خلاصہ خطبہ جمعہ

اخلاص و وفا کے پیکر بدری صحابہ حضرت ھِلَال بن امیہ، حضرت مرارہ بن ربیع اور حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہم کی سیرتِ مبارکہ کا دلنشیں تذکرہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 13؍دسمبر2019ءبمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ،سرے،یوکے

روزنامہ الفضل (آن لائن )کا اجرا

مکرمہ سیدہ تنویر الاسلام صاحبہ اہلیہ مرزا حفیظ احمد صاحب مرحوم ابن حضرت مصلح موعودؓ اور سسٹر حاجہ شکورہ نوریہ صاحبہ آف امریکہ کی وفات۔ مرحومین کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ  بنصرہ العزیز نے 13؍ دسمبر 2019ء کو مسجد مبارک اسلام آباد،یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا ۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم ساغر محمود ملک صاحب کے حصہ میں آئی۔

تشہد،تعوذ، تسمیہ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا کہگذشتہ خطبے میں حضرت ھِلَال بن امیہ کا ذکر کر رہا تھا اور اس ذکر میں غزوۂ تبوک کا بھی ذکر آگیا۔ حضرت ھِلَالؓ غزوۂ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے تین صحابہ میں شامل تھے۔ اسی طرح گذشتہ خطبے میں اس غزوے کی تیاری کےلیے صحابہ کی پیش کردہ قربانیوں اور منافقین کی سازشوں کابھی کا ذکر ہواتھا۔ حضورِانور نے فرمایا آج بھی اسی تسلسل میں کچھ اور باتیں پیش کروں گا۔

آنحضرتﷺ کےساتھ نہ جانےکو ترجیح دینے والوں میں ایک شخص جدّ بن قیس بھی تھا۔ اس شخص نے عورتوں اور گھریلو ذمہ داریوں کو عذر بنایا۔ آنحضرتﷺ نے اس سے اعراض کرتے ہوئے اجازت دےدی ۔ اس پر سورۃ توبہ کی آیت 49نازل ہوئی کہ ‘‘اور ان میں سے وہ بھی ہے جوکہتا ہے کہ مجھے رخصت دے اور مجھے فتنےمیں نہ ڈال۔ خبردار !وہ فتنے میں پڑ چکے ہیں اور یقیناً جہنم کافروں کو ہرطرف سے گھیرلینے والی ہے۔’’

مدینے میںسُوَیْلَم نامی یہودی کا مکان منافقین کی سرگرمیوں کا گڑھ بنا ہوا تھا۔ جب نبی کریمﷺ کو خبر ملی تو آپؐ نے حضرت عمار بن یاسر ؓکو وہاں بھجوایا۔ اس پرمنافقین رسولِ خداﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر معذرتیں کرنے لگے۔ اس صورتِ حال میں خداتعالیٰ نے سورۃ توبہ کی آیت 64نازل فرمائی جس میں منافقین کے اس خوف کا ذکر ہے کہ کہیں ان سے متعلق کوئی سورۃ نازل نہ ہو جائے۔

تبوک سے واپسی پر آنحضرتﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ مدینے میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ وہ ہر سفر اور ہر وادی میں تمہارے ساتھ تھے۔ صحابہ کے استفسار پر آپؐ نے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں کسی بیماری یا عذر نے روک لیا تھا۔

واپسی پر آنحضرتﷺ کے استقبال کےلیے لوگ مدینے سے باہر ثنیۃ الوداع کےپاس آئےاور بعض روایات کے مطابق اس موقعے پر لڑکیوں نے استقبالیہ گیت گا کر آپؐ کو خوش آمدید کہا۔ رسول اللہﷺ کی سنّت تھی کہ سفر سےواپسی پر پہلے مسجد میں پہنچ کر دو رکعت نماز ادا کرتے۔ تبوک سے واپسی پر آپؐ چاشت کے وقت مدینے میں داخل ہوئےاور پہلے مسجد میں دورکعت نماز ادا کی۔ اس کے بعد آنحضورﷺ مسجد میں تشریف فرما رہے اور لوگ آپؐ کے پاس حاضر ہوکر جنگ سے پیچھے رہنے پراپنے عذر پیش کرتے رہے۔ حضرت ھِلَال بن امیّہ، حضرت مرارۃ بن ربیع اور حضرت کعب بن مالک نے کوئی جھوٹا عذر پیش نہ کیا۔ کچھ عرصہ آنحضورﷺ ان اصحاب سے ناراض بھی رہے جس دوران یہ صحابہ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرتے ہوئے جھکے رہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان کی توبہ قبول کرنے کا اعلان فرمادیا۔

دوسرے صحابی حضرت مرارہ بن ربیع کا حضورِ انور نے آج کے خطبے میں ذکر فرمایا۔مرارہ کا تعلق انصار کے قبیلہ اوس کے خاندان بنو عمرو بن عوف سے تھا۔ صحیح بخاری اور احوالِ صحابہ کی کتب سے علم ہوتا ہے کہ آپؓ بدر میں شریک ہوئے تھے۔مرارہ ان تین انصاری صحابہ میں سے تھے جو غزوۂ تبوک میں شامل نہ ہوسکے تھے۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ اس حوالے سے حضرت مرارہ کا علیحدہ کوئی بیان نہیں ہے۔ حضرت کعب بن مالک کا ہی تفصیلی بیان ہے جوحضرت ھِلَال بن امیہ کے تعلق میں گذشتہ خطبے میں بیان ہوچکا ہے۔

تیسرے صحابی جن کا حضورِ انور نے آج کے خطبے میں تذکرہ فرمایا ان کا نام حضرت عتبہ بن غزوان ہے۔ آپؓ قبیلہ بنو نوفل بن عبد مناف کے حلیف تھے۔ اِن کا اپنا بیان ہے کہ مَیں ساتواں فردتھا جو اسلام قبول کرکے آنحضرتﷺ کے ساتھ شامل ہوا ۔آپؓ نے حبشہ کی جانب ہجرت کی اوربعد ازاں حضرت مقداد کے ہم راہ مدینے ہجرت کر آئے۔

حضورِ انور نے اِن دونوں اصحاب کے ہجرتِ مدینہ کا واقعہ بالتفصیل بیان فرمایا۔ماہ ربیع الاوّل 2 ہجری کے آغاز میں آنحضورﷺ نے اپنے ایک قریبی رشتےدار حضرت عبیدہ بن حارثؓ کی قیادت میں ساٹھ شتر سوار مہاجرین کا ایک دستہ کفّار کی نقل و حرکت کی خبر لینے کےلیے روانہ فرمایا۔ مدینے سے دوسوکلومیٹر کےفاصلے پر ثنیۃ المرأۃ مقام پر اس دستے کاعکرمہ بن ابو جہل کی قیادت میں آنے والےلشکرِ قریش سے سامنا ہوا۔ کفار کے لشکر میں دو سو مسلح نوجوان شامل تھے۔ حضرت عتبہ اور مقداد دونوں لشکرِ کفّار میں شامل ہوکر ثنیۃ المرأۃ آگئے تھے اور یہاں موقع پاتے ہی مسلمانوں سے آملے۔

حضورِ انور نے حضرت صاحب زادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی تصنیف ‘‘سیرت خاتم النبیین’’کے حوالے سے جہاد بالسیف کے آغاز اورآنحضورﷺ کی مدافعانہ کارروائیوں کا ذکر فرمایا۔ جہاد بالسیف کی اجازت میں پہلی آیت 12صفر2ہجری کو نازل ہوئی۔ تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ آنحضورﷺ نے اعلیٰ سیاسی قابلیت اور جنگی دُور بینی کا ثبوت دیتے ہوئے،مسلمانوں کو کفار کے شر سے محفوظ رکھنے کےلیےچار تدابیر اختیار فرمائیں۔

سب سے پہلے آپؐ نے خود سفر کرکے آس پاس کے قبائل کے ساتھ باہمی امن و امان کے معاہدے شروع کیے تاکہ مدینے کے ارد گرد کا علاقہ خطرے سے محفوظ ہوجائے۔

دوسری تدبیر آپؐ نے یہ اختیار کی کہ مدینے کی مختلف جہات میں چھوٹی چھوٹی خبر رساں پارٹیاں روانہ کرنا شروع فرمائیں تاکہ قریش اور ان کے حلیف قبائل کی حرکات و سکنات پر نظر رکھی جاسکے۔

تیسری تدبیر بھی ان پارٹیوں کو بھجوانے میں ہی مضمر تھی اور وہ یہ کہ اس طرح وہ غریب اور کم زور مسلمان جو ہجرت کی طاقت نہ رکھتے تھے اوریوں کفّارِمکّہ کی سختیاں جھیلنے پر مجبور تھے، انہیں مسلمانوں سےآملنےکا موقع ملتا رہے۔

چوتھی تدبیر مکّےسے شام جانے والےقریش کے تجارتی قافلوں کی روک تھام کے ذریعے اختیار کی گئی۔ ان تجارتی قافلوں کا روکنا یوں ضروری تھا کہ یہ جہاں سے گزرتے وہاں مسلمانوں کے خلاف عداوت کی آگ لگاتے جاتے۔پھر یہ قافلے مسلح ہوا کرتے تھے جن کا مدینے کے قرب سے گزرنا خطرے سے خالی نہ تھا۔ تیسری بات یہ کہ قریش کا گزربسر تجارت پر تھا۔ انہیں ظالمانہ کارروائیوں سے روکنے اور صلح پر آمادہ کرنےکا سب سے یقینی اور سریع الاثر ذریعہ یہی تھا کہ ان کا تجارتی راستہ بند کردیاجائے۔

حضرت عتبہ اور ان کے آزاد کردہ غلام خباب نے مدینہ ہجرت کی تو قبا میں حضرت عبداللہ بن سلمہ عجلانی اور مدینے میں حضرت عباد بن بشر کے ہاں قیام کیا۔رسول اللہﷺ نے حضرت عتبہ اور حضرت ابو دجانہ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی تھی۔ حضورِانور نے فرمایا کہ حضرت عتبہ بن غزوان کے متعلق کچھ اور باتیں ان شاءاللہ آئندہ بیان کروں گا۔

خطبے کے دوسرے حصّے میں حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے روز نامہ ‘‘الفضل’’کے ایک سو چھے سال مکمل ہونے پر لندن سے اِس کے آن لائن ایڈیشن کے آغاز کا اعلان فرمایا۔اخبار ‘‘الفضل’’سیّدنا حضرت مصلح موعودؓنے18جون 1913ءکو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی اجازت اور دعاؤں سے جاری فرمایا تھا۔قیامِ پاکستان کے بعد کچھ عرصہ لاہور اور بعد میں ربوہ سے شائع ہوتا رہا۔ اس کی ویب سائٹ www.alfazlonline.org اور پہلا شمارہ بھی اس پر دست یاب ہے۔ اس ویب سائٹ پر الفضل کی افادیت کے حوالے سے بہت کچھ موجودہے۔ اس اخبار میں ارشادِ باری تعالیٰ، فرمانِ رسول، ارشادات حضرت اقدس مسیح موعودؑ، احمدی مضمون نگاروں کے مضامین اوراسی طرح دوسرےاہم مضامین اور نظمیں وغیرہ شائع ہوا کریں گی۔یہ اخبار ٹوئیٹر پر بھی موجود ہے اور اس کی اینڈروائڈ ایپ بھی بن گئی ہے۔

حضورِانور نے اردو خواں طبقے کو اس اخبارسے استفادے کا ارشاد فرمایا نیز مضمون نگار اور شعرا حضرات کو قلمی معاونت کی طرف بھی توجہ دلائی۔

اس کے بعد حضورِانور نے دو مرحوم خواتین کا ذکرِخیر اور نمازِ جنازہ پڑھانےکا اعلان فرمایا۔

پہلا ذکر مکرمہ سیدہ تنویر الاسلام صاحبہ اہلیہ مرزا حفیظ احمد صاحب مرحوم ابن حضرت مصلح موعودؓ کا تھا۔ آپ 7؍دسمبر کو 91 برس کی عمر میں وفات پاگئی تھیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مرحومہ میر عبدالسلام صاحب کی صاحب زادی، اور حضرت مسیح موعودؑ کے دیرینہ اور مخلص صحابی حضرت میر حسام الدین صاحب کی پڑپوتی جبکہ حضرت سیّد میر حامد شاہ صاحب کی پوتی تھیں۔ حضرت میر حسام الدینؓ صاحب 1839ء میں سیال کوٹ میں پیدا ہوئے۔آپؓ سیال کوٹ کے بڑے معروف حکیم تھے۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ سیال کوٹ میں قیام کے دوران اِن کےمکان کے ایک حصّے میں بھی مقیم رہے۔

مرحومہ تنویرالاسلام صاحبہ 1928ء میں سیال کوٹ میں پیدا ہوئیں۔ جنوری 1948ءمیں ان کی شادی مرزا حفیظ احمد صاحب سے ہوئی۔ 1956ء سے 2008ء تک مختلف اوقات میں تقریباً اڑتالیس برس آپ کو لجنہ کی مرکزی سیکریٹری نمائش کے طور پر خدمت بجا لانے کی توفیق ملی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے ان کا بہت پیار کا تعلق تھا۔تہجد کا بہت خیال رکھنے والی تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائےاوردرجات بلند کرے۔ آمین

دوسرا ذکر امریکہ کی سسٹر حاجہ شکورہ نوریہ صاحبہ کا تھا۔ آپ یکم دسمبر کو وفات پاگئی تھیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ 1927ءمیں پیدا ہوئی تھیں۔ احمدیت سے پہلا تعارف مکرم میر محمود احمد ناصر صاحب کے ذریعے ہوا۔ 1979ء میں آپ نے خواب میں قرآن کریم کے ایک نسخے اور کلمۂ شہادت کو دیکھا۔ جس کے نتیجے میں آپ کو یقین ہوگیا کہ اسلام اور احمدیت ہی حقیقی مذہب ہے، چنانچہ آپ نے بیعت کرلی۔ 1995ء میں مرحومہ کو حج کرنے کی توفیق ملی۔ مرحومہ کو مختلف حیثیتوں میں جماعتی خدمات سرانجام دینے کی توفیق ملی۔ آپ پردے کی سخت پابند اور خطبات بڑی توجہ اور انہماک سے سننے والی تھیں۔

حضورِ انور نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کے درجات بلند کرے اور خدمت کے جذبے سے معمور،اخلاص میں بڑھے ہوئے اور بھی لوگ جماعت کو عطا فرمائے۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button