہ جرمنی کے لیے روانگی تھی۔ ایک بج کر 25منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ سے باہر تشریف لائے اور جامعہ احمدیہ جرمنی کے لیے روانگی ہوئی۔ جامعہ احمدیہ جرمنی بیت السبوح سے قریباً 50کلومیٹر کے فاصلہ پر Riedstadt شہر میں واقع ہے۔ 2بج کر 10منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی جامعہ احمدیہ تشریف آوری ہوئی۔ مکرم شمشاد احمد قمر پرنسپل جامعہ احمدیہ جرمنی نے اپنے اساتذہ اور طلباء کے ہمراہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا استقبال کیا اور خوش آمدید کہا۔ بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد بیت العزیز تشریف لے آئے اور نماز ظہروعصر جمع کر کے پڑھائیں۔ اپنے پیارے آقا کی اقتدا میں نماز پڑھنے کے لیے لوکل جماعت Riedstadt کے ممبران بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔

نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہوسٹل کا معائنہ فرمایا۔ حضور انور ایک کمرے میں تشریف لے گئے اور کمرے کا تفصیلی جائزہ لیا۔ اس موقع پر پرنسپل صاحب نے عرض کیا کہ اس کمرہ میں 6طلباء رہتے ہیں اور 6طلباء کے لیے یہ کمرہ تنگ ہے۔ ہر ایک لڑکے کے لیے الماری اور ٹیبل میسر نہیں کیا جاسکتا۔ پرنسپل صاحب نے عرض کیا کہ ہوسٹل کی تیسری منزل اگر پوری نہیں تو اس کا ایک حصہ بھی تعمیر ہو جائے تو جگہ کی قلت پوری ہوسکتی ہے۔

اس پر حضور انور نے امیر صاحب جرمنی سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا۔اگرچہ دیگر جامعات میں بھی جگہ کی تنگی ہے۔ لیکن طلباء کی تعداد تو بہرحال بڑھنی ہے۔ لہٰذا مزید تعمیر کی طرف توجہ دینی چاہیے۔
ہوسٹل کی صفائی کے متعلق حضور انور کے دریافت فرمانے پر پرنسپل صاحب نے عرض کیا کہ ہوسٹل کی صفائی روزانہ ہوتی ہے۔

ہوسٹل کے معائنہ کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کھانے کی مارکی میں تشریف لے گئے۔ جہاں باربی کیو کا انتظام کیا گیا تھا۔ مارکی کو بڑی خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔ مارکی کے اندر مخصوص گزرگاہ کو دونوں جانب سے پھولوں اور پودوں سے سجایا گیا تھا اور اسی طرح کھانے کی میز main table کے سامنے بھی ایک چھوٹے سائز کے فوارے کو چھوٹے سائز کے پودوں کے درمیان بڑی خوبصورتی سے رکھا گیا تھا۔ مارکی میں طلباء کلاس وائز اور اس طریق سے بیٹھے تھے کہ سب طلباء اپنے پیارے آقا کو دیکھ سکیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے گفتگو کے دوران مکرم پرنسپل صاحب کو ہدایت فرمائی کہ طلباء کو براؤن بریڈ دیں۔ سفید بریڈ بند کردیں۔ کیونکہ یہ نقصان دہ ہے۔ اسی طرح کھانوں میں استعمال ہونے والے مصالحوں کے متعلق ارشاد فرمایا کہ یہ بازاری مصالحے جو کسی بھی برانڈ کے پیک ہوئے اور پسے ہوئے ملتے ہیں ٹھیک نہیں ہیں۔ یہ صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ اپنی چیزیں خود پیس کر مصالحہ تیار کیا کریں۔
کھانے کے بعد حضور انور نے طلباء کو جامعہ ہال میں جانے کی اجازت عطا فرمائی۔ حضور انور جامعہ ہال میں تشریف لانے سے قبل ازراہ شفقت باربی کیو تیار کرنے والے کارکنان کے پاس تشریف لے گئے اور ان کی حوصلہ افزائی فرمائی نیز باربی کیو بنانے کے حوالہ سے ان کو مصالحہ جات لگانے کے طریقہ کار کے متعلق ہدایات سے نوازا۔

طلباء جامعہ کے ساتھ ایک نشست

بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جامعہ ہال میں تشریف لے آئے جہاں جامعہ احمدیہ کے طلباء کا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک پروگرام کا انعقاد ہوا۔ پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ جو عزیزم حافظ احتشام احمد نے کی اور بعد ازاں اس کا اردو زبان میں ترجمہ پیش کیا۔ حضور انور نے حافظ احتشام کو مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ حافظ صرف نام کے ہو یا قرآن کریم حفظ کیا ہوا ہے۔ کیا تراویح نہیں پڑھاتے اگر جرمنی میں کوئی ایسی جماعت نہیں جو پورا قرآن کریم سنے تو پھر تم جامعہ میں ہی تراویح پڑھا دیا کرو۔

اس کے بعد عزیزم ظافر احمد نے آنحضرت ﷺ کی درج ذیل حدیث پیش کی۔

حضرت ابودرداءؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضور ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص علم کی تلاش میں نکلے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کردیتا ہے اور فرشتے طالب علم کے کام پر خوش ہو کر اپنے پر اس کے آگے بچھاتے ہیں اور عالم کے لیے زمین و آسمان میں رہنے والے بخشش مانگتے ہیں۔ یہاں تک کہ پانی کی مچھلیاں بھی اس کے حق میں دعا کرتی ہیں۔ عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسی چاند کی دوسرے ستاروں پر اور علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ انبیاء روپیہ، پیسہ ورثہ نہیں چھوڑ جاتے بلکہ ان کا ورثہ علم و عرفان ہے۔ جو شخص علم حاصل کرتا ہے۔ وہ بہت بڑا حصہ اور خیرکثیر حاصل کرتا ہے۔

اس کے بعد عزیزم رانا شیراز نے حضرت مصلح موعودؓ کی نظم

عہد شکنی نہ کرو اہل وفا ہو جاؤ

اہل شیطاں نہ بنو اہل خدا ہو جاؤ

خوش الحانی سے پیش کی۔

بعد ازاں عزیزم محفوظ منیر طالب علم درجہ رابعہ نے اقتباس پیش کیا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘ایسے نوجوان پیدا ہوں جو دنیاوی مفاد کو بالکل ترک کر کے اپنی زندگیاں صرف دینی خدمات کے واسطے وقف کر دیں…حضرت رسول کریمﷺ کے اصحاب کا نمونہ دیکھنا چاہیے وہ ایسے نہ تھے کہ کچھ دین کے ہوں اور کچھ دنیا کے بلکہ وہ خالص دین کے بن گئے تھے اور اپنی جان ومال سب اسلام پر قربان کر چکے تھے ایسے ہی آدمی ہونے چاہئیں، جو سلسلہ کے واسطے مبلغین اور واعظین مقرر کیے جائیں وہ قانع ہونے چاہئیں اور دولت و مال کا ان کو فکر نہ ہو۔ حضرت رسول کریم ﷺ جب کسی کو تبلیغ کے واسطے بھیجتے تھے تو وہ حکم پاتے ہی چل پڑتا تھا۔ نہ سفر خرچ مانگتا تھا اور نہ گھر والوں کی افلاس کا عذر پیش کرتاتھا۔ یہ کام اس سے ہوسکتا ہے جو اپنی زندگی کو اس کے لیے وقف کر دے متقی کو خداتعالیٰ آپ مدد دیتا ہے وہ خدا کے واسطے تلخ زندگی کو اپنے لیے گوارا کرتا ہے……… خدا اس کو پیار کرتا ہے جوخالص دین کے واسطے ہو جائے ہم چاہتے ہیں کہ کچھ آدمی ایسے منتخب کیے جائیں جو تبلیغ کے کام کے واسطے اپنے آپ کو وقف کر دیں اور دوسری کسی بات سے غرض نہ رکھیں۔ ہر قسم کے مصائب اٹھائیں اور ہر جگہ پر پھرتے رہیں اور خدا کی بات پہنچائیں۔ صبر اور تحمل سے کام لینے والے آدمی ہوں ان کی طبیعتوں میں جوش نہ ہو ہر ایک سخت کلامی اور گالی کو سن کر نرمی کے ساتھ جواب دینے کی طاقت رکھتے ہوں پھر جہاں دیکھیں کہ شرارت کا خوف ہے وہاں سے چلے جائیں اور فتنہ وفساد کے درمیان اپنے آپ کو نہ ڈالیں اور جہاں دیکھیں کہ کوئی سعید آدمی ان کی بات کو سنتا ہے اس کو نرمی سے سمجھائیں۔ جلسوں اور مباحثوں کے اکھاڑوں سے پرہیز کریں کیونکہ اس طرح فتنہ کا خوف ہوتا ہے۔ آہستگی سے اور خوش خلقی سے اپنا کام کرتے ہوئے چلے جائیں۔’’

(بدر 3اکتوبر 1907ء)

اس کے بعد عزیزم صہیب ناصر طالب علم درجہ سادسہ نے ‘خانہ کعبہ وقف زندگی کی بنیاد ہے’کے موضوع پر ایک تقریر کی۔

قرآن کریم میں خداتعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے کہ

اِنَّ اَوَّلَ بَیتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا وَّ ہُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ (آل عمران: 97)

یعنی خانہ کعبہ روئے زمین کی وہ پہلی عمارت ہے جو توحید باری تعالیٰ اور اعلائے کلمتہ اللہ کے لیے نیز مومنین کی عبادات کی بجا آوری کے لیے تعمیر کی گئی۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ خانہ کعبہ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ سے چلا آتا ہے۔ (تفسیر کبیر جلددوم صفحہ 448)اسی لیے ازل سے خدائے قدوس نے یہ حکم دیا کہ ہر سال تمام روئے زمین کے عاشقان توحید کشاں کشاں اس کے گرد جمع ہو کر اس کاحج و عمرہ ادا کریں اور احکامات خداوندی کو اپنے ذہنوں میں تازہ کریں۔ دین اسلام میں خانہ کعبہ کی اہمیت بنیادی اور مسلّمہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام ﷺ کو قبل از نبوت سے ہی خانہ کعبہ کے تقدس اور اس کی اہمیت کاخاص خیال دامنگیر تھا۔

ہجرت مدینہ کے وقت مکہ پر آخری نگاہ ڈالتے ہوئے جبکہ وہ آنکھوں سے اوجھل ہو رہا تھا۔ رسول اکرم ﷺ نے نہایت محبت و فدائیت کے رنگ میں فرمایا کہ ‘‘اے مکہ! تو مجھے روئے زمین کی تمام بستیوں سے زیادہ پیارا ہے ، مگر کیا کروں، تیرے مکین مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے۔’’مکہ مکرمہ سے اس قدر اظہار محبت کی وجہ یہ تھی کہ ایک طرف مکہ آپ کا آبائی وطن تھا اور دوسری طرف اس شہر میں خانہ کعبہ بھی موجود تھا۔ اس محبت کی وجہ سے فرضیتِ نماز کے بعد رسول اکرم ﷺ کی دلی خواہش تھی کہ دین اسلام میں عبادت خداوندی کے وقت قبلہ خانہ کعبہ ہوتا۔ چونکہ خانہ کعبہ ہی روحانی جسمانی لحاظ سے مسلمانوں کی آئندہ تمام تر توجہات و ترقیات کا مرکز ٹھہرا، اسی لیے حکمت خداوندی نے یہ چاہا کہ خانہ کعبہ کے ذریعے مسلمانوں کی روحانی تعلیم و تربیت کا بھی خاص اہتمام کیا جائے جو تاابد جاری رہے۔ گویا خانہ کعبہ کو مسلمانوں کی روحانی تعلیم و تربیت کا مرکز قرار دیا گیا ۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں۔

‘‘خانہ کعبہ کیا ہے؟ ایک گھر ہے جو خداتعالیٰ کی عبادت کے لیے وقف ہے مگر ظاہر ہے کہ ساری دنیا کے انسان خانہ کعبہ میں نہیں جاسکتے۔ پس جس طرح خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کی نقلیں دنیامیں پیدا ہوں۔ اسی طرح وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ تم خانہ کعبہ کی نقلیں بناؤ جس میں تم اور تمہاری اولادیں اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لیے وقف کر کے بیٹھ جائیں……… اور حقیقت یہ ہے کہ جب تک خانہ کعبہ کے ظل دنیا کے گوشے گوشے میں قائم نہ کر دیے جائیں اس وقت تک دین کبھی پھیل ہی نہیں سکتا۔’’

(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 170،169 زیر آیت سورۃ البقرہ:126)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ الله تعالیٰ نے بھی تعمیر بیت اللہ کے عظیم الشان مقاصد پر مشتمل پُر معارف سلسلہ خطبات میں سے ایک خطبہ میں یوں بیان فرمایا۔

‘‘تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ صرف مکہ سے ہی نہیں بلکہ دوسرے علاقوں سے بھی قبائل کے بعض نمائندے اپنے علاقے کو چھوڑ کے اور اپنے قبیلے کو چھوڑ کر، مدینہ میں آکے دھونی رما کے بیٹھ گئے تھے اور پھر وہیں بیٹھے رہے۔ ان کی جوہجرت تھی اپنی قوم یا اپنے ملک سے وہ اس قسم کی نہیں تھی جو مکہ سے ہجرت تھی بلکہ اس قسم کی تھی جو ایک واقف کی ہجرت ہوتی ہے جو اپنا علاقہ چھوڑ کے، اپنی رشتہ داریاں چھوڑ کے ، اپنے گھر بار کو چھوڑ کے ، اپنی جائیداد کو چھوڑ کے، خدا کے لیے مرکز میں آجاتا ہے اور پھر مرکز کی ہدایت کے مطابق دنیا کے مختلف حصوں میں کام کرتا ہے۔’’

(خطبہ جمعہ فرموده26مئی 1967ء)

گویا توحید خداوندی کا عظیم مظہر خانہ کعبہ ہی وقف زندگی کی بنیاد ہے اور اسی بنیاد پر قائم رہتے ہوئے تمام دنیامیں خدمت اسلام کے جذبہ سے سرشار احمدی واقفین زندگی اپنے عملوں سے خانہ کعبہ اور خدائے واحد و قدوس کی عظمت کا پرچار کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم تمام واقفین زندگی کو تعمیر خانہ کعبہ کے اصل مقصد کو سمجھنے اور پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری اس حقیر خدمت کو قبول فرمائے۔ آمین۔
اس کے بعد عزیزم سلیمان اختر طالب علم درجہ رابعہ نے ‘وقف کی اہمیت اور اس کی برکات ’کے موضوع پر ایک تقریر کی ۔ قرآن کریم میں الله تعالیٰ فرماتا ہے۔

اِذْقَالَ لَہُ رَبُّہُ اَسْلِمْ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِيْنَ

حضرت آدم سے لےکر اس دور تک بہت سے مامور من اللہ دنیامیں آئے اور ان میں سے ہر ایک خدا کی راہ میں اپنی زندگی وقف کرنے والا تھامگر ابراہیمی قربانی ہے جو کامل للہی وقف کا نمونہ بن گئی ہم وہ خوش نصیب ہیں جو حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اور ان کے غلام مہدی دوراں کے صدقے آج پھرا براہیمی قربانی کے وارث بنائے گئے ہیں۔

حضرت رسول کریم ﷺ کے زمانہ مبارک میں للہی وقف کی پُرخطر اور خاردار راہوں پر چلنے والوں کے سردار تو حضرت ابو بکر صدیقؓ، عمرفاروقؓ، عثمان غنیؓ اور علی مرتضٰیؓ ہیں۔ مگر ان کی پیروی میں حضرت ابو عبیدہؓ اور عبدالرحمٰن بن عوفؓ اورطلحہؓ بھی تھے۔ ان میں مصعب بن عمیرؓ بھی تھے جو اسلام کے پہلے مبلغ ہونے کے اعزاز سے نوازے گئے۔ پھر مدینہ میں انصار کے فدائی گروہ حضرت سعد بن معاذ، خبیب بن عدی اور ابوطلحہ رضوان اللہ علیھم اور ان کے ساتھی اصحاب کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے اپنی قربانی اور وفا کی داستانیں رقم کیں۔

عصر ِحاضر میں اس للہی وقف کا نمونہ رسول پاک ﷺ کے روحانی فرزند حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؑنے پھر زندہ کیا اور اپناسب کچھ خدا اور رسول پر وار دیا اور فرمایا:

وقفِ راہ تو کنم گر جاں دہندم صد ہزار

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘خدا تعالیٰ کی راہ میں زندگی کا وقف کرناجوحقیقتِ اسلام ہے دو قسم پر ہے۔ ایک یہ کہ خداتعالیٰ کو ہی اپنا معبود اور مقصود اور محبوب ٹھہرایا جاوے اور اس کی عبادت اور محبت اور خوف اور رجا میں کوئی دوسرا شریک باقی نہ رہے ،اور اس کی تقدیس اورتسبیح اور عبادت اور تمام عبودیت کے آداب اور احکام اور اوامر اور حدود اور آسمانی قضا و قدر کے امور بدل و جان قبول کیے جائیں اور نہایت نیستی اور تذلل سے ان سب حکموں اور حدوں اور قانونوں اور تقدیروں کو بار ادتِ تامہ سر پر اٹھالیا جاوے اور نیز وہ تمام پاک صداقتیں اور پاک معارف جو اس کی وسیع قدرتوں کی معرفت کاذریعہ اور اس کی ملکوت اور سلطنت کے علومرتبہ کو معلوم کرنے کے لیے ایک واسطہ اور اس کے آلاء اور نعماء کے پہچاننے کے لیے ایک قوی رہبر ہیں بخوبی معلوم کر لی جائیں۔

دوسری قسم اللہ تعالی ٰکی راہ میں زندگی وقف کرنے کی یہ ہے کہ اس کے بندوں کی خدمت اور ہمدردی اور چارہ جوئی اور بار برداری اور سچی غمخواری میں اپنی زندگی وقف کر دی جاوے دوسروں کو آرام پہنچانے کے لیے دکھ اٹھاویں اور دوسروں کی راحت کے لیے اپنے پر رنج گوارا کر لیں۔

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ60)

پھر اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو وہ وفاشعار غلام عطا کیے جنہوں نے قرون اولیٰ کی یادیں تازہ کر دیں جن کے سرخیل حضرت مولانا نور الدین ، سیدنا محمود، سید ناناصر، سید ناطاہر اور سیدنا مسرور ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز ہیں۔ اس مہدی دوراں کو حضرت مولانا عبدالکریم صاحب، مولانابرہان الدین اور مولانا مفتی محمد صادق جیسے خدام عطا کیے جنہوں نے دنیا ترک کر کے خدا کو اختیار کیا اور درِمسیح کی دربانی کو پسند کرلیا۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

ابتدا سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کٹے

گود میں تیری رہا میں مثلِ طفلِ شیرخوار

حدیث قدسی میں آتا ہے حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے یہ حدیث اپنے رب سے بیان فرمائی، اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جب بندہ ایک بالشت میرے قریب ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہو جاتا ہوں، جب وہ ایک ہاتھ میرے قریب ہوتا ہے تو میں دو ہاتھ اس کے قریب ہو جاتا ہوں اور جب وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑتے ہوئےجاتا ہوں۔

( صحیح بخاری، کتاب التوحید باب قول الله تعالى ویحزركم الله نفسہ)

یہ مضمون حضرت مسیح موعود ؑکو الہاماً اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ

جے تو میرا ہو رہیں سب جگ تیرا ہو

پس ساری کائنات واقفِ زندگی کے لیے مسخر کر دی جاتی ہے۔ وہ الٰہی فضلوں اور رحمتوں اور برکتوں کا مظہر بن جاتا ہے۔

وقف زندگی میں قوم کی زندگی ہونے کے متعلق حضرت مصلح موعود ؓفرماتے ہیں کہ

دنیامیں روپیہ کے ذریعہ کبھی تبلیغ نہیں ہوئی اور جو قوم یہ سمجھتی ہے کہ روپیہ کے ذریعہ اکناف عالم میں اپنی تبلیغ کو پہنچادے گی اس سے زیادہ فریب خوردہ، اس سے زیادہ احمق اور اس سے زیادہ دیوانی قوم دنیامیں کوئی نہیں۔ زندگی کی علامت یہ ہے تم میں سے ہر شخص اپنی جان لے کر آگے آ ئے اور کہے اے امیر المومنین! یہ خدا اور اس کے رسول اور اس کے دین اور اس کے اسلام کے لیے حاضر ہے جس دن سے تم یہ سمجھ لو گے کہ تمہاری زندگیاں تمہاری نہیں بلکہ اسلام کے لیے ہیں۔ جس دن سے تم نے محض دل میں ہی یہ نہ سمجھ لیا بلکہ عملاً اس کے مطابق کام بھی شروع کر دیا اس دن تم کہہ سکو گے تم زندہ جماعت ہو۔
حضوؓر مزید فرماتے ہیں:

تم سے جس چیز کا مطالبہ کیا گیا ہے اور جو اکیلا حقیقی مطالبہ ہے وہ تمہاری جان کا مطالبہ ہے ۔ نہ صرف تمہیں اس مطالبہ کو پورا کرنا چاہیے بلکہ ہر وقت یہ مطالبہ تمہارے ذہن میں مستحضر رہنا چاہیے کیونکہ اس وقت تک تم میں جرأت و دلیری پیدا نہیں ہوسکتی جب تک تم اپنی جان کو ایک بے حقیقت چیز سمجھ کر دین کے لیے اسے قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار نہ رہو۔

(خطبہ جمعہ فرموده 11جنوری1935ء، خطبات محمود جلد16)

عصر ِحاضر ایک بے لگام گھوڑے کی مانند تباہی کی جانب رواں ہے۔ پس ہم بارگاہ ایزدی میں دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں سلطان القلم کی تعلیمات کی روشنی میں اس دور کے جہاد میں بطور ہراول دستہ کی خدمات بجالانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے وقف کو اپنی حسین قبولیت عطا فرمائے۔ (آمین)

بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کلاس وائز طلباء کی تعداد کا جائزہ لیا اور ساری تعداد کو جمع کر کے بتایا کہ طلباء کی کل تعداد اتنی بنتی ہے۔ اس پر پرنسپل صاحب نے عرض کیا کہ ایک طالبعلم ممہدہ میں داخل ہونے کے بعد آیا نہیں اور اسی طرح ایک طالبعلم فیل ہوا ہے۔ حضور انور نے فرمایا دو کم بھی کر دیے جائیں تو پھر 114 بنے۔ پرنسپل صاحب نے عرض کیا کہ جو حضور انور نے فرمایا ہے وہ درست ہے اتنی ہی تعداد ہے۔

اس کے بعد حضور انور نے فرمایا کہ خامسہ والے اور بعض دوسرے طلباء لندن آتے رہتے ہیں اور ملتے رہتے ہیں۔ جو پہلے لندن کبھی نہیں آئے وہ آج بات کریں اور بتائیں۔

• ایک طالبعلم احسان احمد نے حضور انور کے استفسار پر بتایا کہ وہ پاکستان میں پیدا ہوا اور سال 2010ء میں جرمنی آیا۔ حضور انور نے دریافت فرمایا کہ کیا جامعہ میں اپنی مرضی سے داخل ہوئے یا امّاں ابّاکے کہنے پر۔ اس پر طالبعلم نے عرض کیا کہ اپنی مرضی سے داخل ہوا ہوں۔

حضور انور کے استفسار پر طالبعلم نے بتایا کہ وہ وقف نو نہیں ہے۔ اس پر حضور انور نے واقفین نو طلباءکا جائزہ لیا اور طلباء کے ہاتھ کھڑا کرنے پر فرمایا قریباً سارے ہی واقفین نو ہیں۔ نیز فرمایا پاکستان میں واقفین نو جامعہ میں کم آتے ہیں اور غیرواقفین نو زیادہ آتے ہیں۔

• درجہ اولیٰ کے ایک طالبعلم اویس احمد نے عرض کیا کہ تین سال قبل پاکستان سے آیا تھا۔ میرا ایک سوال ہے کہ اللہ تعالیٰ سے کیسے پختہ تعلق قائم کیا جا سکتا ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا۔ ابھی تک یہی نہیں پتہ لگا۔ بس اس کے آگے جھکے رہو، جھکے رہو، جھکے رہو۔ جو تجھ سے مانگتا ہوں وہ دولت تمہی تو ہو کہتے رہو۔ مل جائے گا۔ حضور انور نے فرمایا اس کو پکڑ لو پھر چھوڑو نہ۔تو اللہ تعالیٰ سے تعلق پختہ ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو میری طرف بڑھتا ہے تو میں اس کو اپنی طرف راستہ بھی دکھاتا ہوں تو تم بھی خدا کی طرف بڑھنے کی کوشش کرو۔

• ایک طالبعلم عمررشید نے عرض کیا کہ پاکستان سے 2011ء میں آیا تھا۔ اس پر حضور انور نے فرمایا پاکستان سے کہاں سے آئے تھے۔ اس پر موصوف نے عرض کیا کہ مردان سے۔ حضور انور نے فرمایا پنجابی مردانی ہو یا وہاں کے مقامی ہو اور وہاں شیخ بھی ہیں۔ ان میں سے ہو۔ اس پر طالبعلم نے عرض کیا کہ پنجابی ہوں اور خود شیخ نہیں لیکن شیخ فیملیز ہمارے رشتہ دار ہیں۔

• ایک طالبعلم برہان الدین فیضان نے عرض کیا کہ میرا ایک سوال ہے کہ اگر کسی طالبعلم کو زبان سیکھنے کا شوق ہو جو جامعہ میں نہیں پڑھائی جاتی تو کیا وہ اس زبان کو سیکھ سکتا ہے۔ اس کے لیے مناسب ہے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ طالبعلم پہلے تو جامعہ کی تعلیم مکمل کرے۔ اس کا جورجحان ہو گا وہ پتا لگ جائے گا۔ جامعہ کی انتظامیہ، پرنسپل کو، اساتذہ کو پتہ لگ جائے گا اور اگر ان کی رپورٹ آتی ہے کہ تمہارا رجحان کسی زبان کے سیکھنے میں ہے یا تم خود اظہار کر سکتے ہو تو پھر جامعہ پاس کرنے کے بعد جائزے لے کر بعضوں کو زبان سکھائی جاتی ہے۔

حضور انور نے موصوف سے دریافت فرمایا کیا تم نے Abiturکیا ہوا ہے۔ اس پر موصوف طالبعلم نے بتایا کہ Abiturکیا ہوا ہے۔

اس پر حضور انور نے فرمایا پھر ٹھیک ہے۔ پھر تو یونیورسٹی میں بھی داخلہ آسانی سے ہوسکتا ہے۔ لیکن جائزہ جامعہ کے بعد ہوگا۔ پھر ہم فیصلہ کریں گے۔ تم نے تو وقف کردیا ہے اور اپنی گردنیں ڈال دی ہیں باقی آپ نے صرف اظہار کرنا ہے کہ یہ میرا شوق ہے۔ اب آپ کے اس اظہار کو پورا کرنے کا موقع دینا ہے یا نہیں دینا یہ انتظامیہ کا کام ہے۔عموماً اگر کسی کو زبانیں سیکھنے کا شوق ہوتا ہے تو اس کو موقع دے دیتے ہیں۔

• ایک طالبعلم چوہدری ایاز احمد نے سوال کیا کہ اگر کسی مربی کی زبان میں لکنت ہو تو وہ کیا کرے کہ اس پر قابو پاسکے۔

• اس پر حضور انور نے فرمایا پہلے تو یہ کہ آرام سے بولنے کی عادت ڈالو۔ جو آہستہ بولتے ہیں تو ان کا ٹھیک ہوجاتا ہے۔ میں نے دیکھاہے کہ بعض مربیان کی زبان میں ہلکی سی لکنت ہے۔ لیکن جب وہ تقریر کرنے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو لکنت ختم ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کا فضل بھی ہو جاتا ہے۔ باقی یہ کہ جس کو زیادہ ہے تو مربیان سے بہت سارے دوسرے کام بھی ہم نے لینے ہیں، لے سکتے ہیں۔ ضروری تو نہیں کہ تمہارے سے تقریر ہی کروانی ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ بعض دفعہ ہوتا ہے کہ لکنت والے جب جلدی سے بولنے کی کوشش کرتے ہیں یا گھبراہٹ میں بولتے ہیں تب زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اگر ذرا تھوڑا سا اپنے آپ کو کنٹرول میں رکھیں تو کافی حد تک کنٹرول کر لیتے ہیں۔

• ایک طالبعلم حافظ احتشام احمد نے عرض کیا کہ سال2014ء میں جرمنی آئے تھے۔ حضور انور کے استفسار پر عرض کیا کہ ربوہ سے قرآن کریم حفظ کیا تھا۔ موصوف نے عرض کیا کہ میرا سوال یہ ہے کہ انسان جب خلیفۃ المسیح کے لیے دعا کرتا ہے تو حضور انور کی نظر میں کو نی سی دعا ہے جو اس کو کرنی چاہیے۔

اس پر حضور انور نے فرمایا۔تمہارے نزدیک کونسی دعا ہے جو کرنی چاہیے۔ خلیفۃ المسیح کے جو کام ہیں ان کو سامنے رکھ کر دعا کرو۔ یہی دعا کیا کرو کہ جو مقاصد ہیں وہ پورے ہو جائیں۔حضور انور نے فرمایا اور جو تم لوگوں کے لیے دعا کی جاتی ہے وہ بھی تمہارے لیے قبول ہو جائے یہ بھی ساتھ کر لیا کرو۔
• ایک طالبعلم چوہدری شہریارنواز نے دعا کی درخواست کی کہ ویزا نہیں لگ رہا۔ اس پر حضور انور نے فرمایا اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔

• ایک طالبعلم حافظ لقمان احمد نے اپنے لیے دعا کی درخواست کی کہ گزشتہ ایک دو سال سے ٹانگوں میں مسئلہ تھا۔ اب کافی بہتر ہے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا اللہ تعالیٰ فضل کرے۔

• ایک طالبعلم فیروز ادیب نے عرض کیا کہ میرا تعلق گڑھی شاہو لاہور سے ہے اور 2015ء میں جرمنی آیا تھا۔ فرمایا یہاں دل لگ گیا ہے۔ طالبعلم نے عرض کیا کہ دل لگ گیا ہے۔ حضور انور کے استفسار پر طالبعلم نے بتایا کہ جرمن زبان سیکھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ موصوف نے درجہ شاہد کے امتحانات کے لیے دعا کی درخواست کی۔

• ایک طالبعلم نے عرض کیا کہ میرا نام سمیر خان ہے۔ 2013ء میں پاکستان سے آیا تھا۔ حضور انور کے استفسار پر طالبعلم نے بتایا کہ اس کا تعلق نارووال ڈیریانوالہ سے ہے۔ حضور انور نے فرمایا خانوں میں سے ہو وہ تو کاروباری لوگ ہیں۔ تمہارے تو سارے رشتہ دار کاروباری ہیں تو پھر تم مربی کس طرح بن گئے۔ اس پر موصوف نے کہا میری خواہش تھی کہ میں مربی بنوں۔

• ایک طالبعلم نے عرض کیا کہ نام عبدالرافع ہے۔ پاکستان سے نیا آیا ہوں۔ حضورانور کے استفسار پر طالبعلم نے بتایا کہ وہ سال 2014ء میں جرمنی آیا تھا۔ طالبعلم نے سوال کیا کہ جب نماز قضا ہوتی ہے تو پھر بعد میں دو رکعات مقامی لوگوں کو پوری کرنی ہوتی ہیں تو کیا ان دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے بعد کوئی سورۃ تلاوت کرنی چاہیے۔

اس پر حضور انور نے فرمایا۔ قضا نماز کا بعد کی دو رکعات سے کیا تعلق ہے؟ طالبعلم نے عرض کیا کہ جب سفر پر ہوتے ہیں تو اس پر حضورانور نے فرمایا اس کو قضا نماز نہیں کہتے۔ اس کو قصر نماز کہتے ہیں اور جب امام نماز پڑھا رہا ہے۔ میں ظہروعصر کی نماز پڑھا رہا ہوں اور سفر میں قصر کر رہا ہوں تو مقامی لوگوں نے بعد میں جو دو رکعتیں ادا کرنی ہیں تو کیا ان آخری دو رکعتوں میں آپ سورہ فاتحہ کے علاوہ کوئی اور سورۃ پڑھتے ہیں۔ اس پر طالبعلم نے عرض کیا کہ نہیں پڑھتے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا نماز قصر کے لیے تو کوئی سوال نہیں بنتا۔ آپ کو یہ سوال کرنا چاہیے کہ اگر امام نماز پڑھا رہا ہے اور ابتدائی رکعات پڑھا چکا ہو۔ اب آپ نے امام کے سلام پھیرنے کے بعد چُھٹی ہوئی رکعات مکمل کرنی ہیں تو کیا اس میں سورہ فاتحہ کے بعد کوئی سورۃ پڑھنی ہے یا نہیں۔ یہ آپ کا سوال بنتا ہے۔

پس جو دو ابتدائی رکعتیں یا ایک رکعت آپ کی رہ گئی ہے اور آپ نے بعد میں مکمل کرنی ہے تو چونکہ ان میں سورہ فاتحہ کے بعد کوئی سورت پڑھی جاتی ہے تم ان رکعتوں میں کوئی سورت پڑھ سکتے ہو۔ آخری رکعات میں تو نہیں پڑھنی۔

حضور انور نے فرمایا یہ بتاؤ کہ قضا اور قصر میں کیا فرق ہے۔ اس پر ایک طالبعلم نے بتایا کہ قصر نماز تو سفر میں ہوتی ہے اور جب کوئی نماز رہ جائے تو اس کو بعد میں ادا کرنا ، قضا کہتے ہیں۔ حضور انور نے فرمایا قضائے عمری کیا ہوتی ہے؟ اس پر طالبعلم نے عرض کیا کہ قضائے عمری غیراحمدیوں میں ہوتی ہے۔ حضور انور نے فرمایا سارے سال بعد ایک نماز پڑھ لی اور جان چھوٹ گئی۔ ہم احمدی ایسا نہیں کرتے۔
حضور انور نے فرمایا ۔سفر والا تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مغرب میں تو ویسے ہی تین رکعت پڑھنی ہیں۔ ظہر، عصر اور عشاء کی چار چار ہیں تو کیا تم ان نمازوں کی آخری دو رکعات میں کوئی سورہ پڑھتے ہو۔ اس پر طالبعلم نے جواب دیا کہ نہیں پڑھتے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا تو بس پھر جب سفر میں بھی آپ نے مقامی ہونے کی وجہ سے یہ دو رکعت مکمل کرنی ہیں تو سورہ فاتحہ کے بعد سورت نہیں پڑھنی۔

• ایک طالبعلم ماہد الیاس نے عرض کیا کہ میرا ایک کافی اچھا جرمن دوست ہے۔ میں اس کو کافی عرصہ سے تبلیغ کر رہا ہوں۔ وہ اس سال جلسہ سالانہ یوکے میں بھی شامل ہوا تھا۔ نمازیں بھی پڑھنا شروع ہو گیا تھا۔ جب سے جامعہ آیا ہوں وہ جماعت سے تھوڑا سا پیچھے ہٹ گیا ہےکیونکہ میں اس کے ساتھ نہیں ہوتا۔
حضور انور نے فرمایا جب تم چھٹیوں میں جاتے ہو تو اس سے رابطہ کرو۔ پھر اس کو قریب لاؤ، دوستی بڑھاؤ، اس کو خط وغیرہ بھجوادیا کرو۔ چھٹی والے دن انتظامیہ کی طرف سے انتظام کے تحت اس کو میسج وغیرہ بھیج سکتے ہو۔ عام پڑھائی کے دنوں میں تو نہیں دے سکتے۔ ویک اینڈ پر گھر جاتے ہو تو اس سے رابطہ کر لیا کرو۔ بس یہی طریقہ ہے اور کیا چاہتے ہو۔ اس پر طالبعلم نے عرض کیا کہ اس کے لیے دعا کی درخواست ہے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فضل کرے۔

حضور انور نے فرمایا۔ باقی تو نیک فطرت لوگ بڑے ہوتے ہیں ایک جرمن کل وہاں ویزبادن میں مسجد کے افتتاح پر آیا ہوا تھا۔ بڑی عمر کا تھا۔ وہ بڑے اخلاص سے باتیں کر رہا تھا۔ تقریرکے بارہ میں اس نے کہا کہ آپ نے یہ کہا، آپ نے یہ بات کی، میں نے کہا تم احمدی ہو۔ میں نے ویسے پوچھا جس طرح وہ بات کر رہا تھا تو کہنے لگا کہ میں احمدی تو نہیں۔ لگتا ہے باتیں سن کر احمدی ہو جاؤں گا۔ تو دعا کرو ایسے لوگ ہوتے ہیں۔ فطرت نیک ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے سینے کو مزید کھولے۔ جو شبہات ہیں وہ ختم کرے اور وہ احمدی ہوجائیں۔

• ایک طالبعلم سید بخاری رمیض طاہر نے عرض کیا کہ دعا کی درخواست کرنی ہے۔ حضور انور نے فرمایا کس کے بیٹے ہو۔ موصوف نے جواب دیا سید حسن طاہر بخاری صاحب کا بیٹا ہوں وہ Dietzenbach میں مربی سلسلہ ہیں۔

• حضور انور نے فرمایا تمہیں رشین آتی ہے۔ طالبعلم نے جواب دیا رشین زبان جانتا ہوں۔ حضورانور نے اس طالب علم سے اس کےوالد صاحب کے بارہ میں بھی دریافت فرمایا جن کا دل کا آپریشن ہواتھا۔
اس طالبعلم نے سوال کیا کہ ایک لڑکی آج کل دنیا میں مشہور ہوئی ہے۔ اس کا نام Greta Thunberg ہے۔ اخباروں میں اس کا کافی چرچا ہے۔ بڑے بڑے اداروں میں اس نے دنیا کی گلوبل وارمنگ کے بارہ میں تقریرکی ہے۔ کلائیمٹ چینج کی وہ کیمپین چلا رہی ہے۔ اس بارہ میں حضور کا کیا خیال ہے۔

حضور انور نے فرمایا۔ دیکھو اس کے ذہن میں اچھی بات آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو صلاحیت دی ہے۔ وہ بول لیتی ہے اور بڑوں کو یہ کہہ رہی ہے کہ تم ہمارے مستقبل کے لیے ہماری تباہی کے سامان پیدا کر رہے ہو۔ اس کا بولنے کا انداز بھی اچھا ہے۔ اگر وہ کر لے تو ٹھیک ہے۔ باقی یہ ہے کہ گلوبل وارمنگ تو ہو رہی ہے۔ لیکن یہ جنگیں جو ہو رہی ہیں۔ یہ دعا کرو کہ یہ نہ ہوں۔ گلوبل وارمنگ کے جو اثرات ہیں۔ سو سال بعد دنیا ختم ہو گی۔ یہ جنگ عظیم ہو گئی تو اس سے پہلے ہی دنیا ختم ہوجانی ہے۔ اس لیے اس کے لیے دعا کرنی چاہیے۔

باقی وہ لڑکی اچھا بولتی ہے تم لوگوں کو اس سے تقریر کرنے کا سلیقہ سیکھنا چاہیے۔ وہ بڑے اعتماد کے ساتھ لوگوں کے سامنے بیٹھ کر بول رہی ہے۔

• ایک طالبعلم عدیل احمد باجوہ نے عرض کیا کہ وہ سال 2015ء میں ٹوبہ ٹیک سنگھ پاکستان سے جرمنی آیا تھا۔ میں دعا کی درخواست کرنا چاہتا ہوں۔ فرمایا اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔

حضورانور نے ازراہ شفقت فرمایا اچھا کھڑے ہوجاؤ صحت مند! اس پر ایک طالبعلم کھڑا ہوا۔ تو حضور انور نے فرمایا۔ اس کا مطلب ہے کہ تمہارے سے زیادہ صحت مند سارے جامعہ میں کوئی نہیں کیونکہ میں نے صحت مند کہا ہے اور تم کھڑے ہوگئے ہو۔

• طالبعلم نے عرض کیا کہ میری پیدائش مردان کی ہے۔ 2014ء میں جرمنی آیا ہوں۔ اپنی اڑھائی سال کی بیٹی کے لیے دعا کی درخواست کرنا چاہتا ہوں۔ حضور انور نے ازراہ شفقت فرمایا تمہاری سیٹھیوں سے رشتہ داری ہے یا شیخوں سے رشتہ داری ہے۔ اس پر اس نے عرض کیا کہ وہ میرا ننھیال ہے۔ حضور انور نے مسکراتے ہوئے فرمایا اچھا تبھی تھوڑا سا صحت مند ہو۔

بعدازاں پروگرام کے مطابق گروپ فوٹوز ہوئیں۔ جامعہ احمدیہ کی تمام کلاسز نے باری باری حضور انور کے ساتھ تصاویر بنوانے کی سعادت پائی۔ اساتذہ کرام اور کارکنان کے گروپس نے علیحدہ علیحدہ تصویر بنوانے کا شرف پایا۔ آخر پر جامعہ احمدیہ کے تمام طلباء کی حضور انور کے ساتھ ایک گروپ فوٹو ہوئی۔

بعدازاں حضور انور نے پرنسپل آفس و دیگر آفسز، سٹاف روم اور کلاس روم کا معائنہ فرمایا۔ کلاس روم کے معائنہ کے دوران حضور انور نے فرمایا کہ کلاس روم کے میز درست نہیں ہیں ان پر تو طلباء کے ہاتھ تھک جاتے ہوں گے۔ ڈیسک ٹائپ کے دوسرے ٹیبل ہونےچاہئیں۔

حضور انور نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کی تصاویر کے حوالہ سے ارشاد فرمایا کہ نئی ہدایت کے مطابق تصویریں لگائیں۔

آج کے پروگرام کے لیے اساتذہ کرام اور کارکنان کی فیملیز بھی مدعو تھیں۔ جن کے کھانے کا انتظام ڈائننگ ہال میں کیا گیا تھا۔ حضور انور ازراہ شفقت کچھ دیر کے لیے لجنہ کی طرف بھی تشریف لے گئے۔

• بعدازاں حضور انور نے جامعہ کے کچن، سٹور اور Cool House کا معائنہ فرمایا۔ کچن میں تازہ ہوا آنے اور Exhaust Fan کے انتظام کا جائزہ لیا اور نگران میس حفیظ اللہ بھروانہ صاحب کو ہدایات دیں اور کچن میں موجود کارکنان کو بھی کھانے کے حوالہ سے ہدایات فرمائیں۔

کچن کے معائنے کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ جامعہ کی لائبریری میں تشریف لائے۔ حضور انور نے لائبریری میں موجود کتب کی تعداد کے متعلق دریافت فرمایا۔ اس پر محمد الیاس منیر صاحب نے بتایا کہ لائبریری میں اللہ کے فضل سے قریباً پندرہ ہزار کتب موجود ہیں۔ جب کہ افتتاح کے موقع پر 3سے 4 ہزار کتب تھیں۔

حضورانور نے کتب احادیث، خصوصاً جماعت کی طرف سے شائع کردہ صحیح بخاری و صحیح مسلم نیز خطبات مسرور کی جلدوں کا جائزہ لیا اور انہیں Update کرنے کا ارشاد فرمایا۔

لائبریری کے معائنے کے بعد 4بج کر 50منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ جامعہ سے واپس بیت السبوح کے لیے روانہ ہوئے۔ طلباء نے الوداعی دعائیہ نظم پڑھتے ہوئے پیارے آقا کو الوداع کہا۔ قریباً 50منٹ کے سفر کے بعد 5بج کر 40منٹ پر بیت السبوح تشریف آوری ہوئی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

حضورانور دفتری امور کی انجام دہی میں مصروف رہے۔ بعدازاں 8بجے حضور انور نے تشریف لا کر نماز مغرب و عشاء جمع کر کے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button